Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک گز کپڑا

تخلص بھوپالی

ایک گز کپڑا

تخلص بھوپالی

MORE BYتخلص بھوپالی

    غفور میاں کے مکان کے باہری حصہ میں ایک کوٹھری تھی جس میں ایک بے عذر بے زبان اور ناغہ سے بالاقساط کرایہ ادا کرنے والا شبراتی کرایہ دار بھی رہتا تھا۔ غفور میاں نے یہ کوٹھری موجودہ مہنگائی سے نبٹنے کے لیے چار روپیہ ماہوار پر شبراتی کو دے رکھی تھی۔ منجملہ عام فہم اور ’’چالو‘‘ شرائط کہ

    ’’ماہ بماہ‘‘ ہر مہینے کی پہلی تاریخ پر کرایہ (بجبر و اکراہ ہی سہی) ادا کرتا رہوں گا۔ خالی کرانے کی حاجت پر مالک مکان کو پورا حق ہے کہ وہ کھڑے کھڑے کرایہ دار کے برتن ٹھیکرے سڑک پر پھکوادے گا اور ’’میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا‘‘ کے بمصداق ’’من مقر کرایہ دار کا کوئی عذر قابل قبول نہ ہوگا۔‘‘ شبراتی کرایہ دار کے ذمے ایک شرط یہ بھی تھی کہ خاکسار شبراتی روزانہ رات میں غفور میاں کی دو بکریاں ایک نہایت بدبودار بربرا بکرا بھی اپنے جائے رہائش میں باندھنے کے لیے پابند ہوگا۔ نیز رات بھر غفور میاں کے ہر استفسار پر کہ ’’ارے خاں شبراتی تینوں جانور خوب بندھے ہوئے ہیں۔‘‘ شبراتی جواب میں ’’ہاں دادا ہم چاروں بندھے ہوئے ہیں، فکر مت کرو‘‘ کہتا رہے گا۔

    ایک دن صبح صبح غفور میاں نے شبراتی کو آوازدی۔ ’’ابے شبراتی۔ کوٹھری میں سے تو نکل یار۔ ذرا چوک بازار چلا جا۔ گز بھر کپڑا لے آخاں۔ یہ دیکھ ہاتھ کا رومال چندخ چار ہوگیا اب تو۔‘‘

    ’’لاؤ داد پیسے نکالو۔ پھر مجھے بھی محنت مزدوری پر جانا ہے۔‘‘ شبراتی نے کوٹھری سے برآمد ہوکر پیسے طلب کیے۔

    ’’ہاں بیٹا۔ یہ لے ایک روپیہ۔ دیکھ روپے گز ملے گا۔ ذرا دیکھ کر مضبوط لانا۔ آج کل کلف چڑھے لٹھے آرہے ہیں۔ ایک مرتبہ کے دھونے میں ململ کی طرح نکل آتا ہے۔ اندھیرمچی ہے خاں۔ انسان بھوکوں مر رہا ہے۔ اِن مل والوں کے کلف کے لیے چاول کہاں سے مل جاتے ہیں یار؟ خیر دیکھ۔‘‘ غفور میاں نے شبراتی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’وہ رام پرشاد بزاز کی دوکان سے لانا۔ تونے تو رام پرشاد کی دوکان دیکھی ہے نا۔‘‘

    ’’ہاں ہاں دادا خوب دیکھی ہے۔‘‘ شبراتی نے پیچھا چھڑانے کے لیے جلدی سے جواب دیا، ’’ہوں، اچھا بتلا تو ذرا کہاں ہے، وہ دیکھ جبھی تو کہتا ہوں کہ تجھے ابھی کچھ نہیں معلوم ہے۔ ارے وہ بیچ چوک میں علی بھائی لنگڑے دوا فروش کی دوکان کے بالکل سامنے ہے۔ دو چشمے والی ہرے دروازے والی دوکان۔‘‘

    ’’یہ علی بھائی بھی خاں اندھا دھند نفع لیتا تھا۔ بس ایک رات جڑی بوٹی لینے جنگل گیا تو ایک ریچھ جھوم گیا سالے سے۔ ٹانگ چبا ڈالی۔ بہت دوا علاج کیا مگر آخر کو ٹانگ کٹوانا پڑی۔ ارے خاں اپنے پاس آجاتا شبراتی تو وہ ہڈی جوڑ جڑی دیتا کہ دوروز کے پینے میں ایسا معلوم ہوتا کہ ٹانگ ٹوٹی ہی نہیں جیسے۔ اپنے پاس بھی خاں فقیروں کے نسخے رہتے ہیں۔ برسوں درویشوں کے جوتے سیدھے کیے ہیں اور چلمیں بھری ہیں جب کہیں جاکے دو چار نسخے ہاتھ لگے ہیں۔‘‘

    ’’دادا مجھے جانا ہے۔ ذرا جلدی روپیہ نکالو۔‘‘

    ’’ہاں توبس۔ اسی دوچشمے کی دوکان میں ایک بڈھا سامیلی کچیلی سی پگڑی باندھے بیٹھا ہوگا۔ لاکھوں ہی اللہ نے دیا ہے مگر سال کے سال پگڑی دھلواتا ہے۔ روز شام کو دوکان بند کرکے دو آنے کی بچی کھچی سستی سبزی خرید کر گھر لے جاتا ہے۔‘‘ غفور میاں نے شبراتی کے کان کے پاس منہ لے جاکر کہا ’’ارے خاں یوں ہی جُڑتا ہے پیسہ۔ یہ اپن میاں بھائیوں کی طرح تھوڑی ہیں جو کھایا پیا اور چوتڑوں سے ہاتھ پونچھے اور چل میرے بھائی۔ جودے گا تن کو وہی دے گا کفن کو۔‘‘

    ’’ہاں دادا۔ روپیہ دے دو مجھے جلدی سے۔ ورنہ آج مزدوری نہیں ملے گی۔‘‘

    ’’ارے یار شبراتی۔ سمجھ تو لے بیٹا ذرا۔ ہاں تو اس کی دوکان ذرا اونچی ہے۔ وہ پچھلے سال میونسپلٹی والوں نے اس بیچارے کی دوکان کے سامنے کے پٹے کھود کر پھینک دیے تھے۔ اب پوری نالی دکھتی ہے۔ کیڑے بلبلاتے رہتے ہیں۔ ہزاروں بھنگی ہیں میونسپلٹی میں کھا کھا کر گرا رہے ہیں مگر یہ نہیں بنتا کہ نالی کی صفائی کردیں۔‘‘

    ’’ہاں شبراتی تو اب سمجھ گیا ہوگا۔ بس اسی کی دوکان پر جاکر میرا نام کہہ دینا۔ باپ دادا سے ادھار سدھار کپڑالیتے آئے ہیں۔ نام سنتے ہی خاں فوراً اچھا سا کپڑا دے دے گا۔ اور دیکھ پہچان کے لیے یاد رکھنا اسی رام پرشاد کی دکان کے سامنے وہ بمبمئی والے درزی کی دکان ہے، نرا حجام ہے۔ خان درزی کیا ہے۔ وہ پچھلی عید پر سالے اناڑی نے میرے پجامے کی رومالی کچی ہی چھوڑدی۔ نماز پڑھنا مشکل ہوگیا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا گھس رہی تھی۔ خدا خدا کرکے نماز ختم ہوئی اور ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا تو خان اوپر کی اوپر اور نیچے نیچے رہ گئی۔ حق دق رہ گیا۔ وہ تو اللہ نے بڑی خیر کی کہ شیروانی پہنے تھا۔ چپ چاپ رومالی اٹھاکر جیب میں رکھی اور گھر آگیا۔‘‘

    ’’دیکھو دادا مجھے بہت دیر ہو رہی ہے۔ مجھے آکر دو روٹی بھی ڈالنا ہے۔ خیر اب تو روٹی پکانے کا ٹیم ہی نہیں رہا۔ البتہ چائے بناکر پی لوں گا۔ ذرا دادا جلدی سے روپیہ نکال دوں۔‘‘

    ’’ہاں یہ لے‘‘ غفور میاں نے اپنی قمیص کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا ’’بس دیکھ اسی سامنے والی سڑک سےنکل جانا۔ جلدی پہنچ جائے گا۔ وہ کوتوالی کے پاس سے ، پہلے تو خان اس بلڈنگ میں بڑا اسپتال تھا۔ ڈاکٹر سہراب جی بڑا مانا ہوا ڈاکٹر تھا۔ کتنا ہی بڑا مرض ہو۔ بس دو خوراکوں میں غائب۔ ہائے ہائے کیا ڈاکٹر تھا۔ یہ شیش محل تو نے دیکھا ہوگا۔ بس اسی میں رہتا تھا، اپنی بیوی کے ساتھ مگر خاں بچارے نے آخر میں خودکشی کرلی تھی۔ اور خان ایک آج کے ڈاکٹر ہیں، کل کے لونڈے۔ دن بھر وہ کالی کلونٹیوں سے باتیں کیا کرتے ہیں۔ ہر مرض میں وہ۔۔۔ (موٹی گالی بک کر) کونین ہی دیتے ہیں اور کسررہ گئی تو وہ چوتڑوں میں سوئیاں چھید چھید کر گود ڈالا۔ چلو ہوگیا علاج۔ پس قبرستان جاؤ پھر۔‘‘

    ’’دادا دیکھو آج کی میری مزدوری چلی جائے گی۔ اب کل تمہیں کرایہ کا روپیہ بھی دینا ہے۔ نہیں تو کل تم پھر گالیاں دو گے۔ ذرا جلدی سےروپیہ دے دو۔‘‘

    ’’ہاں یار لے روپیہ، بس خیال رکھنا۔ جیسے چوک میں داخل ہوگا تو سیدھے ہاتھ کی طرف وہ رحیم خاں دادا کی پان کی دوکان ملے گی۔ ہائے ہائے شبراتی۔ تو تو کل کا لونڈا ہے۔ یہ رحیم دادا پٹے بنوٹ کے ہاتھ جانتا تھا۔ اب بھی خاں اس عمر میں اگر تیری گردن پکڑ لے گا تو بیٹا شام تک جھوماکرے گا، مگر چھڑا نہیں سکتا۔ وہ تو نے محرم میں ملنگ دادا کااکھاڑا دیکھا جن کا لڑکامجید پہلوان کے نام سے مشہور تھا۔ مگر ایک دسویں کی رات نہ معلوم کیا غلطی ہوگئی یا کوئی پینترا غلط ہوگیا کہ ایک تلوار بھق سے پیٹ میں جاگھسی۔ نکل گیا سب تلوار چلانا، بس اسی قدموں مچھلی کی طرح تڑپنے لگا اور صبح ہوتے ہوتے مرگیا۔ اور ہاں اپنے مدارالمہام صاحب کی کرسی بھی ملنگ دادا کے اکھاڑے میں لگتی تھی۔ اسی مجیدا کی تلوار دیکھنے آتے تھے۔ ارے یار شبراتی دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ کیا کڑیل جوان تھا جیسے شیر جارہا ہے۔‘‘

    ’’دادا قسم خدا کی آج کی مزدوری گئی میری تو۔ غریب آدمی ہوں۔ میرے کہنے سے تم روپیہ تو دے دو۔ اگر غلط کپڑا لاؤں تو اپنے ہاتھ سے سو جوتے ماردینا۔‘‘

    ’’ابے نہیں بے۔ یہ ریزگاری ہے۔‘‘ جیب سے غفور میاں نے ریزگاری نکالتے ہوئے کہا ’’ذرا گن تو لوں، تجھے تو خاں بڑی جلدی ہو رہی ہے شبراتی۔ اب یہ دیکھ (شبراتی کو ریزگاری دکھا کر) نئے پرانے پیسوں کا جھگڑا میرے تو باپ بھی مرجائیں تو حساب نہیں لگاسکتے۔ باپ دادا سے سیدھا سادا حساب چل رہا تھا مگر خاں یہ سب الجھانے کی باتیں ہیں۔ غریبوں کی جیب میں سے پیسہ کھینچ کھینچ کر خزانے بھرے جارہے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا دادا مجھے دو۔ میں گن لوں گا۔‘‘ شبراتی نے تقریباً روہانسا ہوکر کہا۔

    ’’ارے ٹھہر تو یار پھر وہی جلدی۔ آخر میں تو خود گن کر دیتا ہوں۔‘‘ اب غفور میاں نے گنتے گنتے مٹھی بھر کے کہا ’’کبھی کبھار تجھ سے کوئی اڑے بھڑے کام کو کہو تو خاں شبراتی وہ ہاتھ پاؤں پٹکتا ہے تو کہ جیسے بس جان نکلی جارہی ہے اور ہم جو یہ چوبیس گھنٹے تیرے بغیر تالے کے مکان کی نگرانی کرتے ہیں تو وہ کچھ نہیں۔ ذرا کسی دوسرے کے مکان میں کرایہ سے رہ کر دیکھو۔ رات دن تالے ٹوٹ رہے ہیں۔ جس کا مال چلاگیا تو آج تک ملا نہیں۔ ہمارا شکریہ ادا کرو شبراتی بیٹا کہ ادھرکوئی پرندا بھی پر نہیں مارسکتا۔ اس محلہ میں اب بھی خاں اپنا حکم چلتا ہے۔ رات کو چھ مرتبہ پیشاب کرنے باہر آتا ہوں سڑک پر۔ یہ آرام تمہیں شبراتی میاں کہیں اور نہیں ملے گی۔ مگر خان شبراتی میں نے اپنے پیشاب کا کتنا علاج کرایا مگر یار چھ کے بجائے چار مرتبہ بھی نہیں ہوا۔ بڑے بڑے حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھلایا۔ تین تین روپے روز کے نسخے پئے مگر مرض نہیں گیا۔ اچھا خیر۔ ہاں تو کیا کہہ رہا تھا۔ بس شبراتی تجھ میں یار یہ بات بڑی خراب ہے۔ بات پوری سنتا نہیں۔ بیچ میں ٹخ ٹخ کیا کرتاہے۔‘‘

    ’’ارے دادا کیا ٹخ ٹخ کرتا ہوں۔ چپ چاپ تو کھڑا سُن رہا ہوں تم تو بس بات میں بات نکالتے چلے جارہے ہو۔ ایک بات ختم نہیں ہوئی کہ بیچ میں دوسری شروع ہوگئی۔ اب تمہیں انصاف کرو۔‘‘ شبراتی نے دادا کی طرف بھناکر کہا ’’کہاں کپڑا اور کہاں دادا یہ تمہارے پیشاب کا مرض۔‘‘

    ’’ابے تو کیا۔ میرا مرض تجھے لگ گیا۔‘‘ غفور میاں نے جھینپ کر غصے سے کہا ’’تیرے ساتھ تو میں نے رعایت کی کہ مزدور آدمی ہے، کام کو دیر ہو رہی ہے۔ ورنہ خاں شبراتی میاں میں نے انہیں پٹیوں پر (پٹیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) باتوں ہی باتوں میں لوگوں کو سلادیا ہے۔‘‘

    ’’اچھا دادا رعایت ہی کی تم نے میرے ساتھ مگر روپیہ تو نکالو جلدی سے۔‘‘

    ’’ہاں دیکھ اور بہ فرض محال اگر رام پرشاد کی دوکان بند ہو تو پھر ناک کی سیدھ ابراہیم پورہ کی طرف چلاجانا دیکھ۔‘‘ اس طرح غفور میاں نے جنوب کی طرف منہ کرتے ہوئے اشارہ کیا ’’بس اسی طرف منہ کرکے چل دینا تو ایک، دو، تین، چار دوکانیں چھوڑ کر۔۔۔‘‘

    ’’بس دادا بس سمجھ گیا۔‘‘ شبراتی نے کہا اور تیز تیز بازار کی طرف چل دیا۔

    ’’ارے سن تو شبراتی، روپیہ تو لیتا جا۔‘‘

    ’’روپیہ ہے دادا میرے پاس۔ کرایے میں کاٹ لوں گا کل۔‘‘ اور جوں جوں شبراتی دور ہوتا گیا۔ غفور میاں نے شبراتی کی طرف چلتے ہوئے چیخنا شروع کیا۔

    ’’بس آگے سے سیدھے ہاتھ کو مڑ جانا بے اور دیکھ۔۔۔ ذرا مضبوط دیکھ کر لانا۔‘‘

    ’’او شبراتی۔ کلف دیکھ لینا خاں۔‘‘

    شبراتی غفور میاں کی ہر آواز پر ہاتھ کو اٹھا اٹھا کر ہلاتا رہا۔ گویا سب سمجھ گیا ہو، اور ایک قریب کی گلی میں جلدی سے داخل ہوکر غفور میاں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

    غفور میاں جو شبراتی کو سمجھاتے ہوئے کافی دور تک چلے گئے تھے۔ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے واپس ہوئے ’’بڑا کام چور ہے۔ پوری بات بھی نہیں سنی اور چلا گیا۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے