غالب اور شریک غالب
ادھر کئی مہینوں سے مکان کی تلاش میں شہر کے بہت سے حصوں اور گوشوں کی خاک چھاننے اور کئی محلوں کی آب و ہوا کو نمونے کے طور پر چکھنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ جس طرح ہر گلی کے لیے کم سےکم ایک کم تول پنساری، ایک گھر کا شیر کتا، ایک لڑا کا ساس، ایک بد زبان بہو، ایک نصیحت کرنے والے بزرگ، ایک فضیحت پی جانے والا رند، اور حوائج ضروری سے فارغ ہوتے ہوئے بہت سے بچوں کا ہونا لازمی ہوتا ہے، اسی طرح کسی نہ کسی بھیس میں ایک ماہر غالبیات کا ہونا بھی لازمی ہوتا ہے اور بغیر اس کے گردوپیش کا جغرافیہ کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔
اچھا بھلا ایک مکان مل گیا تھا لیکن ابھی اس میں منجملہ اسباب ویرانی میرا لپٹا ہوا بستر بھی ٹھیک سے کھل نہیں پایا تھا کہ محلے کے ماہر غالبیات نے نہیں معلوم کیسے سونگھ لیا کہ میں سخن فہم نہ سہی غالب کا طرفدار ضرور ہوں اور مجھے اپنی غالبانہ گرفت میں ایک صید زبوں کی طرح جکڑ لیا۔ آتے ہی آتے انہوں نےغالب کے متعلق دوچار حیرت انگیز انکشافات کے بعد مجھے پھانسنےکے لیے ایک آدھ ہلکے پھلکے سوالات کر دیے۔ اب میری حماقت ملاحظہ ہو۔۔۔ کہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو بہت بڑاغالب فہم سمجھتا۔۔۔ میں نے ان کو نرم چارہ سمجھ کر ان پر دوچار منھ ماردیے یا یوں سمجھ لیجیے ان کی دم پر پیر رکھ دیا یعنی ان کے سامنے غالب کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے پیش کرنے کی ’’سعی لا حاصل‘‘ کر بیٹھا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ میں کسی بارود کے خزانے کے قریب دیا سلائی جلانے کی کوشش کر رہا ہوں؟
پھر کیا تھا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں‘‘ چیخ کر ماہر غالبیات پھٹ تو پڑے مجھ پر! اور میری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے فن غالبیات کی ایسی ایسی توپوں اور آتش فشانوں کے دہانے کھول دیے کہ میں سراسیمہ، مبہوت اور ششدر ہو کر ہمیشہ کے لیے عہد کر بیٹھا کہ اب آئندہ کسی اجنبی بزرگ کے سامنے حضرت غالب کا نام اپنی زبان بے لگام سے ہرگز ہرگز نکلنے نہ دوں گا۔ دوسرے ہی دن سے ماہر غالبیات نے، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ کے عنوان سے میری باقاعدہ تعلیم شروع کردی۔ سویرے میں بستر ہی پر ہوتا کہ وہ ’’لذت خواب سحر‘‘ پردھاوا بولتے آپہنچتے اور پہلے غالب کے کچھ انتہائی سنگلاخ اشعار پڑھ کر ان کے معنی مجھ سے پوچھتے، گویا میرا آموختہ سنتے اور پھر قبل اس کے کہ میں ایک لفظ بھی اپنی زبان سے نکال پاؤں، وہ ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ فرماکر ان کے معنی اور مطالب خود بیان کرنا شروع کردیتے اور پھر اپنی’’گل افشانی گفتار‘‘ سے جدت آفرینی، حسن تخیل، لطف بیان، شکوہ الفاظ، بلند پروازی، ندرت کلام بلکہ پھانس کو بانس اور رائی کو پہاڑ بنانے کے ایسے ایسے ’’گل کترتے‘‘ کہ میرے لیے ’’صاعقہ و شعلہ و سیماب‘‘ کا عالم ہو جاتا اور وہ خود اس شعر کی مجسم تفسیر بن کر رہ جاتے“
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
اور پھر نوبت یہاں تک پہنچتی کہ میں داڑھی بنارہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ حسن سمجھا رہے ہیں۔ میں کنگھا کر رہا ہوں اور وہ آرائش جمال سےفارغ نہیں ہنوز، میں مسئلہ ارتقا کو پروان چڑھتےدیکھ رہے ہیں۔ میں کپڑے بدل رہا ہوں اور وہ ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا، پڑھ پڑھ کر اور گاہے بگاہے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا لگا کر غالب کو ہندوستان کا سب سے پہلا انقلابی ثابت کر رہے ہیں۔ میں جوتے کی ڈوریاں باندھ رہا ہوں اور وہ ’بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے‘ والے مصرع سے فضائے آسمانی پر اسپٹنگ چھوڑ رہے ہیں۔ میں ناشتہ کر رہا ہوں اور وہ ’’مے ہے یہ مگس کی قے نہیں ہے‘‘ دہرا دہرا کر غالب کے علم الغذا پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈال رہے ہیں کہ میرے منہ کا نوالہ حلق میں جانے سے انکار کر بیٹھتا ہے۔ میں دفتر جانے کے لیے سائیکل نکال رہا ہوں اور وہ غالب کا فلسفۂ عمرانیات بیان کر رہے ہیں۔ میں سائیکل پر بیٹھ چکا ہوں اور وہ شام کو دفتر سے میری واپسی پر غالب اور ضبط تولید کے موضوع پر اپنے تازہ ترین الہامات کو مجھ پر نازل کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
شام کو ظہور پذیر ہوتے تو غالب اور دوسرے شعرا کا موازنہ شروع فرمادیتے اور غالب کے منہ لگنے والے دیگر تمام شعرا کو قابل گردن زدنی قرار دے کر بھی جب تسلی نہ ہوتی تو غالب کے مختلف شارحین کا پہلے سرکس پھر کشتی شروع کرا دیتے اور کافی دھرپٹخ کے بعد جب ہر شارح کافی پست ہو چکتا تو خود بھی اکھاڑے میں کود پڑتے اور فرداً فرداً ہر شارح کو پچھاڑتے اور پھر ہر شعر کے متعلق اپنی ایک انوکھی، اچھوتی اور عجوبۂ روزگار شرح کا آغاز کر دیتے جس کا انجام غالباً اس وقت تک نہ ہوتا جب تک میں اپنے ہوش و حواس کی قید و بند سے نجات پاکر وہاں نہ پہنچ جاتا جہاں سے خود مجھ کو میری خبر نہ آتی، یعنی بالکل ہی بے سدھ ہو کر اپنے بستر پر گرنہ جاتا۔
میں اکثر خواب میں دیکھتا کہ حضرت غالب اپنا دیوان بغل میں دبائے بے تحاشہ چیختے ہوئے بھاگ رہے ہیں، ’’بچاؤ! بچاؤ! مجھے میرے شارحین اور ماہرین سے بچاؤ۔‘‘ اور ان کے پیچھے شارحین، ماہرین اور پرستاروں کا ایک غول بیابانی ان کا تعاقب کر رہا ہے جس کی قیادت ایک ڈنڈا لیے میرے محلے کے ماہر غالبیات کر رہے ہیں اور اپنے ساتھ مجھے بھی ایک زنجیر میں باندھے گھسیٹ رہے ہیں۔
کئی مرتبہ تکلف برطرف کرکے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے، داڑھی میں ہاتھ دیا، کان پکڑ کر اٹھا بیٹھا اور حرف مطلب یوں زبان پر لایا کہ اے ماہر غالبیات آپ کو آپ کے حضرت غالب مبارک! مجھ مغلوب کو میرے ہی حال پر چھوڑ دیجیے تو آپ کی غالبیت میں کون سا بٹا لگ جائے گا؟ میں ایک گدائے بے نوا ہوں، احمق، جاہل اور ہیچمداں ہوں۔ میرے ایسے ذرۂ ناچیز کو غالب ایسے آفتاب عالم تاب سے کیا نسبت؟ میں حضرت غالب کا صرف اس قدر گنہگار ہوں کہ عالم طفولیت میں ایک مولوی صاحب نے اسکول میں کورس کی کتاب سے ان کی چند غزلیں زبردستی پڑھادی تھیں۔ اس کے علاوہ مجھ سے قسم لے لیجیے جو میں نے کبھی انہیں ہاتھ بھی لگایا ہو اور ہاتھ لگاتا بھی خاک۔ ع۔ ہاتھ آئیں تو لگائے نہ بنے! غالب کو میں کیا میری سات پشتیں بھی نہیں سمجھ سکتیں۔ میں نہ انہیں سمجھا ہوں نہ سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ آپ بیکار میرے ہوش و حواس پر چاند ماری گویا بنجر زمین پر تخم ریزی اور آبیاری کرتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ میں پاگل ہو جاؤں گا اور میرے بیوی اور بچے آپ کو اور مرزا غالب کو کوستے پھریں گے۔
لیکن ماہر غالبیات بھلا کب ماننے والے تھے؟ میرے اظہار بیچارگی سے ان کی ہمہ دانی میں اور بھی چار چاند لگ جاتے اور فخر و تمکنت سے ان کے گلے کی رگیں پہلے سے بھی زیادہ پھولنے لگتیں،
’’ہوگا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے؟
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زبان اور!
آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں!
اے دریغاوہ رند شاہد باز!‘‘
اور یہ فرمانے کے بعد وہ غالب کے متعلق اپنی تحقیق اور دریافت کی گولہ باری مجھ پر کچھ اور تیز کردیتے۔ مجھے کبھی اگر اونگھتا یا حواس باختہ دیکھتے تو چوکنا کرنے کے لیے مجھ پر دوچار انتہائی زلزلہ خیز سوالات داغ دیتے، ’’غالب کے نظریۂ فلکیات کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے اور اس کے ماتحت، مہ نخشب، کے ساتھ ’دست قضا‘ نے کیا برتاؤ کیا تھا؟‘‘
’’غالب نے قدرتی مناظر سے جو نفسیاتی موشگافیاں کی ہیں، اس سے ان کے تحت الشعور کی کس بلندی کا پتہ چلتا ہے؟‘‘
’’غالب کے سماجی شعور میں سیاسی اور اقتصادی بلوغیت کب اور کیسے پیدا ہوئی؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ میں بھلا ان سوالات کا جواب کیا دیتا؟ میں مجبوراً ماہر غالبیات کی طمانیت قلب کے لیے آنکھیں پھاڑ کر منھ کھول دیتا اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں اپنے حیرت زدہ ہونے کا پورا پورا یقین دلا دیتا لیکن دل ہی دل میں سوچتا کہ اگر میں اپنی سماجی بلوغیت کو کام میں لاتے ہوئے اپنا وزنی قلم دان ماہر غالبیات کے تحت الشعور پر پوری قوت سے پٹخ دوں تو یقیناً ان پر فلکیات کے بہت سے طبق روشن ہوجائیں گے۔
بس کیا عرض کیا جائے کہ کس طرح عاجز اور پریشان کر رکھا تھا ان ماہر غالبیات نے۔ ان سےجان چھڑانے کے لیے بیسیوں ترکیبیں کیں۔ محلے کے با اثر لوگوں کا دباؤ ڈالوایا۔ گمنام خطوط لکھے۔ ایک انسپکٹر پولس سے ان کے خلاف کوئی فرضی مقدمہ چلانے کی فرمائش کی، بیماری کا ڈھونگ بنایا۔ بہرے بنے (تو التفات دونا ہوگیا۔ ) دوستوں کے گھر جاکر پناہ لی، گھر کے دروازے بند کرائے۔ نوکر کو ہدایت کی کہ ’’ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے!‘‘ لیکن اجی توبہ کیجیے۔ ع۔ اہل تدبیر کی وا ماندگیاں! ماہر غالبیات مجھے نہ پاتے تو گھنٹوں غالب کا کوئی شعر اور اس سےمتعلق ایک نئی داستان ہوش ربا اپنے اوپر طاری کیے ہوئے میرے دروازے کے سامنے گلی میں ٹہلا کرتے اور جب تک مجھے گھر سے نکلتے گرفتار کرکے مجھ پر یہ شعر صادق نہ کردیتے دم ہی نہ لیتے،
بھاگے تھے ہم بہت سو اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں
ان حالات میں اسے چاہے میری بدذاتی کہیے چاہے اقدام قتل سے گریز کہ جیسے ہی مجھے ایک دوسرا مکان ملا جو اگرچہ میرے پہلےمکان کا صرف نصف بہتر معلوم ہوتا، میں رسیاں تڑاکر بھاگا۔ ماہر غالبیات سے میں نے کہہ دیا کہ میں شہر کیا صوبہ چھوڑ رہا ہوں اور وہ مجھے آبدیدہ ہوکر رخصت کرنے آئے تو بڑے رقت انگیز لہجے میں فرمایا، ’’آپ غالب کو غلط سمجھے ہیں۔‘‘ اور اگر میں ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی۔‘‘ نہ چیختا اور غلطی سے تانگے والا اس اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھ کر فوراً تانگہ ہانک نہ دیتا تو یقیناً ماہر غالبیات مجھے ایک فی البدیہ الوداعی جلاب دیے بغیر ہرگز نہ مانتے۔ اپنے ان جان لیوا ماہر غالبیات سے چھٹکارا پاکر مجھے جو مسرت بے پایاں حاصل ہوئی اس کا اظہار غالباً غیرضروری ہے۔ ع مژدہ اے مرغ کہ گلزار میں صیاد نہیں!
مکان تبدیل کرنے کے سلسلے میں اپنا ایک مکان سے انتہائی بدحواس اور سراسیمگی سے باندھا ہوا سامان جب دوسرے مکان میں کھولا جاتا ہے تو کہیں سے لوٹ کر لائے ہوئے مال غنیمت کا لطف آ جاتا ہے اور اس میں سے ایسے ایسے حیرت انگیز انکشافات نمودار ہونے لگتے ہیں کہ ناطقہ سربگریباں ہو کر رہ جاتا ہے۔ میرا وہ آئینہ جس کو میں نے یقیناً کسی بہت محفوظ جگہ بڑی احتیاط سے چھپا دیا تھا کہ سند رہے اور وقت ضرورت پر کام آئے، انتھک تلاش اور جستجو کے بعد بھی ہاتھ نہیں لگتا ہے لیکن نگار کا وہ جوتا جس کے متعلق یقین کامل تھا کہ دو مہینے ہوئے کھو چکا ہے، چنانچہ اس کے جوڑی دار کو میں نےچلتے چلاتے ماہر غالبیات کےمکان کی طرف اچھال دیا تھا، ایک ڈبے سے بے ساختہ نکل پڑتا ہے۔ میں اپنے سامان سے کشتی لڑلڑ کر اس قسم کے حوادث سے دوچار تھا کہ دفعتاً کسی نے باہر کا دروازہ بھڑبھڑانا شروع کر دیا۔ مجھے اس وقت سچ پوچھیے تو ملک الموت تک سے ملنے کی فرصت نہ تھی لیکن طوعاً و کرہاً لاحول پڑھتا ہوا لپکا اور دروازہ کھول دیا۔
داڑھی چڑھائے اور صرف بنیائن اور تہمد پہنے ایک بزرگ نمودار ہوئے اور بڑی بے تکلفی سے’’سلام علیکم‘‘ کہتے ہوئے بیٹھکے میں داخل ہوکر ایک کرسی گھسیٹی اور اس پر اکڑوں بیٹھ گئے اور کچھ جھوم کر یہ شعر پڑھا، ’’ہم پکاریں اور کھلے، یوں کون جائے؟ یار کا دروازہ پائیں گر کھلا۔‘‘ مجھے مجبوراً ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ کر ایک مونڈھے پر پناہ لینا پڑی۔
’’اس مکان کے نئے کرائے دار آپ ہی ہیں؟ ع کوئی ویرانی سی ویرانی ہے؟ مطلب یہ کہ ع آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے!‘‘ مرزا غالب کا تابڑتوڑ کلام سننے کے بعد اور غصے کے خوف سے میرے کان خودبخود ہلنے لگے اور بڑی مشکل سے میرے منہ سےفقط ایک ’’جی‘‘ نکل سکی۔
’’ابھی ابھی مرزا کبن صاحب سے معلوم ہوا کہ یہاں تشریف لانے سے قبل آپ دہلی میں رہتے تھے۔
کیوں نہ دلی میں ہراک ناچیز نوابی کرے؟‘‘
’’جی ہاں دو تین ماہ دہلی بھی رہا ہوں۔ کیا میرے خلاف خفیہ پولس کی کوئی تحقیقات آپ کے سپرد ہوئی ہے؟‘‘
مسکراکر چیخ اٹھے، ’’ہے ہے خدا نخواستہ وہ اور دشمنی۔ اے شوق منفعل یہ تجھے کیا خیال ہے۔‘‘
میں نے ہمت کرکے دبی زبان سے عرض کیا، ’’آپ نے ابھی تک مجھے خود اپنے آپ سے متعارف ہونے کا شرف نہیں بخشا۔‘‘
اپنے سر کے بال نوچتے ہوئے بولے، ’’پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے۔ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟‘‘
اب میری بدحواسی مکمل ہو چکی تھی، ’’جی۔ آپ؟ حضرت غالب!‘‘
’’جی ہاں حضرت غالب!
ہم پیشہ وہم مشرب و ہمراز ہے میرا
میں اس وقت صرف یہ پوچھنے حاضر ہوا تھا کہ آپ دہلی میں رہے ہیں تو شہنشاہ اقلیم سخن حضرت غالب سے تو ضرور ہی واقف ہوں گے۔‘‘ مجھے جھرجھری سی محسوس ہونے لگی اور میں نے بڑی بے اعتنائی سے جواب دیا، ’’جی ہاں سنا ہے کہ اس نام کے ایک بزرگ کا مزار دہلی ہی میں ہے۔‘‘ اپنا سر پیٹتے ہوئے بولے، ’’معاف کیجیے گا آپ نے بھی بے رحمی کی حد کردی! سنا ہے کہ اس نام کے ایک بزرگ کا مزار دہلی ہی میں ہے۔ ع جلوۂ کل کے سوا گرد اپنے مدفن میں نہیں۔ اجی آپ کو یہ بھی توفیق نہیں ہوئی کہ آپ اس بارگاہ فلک منزلت پر ع۔ رتبہ میں مہروماہ سے کم تر نہیں ہوں میں۔ سرعقیدت خم کر کے کم سے کم شرف قدم بوسی تو حاصل ہی کرلیتے۔ وہی مثل بارہ برس دہلی میں رہے اور ع سر جائے یار ہے نہ رہیں پر کہے بغیر۔ بھاڑ ہی جھونکتے رہے؟‘‘
میں نے بھی کچھ اس جلبلاہٹ سے جواب دیا جیسے اگر میرا بس چلتا تو غالب کو ان کی خواہش کے مطابق غرق دریا ہوجانے دیتا اور کچھ نہیں تو دہلی میں تو ان کا مزار ہرگز بننے نہ دیتا۔ ’’میں مرزا پر حاضر بھی ہوتا تو مرحوم تو قبر کے اندر تھے نہ کہ اوپر میں شرف قدم بوسی کیسے حاصل کر پاتا؟‘‘ کلیجہ پکڑ کر بولے، ’’ہے ہے! ع رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں۔ اجی آپ کو کیا خبر۔ پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے۔ شرار سنگ نے تربت پہ میری گلفشانی کی۔‘‘ میں خاموش رہا۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پھر گویا ہوئے، ’’کم سے کم از راہِ تعزیت آپ کو مرحوم کے بیوی بچوں کے پاس تو چلا ہی جانا چاہئے تھا ع۔ بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور۔‘‘
’’اب کسی روز آپ کو ساتھ لے کر چلا جاؤں گا۔‘‘ میرے جواب کو سنا ان سنا کر کے اچانک بڑبڑائے اور میری کتابوں کے گٹھر پر جو ابھی میز پر بڑی بے ترتیبی سے رکھا ہوا تھا جھپٹے، اور سب سےاوپر کی کتاب جو اتفاق سے دیوان غالب تھی اٹھا کر ’’جوش بہار جلوہ‘‘ بنتے ہوئے بولے، ’’یہ صحیفہ آپ کو کہاں سے دستیاب ہوا۔ ع۔ یادگار نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا۔ مدت کے بعد آج ایک مسلم دیوان غالب ہاتھ آیا ہے جو کسی طرح بھی مجھے مرغ مسلم سے کم عزیز نہیں۔ ع کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیان اور۔‘‘
’’بازار سے‘‘
’’بازار سے؟
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا؟
کیا بازار میں اس قسم کا بھی کلام بکتا ہے؟ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو سترہ اٹھارہ سال ہوئے میرے پاس بھی ایک مسلم دیوان غالب تھا جو میرے ایک رشتے کے نانا میرے گھر پر بھول گئے تھے۔ ع۔ کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا، لیکن خوش قسمتی سے ایک روز برخوردار جمن کی والدہ جو آگ جلانے بیٹھیں۔ ع۔ کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے، تو اس صحیفۂ زریں کو کچھ اس طرح پھاڑا کہ بس۔ ع۔ دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی۔ یعنی دیوان کا قریب قریب ہر مصرع اولیٰ اپنے مصرع ثانی سے جدا ہوگیا۔ وہ تو کہیے کہ بروقت میری نظر پڑگئی ورنہ۔ ع۔ آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا، کا مضمون درپیش آ جاتا۔ کیوں صاحب یہ لفظ خوش قسمتی پر آپ چونکے کیوں؟ جی ہاں۔ ع۔ اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا۔‘‘
میں نے اپنا پیٹ پکڑتے اور منھ بناتے ہوئے عرض کیا، ’’اس وقت پیٹ میں کچھ درد ہو رہا ہے۔ اگر یہ گفتگو آپ کسی دوسرے وقت کے لیے ملتوی کردیں۔۔۔‘‘ نادر شاہی حکم دیا، ’’اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے۔ میں اچھا نہ ہوا برا نہ ہوا۔ جی ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ اب جو والدہ محترمہ مطلب یہ کہ جمن کی والدہ محترمہ ان اوراق پریشاں کو جو کسی عاشق کا گریباں ہو چکے تھے، جوڑنے بیٹھیں تو ان کو کچھ ایسا جورڑدیا کہ فن غالبیات میں ایک نئے دور کا آغاز بلکہ اضافہ ہوگیا اور جس پر ناچیز اپنی عمر عزیز کے بارہ سال صرف کر چکا ہے اور اب بہت جلد دیوان غالب حسب ترتیب بالغ منظر عام پر جلوہ افروز ہو کر مشتاقان غالب اور قدر شناسان بالغ کے لیے جنت نگاہ اور فردوسِ گوش بننے والا ہے۔ محض مصرعوں کی تھوڑی سی الٹ پلٹ سے کلام کی لطافت، ظرافت، اور صداقت نہیں معلوم کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اور یقیناً اب مرزا غالب کو یہ فرمانے کاع۔ نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی، کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ کاش کہ وہ خود اس کو دیکھتے تو عش عش کر کے کفِ افسوس ملتے کہ ہائے خود مجھے یہ کیوں نہ سوجھی اور بلا امداد بالغ میں نے یہ پہیلی کیوں نہ بوجھی۔‘‘
سلسلۂ کلام یک طرفہ کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا، ’’نمونےکے طور پر صرف چند اشعار ملاحظہ ہوں۔ دیکھیے کس طرح دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے؟ ایک روز مجنوں اسکول سے روتا ہوا لوٹا تو اس نے اپنے گارجین مرزا غالب سے شکایت کی کہ اس کو ماسٹر نے بے قصور مارا ہے۔ مرزا غالب کا افراسیابی خون جوش میں آگیا اور وہ ماسٹر کے ’’پرزے اڑانے‘‘ اسکول پہنچے تو عین موقع واردات پر شاعر مل گیا اور انہیں سمجھاتا ہے کہ ماسٹر نے برخوردار مجنوں کو جو سزا دی، وہ بالکل حق بجانب تھی کیونکہ یہ صاحب زادے کوئلے سے اسکول کی دیوار خراب کرتے ہوئےپکڑے گئے تھے۔ نہ لڑنا صح سے غالب کیا ہوا گر اس نے شدت کی۔ کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوار دبستاں پر۔ ذرا خدا لگتی کہئے گا کہ اب شعر کی اخلاقی حیثیت کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے؟ عاشق کی عزت نفس کے متعلق غالب نےبہت سے اشعار کہے ہیں لیکن ذرا اس شعر کے تیور ملاحظہ فرمائیے۔ ایک دفتر میں کلرک ہوجانے کے بعد عاشق کے لہجے میں کیسی خود اعتمادی آ جاتی ہے۔
دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
ملاحظہ ہو کہ قرض کی شراب پی کر مرزا غالب ساقی کی دھر پٹخ سے بچنے کے لیے اس کو کس طرح کا پچکارا دیتے ہیں۔
قرض کی پیتے تھے مئے اور کہتے تھے کہ ہاں
دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
کون کہتا ہے کہ مرزا صاحب ناعاقبت اندیش تھے۔ دیکھیے کس طرح اپنے چھوٹے بھائی اسد کو مشورہ لینے کے بہانے نصیحت کرتے ہیں۔
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ مگر
فائدہ کیا سوچ آخر تو بھی دانا ہے اسد
اور غالباً یہ آپ کے مذاق کا شعر ہو۔ ذرا معشوق کی جلد بازی تو ملاحظہ ہو۔
زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا
جتنےعرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
اور معشوق کی تیز رفتاری تو غالباً اس سے بہتر کبھی بیان ہی نہیں کی جا سکی۔
تھان سے وہ غیرت صر صر کھلا
کس نے کھولا کب کھلا کیونکر کھلا؟
اور غالباً یہ شعر تو داد سے مستثنیٰ ہے۔ ساقی اس سے بڑھ کر مرزا صاحب پر اور احساس ہی کیا کرسکتا تھا۔
میں اور حظِ وصل خدا ساز بات ہے
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اور پھر معشوق کے بڑھاپے کی، جب وہ کئی بچوں کی ماں بن کر اپنے شوہر یعنی غالب کے پرانے رقیب کے ساتھ ’سب خیریت ہے‘ قسم کی زندگی بسر کر رہی ہے، کیا خوب تصویرکھینچ کر رکھ دی ہے۔
یقین ہے ہم کو بھی لیکن اب اس میں دم کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف، تو ستم کیا ہے؟
دیکھیے،
ظلم ہے گر نہ دو سخن کی داد!
”یہ سب مصرعے حضرت غالب ہی کے ہیں اور میں نے ان میں کسی قسم کی کوئی تحریف نہیں کی ہے صرف ذرا چابک دستی سے ان کی ترتیب میں تھوڑی سی الٹ پلٹ کردی ہے۔‘‘
میں نقش حیرت بنا یہ سب سن رہا تھا لیکن نہیں معلوم میرے ہاتھوں میں ایک خاص قسم کی تشنجی کیفیت کیوں پیدا ہو رہی تھی۔ بالغ صاحب کی روانی طبع کچھ اور تیز ہوچلی، ’’دیکھیے مرزا صاحب معشوق کو بہلا پھسلا کر اسےچھپ کر ملنےکے کیسے کیسے مقامات بتاتے ہیں؟ گرگ باراں دیدہ تھے کہ باتیں۔“
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
اور جگر تھام کر ذرا یہ شعر تو ملاحظہ فرمائیے۔
دل صاحب اولاد سے انصاف طلب ہے۔
آپ نے بہت سے معشوق دیکھے ہوں گے لیکن ایسا عاشق مارمعشوق بھی کبھی آپ کے پلے پڑا ہے؟
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منھ پر رونق
جی میں کہتے ہیں کہ ’’مفت آئے تو مال اچھا ہے‘‘
اور یہ شعر تو حاصل دیوان ہوکر رہ گیا ہے۔ پہلے شعر سن لیجیے پھر میں اس کے تفصیلات ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔
غیر سے رات کیا بنی یہ جو کہا تو دیکھیے
موج محیط آب میں مارے ہے دست و پا کہ یوں
اس کے بعد کیا ہوا؟ تفصیلات برطرف۔ ایک تہمد اور ایک بنیائن کی کچھ دھجیاں میرے حصے میں آئیں اور میرا رفیق دیوانِ غالب مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ فی الحال میں اسپتال میں ہوں اور بیوی بچے ہوٹل میں۔ الاٹمنٹ آفیسر کو درخواست دے رکھی ہے کہ مجھے کوئی ایسا مکان الاٹ کیجیے جس میں چاہے روشن دان۔ نابدان بلکہ چھتیں اور دیواریں تک نہ ہوں لیکن اس سے ایک میل کے قطر میں کوئی ماہر غالبیات نہ پایا جاتا ہو۔ ابھی تک ایک بھی ایسا کوئی مکان مل نہیں پایا ہے۔
واضح رہے کہ غالب اب بھی میرا محبوب ترین شاعر ہے بلکہ ماہرین اور شارحین کے ہاتھوں اس کی درگت بنتے دیکھ کر وہ مجھے پہلے سے بھی کہیں زیادہ عزیز ہوگیا ہے۔ بحمداللہ میں نے دیوان غالب کا ایک دوسرا نسخہ خرید لیا ہے اور غسل خانے میں جب بھی پانی ضرورت سے زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو میں اس کے اور صرف اس کے اشعار گنگناتا ہوں اور اکثر اس کی مظلومیت کا تصور کر کے یہ مصرع بھی پڑھ لیتا ہوں۔ ع۔ شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے۔
یہ متن درج ذیل زمرے میں بھی شامل ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.