کراچی میں کسٹم والوں کا مشاعرہ ہوا تو شاعر لوگ آؤ بھگت کے عادی دندناتے پان کھاتے، مونچھو پر تاؤ دیتےزلفِ جاناں کی بلائیں لیتےغزلوں کے بقچےبغل میں مارکر پہنچ گئے۔ ان میں سے اکثر کلاتھ ملوں کے مشاعروں کے عادی تھے۔ جہاں آپ تھان بھر کی غزل بھی پڑھ دیں اوراس کے گز گز پرمکررمکررکی مہر لگادیں تب بھی کوئی نہیں روکتا۔ پھر تانا بانا کمزور بھی ہو تو ذراسا ترنم کا کلف لگانےسےعیب چھپ جاتا ہے۔ لیکن کسٹم والوں کے قاعدے قانون بڑے کڑے ہوتے ہیں۔ منتظمین نےطےکردیا تھا کہ ہر شاعر زیادہ سے زیادہ ایک غزل وہ بھی لمبی بحر کی نہیں، درمیانہ بحر کی بلا کسٹمِ محصول پڑھ سکے گا، جس کا حجم پانچ سات شعر سے زیادہ نہ ہو۔ پیچ یہ آن پڑا کہ مصرعہ ایک نہیں پانچ دیئے گئے تھے۔ وہاں دروازے پر تلاشی ہوگئی۔ سب کے تھیلے اور بستے باہر رکھوا لیے گئے۔ ایک صاحب نے نیفے میں ایک لمبی سی مثنوی اڑس رکھی تھی۔ ایک اپنے موزوں میں رباعیاں چھپا کرلے جارہے تھے۔ لیکن کسٹم کے پریونیٹو افسروں کی تیز نظروں سے کہاں بچ سکتے تھے۔ ان فرض شناسوں نے سب کو آن روکا اور سب کے گریبانوں میں جھانکا۔ استاد ِہمدم ڈبائیوی پر بھی انہیں شک ہوا۔ استاد نے ہر چند کہا کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی پانچ سات شعر ہیں لیکن کسٹم والوں نے ان کے کرتے کی لانبی آستیں میں سےان کے تازہ ترین دیوان ’مار آستیں‘ کا ایک نسخہ برآمد کر ہی لیا۔ اتنی احتیاطوں کے باوجود سنا ہے۔ بہت سے لوگ اپنا کلام ناجائز طور پر حافظے میں رکھ کر اندر گھس گئے اور موقع پاکر بلیک میں داد کھری کی۔ یعنی بلا سامعینِ رہائش کے اسے دوبارہ سہ بارہ پڑھا۔
ہمارے کرم فرما ملک الشعراء گھڑیال فیروز آبادی نے ہمیں فون کیا تم بھی آٹھوں گانٹھ شاعر ہو۔ موقع اچھا ہے۔ ایک غزل کہ لو۔ گھڑیال صاحب نغمہ گویا شاعراورگھڑیوں کے تاجر ہیں۔ فیروز آبادی اس نسبت سے کہلاتے ہیں کہ فیروز آباد تھانے کی حوالات میں کچھ روز رہ چکے ہیں۔ ہم نے عذر کیا کہ ہمارے پاس شعر کہنے کے لئے کسٹم والوں کا پرمٹ یا مشاعرے کا دعوت نامہ نہیں لہٰذا مجبوری ہے۔ بولے، اس کی فکر نہ کرو میں تمہیں کسی طوراسمگل کردوں گا۔ ہم نے کہا۔ہم کوئی گھڑی تھوڑا ہی ہیں۔ منغض ہو کر بولے، یہ کیا ٹک ٹک لگا رکھی ہے۔ غزل لکھو۔
ہم نے اپنےکو شاعری کی چابی سے کوکتے ہوئے پوچھا۔ مصرعہ طرح کیا ہے؟ فرمایا، ایک نہیں پانچ ہیں۔ ایک تو یہی ہے،
کون جیتا ہےتری زلف کےسر ہونےتک۔
ہم نے کہا، اس کا قافیہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ ہونے تک، کونے تک، بونےتک، کیا زرعی مضامین باندھنے ہیں اس میں؟ گھڑیال صاحب نے وضاحت کی کہ نہیں، اس کے قوافی ہیں سر، خر، شر وغیرہ۔
ہمیں اس مصرعے سے کچھ شرکی بو آئی۔ لہٰذا ہم نےکہا کوئی دوسرامصرع بتائیے۔ یہ نظیر اکبرآبادی کا تھا،
طور سے آئے تھے ساقی سن کے میخانے کو ہم
یہ بھی ہمیں نہ جچا۔ ہم نے کہا۔ اگراس کےقافیے ہیں، سن کے، دھن کے، بن کے وغیرہ تو اس سے ہمیں معاف رکھئے۔ اس پر گھڑیال صاحب نے ہمیں تیسرا مصرع دیا،
ہائے کیا ہوگیا زمانےکو
یہ کس کا مصرع ہے؟ ہم نے دریافت کیا۔ جواب ملا، مہمل دہلوی کا
’’مہمل دہلوی؟ یہ کون صاحب تھے؟‘‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔ پتہ چلا کہ سننے میں ہم سے غلطی ہوئی۔ گھڑیال صاحب نے مومن دہلوی کہا تھا۔ چوتھا اور پانچواں مصرعہ طرح بھی ہماری طبع رواں کو پسند نہ آئے۔ پھر ہماری صلحِ کل طبیعت کو یہ گوارا نہ ہوا کہ ایک مصرع لیں اور باقیوں کو چھوڑدیں۔ بڑی ترکیب سے ایک غزل تیارکی جو بیک وقت ان پانچوں بحروں اور پانچوں زمینوں میں تھی۔ یوں کہ ایک مصرع ایک بحر میں دوسرا دوسری میں۔ ہمارا خیال تھا اس سے سبھی خوش ہوں گے۔ لیکن کوئی بھی نہ ہوا۔ جانے مس بلبل کیسے نبھا لیتی ہیں اوراس شاعر کا کیا تجربہ ہے جس نے اقبال کے کلام میں قلم لگا کر یہ شاہکار تخلیق کیا ہے،
غلامی میں نہ کام آتی ہیں تقدیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اہاجی، زنجیریں زنجیریں زنجیریں
لئے آنکھوں میں سرور کیسے بیٹھے ہیں حضور
جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں
بعض محکمے شاعری سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں، بعض کم، ایکسائز یعنی آبکاری کی فضا شاعری کے لئے زیادہ موزوں معلوم نہیں ہوتی۔ ہمارے دوست میاں مولا بخش ساقی نکودری، پہلے اسی محکمے میں تھے۔ ایک روز کہیں ان کا ساقی نامہ کسی رسالے میں چھپا ہوا ان کے ڈائریکٹر صاحب نے دیکھ لیا فوراً بلایا اور جواب طلب کیا کہ آپ سارے محکمہ کے کام پر پانی پھیر رہے ہیں۔ حکومت اتنا روپیہ ناجائز شراب کی روک تھام پر خرچ کرتی ہے اور آپ کھلم کھلا لکھتے ہیں،
خدا سارا ساقیا مجھے
شراب خانہ ساز دے
یا نوکری چھوڑیئے یا شاعری چھوڑیئے۔ شاعری تو، چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔ نوکری چھوڑ کرجوتوں کی دوکان کرلی۔
کسٹم والوں کے مصرع ہائے طرح برے نہیں لیکن ہماری سفارش ہےکہ آئندہ کوئی محکمہ مشاعرہ کرائے تو مصرع طرح کے اپنے کام کی مناسبت سے رکھے۔ مثلاً کسٹم کے مشاعرے کے لیے یہ مصرع زیادہ موزوں رہے گا،
دادرحشر مرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
حج کا ثواب نذر کروں گا حضورکی
جتنےعرصےمیں مرالپٹا ہوا بسترکھلا۔ وغیرہ
اگلے ہفتے گوردھن داس کلاتھ مارکیٹ میں کپڑے والوں کی طرف سےجومشاعرہ ہورہا ہےاس کےلئےہم یہ مصرعےتجویزکریں گے،
ہائے اس چارہ گرہ، کپڑے کی قسمت غالبؔ
یا اپنا گریباں چاک، یا دامنِ یزداں چاک
اندر کفن کے سر ہے تو باہر کفن کے پاؤں
دھوبی، ڈرائی کلینر، ٹیلرماسٹرحضرات مشاعرہ کرائیں توان کے حسبِ مطلب بھی اساتذہ بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ منجملہ
دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہوگئے
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ
موٹرڈرائیورحضرات تو اپنے بس یا ٹرک کی باڈی پرلکھا ہوا کوئی مصرع بھی چن سکتے ہیں۔ جیسے،
سامان سو برس کے ہیں کل کی خبر نہیں۔
ورنہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔
نے ہاتھ باگ پر ہے، نے پا ہے رکاب میں
سب سے زیادہ آسانی گورکنوں کے لیے ہے کیونکہ اردو شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ کفن، دفن، گورکنی اورمردہ شوئی کےمتعلق ہے۔ ہماری شاعری میں مردے بولتے ہیں اورکفن پھاڑ کر بولتے ہیں۔ بعضے تو منکر نکیر تک سے کٹ حجتی کرتے ہیں،
چھیڑو نہ میٹھی نیند میں اے منکرونکیر
سونے دو بھائی میں تھکا ماندہ ہوں راہ کا
اسی طرح ہمارے شاعروں نے بہت کچھ حکیموں، ڈاکٹروں اور عطائیوں کے بارے میں کہہ رکھا ہے۔ کل کلاں میڈیکل ایسوسی ایشن یا طبی کانفرنس والے یا جڑی بوٹی سنیاسی ٹوٹکا ایسوسی ایشن کے سیکرٹری سائیں اکسیر بخش کشتہ مشاعرہ کرائیں توحسب ذیل تیر بہدف مصرعے کام میں لاسکتے ہیں،
یا الہٰی مٹ نہ جائے دردِ دل
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال
اور۔۔۔ مریضِ عشق پر رحمت خدا کی۔ وغیرہ
فیملی پلاننگ کے محمکے نے پچھلے دنوں ڈھیروں نظمیں لکھوائی ہیں جن میں بعض میں ایسی تاثیر سنی ہے کہ کسی جوڑے کو پانی میں گھول کر پلا دیں تو نہ صرف ان کو بقیہ عمر کے لیے چھٹی ہوجائے بلکہ ان کی اگلی پچھلی سات نسلیں بھی لاولد ہو جائیں۔ ہمارے محکمہ زراعت اور آبپاشی نے ہمیں ذیل کے مصرعے بھیجے ہیں،
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
کھیتوں کو دے لو پانی، اب بہہ رہی ہے گنگا
تو برائے فصل کردن آمدی
جنگلات والوں کی پسند ملاحظہ ہو،
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جارہا ہوں میں
مجنوں جو مر گیا ہے تو صحرا اداس ہے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
ایک مشاعرہ ہم ملتان کے چڑیا گھر میں پڑھ چکے ہیں جس کی طرحیں حسب ذیل تھیں،
لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
کیا ہی کنڈل مار کر بیٹھا ہے جوڑا سانپ کا
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
محکمے ہوگئے۔ اب اہل حرفہ کی بھی تو ضرورتیں ہیں۔ کریانہ فروشوں کی عید ملن پارٹی ہونے والی ہے۔ اس کے لیے بھی مصرع طرح تجویز کردیں،
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
باربرایسوسی ایشن کے سالانہ مشاعرے کے لئے،
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
زخم کے بڑھنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گےکیا؟
ہاکرز فیڈریشن والوں نے بھی ہم سے مصرع مانگا تھا۔ ایک نہیں دو حاضر ہیں،
میں دل بیچتا ہوں، میں جاں بیچتا ہوں۔
اور۔۔۔ بیٹھے ہیں رہگذر پہ ہم، کوئی ہمیں اٹھائےکیوں
ایک مصرع جوتے والوں کی نذر ہے،
پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی
وکیل اس مصرع سے کام چلا سکتے ہیں،
مدعی لاکھ برا چاہے پہ کیا ہوتا ہے
اور قصاب حضرات کے لئے ہم نے،
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجا نکال کے
ایک زمانے میں ہماری شاعری نے بادشاہوں اورنوابوں کی سرپرستی میں ترقی کی۔ ایک مشہور شاعر فرخی کو تو بادشاہ وقت نے خوش ہو کر مویشیوں کا ایک گلہ انعام میں دے دیا تھا۔ اس نے غالباً غزل گوئی چھوڑ چھاڑ کر دودھ بیچنے کا پیشہ اختیار کر لیا کیونکہ پھر اس کے خاندان میں کوئی شاعر ہم نے نہ سنا۔ ہمارے زمانے میں وارفنڈ والے، محکمہ زراعت والے، میلہ مویشیاں والے اس فن کے فروغ کا ذریعہ ہیں پھر کلاتھ ملوں والوں نے اس نیم جان کا پردہ ڈھکا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ انکم ٹیکس اور کسٹم والے بھی شاعری کی سرپرستی کی طرف توجہ کرنے لگے۔ ہمارے ایک دوست پولیس میں ہیں۔ انہوں نے ہمیں اطلاع دی ہے کہ وہ بھی اپنا دھوم دھامی مشاعرہ کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے کہا، اس میں خرچ بہت پڑتا ہے۔ بولے یہ تم ہم پر چھوڑدو۔ ہماراپٹے والا جہاں طلب نامہ لے کر پہنچا۔ شاعر اپنے خرچ پر رکشہ میں بیٹھ بھاگا آئے گا۔ کھانا اسے سامنے کے تندور والے مفت کھلائیں گے۔ اور شب بسری کے لئے جگہ ہماری حوالات میں بہت ہے۔ البتہ سنا ہے مشاعرے میں ہوٹنگ وغیرہ کرتے ہیں لوگ۔
ہم نے کہا۔ ہاں کرتے تو ہیں۔
بولے۔ اچھا پھر تو آنسو گیس کا بھی انتظام رکھنا ہوگا۔ آپ آئیں گے مشاعرے میں یا بھیجوں لال پگڑی والے کو ہتھکڑی دے کر؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.