پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر
اگر کسی مرد سے پوچھا جائے پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر کون سے ہیں تو وہ کہے گا، ’’صاحب! عقل کے ناخن لیجئے۔ بھلا شوہر بھی کبھی بے ہودہ ہو ئے ہیں۔ بےہودگی کی سعادت تو بیویوں کے حصے میں آئی ہے۔‘‘ اور اگر کسی عورت سے یہی سوال کیا جائے تو جواب ملے گا، ’’صرف پانچ ہی کیوں پانچ ہزار قسم کے بے ہودہ شوہر کیوں نہیں۔‘‘ اس لئے بہتر ہوگا یہ سوال کسی شخص سے نہ کیا جائے بلکہ کسی حیل و حجت کے بغیر فرض کر لیا جائے پانچ قسم کے بے ہودہ شوہر ہوتے ہیں اور ہندوستان کے ہر صوبے میں پائے جاتے ہیں۔
بے ہودہ شوہر وں کی پہلی جماعت ان افراد پر مشتمل ہے جو اپنے کو شوہر کم اور نادر شاہ درانی زیادہ سمجھتے ہیں۔ بیوی کے حقوق اور احساسات کو بیدردی سے تہ تیغ کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ انہیں کے بارے میں ایک شاعرہ نے (نادر شاہ درانی سے ان کا موازنہ کرتے ہوئے) کہا ہے؛
وہ قتل عام کرتا تھا یہ قتل خاص کرتے ہیں
وہ دنیا کو ڈراتا تھا یہ بیوی کو ڈراتے ہیں
ان کا باوا آدم وہ خاوند تھا جس نے بیوی پر رعب جمانے کے لئے اپنی پالتو بلی کو ذبح کر ڈالا تھا اور جس نے ’’گربہ کشتن روز اول‘‘ ایسے مضحکہ خیز مقولے کو ایجاد کیا تھا۔ میری دانست میں وہ بیوی جو ایسے خاوند سے مرعوب ہو گئی تھی ضرورت سے زیادہ بز دل تھی۔ شاید اسے اختلاج قلب کے دورے پڑتے تھے ورنہ اگر اس میں تھوڑی سی بھی جرأت ہوتی وہ خاوند سے کہتی، ’’بلی مار (بروزن چڑی مار) صاحب اگر آپ اتنے ہی بہادر ہیں تو اسی خنجر سے جس سے آپ نے بلی کی گردن اڑا دی شیر کا سر کاٹ لائیے اور ’’شیر افگن‘‘ خطاب پائیے۔‘‘
دوسری قسم کے بے ہودہ خاوند وہ ہیں جو یہ جانتے ہوئے بھی عورت نہیں بلکہ مرد ’’صنف نازک‘‘ ہے۔ اپنی بیوی کو کمزور اور ناقص العقل سمجھتے ہیں۔ بے چاری بیوی انہیں لاکھ سمجھائے کہ عموماً عورتوں کی عمر مردوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ بہت کم عورتیں گنجی ہوتی ہیں یا کم از کم ان کے سر اس حد تک گنجے نہیں ہوتے جتنے مردوں کے، عورتیں مردوں کی نسبت سردی اور گرمی زیادہ بر داشت کر سکتی ہیں۔ ان کا اعصابی نظام اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ وہ ساس، جیٹھانی، نند اور خاوند کی جلی کٹی سننے کے باوجود میٹھی اور گہری نیند کا لطف لے سکتی ہیں۔ عورتوں کو آئے دن زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے اور شو شنکر کی طرح وہ زہر بھی بخوشی حلق سے نیچے اتار لیتی ہیں۔ جتنا انہیں سننا اور سہنا پڑتا ہے مردوں کو اس سے نصف بھی سننا یا سہنا پڑے تو وہ اپنا دماغی توازن ہی کھو بیٹھیں۔ ان کی بیوی اس قسم کے چاہے کتنے دلائل پیش کرے وہ اسی بات کی رٹ لگائے جائیں گے کہ عورت فطرتاً کمزور اور کم ہمت ہے۔
بے ہودہ شوہروں کی تیسری جماعت میں وہ لوگ شامل ہیں جو اپنی بیویوں کا دوسروں کی بیویوں سے موازنہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تمام نا کامیوں کی ذمہ داری پھوہڑ اور جاہل بیویوں پر عائد ہوتی ہے۔ وہ کبھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ اگر وہ زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں تو اس کی وجہ ان کی سست روی کم ہمتی یا محض نالائقی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ بھلی چنگی بیویوں کو کوس کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں اور اس طرح اس احساس خفت سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو سائے کی طرح ان کا تعاقب کرتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر وہ بہتر بیویوں کے شوہر ہوتے تب بھی ان کی یہی حالت ہوتی۔
بے ہودہ شوہر کی چوتھی صف میں وہ لوگ آتے ہیں جنہیں بیوی کے رشتہ داروں سے خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ یہ بھلے مانس کم ظرف سے کم ظرف دوست کے ناز اٹھا سکتے ہیں لیکن سسرالی رشتہ داروں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ اپنے ہر فعل سے بیوی کے رشتے داروں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے گھر یا دل میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ مثال کے طور پر جب وہ ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ ان سے پوچھتے ہیں، ’’آپ کب تشریف لائے‘‘، تو در اصل ان کا مطلب ہوتا ہے، ’’آپ کیوں تشریف لائے یا آپ کب تشریف لے جا رہے ہیں۔‘‘ جونہی سسرالی رشتے دار ان کے گھر میں قدم رکھتا ہے انہیں جھٹ کوئی نہایت ضروری کام یاد آ جاتا ہے اور جب کام س فارغ ہو کر گھر لوٹتے ہیں تو اتنے تھکے ہوئے ہوتے ہیں کہ مہمان سے بات تک نہیں کر سکتے۔ اگر بیوی شکایت کرتی ہے کہ وہ مہمان کے ساتھ بے رخی سے پیش آرہے ہیں تو پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں یا بار بار جھوٹی قسمیں کھا کر اسے یقین دلاتے ہیں کہ آج ہماری طبیعت ناساز ہے۔
بے ہودہ شوہروں کی پانچویں جماعت میں ان لوگوں کا شمار کیا جا سکتا ہے جو اس مختصر مضمون کو پڑھ کر سیخ پا ہوں گے یا جن کا رد عمل یہ ہوگا، ’’یہ مضمون ضرور کسی زن مرید شوہر نے لکھا ہے۔ شاید وہ بیویوں کا ایجنٹ ہے۔ کمبخت کو شوہروں پر اتنے سنگین الزامات تراشتے شرم بھی نہیں آئی۔ شوہر ہونے کے باوجود شوہروں کی ناک کٹوا دی۔‘‘ ان حضرات کی خدمت میں یہ عرض ہے، آج جبکہ اپنے وطن میں قریب قریب ہر ایک ستون (مذہب، سیاست، تہذیب) گر چکا ہے، سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا صرف ایک ستون کے سہارے کھڑا ہے اور وہ ستون ہے ہندوستانی بیوی۔ آج بھی اگر خود غرضی کی تیز اور تند آندھی میں ایک چراغ جل رہا ہے تو وہ ہے آپ کی بیوی۔ اس لئے اگر مضمون نگار نے شوہروں کی بجائے بیویوں کی طرف داری کی ہے تو اس نے کسی قسم کی بے ہودگی کا ارتکاب نہیں کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.