عید کی جوتی
جناب اکبر نے فرمایا تھا، ڈاسن نے جوتا بنایا، میں نے مضمون لکھا۔ میرا مضمون نہ چلا اور جوتا چل گیا۔
اب کوئی ان سےعرض کرے، ولائتی جوتوں کے دام اتنے بڑھ گئے ہیں کہ ان کے چلتے پاؤں بھی لنگڑے ہوئے جاتے ہیں۔ عید پر خلقت جوتے خریدنے جاتی تھی اور دو جوتیاں لاتی تھی، جوتا مذکر ہے اور جوتی مونث لڑائی نے مرد ختم کر دیئے عورتوں کو بڑھا دیا تو مذکر جوتے کیوں نہ کم ہوتے۔ مونث جوتیوں کا ڈھیر تھا مذکر جوتے ناپید تھے۔
ہائے میری پیاری دلی کی پیاری پیاری نازک اندام وصلی کی جوتی چشم بدور خدا نے اس کا نصیبہ جگایا۔ بارہ برس پیچھے دن پھرے۔ دلی والوں نے اٹھا کر سر پر رکھا۔ وصلی کی جوتی کی کیا بات ہے درحقیقت جوتی ہے۔کیسی بھولی بھالی۔ کیسی ہریالی متوالی۔ ولائتی بوٹ کی طرح خراٹ نہیں، یل تل نہیں۔ دیکھنے میں دیدار، پہننے ہیں سکھ دینے والی۔
ولائتی جوتوں کے دام پوچھو گیارہ روپے سے بھی کچھ اوپر۔ اس جھجھماتی کی قیمت تین چار، حد سے حد پانچ چھ۔ دام کم کام بڑھیا۔ پرانی ہو جائے تو آٹھ دس آنے کو آنکھ بند کر کے بک سکتی ہے، مگر یہ بوٹ بگڑے پیچھے کوڑی کام کانہیں۔
ذرا نام ہی خیال کرنا۔ ’وصلی‘ ہائے ’وصلی‘ میں وصال کا اشارہ ہے، یعنی وصلی کی جوتی پہنو تو دام کم خرچ ہوں گے اور دام کم خرچ ہوں گے تو مطمئن رہے گا۔ دل کا اطمینان وصال حقیقی ہے، ولائتی جوتا موسمی اور ’فصلی‘ جوتا ہے۔ فصل جدائی کو بھی کہتے ہیں ’فصلی‘ بخار کا نام بھی ہے۔
صاحب ہم نے تو اس شعر کو دل دیا ہے؛
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
لہٰذا عید پر جوتی بھی وہ لی جس کے نام میں وصل تھا۔ فصل سے دور ہی رہے۔ گو گھر میں دو ایک فصلی بھی پڑے رہتے ہیں، مگر گفتگو تو جفت عید میں تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.