ہم نے کتا پالا
’’آپ خواہ مخواہ کتوں سے ڈرتے ہیں، ہرکتا باؤلا نہیں ہوتا۔ جیسے ہر انسان پاگل نہیں ہوتا۔ اور پھر یہ تو’ال سیشن‘ ہے۔ بہت ذہین اور وفادار۔‘‘ کیپٹن حمید نے ہماری ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا۔ کیپٹن حمید کو کتےپالنےکا شوق ہے۔شوق نہیں جنون ہے۔ کتوں کو وہ اتنی محبت سے پالتے ہیں جو والدین کو اپنےاکلوتےبچےسے ہوتی ہے۔ میں اس معاملہ میں ان کی ضد واقع ہوا ہوں۔ کتے کو دیکھ کر چاہے وہ کتنا شریف اور بےضرر کیوں نہ ہو مجھےاس سےخدا واسطے کا بیر ہوجاتا ہے۔ میرا بس چلے تو تمام کتوں کو ایک لمبی چوڑی حوالات میں بند کردوں۔ کیپٹن حمید میری اس کمزوری سے بخوبی واقف ہیں، اسی لئےوہ باربارمجھےاپنا نظریہ بدلنےکے لئے کہہ رہے تھے۔
’’دیکھئے’ٹائیگر‘ (یہ ان کے کتے کا نام ہے) دوچاردن میں آپ سےمانوس ہوجائے گا۔ اور پھر آپ محسوس کریں گےکہ جب تک وہ چائےکی میز پرموجود نہ ہوآپ چائے نہیں پی سکتے۔ کھانےکےوقت برابر وہ آپ کےساتھ مل کرکھانا کھائےگا اورآپ کواحساس ہوگا جیسےآپ کسی بہت پیارے مہمان کی خاطرو تواضع کررہےہیں۔ سیر پرآپ کےساتھ جائےگااور۔۔۔‘‘
’’لیکن کیپٹن صاحب میں تو کتوں کی صورت تک سے بیزار ہوں۔ میں۔۔۔‘‘
’’ارے بھئی نہیں۔ مہینہ بھرکی تو بات ہے۔ میں مدراس سےواپس آتےہی اسےاپنے ہاں لےجاؤں گا۔‘‘
’’معاف کیجئےمیں آپ کا کتا۔۔۔‘‘
’’آپ تو بچوں کی طرح ضد کرتےہیں۔ ذرا رکھ کرتو دیکھئے۔ جب آپ واپس کریں گےتو آپ کی آنکھوں میں آنسو ہوں گے۔‘‘
کیپٹن حمید ’ٹائیگر‘ کومیرے ہاں چھوڑ گئے، جیسا کہ انہوں نےفرمایا تھا۔ ٹائیگر بہت جلد مجھ سے بے تکلف ہوگیا اور اسی بےتکلفی کی وجہ سےمجھےطرح طرح کی پریشانیاں اٹھانا پڑیں۔
یہ شاید تیسرے چوتھےدن کی بات ہےکہ میں نیا سوٹ پہن کر ایک پارٹی میں شرکت کرنے کے لئے جا رہا تھا، جونہی ڈیوڑھی میں سےکہ جہاں ٹائیگر بندھا ہوا تھا گزرایک لخت وہ اچھل کرٹانگوں پرکھڑا ہوگیا اور مجھ سے یوں بغلگیر ہوا جیسے برسوں کےبعد ملاقات ہوئی تھی۔ لگا اپنی لمبی لمبی زبان میرے کوٹ اور پینٹ پر پھیرنے۔ چنانچہ جتنی رال اس کےمونہہ میں تھی، وہ سب اس نےمیرےلباس کی نذر کردی۔ اس کےپنجےمٹی سےاٹے ہوئےتھے، اس لئےسوٹ پرجگہ جگہ بدنما دھبےلگ گئے۔ اپنی دانست میں وہ محبت اور بےتکلفی کا اظہارکررہا تھا اورادھرہم دل ہی دل میں پیچ وتاب کھا رہےتھےکہ کمبخت نےبڑھیا سوٹ کا ستیاناس کردیا۔ سوٹ تبدیل کیا اور پچھلےدروازے سےباہرگئے۔
پارٹی سے واپس آئےتو بالکل بھول گئے کہ ڈیوڑھی میں ٹائیگر بندھا ہوا تھا۔ اس کےقریب سےجوگزرے تواس نے پھر اچھل کرہمارا خیرمقدم کیا اوراتنی گرمجوشی سےکہ پہلے خیرمقدم کو بھی مات کردیا۔ ہم گرتےگرتےبچے۔ جب وہ ہمارا منہ چاٹنے کی بار بار کامیاب کوشش کر رہا تھا،ہم نے ہاتھ سےمنع کرنےکی سعی کی۔اس نے ہمارا ہاتھ اپنے مضبوط دانتوں کی گرفت میں لےلیا۔ گوخدا کا شکر ہےکہ کاٹا نہیں، اب جتنا اسے سمجھاتے ہیں کہ ’’ٹائیگر صاحب !مروت کی حد ہوگئی۔ اب جانے بھی دیجئے‘‘اتنا ہی وہ مشتاق ہوتا جاتا ہے۔ بارے جب اس کی تسلی ہوئی کہ بے تکلفی کا حق ادا ہوگیا تو اس نےاندرجانےکی اجازت دے دی۔
بیٹھک میں آئےاورایک کتاب پڑھنے کے لئے نکالی۔ ابھی دس بارہ صفحے پڑھے تھے کہ کمرے میں زلزلہ سا آگیا۔ ٹائیگرپٹہ تڑواکرجوکمرے میں داخل ہوا تو اس نےمیز پررکھے ہوئےخوبصورت پھولدان کونیچے پٹک دیا، تپائی پر رکھی ہوئی تصاویر کو سوگھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ کچھ اچھی نہیں، اس لئےانھیں نیچےگرادیا۔ کتاب ہمارے ہاتھوں میں سےچھین لی۔ اسےدانتوں میں دبا کراِدھراُدھرٹہلنے لگا۔ دو ایک منٹ کےبعد کتاب فرش پررکھ کر رڈیو کی طرف متوجہ ہوا، شاید پکے گانے کی تاب نہ لاکر بے تحاشہ بھونکنےلگا۔ ریڈیو سیٹ پرحملہ کرنا چاہتا تھا کہ میں نےاسےللکارا۔ چنانچہ تمام حرکات بند کر کےوہ آرام سےصوفے پردراز ہوگیا۔ نوکرسےدوسرا پٹہ لانےکوکہا اوربڑی مشکل سےاسے پہنایا۔ اب ہم اُسےڈیوڑھی کی طرف گھسیٹتےتھے اوروہ مصرتھا کہ بیٹھک ہی میں قیام کرے گا۔
دوسرےدن ہمارےہمسائےکی بچی جوہماری بچی کی سہیلی تھی، ایک گڑیا اٹھائےہماری ڈیوڑھی سےگزر رہی تھی کہ ٹائیگرکی نظراس پرپڑی، شیرکی طرح جو وہ دھاڑا توگڑیا بچی کےہاتھ سےگرپڑی اوروہ خود بیہوش ہوکرزمین پرآرہی ہے۔ بھاگ کربچی کواٹھایا۔ اسےہوش میں لانےکےلئے کافی جتن کئے، مگرخوف کا اس کےدل ودماغ پراتنا اثر ہوا کہ اسےہوش نہ آیا۔ ڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ پورے ایک گھنٹےکےبعد اس نےآنکھیں کھولیں، اسےاس کےگھر پہنچایا گیا۔ جہاں اسے تین دن بخاررہا۔ ہمسائے سےالگ شرمندہ ہوئے،کوفت الگ اٹھانا پڑی۔
اس سےاگلےدن ڈاکیہ چھٹی دینےآیا۔ ٹائیگراس کی طرف بجلی کی طرح لپکا۔ پچھلی ٹانگوں پر کھڑاہوکراس کی گردن ناپنا چاہتا تھا کہ ہم نےدوڑ کربیچ بچاؤکیا اوروہ اپنےخطرناک ارادےسےبازآیا۔ دو ایک دن بعد پوسٹ ماسٹر صاحب کا خط ملا۔ انہوں نےلکھا تھا کہ چونکہ ہم نےایک نہایت خوفناک قسم کا کتا پال رکھا ہے، اس لئےڈاکیہ ہماری ڈاک گھر پر پہنچانےسےمعذورہےہم ڈاک خانہ سےاپنی ڈاک منگوانےکا انتظام کرلیں۔
چند دن آرام سےگزرے۔ ایک دن صبح کےوقت ٹائیگرکوسیرکرانےکےلئےجارہےتھے، کہ اس کی نگاہ ایک پالتو ہرن پر پڑی جو اپنےمالک کےساتھ جارہا تھا۔ ٹائیگرآپےسے باہرہوگیا اورہرن کی طرف سرپٹ بھاگا، بہتیرا اسےپکارامگراس نےایک نہ سنی۔ ہرن کو نیچےگرادیا اوراس کی انتڑیاں پھاڑنا چاہتا تھا کہ ہرن کے مالک اور ہم نےبڑی مشکل سےہرن کواس کےپنجےسےنجات دلائی۔ اس کےبعد ہم دونوں میں مندرجہ ذیل گفتگوہوئی۔
’’یہ کتا آپ کا ہے؟‘‘
’’جی نہیں۔‘‘
’’تو پھرکس کا ہے؟‘‘
’’کیپٹن حمید کا۔‘‘
’’آپ اسےچرا کرلائے ہیں۔‘‘
’’جی نہیں۔ وہ خود اسےمیرے ہاں چھوڑ گئےتھے۔‘‘
’’بڑا بیہودہ کتا ہے۔‘‘
’’جی نہیں۔ ال سیشین نسل کا ہے۔ دیکھئےنا اس کےکان کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
’’کان کھڑے رہنےسےکیا ہوتا ہے۔ کچھ تمیز بھی توہونی چاہئے؟‘‘
’’تمیز کی بات اورہے،ویسےتو کافی ذہین ہے۔‘‘
’’اسےذہین کون بیوقوف کہےگا۔ جی چاہتا ہےگولی ماردوں۔‘‘
ہم اپنا سا منہ لےکررہ گئے۔ وہ بڑبڑاتےہوئےچلےگئے۔ اس دن ہم نےفیصلہ کیا کہ آئندہ ٹائیگر کو سیرپرنہیں لےجائیں گے۔ لیکن ٹائیگرکب ماننےوالا تھا۔ صبح چھ بجےہی وہ اچھل اچھل اوربھونک بھونک کرہمیں نیند سےبیدارکردیتا، کبھی چادرکوکھینچتا کبھی ہماراکان دانتوں میں دباتا، کبھی منہ چاٹنےلگتا جیسےکہ کہہ رہا ہو ’’اٹھئےکہ اب تو لذت بادِ سحرہوگئی‘‘ چنانچہ اسےاپنےساتھ لےجانا ہی پڑتا۔ سیرکےدوران میں بھی یہی خدشہ لگارہتا کہ اگراس نےکسی جانوریا آدمی پرحملہ کردیا توخواہ مخواہ ندامت اٹھانی پڑے گی۔
ایک عجیب بات جواس میں دیکھی یہ تھی کہ ساری رات نہ خود سوتا اورنہ ہمیں سونےدیتا۔ مشکل سےآنکھ لگتی کہ وہ زورزورسےبےتحاشا بھونکنےلگتا۔ اٹھ کردیکھتے کہ وہ دورسڑک پرکھڑے ہوئےکسی کتےکو دیکھ کربھونک رہا ہے۔اسے ڈانٹ ڈپٹ کرچپ کراتےاور سونےکی کوشش کرتے، مگر جلد ہی اس کی فلک شگاف بھوں بھوں بیدارکردیتی۔
اب وہ اس لئے بھونک رہا ہےکہ ہوا ذرا تیز کیوں چل رہی ہے یا چاند بادلوں کی اوٹ میں کیوں چھپ گیا ہے۔ یاہمارا ہمسایہ اٹھ کر پانی کیوں پی رہا ہے اور پھراس کی خاطر تواضع، اوراس پرصرف کیا گیا روپیہ، صبح اسےایک سیردودھ کا ناشتہ کراؤ۔ دوپہرکےوقت ایک سیرگوشت کا لنچ۔ شام کو دس بارہ روٹیوں اور سالن کا ڈنر۔ ہروقت یہ ڈررہتا کہ اگروہ کمزورہوگیا توکیپٹن حمید ساری عمرمعاف نہیں کریں گے۔
کبھی کبھی ہم یہ سوچنےلگتےکہ اگرکیپٹن حمید کتےکےبجائےبھیڑیا یا چیتا پالتےتوکتنا اچھا رہتا۔ کم ازکم وہ ایک عجوبہ تو ہوتا۔ اور پھراگرکسی کوکاٹ کھاتا توافسوس نہ ہوتا کہ اس نےکوئی ایسی حرکت کی ہے جس کی اس سےتوقع نہ تھی۔ رہا ٹائیگر کےکان کھڑے رہنےکا معاملہ تو کان تو خرگوش کےبھی کھڑے رہتےہیں۔ کیپٹن صاحب نےخرگوش کیوں نہ پالا۔ ساری رات بھونک بھونک کر وہ ہماری نیند تو خراب نہ کرتا۔
ٹائیگرہمارے ہاں ایک مہینہ رہا۔ یہ مہینہ پہاڑ کی طرح کٹنےمیں ہی نہیں آتا تھا۔ ہرروزصبح اٹھ کر ہم حساب لگاتےکہ اب کتنےدن باقی رہ گئے۔ خدا خدا کرکےکیپٹن حمید مدراس سےلوٹے۔ ہم نےجب ٹائیگران کےسپردکیا تو واقعی ہماری آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن یہ آنسو خوشی کےتھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.