گمشدہ کی تلاش
یہ اشتہار میں اپنے گم شدہ بھائی چنتا منی کے متعلق دے رہا ہوں۔ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی گم ہوگئے تھے، لیکن اس وقت میں نے اشتہار نہیں دیا تھا۔ کیونکہ میرا خیال تھا کہ موصوف خوددار آدمی ہے، اس لیے اس نے ضرور کنوئیں میں چھلانگ لگادی ہوگی۔ لیکن چھٹے دن وہ میلی چکٹ پتلون کے ساتھ گھر لوٹ آیا اور بقول ہمارے چچا کے ’’آخر تو ہمارا ہی خون تھا، کیوں نہ لوٹتا، خون نے جوش مارا ہوگا۔‘‘
ہمیشہ اجلی پتلون پہننے والا کب تک گھر سے باہر رہ سکتا تھا۔ خودی چاہے کتنی ہی بلند ہوجائے پتلون کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
مگر اس بار مجھے یقین ہے کہ موصوف لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کیونکہ وہ گھر سے دوسوروپے اٹھاکر لے گیا ہے۔ اس لیے اب اس کی رگوں میں ہمارا خون جوش نہیں مارے گا۔ اشتہار دینے کی ایک اور وجہ والدہ محترمہ ہیں، جو موصوف کو ابھی تک ’’نادان لڑکا‘‘ گردان رہی ہیں۔ میں نے لاکھ کہا کہ مادر مہربان! چنتا منی اب بیس برس کا ہوچکا ہے نادان نہیں رہا۔ وہ چہرے مہرے سے ہی گدھا دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے کافی کائیاں ہوچکا ہے۔
مگر والدہ محترمہ جس نے اس گدھے کو جنم دیا، اپنی تخلیق پر زیادہ مستند رائے رکھتی ہیں، اس نے مجھے طعنہ دیا، ’’دراصل تم چھوٹے بھائی کی غیرحاضری میں ساری آبائی جائداد کو تنہا ہڑپ کرنا چاہتے ہو۔‘‘
ہماری آبائی جائداد دوکمروں والا ایک مکان ہے جو ہم نے کرائے پر لے رکھا ہے یا پھر والد محترم کے قبضہ میں ایک بہی کھاتا ہے جس میں درج ہے کہ ہمارے خاندان کے پاس ڈیڑھ سو ایکڑ زمین ہے جس پر آج کل ایک دریا بہہ رہا ہے۔ والد محترم گزشتہ گیارہ برس سے اس دریا کے سوکھنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
اگرچہ والدہ محترمہ کے طعنہ کی بنیادیں دریابرد ہوچکی ہیں لیکن پھر بھی ایک فرماں بردار فرزند کے طور پر میں یہ اشتہار دینے پر مجبور ہوا ہوں۔
برادر عزیز چنتا منی کی تصویر مجھے نہیں مل سکی ورنہ اس اشتہار کے ساتھ ضرور چھپواتا۔ دراصل اس کے جتنے فوٹو تھے وہ اس نے اپنی وقتاً فوقتاً قسم کی محبوباؤں میں بانٹ دیے تھے۔ پوچھنے پر چنتامنی کی ہر محبوبہ نے جواب دیا کہ اس کے پاس چنتا منی کی فوٹو تھی، وہ اس نے رسوائی کے خوف سے ضائع کردی ہے۔ ایک محبوبہ تو اتنی صاف گو نکلی کہ اس نے تنک کر جواب دیا، ’’میں نے شادی ہوتے ہی چنتا منی کی وہ فوٹو لوٹادی تھی اور آج کل بٹوے میں اپنے خاوند کا فوٹو رکھتی ہوں۔‘‘
چنانچہ فوٹو دستیاب نہ ہونے کے باعث مجبوراً میں اپنا ہی فوٹو اس اشتہار کے ساتھ شائع کر رہا ہوں۔ اس کے باوجود گم شدہ میرے بھائی کو سمجھاجائے، مجھے نہیں۔
والد اور والدہ محترمہ دونوں کی متفقہ رائے ہے کہ چنتا منی کی ناک تم سے ملتی ہے، اس لیے پہچاننے میں آسانی رہے گی۔ ہمارے نانا مرحوم کی ناک بھی تم دونوں نواسوں سے ملتی تھی اور وہ بھی گھر سے بھاگ گئے تھے (عجیب ناک ہے، نانا کے وقت سے کٹ رہی ہے) بہرکیف فوٹو میں میری ناک حاضر ہے۔ ناک کے علاوہ میرے جتنے اعضا ہیں وہ میرے ذاتی ہیں۔ برادر عزیز چنتامنی کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔
برادر موصوف چنتامنی کے باقی ناک نقشہ کے متعلق پوزیشن یہ ہے کہ اس کا رنگ بچپن میں دودھ کی طرح گورا تھا (ان دنوں وہ صرف ماں کا دودھ پیا کرتا تھا) لڑکپن میں وہ دودھیا رنگ گندمی ہوتا گیا، کیونکہ اس نے گندم کھانا شروع کردی تھی۔ جوان ہوتے ہی رنگ کا میلان سیاہی کی طرف ہوگیا، نہ جانے جوانی میں چوری چھپے اس نے کیا کھانا شروع کردیا تھا۔ البتہ جب والد محترم اسے ہیبت ناک قسم کی گالیاں اور بھبکیاں دیا کرتے تو لمحہ بھر کے لیے اس کا رنگ پیلا بھی پڑ جاتا تھا۔ گویا چنتامنی بڑا رنگا رنگ آدمی تھا (خدا اسے ہر رنگ میں خوش رکھے۔)
آنکھیں بڑی بڑی مگر گونگی قسم کی، جیسے کوئی حسینہ بغیر بیاہ کے بیوہ ہوگئی ہو۔ کئی بار میں نے اسے مشورہ دیا، ’’ارے پگلے! ان پر کالا چشمہ لگالے، بات بن جائے گی۔‘‘ مگر وہ نہیں مانا۔ ایک بار میں نے اپنی بیوی کی آنکھ بچاکر اپنا چشمہ اسے دے بھی دیا مگر وہ اس نے ایک دوست کو دے دیا۔ دوست نوازی میں تو وہ بے مثال تھا۔
والد محترم اسے دوست نوازی پر ہمیشہ چھڑی سے پیٹا کرتے تھے اور اس پٹائی کو وہ کمال صبر و شکر سے سہ لیتا تھا۔ صبر و شکر میں بھی بے مثال تھا۔ والد محترم نہایت فخر سے کہا کرتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی شریف اور صابر لڑکا پیدا کیا ہے اور وہ چنتامنی ہے۔ بزرگوں کے سامنے چوں تک نہیں کرتا۔ آہ اس کے بھاگنے کے بعد اب ان بزرگوار کی چھڑی کسی کام نہیں آرہی۔
چنتامنی کی پیشانی پر ایک داغ ہے۔ ایک بار وہ چھت پر کھڑا ایک لڑکی کو گھور رہا تھا۔ لڑکی مذکورہ نے جواباً ایک اینٹ دے ماری۔ اگرچہ چنتامنی نے اس خشت محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا مگر بعد میں اس ناشائستہ لڑکی نے اپنی سہیلیوں سے ذکر کردیا تو بات پھیل گئی اور اس ڈاکٹر تک بھی جاپہنچی جس نے علاج کا بل ایک دم یہ کہہ کر بڑھادیا کہ اینٹ کا زخم زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
چنتامنی کے جسم کے باقی حصے صحیح سلامت ہیں۔ وہ ایک مضبوط الجثہ نوجوان ہے۔ غلہ کی بوری اٹھاکر تین میل تک چل سکتا ہے۔ ممکن ہے وہ اس وقت بھی کسی غلہ منڈی میں بوریاں اٹھانے کا کام کر رہا ہو اور منڈی کے بیوپاری اسے نہایت قلیل اجرت دے رہے ہوں۔ کیونکہ چنتامنی کو بھاؤ تاؤ کرنا نہیں آتا۔ اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ سوائے خاموش رہنے کے۔ سوائے ستم سہنے کے۔ مگر میں بیوپاریوں کومشورہ دوں گا کہ وہ اس ستم پسندی کا زیادہ استحصال نہ کریں، ورنہ وہ ان کے ہاں سے بھی بھاگ جائے گا۔ کیونکہ بھاگنے کے لیے اس کے پاس پاؤں موجود ہیں۔ چنتامنی کی زبان کام نہیں کرتی، پاؤں کام کرتے ہیں۔
چنتامنی جب گھر سے بھاگا تو اس کے تن پر صرف تین کپڑے تھے۔ ایک پتلون (جو میری تھی) ایک دھاری دار قمیص جس سے وہ بے حد نفرت کرتا تھا مگر پھر بھی پہنے پھرتا تھا اور ایک بنیان جو اس نے بڑے چاؤ سے خریدی تھی۔ یہ بنیان کبھی کبھی والد صاحب بھی پہن لیا کرتے تھے، جو انہیں فٹ نہیں آتی تھی مگر وہ کہا کرتے تھے کہ اگر باپ اپنے بیٹے کا بنیان پہن لے تو دونوں کا محبت کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ جس دن چنتامنی بھاگا، اس دن رشتہ استوار کرنے کی باری چنتامنی کی تھی۔ اس لیے بنیان بھی اسی کے بدن پر تھی اور والد صاحب اس بنیان کے لیے زاروقطار روتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کاش! یہ بنیان میرے پاس ہوتی تو میں اسے آنکھوں سے لگاکر تسکین حاصل کرلیتا۔
چنتامنی کیوں بھاگا؟ اس کے متعلق مورخین کی آراء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ والد محترم یعنی ابوالچنتامنی کا خیال ہے کہ لڑکا شادی کا خواہش مند تھا مگر اسے دور دور تک شادی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مگر عم الچنتامنی یعنی چچا جان اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ چنتا سرے سے شادی سسٹم کے ہی خلاف تھا اور برہم چریہ میں یقین رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ ایک ذمہ دارانہ سوجھ بوجھ کا مالک تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی دو بہنیں ابھی تک کنواری بیٹھی ہیں۔ یعنی برہم چریہ کے لیے اس کے پاس ٹھوس وجہ موجود تھی۔۔۔ تیسرے مورخ ام الچنتامنی یعنی والدہ محترمہ کی رائے چچا جان سے کسی حد تک ملتی ہے، صرف اس ترمیم کے ساتھ کہ بہو (یعنی میری زوجہ) نے ہی اسے یہاں سے فرار ہونے میں مدد دی ہے۔
خود بہو بھی اس قسم کی ایک الگ رائے رکھتی ہے۔ یعنی جو ساس کہے اس کے الٹ۔
اشتہار دینے سے دو دن پہلے مؤرخین میں ایک خوفناک لفظی جنگ ہوئی۔ میں نے والد محترم پر الزام لگایا کہ آپ نے ہی چنتامنی کو بگاڑ دیا تھا اور اسے ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ، ’’اے منحوس! کب تک بڑے بھائی کے ٹکڑوں پر پلتا رہے گا۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھ۔‘‘ اور اس طرح آپ نے دوبھائیوں کے درمیان نفرت کی خلیج حائل کردی تھی۔۔۔ اس پر والدہ محترمہ میری مدد کو آئیں اور بولیں، ’’اس بڈھے کا شروع سے یہی وطیرہ رہا ہے۔ یہ میں ہی تھی کہ اس بڈھے کے ساتھ تیس سال کاٹ گئی۔‘‘ (بڑھیا بڈھا آئندہ بھی ایک ساتھ زندگی کاٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔)
یہ سن کر ہماری بڑی بہن جو ایک اسکول کی استانی ہے، باپ کی حمایت پر اتر آئی اور بولی، ’’پتاجی بجا فرماتے ہیں کہ آج ڈیموکریسی کا زمانہ ہے۔ ملک میں صنعتی ارتقا ہو رہا ہے، اس لیے پرانے طرز کے مشترکہ خاندان کا ڈھانچہ قائم رکھنا رجعت پسندی ہے۔ ایک نوجوان لڑکے کومجبور کرنا کہ وہ مشترکہ کنبے کی جکڑبندیوں میں رہے، عاقبت نااندیشی ہے۔ پتاجی ٹھیک کہتے ہیں۔ دیش کے ہر نوجوان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے۔ اور میں تو کہتی ہوں چنتا منی اس ملک کا پہلا باغی ہے جو قدامت کی زنجیر توڑتاڑ کر چلا گیا۔ ہپ ہپ ہرے۔‘‘
بڑی بہن ماڈرن ذہن رکھتی ہے۔ وہ ماڈرن اور قدیم زمانے کے درمیان لٹکی ہوئی ابھی تک کنواری بیٹھی ہے اور شاید وہ اسی طرح سائنٹفک بنیادوں پر پھر شادی نہ کرے۔ اگرچہ میں نے اس کا تکیہ کئی بار آنسوؤں سے بھیگا ہوا دیکھا ہے مگر آنسوؤں کے باوجود وہ صنعتی ارتقا کا دامن نہیں چھوڑتی۔ اس نے کئی ا میدواروں کے ساتھ منگنی کرنے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ وہ صنعتی ارتقا میں ادھورا یقین رکھتے تھے۔
بڑی بہن کی یہ بات سن کر والدہ محترمہ بھڑک اٹھیں اور دیوار کی طرف منہ کرکے بولیں، ’’یہ بہن ہے یا ڈائن! چار لفظ پڑھ گئی تو اپنے بھیا سے پیار کرنا چھوڑبیٹھی۔‘‘
والدہ محترمہ نے یہ الفاظ اس احتیاط سے کہے تاکہ بڑی بہن کے کان میں نہ پڑیں۔ کیونکہ بڑی بہن اپنی بیشتر تنخواہ کنبے پر خرچ کرتی ہیں۔ لیکن چھوٹی بہن شیطان ہے۔ اس نے یہ الفاظ بھی سن لیے اور بولی، ’’ماں! کیا بہن بھائی کی محبت کا شور مچائے جارہی ہو۔ بہن کس سے محبت کرے؟ چنتا منی سے؟ جس نے تھرڈ کلاس میں میٹرک پاس کی تھی۔ میں کہتی ہوں یاد ہے وہ وقت جب چنتامنی کو کالج میں داخل کرنے کا سوال اٹھا تھا، تو اسی بڑی بہن نے جو آج بڑھ چڑھ کر اسے باغی ہیرو بنارہی ہے، اس کے کالج کا خرچہ اٹھانے کی شدید مخالفت کی تھی۔۔۔ اور تم نے بھی کہا تھا کہ اسے کریانہ کی دوکان کھول دو۔‘‘
ہماری یہ بہن خود بھی میٹرک میں فیل ہوگئی تھی اور اب سلائی مشین کا کام سیکھ رہی ہے۔ مؤرخین کی اس جنگ کے بعد بڑی بہن نے اعلان کردیا کہ وہ چھوٹی بہن کے سلائی اسکول کی فیس ادا نہیں کرے گی۔ (لہٰذا اس کی فوراً شادی کرادو)
قارئین! مجھے انتہائی افسوس ہے کہ چنتامنی کی خاطر مجھے اپنے کنبہ کی اندرونی حالت ظاہر کرنا پڑی اور باعزت کنبے کے لیے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ لیکن پورا پس منظر دیے بغیر چنتامنی کی تلاش ناممکن ہے، بہرکیف مؤرخین کے ان شدید اختلافات کی موجودگی میں وثوق سے کہنا ناممکن ہے کہ چنتامنی کیوں بھاگا؟ بیکاری، بیزاری، کنوارپن، کند ذہنی، پٹائی، ڈیموکریسی، صنعتی ارتقا، برہم چریہ، قربانی، بے وقوفی۔۔۔ ان میں سے کوئی ایک وجہ بھی ہوسکتی ہے یا ساری وجہیں بھی ہوسکتی ہیں۔ شاید چنتامنی ان تمام وجہوں کو اپنے ذہن میں پالتا رہا، پالتا رہا اور اس دن یہ تمام وجہیں منزل مقصود کو پہنچ گئیں جب اچانک دوسورپے اس کے ہاتھ لگ گئے۔
یہ دو سورپے میرے ایک دوست کی امانت تھے اور اب اس نے مجھ پر مقدمہ کر رکھا ہے۔
عزیز چنتامنی کی تلاش میں ہم نے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ ریلوے اسٹیشنوں پر ڈھونڈا، جیل خانے چھانے، جوئے خانوں میں گئے، فلم کمپنیوں سے پوچھا۔ میری ماں درختوں سے پوچھتی پھری۔ والد محترم نے مختلف ریل گاڑیوں پر سفر کیا لیکن چنتامنی جیسے ایک خدا تھا کہ کہیں نہیں ملا۔
تھک ہار کر ہم نے جیوتشیوں اور نجومیوں کا رخ کیا۔ ایک نجومی نے بتایا کہ وہ مشرق کو گیا ہے۔ دوسرے نے کہا، شمال کی طرف گیا ہے۔ ہم دونوں سمتوں میں گئے کیونکہ ہم نے دونوں کو فیس ادا کی تھی۔ ایک اور جیوتشی نے بتایا کہ ایک کتا بھی اس کے ساتھ ہے۔ ہم نے یہ بات بھی مان لی۔ کیونکہ ہمارے محلہ کا ایک کتا بھی اسی دن سے غائب ہے، جس دن سے چنتامنی۔ نہ جانے کتے کو کیا سوجھی کہ بھاگ گیا۔ حالانکہ اس محلے میں وہ بڑے نازونعم سے زندگی گزار رہا تھا۔ والد محترم کا خیال ہے کہ کتا ایک وفادار جانور ہے۔ ضرور اس کے ساتھ گیا ہوگا۔ مگر چچا جان کا بیان ہے کہ کتے کو کمیٹی والے زہر دے کر گھسیٹ لے گئے ہیں۔
ایک جیوتشی نے ہمیں ایک منتر پھونک کر دیا اور کہا کہ اسے آدھی رات کے بعد کسی قبرستان میں دفن کرآؤ۔ اس منتر کی طاقت سے چنتامنی کھنچا چلاآئے گا۔ چنانچہ میں ایک ڈاکو کو ہمراہ لے کر قبرستان میں اس منتر کو دفن کرآیا (بعض ڈاکو بڑے انسان دوست ہوتے ہیں۔) لیکن چنتا منی پر اس منتر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ بعد میں جیوتشی مذکور سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس منتر کے دو قسم کے اثر ہوتے ہیں۔
نمبر ایک، بھگوڑا مضطرب ہوکر گھر لوٹ آتا ہے۔ نمبر دو، بھگوڑا تنگ آکر خودکشی کرلیتا ہے۔
شاید چنتامنی پر دوسرا اثر ہوا۔ (مگر ہاے چنتامنی! تمہاری ماں یہ ماننے پرتیار ہی نہیں ہوتی۔)
ایک خدا رسیدہ پاگل عورت نے، جس کے اندر کالی دیوی کا نواس ہے اور جو ہر منگلوار کو بال کھول کر ’’کھیلتی‘‘ ہے یہ بتایا کہ لڑکا زندہ ہے۔ مگر اس کے من پر بوجھ ہے۔ اس کا اتارا کرو اور کالی کتیا کو ہر روز کالے باجرہ کی روٹی اور سفید مکھن کی ٹکیہ کھلایا کرو۔ چنانچہ یہ حرام خور کتیا گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ہمارے ہاں گلچھرے اڑا رہی ہے اور کھا کھا کے سارے محلہ پر بھونکتی رہتی ہے مگر احتراماً کوئی زبان تک نہیں ہلاتا۔
اشتہار ختم کرنے سے پہلے ایک طوطے کا ذکر خالی ازدلچسپی نہیں رہے گا کہ ایک ماہر نجوم کی ہدایت پر ہم نے بازار سے ایک طوطا خریدا۔ آج کل گم شدگیوں کی وارداتیں زیادہ ہونے کے باعث طوطوں کا بھاؤ بے حد بڑھ گیا ہے بلکہ اعلیٰ نسل کے طوطے تو ملتے ہی نہیں (بلیک میں مل جاتے ہیں) اور صرف پھٹیچر طوطے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ چنانچہ ہم نے پندرہ روپے میں ایک مجنوں قسم کا طوطا خریدا۔ اسے پھل اور میوے کھلا کھلاکر اڑانے کے قابل بنایا۔ اور پھر مندرجہ ذیل چٹھی پر اس ماہر نجوم نے پھونک ماری اور طوطے کے گلے میں باندھ دی۔ چٹھی یوں تھی،
اڑجا طوطے، کھاکر غوطے، واہ رے تیرے بل بوتے
چنتامنی سے جاکر کہہ دے ارے سب ہیں روتے
تیرے سارے ہوتے سوتے۔
طوطے کو دور جنگل میں لے جاکر فضا میں اڑا دیا اور مطمئن ہوکر گھر لوٹ آئے۔ گھر لوٹے تو طوطا پھر گھر میں موجود۔ ہم نے پوچھا، ’’میاں مٹھو! کیا ہوا؟‘‘ وہ بولا، ’’پستہ کھاؤں، پستہ کھاؤں۔‘‘
ہم نے اس نابکار کو مزید پستہ کھلانا مناسب نہ سمجھا اور تنگ آکراس بے وفا جانور کو اسی طوطا فروش کے ہاں آدھے دام پر واپس دے آئے۔
قارئین کرام! ہماری یہ تمام کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ چنتا منی ہمیں کتنا عزیز ہے۔ اس لیے ملک بھر کے تمام بہن بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اگر چنتامنی کو کہیں دیکھیں تو سیدھے ہمارے ہاں لے آئیں۔ خدمت خلق کا تقاضہ تو یہ ہے کہ یہ کام مفت کیا جائے لیکن زمانہ چونکہ صنعتی ارتقا کا ہے، اس لیے خدمت خلق کا تقاضا واجب معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا ہم بطور انعام کچھ گپت دان ضرور پیش کریں گے۔ آنے جانے کا کرایہ بھی دیں گے، بشرطیکہ سفر تھرڈ کلاس میں کیا جائے۔
اور چنتامنی خود اس اشتہار کو پڑھے تو گھر چلا آئے۔ میں یہ کہہ کر چنتامنی کو پریشان نہیں کرنا چاہتا کہ اس کی ماں بسترمرگ پر پڑی ہے یاوالد محترم نے کھانا پینا ترک کر رکھا ہے۔ نہیں، یہاں سب خیریت ہے۔ سارے کنبہ کی حالت بدستور اچھی ہے۔ والد صاحب کو کھانا بدستور ہضم ہوجاتا ہے۔ ماں بھی پڑوسنوں سے ہر روز لڑتی ہے۔ اس لیے چنتامنی کو بے خوف ہوکر گھر آجانا چاہئے تاکہ کم از کم ہم اس کالی کتیا کو تو گھر سے باہر نکال سکیں۔
’’چنتامنی جلدی آؤ بھیا! ورنہ وہ اگر دوسوروپے سارے کے سارے خرچ ہوگئے تو تمہارے واپس آنے کا کوئی فائدہ نہ رہے گا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.