حماقت
جب کالج میں پڑھتے تھے اور دوستوں اور رشتہ داروں کی ازدواجی زندگی کو قریب سے دیکھتے تھے تو سوچا کرتے تھے کہ زندگی میں بڑی سے بڑی حماقت کریں گے لیکن شادی نہیں کریں گے۔ یہ خیال اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے۔ جب آئے دن بڑے بھائی صاحب اور بھاوج میں نوک جھونک سننے کاموقع ملتا۔ آج بھاوج اس لئے ناراض ہیں کہ بھائی صاحب پانچ بجے کی بجائے سات بجے دفتر سے واپس آ ئے۔ آج اس لئے بگڑ رہی ہیں کہ وہ اکیلے سنیما دیکھنے کیوں گئے تھے اور کبھی اس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے کہ وہ عورتوں کو مردوں کی بہ نسبت بیوقوف سمجھتے ہیں۔
جب کبھی بھاوج اپنی سہیلیوں کے ساتھ کسی جلسے میں شرکت کرنے جاتیں اور منے کو سنبھالنے کا فرض بھائی صاحب کے ذمہ ہوتا، اس وقت ان کی حالت نہایت قابل رحم ہوتی۔ منا ہے کہ بے تحاشا چلائے جا رہا ہے۔ وہ اسے چپ کرانے کے لئے لاکھ جتن کر رہے ہیں مگر منا کمبخت مانتا ہی نہیں۔’’منے وہ دیکھووہ طوطا۔ کتنا اچھا طوطا ہے، ہے نا منا؟ دیکھو اس کی چونچ کتنی اچھی ہے۔۔۔ اچھا بابا! اچھا، طوطا پسند نہیں۔ وہ چڑیا دیکھو کتنی خوبصورت ہے۔ چوں چوں کرتی ہے، کرتی ہے نا؟ کتنی اچھی چڑیا ہے۔ چھوٹی سی، چوں چوں کرتی ہے۔ چوں، چوں، چوں! دیکھو منے دیکھو!‘‘
لیکن منا نہ طوطے کی طرف دیکھتا نہ چڑیا کی طرف بلکہ منہ بنائے لگا تار روئے چلا جاتا۔ حتیٰ کہ بھائی صاحب کو غصہ آ جاتا اور وہ چیخ کرکہتے، چپ بھی کر شیطان، کرتا ہے یا نہیں؟ لگاؤں ایک تھپڑ! ’’تھپڑ کا نام سنتے ہی منا اتنے شور سے رونے لگا جیسے بیک وقت اسے کئی بچھوؤں نے کاٹ کھایا ہو۔ ایسے اور اس قسم کے مناظر دیکھ کر ہم دعا مانگا کرتے تھے کہ خدا شادی سے ہر شخص کو محفوظ رکھے۔
ایم اے کرنے کے بعد کالج میں ملازمت مل گئی تھی۔ کوچہ بلی ماراں کے نکڑ پر ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا۔ جس میں ایک معمولی درجے کا صوفہ تھا۔ دو تین کرسیاں، چند دلچسپ کتابیں، ایک پالتو کتا اور ایک وائلن۔ پڑھتے پڑھتے اکتا گئے تو کتے سے کھیلنے لگے، کتے کی شرارتوں سے تنگ آ گئے تو وائلن بجانا شروع کر دیا۔ کھانا ایک متوسط درجے کے ہوٹل سے کھاتے تھے اورہر چند کہ کھانا ہر قسم کا ہوتا تھا کہ بسا اوقات محسوس ہوا جیسے ہم کھانے کو نہیں، کھانا ہمیں کھائے جا رہا ہے۔ پھر بھی خدا کا شکر بجا لاتے تھے کہ اس کھانے سے بہتر ہے جو ہزاروں بیویویاں اپنے خاوندوں کو آئے دن کھلاتی ہیں۔
بڑے آرام سے زندگی گذر رہی تھی۔ مگر وہ جو کسی نے کہا ہے چرخ کج رفتار کسی کوچین سے نہیں رہنے دیتا۔ وہی معاملہ ہوا۔ ہمارے خاندان میں ایک بزرگ تھے، جنہیں ہر کنوارے آدمی سے چڑ تھی۔ ان کا تکیہ کلام تھا، ’’اکیلے آدمی کی بھی کیا زندگی ہے۔‘‘ عقیدہ ان کا یہ تھا کہ اگر انسان دو تین شادیاں نہ کر سکے تو کم از کم ایک تو ضرور کرے۔ یہ بزرگ ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ وقت بے وقت انہوں نے ہمیں یہ ذہن نشین کرانا شروع کر دیا کہ شادی نہ کر کے ہم ایک گناہ عظیم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ جب کبھی ملتے کسی فلسفی یا سر پھرے کا حوالہ دے کر فرماتے، ’’حکیم چن چان چون نے لکھا ہے کہ جو شخص شادی نہیں کرتا وہ فرشتہ ہے یا پاگل۔ امریکہ کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ وہ شخص زندگی میں کبھی باپ نہیں کہلا سکتاجس نے شادی نہیں کی۔‘‘
ہم متانت سے عرض کرتے کہ بہر حال ہمارا شادی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ ہم شادی کو اچھی خاصی مصیبت سمجھتے ہیں۔ ہفتہ عشرہ کے بعد بزرگ سے پھر ملاقات ہوتی اور وہ چھوٹتے ہی پھر شادی کا ذکر چھیڑ دیتے، ’’میرے ایک دوست ریٹائرڈ مجسٹریٹ ہیں۔ ان کی صاحبزادی ایم اے ہیں۔ نہایت شریف لڑکی ہے۔ رنگ ذرا سانولا ہے لیکن جہیز معقول ملے گا۔‘‘
’’میرے ایک دوست کے دوست ٹھیکیدار ہیں۔ ان کی بھتیجی بی اے، بی ٹی ہیں۔ گورنمنٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں۔گانا جانتی ہیں لیکن ناچنا نہیں، پاؤں میں نقص ہے جہیز میں کم از کم بیس ہزار۔‘‘ ہم ان کی بات کاٹ کر کہتے، ’’ہمیں بیوی کی ضرورت ہے نہ جہیز کی۔ آپ کسی اور سے بات کر لیجئے۔‘‘ بزرگ برابر فرماتے جاتے، ’’آپ کو دونوں کی ضرورت ہے لیکن خدا جانے آُ پکی عقل پر کیوں پردہ پڑ گیا ہے کہ آپ ایک کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔‘‘
ایک دن ہم بیمار پڑ گئے۔ بزرگ تیمار داری کو آئے۔ اس دن انہوں نے ’’شادی کی ضرورت‘‘ پر کچھ اتنے موثر انداز میں لیکچر دیا کہ ہمیں ان پر ایمان لانا ہی پڑا۔ کہنے لگے، ’’دیکھا، یہ حال ہوتا ہے غیر شادی شدہ کا۔ درد سے کراہ رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خدا نخواستہ یونہی لیٹے لیٹے آپ پر نزع کی حالت طاری ہو جائے۔ ہمارا مطلب ہے اگر یک لخت دل کی حرکت بند ہو جائے تو آپ وصیت بھی نہ کر سکیں گے۔ بیوی پاس ہوتی، کم از کم آپ کی وصیت تو لکھ لیتی۔ سچ کہا ہے حکیم فل فل دراز نے ’’اکیلے آدمی کی بھی کیا زندگی ہے۔‘‘ ذرا اپنے کمرے کا نقشہ ملاحظہ فرمائیے۔ کتابیں بے ترتیبی سے بکھری پڑی ہیں۔ تکئے کا غلاف حد سے زیادہ میلا ہے۔ کرسیاں گرد سے اٹی پڑی ہیں۔ فرش کا برا حال ہے۔ بیوی ہوتی تو بخدا اس گھر کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔‘‘
دو ہفتے بیمار رہنے کے بعد جب تندرست ہوئے تو ہم واقعی محسوس کرنے لگے کہ اکیلے آدمی کی زندگی کوئی زندگی نہیں۔ چنانچہ اب جو بزرگ سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے حسب معمول کہا، ’’میرے ایک دوست ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہیں۔ ان کی لڑکی ایف اے فیل ہے۔ بڑی ذہین لڑکی ہے۔ قد ذرا۔۔۔‘‘
تو ہم نے فوراً کہا، ’’قطع کلام معاف! ہمیں منظور ہے۔‘‘
بزرگ نے کرسی میں اچھلتے ہوئے فرمایا، ’’بخدا زندگی میں پہلی بار تم نے عقل سے کام لیا ہے۔‘‘
شادی ہو گئی اور گھر کا نقشہ بدلا جانے لگا۔ پرانے صوفے کی جگہ جہیز میں آئے ہوئے نئے صوفے نے لے لی۔ ٹوٹی ہوئی کرسیاں نیلام گھر بھجوا دی گئیں۔ آتشدان پر پہلی بار گلدستے رکھے گئے۔ ردی کے ڈھیر باہر پھینکوائے گئے۔ فرش کو مل مل کر دھویا گیا۔ غرضیکہ درو دیوار کی صورت بدل ڈالی گئی۔ اس نئے ماحول میں مسرت اور سکون کا ملا جلا ایسا دلکش احساس تھا کہ ہمیں اپنے پر رشک آنے لگا۔ شروع شروع میں شریمتی جی اس سلیقے اور شرافت سے پیش آئیں کہ آدرش ہندو بیویوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ اگر نہانے کے لئے پانی طلب کیا تو فوراً گرم پانی مہیا کیا گیا۔ اگر صرف چائے کا مطالبہ کیا تو چائے اور ٹوسٹ حاضر کئے گئے۔ اگر پاؤں دبانے کو کہا تو وہ پاؤں کیساتھ سر بھی دبانے لگیں مگر جوں جوں وقت گزرتا گیا معلوم ہوا کہ شریمتی جی وہ نہیں ہیں جو نظر آتی ہیں۔ تین چار ماہ کے بعد محسوس ہوا کہ؛
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا دور ہے ساز بدلے گئے
شریمتی جی بات بات پر سیخ پا ہونے لگیں۔ ایک دن صبح کے وقت ہم وائلن بجا رہے تھے کہ انہوں نے ساتھ والے کمرے سے چلا کر کہا، ’’بند بھی کیجئے۔ یہ ٹروں ٹروں سنتے سنتے کان بھی پک گئے۔‘‘ ہم نے عرض کیا، ’’یہ ٹروں ٹروں نہیں، بھیرویں کا الاپ ہو رہا ہے۔‘‘ وہ ہمارے قریب آ کر بولیں، ’’ہوگا بھیرویں کا الاپ لیکن اسے ختم کیجئے۔ مجھے اس شور و غل سے وحشت ہونے لگتی ہے۔‘‘
دو ایک دن بعد ایک نیا جھگڑا کھڑا ہو گیا۔ شریمتی جی کہنے لگیں، ’’آپ کے اس نگوڑے کتے نے ہماری بلی کا دم ناک میں کر رکھا ہے۔ ایک منٹ چین نہیں لینے دیتا۔ اسے یا تو خود کہیں چھوڑ آئیے ورنہ میں اسے گھر سے نکال دوں گی۔‘‘ ہم نے بڑی عاجزی سے کہا، ’’شریمتی جی ہم نے مانا کہ آپ کو اپنی بلی بہت عزیز ہے کہ آپ اسے میکے سے ساتھ لائی تھیں لیکن یہ بھی سوچئے کہ ہمارا کتا بھی ہمیں کم عزیز نہیں۔ یہ ہمارا اس زمانے کا ساتھی ہے جب ہم بالکل بے یار و مدد گار تھے۔‘‘
’’ہوگا آپ کا ساتھی۔‘‘ انہوں نے چمک کر کہا، ’’لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری بلی پر ناجائز رعب جماتا پھرے۔‘‘
ہم نے شرارتاً عرض کیا، ’’آپ ہم پر رعب جماتی ہیں۔ اگر ہمارے کتے نے آپ کی بلی پر رعب جما لیا تو کیا مضائقہ ہے۔‘‘
انہوں نے مزاح کے پہلو کو نظر اندا فرماتے ہوئے جواب دیا، ’’مجھے اس کی حرکتیں سخت نا پسند ہیں۔ خیریت اسی میں ہے کہ اسے کہیں چھوڑ آیئے۔‘‘
ایک عجیب بات جو شریمتی جی میں دیکھی یہ تھی کہ انہیں ہر چیز سے نفرت تھی جو ہمیں پسند تھی۔ اگر ہمیں مطالعہ مرغوب تھا تو انہیں کشیدہ کاری۔ اگر ہمیں ٹماٹر پسند تھے تو انہیں کریلے۔ ہم شیکسپیئر پر جان دیتے تھے تو وہ کالی داس پر۔ حساب لگا کر دیکھا کہ جو چیز ہمیں پسند ہے وہ شریمتی جی کو بالکل پسند نہیں۔ خاص طور پر شریمتی جی کو ہمارے’’مجامین‘‘ سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ گھنٹے کی مغز پچی کے بعد جب ہم ایک اچھا مضمون لکھتے اور داد طلب نگاہوں سے ان سے سننے کی فرمائش کرتے تو وہ ناک بھوں چڑھا کر کہتیں، ’’مضمون بعد میں سنا لیجئے گا، پہلے ہماری بلی کو کسی اچھے ویٹرنری ڈاکٹر سے دکھا لایئے۔ بیچارے کو پرسوں سے زوروں کی کھانسی ہو رہی ہے۔‘‘ ان حالات میں ہم خاک مضمون سناتے دانت پیس کر رہ جاتے۔
خیر یہ سب تو زمانہ ماضی کی باتیں ہیں۔ اب جبکہ ہماری شادی کو بیس برس ہو گئے ہیں او رہم نے صرف ایک بیوی کے خاوند بلکہ نصف درجن بچوں کے والد بزرگوار بھی ہیں۔ حالت اور بھی دگر گوں ہے۔ ہم نے سمجھا تھا کہ کچھ عرصے کے بعد شریمتی جی کے مزاج میں سنجیدگی آجائے گی۔ لیکن معلوم ہوا کہ یہ محض ہمارا وہم تھا۔ ان دنوں یہ کیفت ہے کہ شاید ہی کوئی دن ہوتا ہوگا جب ایک آدھ جھڑپ نہیں ہوتی اور کئی بار تو ایک ہی دن میں کئی جھڑپیں ہو جاتی ہیں۔
ہم تھکے ماندے شام کے چار بجے کالج سے واپس آئے۔ شریمتی جی ایک جاسوسی ناول پڑھ رہی ہیں۔ ہم نے بڑی مدھم آواز میں کہا، ’’بہت پڑھ لیا اب اٹھئے،چائے کا انتظام کیجئے۔‘‘ انہوں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے ناول کا مطالعہ جاری رکھا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد ہم نے پھر کہا، ’’چھوڑیئے بھی اب اسے پھر کسی وقت پڑھ لیجئے گا۔ اس بار انہوں کے خشم آلو دنگاہوں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا‘‘، ’’واہ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ابھی ابھی تو کہانی کا لطف آنے لگا ہے، چھوڑ کیسے دوں۔‘‘
’’خاک لطف آنے لگا ہے، ہوتا ہی کیا ہے ان ناولوں میں۔‘‘
’’واہ! ہوتا کیوں نہیں۔ ڈاکو پانچواں قتل کر کے بھاگ گیا ہے۔ پولیس جیپ میں بیٹھ کر تعاقب کر رہی ہے۔ سارے شہر میں کہرام مچا ہوا ہے۔ بیچارہ سراغرساں پریشان ہے اور آپ کہتے ہیں کچھ ہو ہی نہیں رہا۔‘‘
چند منٹ بعد ہم نے پھر ان کی توجہ چائے کی طرف دلائی۔ وہ بدستور ناول پڑھتی رہیں۔آخر تنگ آ کر ہم نے کہا، ’’خود غرضی کی حد ہو گئی۔ یہاں چائے بغیر دم نکلا جا رہا ہے لیکن ہے کسی کو خیال۔‘‘
’’جی ہاں اور آپ کم خود غرض ہیں نا!‘‘ انہوں نے طنز کا بھر پور وار کرتے ہوئے فرمایا، ’’یاد ہے پرسوں کہا تھا سنیما لے چلئے، اور ٹکا سا جواب دیا تھا۔ مجھے مس نلنی کی پارٹی میں جانا ہے۔‘‘
’’لیکن ہم مس نلنی کی پارٹی سے کیسے غیر حاضر ہو سکتے تھے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تو پھر جائیے نا مس نلنی کے ہاں۔ آج بھی اسی سے چائے پی لیجئے۔‘‘
چائے کی بجائے ہم لہو کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔
کسی رات ذرا دیر سے گھر لوٹے۔ انہوں نے بچوں کی موجودگی میں ہی ہمارا ’’کورٹ مارشل‘‘ شروع کر دیا۔
’’شکر ہے آپ کو گھر کی بھی یاد آئی۔ ذرا دیر سے آنا تھا۔ ابھی تو گیارہ ہی بجے ہیں۔‘‘
ہم نے اپنی صفائی میں ایک آدھ معقول عذر پیش کیا۔ انہوں نے اس کی بالکل پروا نہ کرتے ہوئے کہا، ’’جی ہاں، گھر جائے جہنم میں۔
آپ کو آئے دن جلسوں اور کانفرنسوں سے کام، کوئی نہ بھی مدعو کرے، جائیں گے ضرور، وقت جو برباد کرنا ہوا۔‘‘
’’دیکھئے آپ زیادتی کر رہی ہیں۔ مجھے اس جلسے کی صدارت کرنا تھا۔‘‘
’’جی ہاں! آپ کے علاوہ بھلا انہیں اور کوئی صدر کہاں ملے گا۔ آپ قابل ترین آدمی جو ٹھہرے۔‘‘
’’قابل ہوں یا نا اہل۔ جب کوئی مدعو کرے، جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘
’’تو کون کہتا ہے نہ جائیے، آپ کو ڈر کس کا ہے؟‘‘
’’ڈر نہ ہوتا، تو واپس کیوں آتے۔‘‘
’’بڑا احسان کیا ہے پھر چلے جائیے کسی اور جلسے کی کرسی صدارت انتظار کر رہی ہوگی۔‘‘
’’آپ تو خواہ مخواہ ناراض ہوتی ہیں۔‘‘
’’جی ہاں یہ میری پارنی عادت ہے۔‘‘
’’یہ میں نے کب کہا میرا مطلب ہے آپ کی طبیعت۔۔۔‘‘
’’جی ہاں! میری طبیعت بہت بری ہے۔ قسمت اس سے بھی بری ہے۔‘‘
’’آپ پھر قسمت کا رونا لے بیٹھیں، آخر ہو کیا گیا۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں ہوا، میں تو یونہی پاگل ہوں۔‘‘
’’میں نے آپ کو پاگل تو نہیں کہا۔‘‘
’’نہیں کہا، تو اب کہہ لیجئے۔ یہ حسرت بھی کیوں رہ جائے۔‘‘
نتیجہ اس بحث کا یہ ہوا کہ انہوں نے بڑی بے دلی سے کھانا پیش کیا۔ ہم نے دو چار لقمے زہر مار کئےاور چپ چاپ سونے کے کمرے میں چلے گئے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیر و تفریح سے گھر لوٹے اور عجیب نظارے دیکھنے کو ملے۔ بڑ ےلڑکے نے چھوٹے کو بڑی بے رحمی سے پیٹا ہے۔وہ دہاڑیں مار مار کر رو رہا ہے۔ چھوٹی منی کو بخار ہے، وہ درد سے کراہ رہی ہے۔ سب سے چھوٹا منا دودھ کے لئے چلا رہا ہے۔ شریمتی جی غیض و غضب کی حالت میں اپنا غصہ کبھی ایک اور کبھی دوسرے بچے پر اتار رہی ہیں اور ساتھ ساتھ ایسی بد دعائیں دے رہی ہیں کہ اگر وہ قبول ہو جائیں تو گھر میں ان کے علاوہ کوئی زندہ نہ رہے۔ یہ نظارے دیکھ کر جی میں آتا ہے کہ گھر بار چھوڑ کر بھاگ جائیں اور ایک دفعہ پھر کوچہ بلی ماراں کے نکڑ والے مکان میں جا بسیں۔ جہاں اپنے سوا کوئی نہ ہو۔ بس ایک معمولی سا صوفا ہو، دو تین کرسیاں چند دلچسپ کتابیں، ایک کتا اور ایک وائلن۔ پڑھتے پڑھتے اکتا جائیں تو کتے سے کھیلنے لگیں اور کتے کی شرارتوں سے تنگ آ جائیں تو وائلن بجانا شروع کر دیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.