Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فیشن

MORE BYیوسف ناظم

    دنیا کی یوں تو سبھی چیزیں بدلتی رہتی ہیں کیونکہ دنیا کا انتظام انسانوں کے ہاتھ میں ہے اور ہم انسان اس بات کے قائل نہیں کہ دنیا اسی ڈھب پر چلتی رہے جس ڈھب پر سورج، چاند، ستارے اور ہوا جیسی چیزیں چلتی آرہی ہیں۔ سورج وہی اپنی قدیم رفتار پر قائم ہے نہ تو اس کے قد وقامت، جسامت اور ضخامت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اس کی مشرق کی طرف سے طلوع ہونے کی عادت بدلی ہے۔ مغرب نے سائنس وغیرہ کے معاملے میں اتنی ترقی کرلی لیکن سورج نے اس ترقی اور مغربی ممالک کے بڑھتے اقتدار کی کوئی پروا نہیں کی۔ یہی حال چاند ستاروں کا ہے۔ ہوا بھی ویسی کی ویسی ہی ہے، جیسی کہ پہلے تھی۔

    اس میں آلودگی ذرا زیادہ ہوئی ہے لیکن یہ کوئی خاص تبدیلی نہیں ہے لیکن دنیا کی ہر چیز تغیر پذیر ہے۔ خود آدمی بھی اب اتنا بدل گیاہے کہ پتا نہیں چلتا کہ یہ آدمی ہے بھی یا نہیں۔ جہاں تک رفتار کا تعلق ہے، دنیا کی تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں کہا نہیں جاسکتا کہ یہ کس لمحہ بدل جائیں گی۔ لمحہ لمحہ بدلنے والی ان تین چیزوں میں پہلی چیز ہے قیمتیں۔ قیمتیں چاہے آلو کی ہوں یا رتالو کی۔ چولھے کی ہوں یا دولھے کی، زرکی ہوں یا زمین کی، اس قدر تیزی سے بدلنے لگی ہیں کہ زمین کے سودے کی بات چیت ختم ہونے سے پہلے زمین کی قیمت میں دس بیس فی صد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    دوسری چیز ہے عورتوں کا مزاج، یہ بھی کچھ کم تیزی سے نہیں بدلتا۔ ہمارے یہاں تو خیر ابھی بیسویں صدی کے آخری دہوں میں بھی غنیمت ہے کہ خواتین کسی اور بات کا نہ سہی، کم سے کم ازدواجی رشتوں کا تھوڑا بہت لحاظ کرتی ہیں ورنہ دنیا میں ایسے کئی مُلک موجود ہیں جہاں کی رہنے بسنے والی خواتین اس تیزی سے ان رشتوں کو بدلتی ہیں کہ مردوں کے فرشتوں کو بھی ان کے منصوبوں کو اطلاع نہیں ملتی۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ عدالت میں جب جج محترم قانون کے حق میں فیصلہ لکھنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ محترمہ اپنا فیصلہ بدل دیتی ہیں اور عدالت سے درخواست کرتی ہیں کہ وہ ملزم کو یعنی اُن کے شوہر کو راہ راست پر آنے کے لیے چند دنوں کی مہلت عطا کرے۔

    ہمارے یہاں عورتوں کے مزاج اس تیزی سے نہیں بدلتے۔ ان کے مزاج میں پہلے صرف رچاؤ تھا اب ٹھہراؤ آگیا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ شاید یہ ہے کہ عورتوں کو اب مردوں پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے۔ برابری کا درجہ تو حاصل تھا ہی، عورتیں اب سماج سدھار اور سیاست میں حصّہ لینے لگی ہے حالانکہ سماج سدھار اور سیاست دو الگ چیزیں ہیں۔ عورتوں کو اس سے تعلق ہے بھی نہیں کہ کون سی چیز مفید ہے اور کون سی نقصان دہ۔ بیلن اور تھالی لے کر جب وہ شارع عام پر نکل آتی ہیں تو سرکار لرزہ براندام ہوجاتی ہے کیونکہ عورتوں کوسرکار سے جب بھی کوئی مطالبہ کرنا ہوتا ہے وہ اتنے سخت لہجے میں مطالبہ کرتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکارسے نہیں اپنے گھر میں اپنے شوہر سے مخاطب ہیں۔ عورتوں کے اسی لب و لہجہ کو شاعروں نے سراہا ہے۔

    کہا جاتا ہے عورتوں کا مزاج، باورچی خانے میں بھی قابو میں نہیں رہتا۔ ویسے تو عام طور پر عورتوں نے کھانا پکانا ہی ترک کردیا ہے لیکن جنھوں نے ترقی کی اس منزل پر قدم نہیں رکھا ہے جب بھی کھانا پکاتی ہیں اپنا منصوبہ ہر دوسرے لمحے بدل دیتی ہیں۔ کسی ایک پراجکٹ پر کام کرنا ان سے ہو نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی تیار کی ہوئی ڈش کھانے کی میز پر پہنچتی ہے تو پہچاننا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ غذا ہے یا راتب۔ شوہر اس غذا کو اس لیے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اس سے زیادہ کڑی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔

    تیسری چیز جو اتنی ہی تیز رفتاری سے بدلتی رہتی ہے، فیشن ہے۔ فیشن ایک ایسا فارمولا ہے جسے الفاظ کا لباس نہیں پہنایا جاسکتا۔ فیشن کے تعلق سے البتہ یہ غلط فہمی عام ہے کہ فیشن صرف لباس وپوشش کی حد تک محدود ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بڑے شہروں میں کوئی بھی علاقہ فیشن ایبل علاقہ نہیں ہوتا۔ فیشن ایبل علاقہ لباس نہیں پہنتا اور یہ اس علاقے میں لباس پہننے کی کوئی خاص پابندی ہے، یہ تو اس علاقے کا رکھ رکھاؤ، صورت شکل، مزاج اور ڈھنگ ہے جو اسے فیشن ایبل بناتا ہے۔ فیشن ایبل علاقے میں جسے پاش (POSH) علاقہ بھی کہا جاتا ہے، میونسپلٹی ذرا زیادہ کام کرتی ہے بلکہ بعض وقت تو ضرورت سے زیادہ کام کرتی ہے۔ سڑکیں صاف ستھری رہتی ہیں۔ اس علاقے میں جو پودے لگائے جاتے ہیں انہیں صبح شام پانی بھی دیا جاتا ہے۔

    شہر کے دوسرے محلوں میں اگر پینے یا استعمال کرنے کے پانی میں کانٹ چھاٹ کرنی پڑے یا بالکل منقطع کردینا پڑے تو ہنسی خوشی یہ کام کیاجاتا ہے کیونکہ فیشن ایبل علاقہ شہر کی ناک ہوتا ہے اور ناک تو ہمیشہ اونچی رہنی ہی چاہیے خواہ وہ آدمی کی ہو یا شہر کی۔ فیشن ایبل علاقوں میں رہن سہن کا ڈھنگ عام آدمی کے رہن سہن کے ڈھنگ سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ گھر ضرور ہوتے ہیں لیکن گھر کے مکین مکان میں نہیں رہتے بلکہ صاحب خانہ تو شہرہی میں نہیں رہتے۔

    کہا جاتا ہے فیشن ایبل علاقوں میں کاروبار بھی نئے فیشن کے ہوتے ہیں لیکن اب شہروں میں اونچ نیچ کا فرق نہیں ہے۔ ہر قسم کے کاروبار ہر جگہ ہونے لگے ہیں۔ جن محلوں کے ٹوٹے پھوٹے مکانوں سے چولھوں کا دھواں باہر نہیں آتا ان ہی مکانوں میں ہر قسم کا دھواں برآمد کرنے کا سامان موجود رہتا ہے۔ یہ بھی ایک فیشن ہے جو ہماری زندگی میں داخل ہوگیا ہے۔ یہ دھواں اب ہر جگہ اُٹھنے لگا ہے، درسگاہ ہو یا بازی گاہ، مے کدہ ہو یا دانشکدہ۔ ساری جگہیں اس دھوئیں کے کہرے میں لپٹی ہوتی ہیں۔

    ہمارے یہاں ایک فیشن عام ہے، یہ پان کھانے کا فیشن ہے۔ ہماری سڑکیں اس فیشن کی گواہ ہیں۔ زندہ ثبوت، کہا جاتا ہے اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں شہروں کی سڑکیں ہر سال رنگی جاتی ہیں تاکہ خوبصورت دکھائی دیں اور حکومت ان کے حُسن و جمال پر لاکھوں روپیا خرچ کرتی ہے۔ شکر کہ ہمارے یہاں اس مَد پر حکومت کو کچھ خرچ نہیں کرناپڑتا۔ پان خوری کے فیشن نے ہر شہر کو حنا آلودہ بنادیاہے۔ ایسی حنائی سڑکیں شاید ہی کسی اور مُلک میں پائی جاتی ہوں۔

    فیشن میں تو ہمارے یہاں ناس بھی ہے۔ یہ عوام الناس کے کام کی چیز ہے۔ ناس کشی کے مناظر سڑکوں پر، ٹرین میں، بس میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہ مناظر وقت و انبساط کی کیفیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ ناس اُدھر لی جاتی ہے اور ناک ادِھر بہنے لگتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں عرق ریزی کاکام کرنے والے تعداد میں زیادہ ہیں۔ محنت کش ہونے کایہ بھی ایک نسخہ ہے جو فیشن میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے باہر کے لوگوں نے اس فیشن کو نہیں اپنایا، اسی لیے اُن کی ناک اکثر بند رہتی ہے۔ باہر کے ملکوں کے اکثر لوگ بات بھی کرتے ہیں تو ناک میں کرتے ہیں۔ اُنکی یہ تکلیف صرف اس صورت میں دور ہوسکتی ہے کہ وہ ناس کو اپنا وظیفہ صبح وشام بنائیں۔

    ایک اور عمدہ غذا جو ہمارے یہاں فیشن میں ہے، چونے اور تمباکو کا آمیزہ ہے۔ دست خود دہان خود کا یہ فارمولا دُنیاکا آسان ترین فارمولا ہے۔ تمباکو کاتھوڑا سا ذخیرہ اپنے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھیے اسے اپنے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی مدد سے ریزہ ریزہ کیجئے۔ کچھ اس طرح کہ وہ سفوف بن جائے۔ پھونک ماریے تاکہ اس ذخیرے کے غیر ضروری ذرّات آپ کے ہم سفر کو فیض پہنچا سکیں۔ اب اس میں تھوڑا سا خشک چونا ملائیے، ڈش تیار ہے۔ اس سفوف کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگشت شہادت کے ذریعے اپنے مُنہ میں دانتوں تلے دبا لیجیے۔ صرف آپ ہی نہیں سارے دیکھنے والے انگشت بدنداں ہوجائیں گے۔ اس غذا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب تک آپ اپنے شغل طعام سے فارغ نہیں ہوجاتے آپ خاموش رہنے پر مجبور ہیں اور ہندوستان میں اگر کوئی شخص ایک منٹ کے لیے بھی خاموش رہتا ہے تو سمجھنا چاہئے کہ خدا بہت مہربان ہے۔

    طعام کا ذکر چل پڑا ہے تو یہ بھی سن لیجئے کہ اب بڑے شہروں میں گھر کے باہر سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر کھانا ایک فیشن بن گیا ہے اور جو شخص اس طرح کچھ کھا پی کر گھر نہیں آتا ہے اُسے اہل خانہ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، جگہ جگہ فوری طعام کے اسٹال لگ گئے ہیں۔ ایسی گرم گرم غذا کھانے کو ملتی ہے کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ آپ نے کیا کھایا ہے کہ عاجلانہ غذا (فاسٹ فوڈ) سے آدمی فوری طور پر فارغ تو ضرور ہوجاتا ہے لیکن بعد میں بھی فارغ ہوتا رہتا ہے۔ اس غذاکے متعلق ماہرین خوارک کی رائیں مختلف ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس غذا سے معدہ مضبوط ہوتا ہے اور کچھ ناقدین فرماتے ہیں کہ اس سے معدہ کمزور ہوتا ہے۔

    ہمارا خیال ہے کہ دونوں رائیں صحیح ہیں۔ ان کھانوں میں دو کھانے زیادہ مقبول ہیں جن کی تیاری کا نسخہ اس مُلک سے درآمد کیا گیا ہے جہاں چاول کاڑیوں کی مدد سے کھائے جاتے ہیں۔ اون بننے کی سلائیاں تو ہم نے دیکھی اور سنی تھیں، کھانا کھانے کی سلائیاں بھی دیکھنی پڑیں۔ غنیمت ہے کہ معاملہ صرف انھیں دیکھنے کی حد تک رہا۔ اگر ہم ہندوستانی بھی ان سلائیوںکو استعمال کرنے لگے تو شاید ہی دنیاکا کوئی دوسرا کام کرسکیں۔ ویسے ہمارے پاس کوئی کام ہے بھی نہیں۔

    نو تعمیر شدہ سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے گڑھے کھود کر ان میں وکٹ داخل کرنا اور کرکٹ میچ کھیلنا بھی اب ہمارے یہاں ایک فیشن ہے۔ جس محلے میں اس نمونے کی کرکٹ نہیں کھیلی جاتی وہ محلہ پسماندہ علاقہ سمجھا جاتا ہے اور اس محلے کے میونسپل کونسلر کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی بلکہ میونسپل کارپوریشن کے کاروباری اجلاس میں اس محلے کے نمایندے سے سوال کیا جاتا ہے کہ آخر ایسی کیا مصیبت ہے کہ وہاں کرکٹ جیسامشہور و معروف کھیل قبول نہیں ہے۔ کرکٹ کے اس قسم کے میچوں میں کبھی کبھی راستہ چلنے والے اشخاص زخمی بھی ہوجاتے ہیں لیکن اس کا بُرا نہیں مانا جاتا۔ عوام الناس کو زخمی ہونا ہی چاہیے۔ جمہوریت کی قیمت سب کو ادا کرنی پڑتی ہے۔

    یہی نہیں کہ فیشن کا دخل صرف خورد نوش، رہن سہن اور لباس وغیرہ ہی کے معاملوں میں ہے یہ فیشن ہر شعبۂ حیات میں کار فرما ہے۔

    ادب کے سلسلے میں جو کچھ ہورہا ہے اس میں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا ڈراما یا سیریل لکھا جاتا ہے جس کا تعلق ہماری تاریخ سے ہوتا ہے تو مصنّف اس بات کی احتیاط کرتا ہے کہ ڈرامے کا کوئی بھی کردار حقیقی کردار سے مشابہہ نہ ہو۔ کسی راجا یا بادشاہ کو جب اس سیریل میں پیش کیا جاتا ہے تو دیکھنے والے عام طور پر اور تاریخ کے طالب علم خاص طور پر حیرت زدہ ہوجاتے ہیں کہ ہائیں یہ کون شخص ہے جس نے ہمارے مُلک پر حکومت کی تھی اور اس کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ اس طرح ہندوستان کی ایک نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ پرانی تاریخ کرم خوردہ بھی ہوگئی ہے۔

    فنونِ لطیفہ کا فیشن بدلا تو طب کے میدان میں بھی نئے فیشن طلوع ہوگئے۔ اب ہر مرض کے خاص معالج پیدا ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹروں نے یہ نکتہ شاید شاعروں سے سیکھاہے، جس طرح ایک شاعر رُباعی کا بادشاہ ہوتا ہے تو دوسرا قصیدے کا۔ کسی کا میدان مرثیہ گوئی ہے تو کسی کا ہجو گوئی۔ کچھ شاعر تو یہ تک کہتے ہیں کہ انھوں نے غزل کو سائنس کا درجہ دے دیاہے۔ ڈاکٹروں نے بھی اسی طرح امراض کو اصناف میں تبدیل کردیا ہے اور مریض کے جسم کے مختلف حصّوں کو اپنی اپنی تشخیص وتفریح کے لیے چُن لیا ہے۔ اس فیشن کا فائدہ یہ ہواکہ اب ایک ہی مریض ایک ہی وقت میں تین تین چار چار معالجوں کے زیر علاج رہتا ہے اور اُسے بالکل پتا نہیں چلتا کہ وہ اپنی کوتاہی عمر کے لیے کسے موردِ الزام قرار دے۔

    فیشن تنہا وہ ضرورت ہے جو کئی ایجادوں کی ماں ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے