بنانے کا فن
دوسروں کو بنانا، خاص کران لوگوں کوجوچالاک ہیں یا اپنے آپ کوچالاک سمجھتے ہیں، ایک فن ہے۔ آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی ’لومڑی اور کوّے‘ کی کہانی پڑھی ہے، وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکر کہانی میں کیا گیا ہے ضرورت سے زیادہ بے وقوف تھا، ورنہ ایک عام کوّا لومڑی کی باتوں میں ہرگز نہیں آتا۔ لومڑی کہتی ہے، ’’میاں کوّے! ہم نےسنا ہےتم بہت اچھا گاتے ہو۔‘‘ وہ گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد جواب دیتا ہے، ’’بی لومڑی! آپ نے غلط سنا، خاکسار تو صرف کائیں کائیں کرنا جانتا ہے۔‘‘
تاہم مایوس ہونےکی ضرورت نہیں۔ تلاش کرنے پر بیوقوف کوّے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اس اتوارکا ذکر ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ رائے صاحب موتی ساگر کا کتا مرگیا۔ ہم فوراً ان کےہاں پہنچے۔ افسوس ظاہر کرتے ہوئے ہم نے کہا، ’’رائے صاحب آپ کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ برسوں کا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔‘‘
’’پرماتما کی مرضی۔‘‘ رائے صاحب نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا۔
’’بڑا خوب صورت کتا تھا۔ آپ سےتو خاص محبت تھی۔‘‘
’’ہاں مجھ سے بہت لاڈکرتا تھا۔‘‘
’’کھانا بھی سنا ہے آپ کےساتھ کھاتا تھا۔‘‘
’’میرے ساتھ نہیں، میرے پاس بیٹھ کر کھاتا تھا۔‘‘
’’کہتے ہیں آپ کی طرح مونگ کی دال بہت پسند تھی۔‘‘
’’دال نہیں، گوشت۔‘‘
’’آپ کا مطلب ہے چھیچھڑے۔‘‘
’’نہیں صاحب! بکرےکا گوشت۔‘‘
’’بکرے کا گوشت! واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ تیتر وغیرہ تو کھا لیتا ہوگا۔‘‘
’’کبھی کبھی‘‘
’’یونہی منہ کا ذائقہ بدلنےکےلئے۔ سنا ہے، ریڈیو باقاعدگی سےسنتا تھا۔‘‘
’’ہاں ریڈیو کےپاس اکثر بیٹھا رہتا تھا۔‘‘
’’تقریریں زیادہ پسند تھیں یا گانے؟‘‘
’’یہ کہنا تومشکل ہے۔‘‘
’’میرے خیال میں دونوں۔ سنیما جانےکا بھی شوق ہوگا۔‘‘
’’نہیں، سنیما توکبھی نہیں گیا۔‘‘
’’بڑے تعجب کی بات ہے۔ پچھلےدنوں تو کافی اچھی فلمیں آتی رہیں۔ خیر اچھا ہی کیا۔ نہیں تو خواہ مخواہ آوارہ ہوجاتا۔‘‘
’’بڑا وفادارجانور تھا۔‘‘
’’اجی صاحب! ایسےکتے روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ آپ نےشاید اڑھائی روپے میں خریدا تھا۔‘‘
’’اڑھائی روپےنہیں، اڑھائی سومیں۔‘‘
’’معاف کیجئے۔ کسی مہاراجہ نےآپ کو اس کے لئے پانچ روپے پیش کئے تھے۔‘‘
’’پانچ نہیں، پانچ سو۔‘‘
’’دوبارہ معاف کیجئے۔ پانچ سوکےتوصرف اس کےکان ہی تھے۔ آنکھیں چہرہ اور ٹانگیں الگ۔‘‘
’’بڑی رعب دارآنکھیں تھیں اس کی۔‘‘
’’ہاں صاحب کیوں نہیں، جس سےایک بارآنکھ ملاتا وہ آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔‘‘
’’چہرہ بھی رعب دار تھا۔‘‘
’’چہرہ! اجی چہرہ تو ہو بہوآپ سے ملتا تھا۔‘‘
’’رائے صاحب نے ہماری طرف ذرا گھوم کردیکھا۔ ہم نے جھٹ اٹھتے ہوئےعرض کیا۔‘‘اچھا رائے صاحب! صبرکےسوا کوئی چارہ نہیں، واقعی آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ آداب عرض۔‘‘
رائے صاحب سے رخصت ہو کر ہم مولانا کے ہاں پہنچے۔ مولانا شاعر ہیں، اور زاؔغ تخلص کرتےہیں۔
’’آداب عرض مولانا۔ کہئےوہ غزل مکمل ہوگئی۔‘‘
’’کونسی غزل قبلہ۔‘‘
’’وہی۔ اعتبار کون کرے،انتظارکون کرے؟‘‘
’’جی ہاں، ابھی مکمل ہوئی ہے۔‘‘
’’ارشاد۔‘‘
’’مطلع عرض ہے۔ شاید کچھ کام کا ہو۔
جھوٹے وعدہ پہ اعتبار کون کرے
رات بھر انتظار کون کرے
’’سبحان اللہ۔ کیا کرارا مطلع ہے۔ رات بھر انتظار کون کرے۔
واقعی پینسٹھ سال کی عمرمیں رات بھر انتظار کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اور پھر آپ تو آٹھ بجے ہی اونگھنے لگتے ہیں۔‘‘
’’ہےکچھ کام کا۔‘‘
’’کام کا تونہیں، لیکن آپ کے باقی مطلعوں سے بہتر ہے۔‘‘
’’شعرعرض کرتا ہوں،
گوحسین ہے مگر لعیں بھی ہے
اب لعیں سے پیار کون کرے
’’کیا بات ہےمولانا۔ اس ’’لعیں ’’کا جواب نہیں۔ آج تک کسی شاعر نے محبوب کے لئے اس لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ خوب خبر لی ہےآپ نے محبوب کی۔‘‘
’’بجا فرماتے ہیں آپ۔ شعر ہے،
ہم خزاں ہی میں عشق کرلیں گے
آرزوئے بہار کون کرے
’’بہت خوب۔ خزاں میں بیگم صاحب شاید میکے چلی جاتی ہیں۔ خوب موسم چنا ہےآپ نے، اور پھر خزاں میں محبوب کو فراغت بھی تو ہوگی۔‘‘
جی ہاں۔ عرض کیا ہے،
مر گیا قیس نہ رہی لیلی
عشق کا کارو بار کون کرے
’’بہت عمدہ۔‘‘ عشق کا کاروبارکون کرے، ’’چشم بد دور آپ جو موجود ہیں۔ ماشاء اللہ آپ قیس سے کم ہیں۔‘‘
’’نہیں قبلہ ہم کیا ہیں۔‘‘
’’اچھا کسرنفسی پراترآئے۔ دیکھئے بننےکی کوشش مت کیجئے۔‘‘
’’مقطع عرض ہے۔‘‘
’’ارشاد۔‘‘
’’رنگ کالا سفید ہے داڑھی
زاغؔ سے پیار کون کرے
’’اے سبحان اللہ۔ مولانا کیا چوٹ کی ہےمحبوب پر۔ واللہ جواب نہیں اس شعر کا۔‘‘ زاغ سے پیارکون کرے’’کتنی حسرت ہے اس مصرع میں۔‘‘
’’واقعی؟‘‘
’’صحیح عرض کررہا ہوں۔ اپنی قسم یہ شعر تو استادوں کے اشعار سے ٹکر لے سکتا ہے۔ کتنا خوبصورت تضاد ہے۔ ’ رنگ کالا سفید ہے داڑھی‘ اور پھر زاغ کی نسبت سے کالا رنگ کتنا بھلا لگتا ہے۔‘‘
زاغؔ صاحب سے اجازت لے کر ہم مسٹر’زیرو‘ کے ہاں پہنچے۔ آپ آرٹسٹ ہیں اور آرٹ کے جدید اسکول سےتعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی تازہ تخلیق دکھائی۔ عنوان تھا ’ساون کی گھٹا‘۔ہم نے سنجیدگی سے کہا۔’’سبحان اللہ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔‘‘
’’لہنگا؟ اجی حضرت یہ لہنگا نہیں، گھٹا کا منظرہے۔‘‘
’’واہ صاحب! آپ مجھےبناتےہیں۔ یہ تو صاف ریشمی لہنگا ہے۔‘‘
’’میں کہتا ہوں یہ لہنگا نہیں ہے۔‘‘
’’اصل میں آپ نے لہنگا ہی بنایا ہے لیکن غلطی سے اسے ساون کی گھٹا سمجھ رہےہیں۔‘‘
’’یقین کیجئےمیں نےلہنگا۔۔۔‘‘
’’اجی چھوڑیئے آپ کے تحت الشعور میں ضرورکسی حسینہ کا لہنگا تھا۔ دراصل آرٹسٹ بعض اوقات خود نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کی تصویرکشی کررہا ہے۔‘‘
’’لیکن یہ لہنگا ہرگزنہیں۔۔۔‘‘
’’جناب میں کیسے مان لوں کہ یہ لہنگا نہیں۔ کوئی بھی شخص جس نےزندگی میں کبھی لہنگا دیکھا ہے، اسےلہنگا ہی کہےگا۔‘‘
’’دیکھئےآپ زیادتی کر رہےہیں۔‘‘
’’اجی آپ آرٹسٹ ہوتے ہوئے بھی نہیں مانتے کہ آرٹ میں دو اوردو کبھی چارنہیں ہوتے، بلکہ پانچ، چھ، سات یا آٹھ ہوتے ہیں۔ آپ اسے گھٹا کہتےہیں۔ میں لہنگا سمجھتا ہوں۔ کوئی اوراسےمچھیرے کا جال یا پیراشوٹ سمجھ سکتا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے خیال کو واضح نہیں کرسکا۔‘‘
’’ہاں مطلب تویہی ہے۔ لیکن بات اب بھی بن سکتی ہے۔ صرف عنوان بدلنےکی ضرورت ہے۔’ساون کی گھٹا‘ کی بجائے ’ان کا لہنگا‘ کردیجئے۔‘‘
مسٹرزیرونےدوسری تصویردکھاتےہوئے کہا، ’’اس کےمتعلق کیا خیال ہے۔‘‘ غور سے تصویر کو دیکھنے کے بعد ہم نےجواب دیا۔‘‘یہ ریچھ تو لاجواب ہے۔‘‘
زیرو صاحب نے چیخ کرکہا، ’’ریچھ کہاں ہےیہ‘‘
’’ریچھ نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘
’’یہ ہے زمانۂ مستقبل کا انسان۔‘‘
’’اچھا توآپ کےخیال میں مستقبل کا انسان ریچھ ہوگا۔‘‘
’’صاحب یہ ریچھ ہرگز نہیں۔‘‘
’’چلئے آپ کوکسی ریچھ والے کے پاس لے چلتے ہیں۔ اگر وہ کہہ دے کہ یہ ریچھ ہےتو؟‘‘
’’تومیں تصویربنانا چھوڑدوں گا۔‘‘
’’تصویریں بنانی توآپ ویسے ہی چھوڑدیں تواچھا رہے۔‘‘
’’وہ کس لئے۔‘‘
’’کیونکہ جب کوئی آرٹسٹ انسان اورریچھ میں بھی تمیز نہیں کرسکتا تو تصویریں بنانےکا فائدہ۔‘‘
مسٹر زیرو نے جھنجھلا کر کہا، ’’یہ آج آپ کو ہوکیا گیا ہے۔‘‘
ہم نےقہقہہ لگا کرعرض کیا، ’’آج ہم بنانے کے موڈ میں ہیں اورخیر سے آپ ہمارے تیسرے شکار ہیں!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.