انٹرویو
انٹرویو کے قسموں میں ایک انٹرویو تو وہ ہوتا ہے جو پریس کے نمائندوں اور لیڈروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔ اب اگر لیڈر، مہاتما یا مولانا قسم کا ہے تو اخباری نمائندے اس کے گھر جا جا کر انٹرویو کے لیے خوشامدیں کرتے ہیں اور لیڈران کی صبح وشام کی حاضری سے پریشان رہتا ہے اور اگر اپر گریڈ کا نہیں بلکہ لور کلاس اور پروبیشنر قسم کا لیڈر ہے تو بجائے اس کے کہ پریس کے نمائندے اس کے پاس پہونچیں یہ غریب خودی ہی ان کے گھر پہونچ کر اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے انٹرویو قسم کے سوال وجواب حوالہ کرکے منتیں کرتا ہے کہ،
بہر خدا ہمیں بھی کہیں چھاپ دیجیے
ان دونوں قسموں کے انٹرویو کو اخباری انٹرویو کہتے ہیں۔ اس اخباری انٹرویو کے علاوہ ایک سرکاری انٹرویو ہوتا ہے جو سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں ’’اپوائنٹمنٹ افیسرس‘‘ اور امیدواروں کے درمیان ہوتا ہے۔ ان اخباری اور سرکاری انٹرویو میں منجملہ اور بہت سی باتوں کے سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر کی غرض ملک میں سیاسی بیداری پیدا کرکے جاہل اور نا اہلوں کو سیاسیات سمجھنے کا اہل بناکر انھیں ملکی کام کے لائق بنانا ہے اور دوم الذکر انٹرویو کا مقصد تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ’’ڈِس کوالیفائیڈ‘‘ اور نا اہل ثابت کرکے انہیں لکھنا، نکمّا، بیکار اور پست ہمت بنانا ہے۔
بعض انٹرویو زدہ کنڈیڈیٹ بے سمجھے بوجھے یہ اعتراض کردیتے ہیں کہ امیدواروں کی درخواستوں کے ساتھ ان کی تعلیمی ڈگریاں اور دوسرے کوالیفکیشن کی سارٹیفکیٹس تو منسلک رہتی ہیں پھر کون سی ضروری اور نئی بات معلوم کرنے کے لیے خواہ مخواہ انٹرویو کی پخ لگادی گئی ہے۔ اب انہیں انٹرویو کی مصلحتوں کو کون سمجھائے۔ ان ناواقفوں کو یہ تو معلوم ہی نہیں کہ سرکاری ملازمتوں کی جگہیں صرف گنتی کی چند ہی ہوتی ہیں اور امیدواروں کی تعداد کی کوئی خاص حد ہی نہیں۔ اس پر سرکار کے اقبال سے سیکڑوں ان میں ایک سے ایک بڑھ کر قابل اور صاحب صلاحیت، اب ان میں سے ضرورت کے مطابق چند معہود فی الذہن مخصوص امیدواروں کو نامزد کرنے کی غرض سے ’’بقیہ کوالیفائڈ کنڈیڈیٹ‘‘ کو ڈس کوالیفائڈ بنانے کے لیے انٹرویو سے بڑھ کر اور کون سی خوبصورت ترکیب سوچی جاسکتی ہے۔ یونیورسٹی کی ڈگری تو قرق کی نہیں جاسکتی۔ ’’اعلیٰ کوالیفیکیشن‘‘ اور علمی حیثیت کی سارٹیفکیٹ نیلام والی سارٹیفکیٹ تو ہے نہیں جو کم حیثیت قرار دے کر مسترد کردی جائے۔ اب مخصوص امیدواروں یا دعویداروں کو ان سرکاری جگہوں پر قبضہ دلانے کے لیے بقیہ درخواست دینے والوں کو کس طرح غیرمستحق ثابت کیا جائے۔ انھیں دقتوں کو رفع کرنے کے لیے ایک مستقل انٹرویو کمیٹی ایجاد ہوئی، جس کے ذمّے کہنے کو تو برائے نام ’’انکوائری‘‘ ہے مگر درحقیقت سمری ٹرائل (Summary trial) کافل پاور (Full Power) دے کر امیدواروں کی قسمت کے ’’فائنل‘‘ فیصلہ کا بھی اختیار دیا گیا اور یہ سرسری سماعت اور اس پر فیصلہ کے لیے کسی خاص اصول یا ضابطہ کی پابندی کی ضرورت نہیں، صرف اختیار تمیزی کا ایسا بے پناہ حربہ اس کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ جس کے ضر ب کی کوئی داد وفریاد نہیں۔
چونکہ از ابتدائے ڈپٹی مجسٹریٹی بغایت ٹمپریری کلر کی بحیثیت ’’کنڈیڈیٹ‘‘ کے مجھے انٹرویو کے بیسوں مواقع ملے ہیں، اس لیے ایک سینئر کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے اپنے انٹرویو کے دل چسپ تجربات پیش کرتا ہوں تاکہ عام دلچسپی کے علاوہ ممکن ہے کہ امیدواروں کو انٹرویو کے امتحان کے موقع پر ’’کی‘‘ (Key) کا کام دیں۔
بی اے پاس کرنے کے بعد لاء کالج میں نام لکھوائے تقریباً ڈیڑھ سال ہوئے تھے کہ ڈپٹی مجسٹریٹی کی تقرری کا اعلان گزٹ میں دیکھ کر میں نے سوچاکہ بحیثیت وکیل ڈپٹیوں کو حضور ’’یوراونر‘‘ کہنے کے بجائے خود ہی ’’یور اورنر‘‘ بننے کی کیوں نہ کوشش کروں۔ چنانچہ میں نے بھی ایک درخواست مع تعلیمی سرٹیفکیٹ بذریعہ پوسٹ روانہ کردی۔ ایک ہفتہ کے بعد طلبی کا سمن جسے ایسے موقعوں پر انٹرویو کارڈ کہتے ہیں۔ کورٹ کے چپراسی کی بجائے جب ڈاکیہ نے مجھ پر تعمیل کیا تو انٹرویو میں ڈپٹی مجسٹریٹی کی صلاحیت جانچنے کے لیے جتنے سوالات کیے جاسکتے ہیں سب کے جوابات ذہن نشیں کر کے مقررہ تاریخ پر ہاف پینٹ اور ہاف شرٹ زیب تن کیے بنہم ڈپٹیائتی کی شان سے انٹرویو آفس کے باہرپہونچا۔ ساتویں کنڈیڈیٹ کے بعد جب میرا نمبر آیا، دل میں یہ مصرعہ؛
اب قلم تھام کے بیٹھو مری باری آئی
پڑھتا ہوا افسران انٹرویو کے سامنے حاضر ہونے کے بعد جیسے ہی کرسی پر سامنے جاکر بیٹھا تھا کہ پہلا سوال مجھ سے یہ کیا گیا۔
سوال، آپ کا خاندانی پیشہ کیا ہے؟
یہ بے جوڑ سوال سُن کر میں سوچنے لگاکہ آخر ڈپٹی مجسٹریٹی سے اس سوال کو لگاؤ کیا ہے، مگر ذہانت بھی عجیب خدا داد چیز ہے فوراً کڑی ملانے کے لیے میں نے جواب دیا۔
جواب، جناب عالی! اصلی پیشہ تو ہے زمینداری مگر اس سلسلہ میں مقدمہ بازی کو بھی ایک طرح سے ہم لوگوں کا سکنڈ پیشہ سمجھ لیجئے، جس کی وجہ سے ’’سول‘‘ (Civil) اور کریمنل (Criminal) مقدمات کے اکثر دفعات سے واقفیت ہوجاتی ہے۔ اس لیے قانون دانی گویا ہم لوگوں کی گٹّھی میں ہے۔
سوال، کالج سے نکلنے کے بعد اب تک آپ کا کیا شغل رہا؟
جواب، وہی مقدمات کی پیروی، مسل کی ورق گردانی، حسب خواہ شہادتیں فراہم کرنا، گواہوں کو تعلیم دینا، اس کی وجہ سے مجھے ایسی مہارت پیدا ہوگئی ہے کہ ڈپٹی مجسٹریٹ ہوجانے کے بعد صرف صورت دیکھ کر پہچان لوں گا کہ کون گواہ سچّا ہے اور کون جھوٹا، اس تجربہ کی بناء پر فیصلہ لکھنے میں مجھے کوئی دقت نہ ہوگی۔
سوال، زمینداری کی حکومت چھوڑکر ملازمت کی اس غلامانہ زندگی کو آپ نے کیوں پسند کیا؟
جواب، جناب ڈپٹی مجسٹریٹی کی شان اور حکومت کے سامنے زمینداری کی بھی کوئی حقیقت ہے۔ بڑے بڑے زمیندار، ایک معمولی تھرڈ کلاس ڈپٹی کی بیگار میں کام کرنا اپنی عزت سمجھتے ہیں۔
سوال، (مسکراتے ہوئے) زمینداری کی بدولت کافی سرمایہ رہتے ہوئے بزنس چھوڑ کر ڈیڑھ دو سو روپے ماہانہ کی ڈپٹی مجسٹریٹی پر کیوں جان دیتے ہیں؟
جواب، اگر آدمی ٹیکٹ فل (Tact Full) ہو تو ڈپٹیائتی کی بزنس بھی کم نفع بخش نہیں۔
سوال، (اپنے ساتھیوں کو آنکھوں پر لگی ہوئی عینک کے باہر مسکراکر دیکھتے ہوئے) آب وہوا کے اعتبار سے آپ کے خیال میں ہندوستان کا کون کون سا خطّہ انسانی صحت کے لیے مفید اور کون کون مضر ہے؟
جواب، حضور! جب ڈپٹی مجسٹریٹی کرنی ہو تو آب وہوا کے مضر یا صحت بخش ہونے کی آدمی کہاں تک پروا کرے۔ آپ جہاں ڈپٹی بناکر بھیج دیجئے، اگر ذرا بھی عذر کروں تو فوراً ڈسمِس کردیجیے۔
یکے بعد دیگرے مسلسل سوالوں کے دندان شکن بلکہ جبڑا اور کلّہ شکن جواب دے کر ایسا منہ بند کردیا کہ پھر اور مزید سوالوں کی ہمت نہ پڑی۔ آخر ’’اچھا آپ اب جا سکتے ہیں‘‘ کہہ کر مجھ سے پیچھا چھڑایا۔ میں بھی خوش خوش دِل میں یہ سونچتا ہوا اپنے گھر واپس آیا کہ یہ حضرت بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ کس کنڈیڈیٹ سے پالا پڑا ہے۔ لیکن چند ہی روزکے بعد میرے ان دندان شکن جوابوں کا ایسا ہمت شکن اور دل شکن نتیجہ معلوم ہوا کہ مجھ ہی جیسا تحمل مزاج آدمی تھا کہ غصّہ کے مارے اراکین انٹرویو کو صرف دل ہی میں دل بُرا بھلا کہنے پر اکتفا کیا ورنہ دوسرا کوئی اور کنڈیڈیٹ ہوتا تو خودکشی کرکے حکم دہندوں میں ان ممبروں کا نام لکھواکر ایسا پھنسا دیتا کہ پھر انٹرویو میں لوگوں کو دق کرنا ہی بھول جاتے۔
میرے سلکٹ (Select) نہ کرنے کی وجہ جب میرے ایک ہمدرد نے ایک ممبر سے پوچھی تو ارشاد ہوا کہ صرف ’’جنرل نولج‘‘ کا اندازہ لگانے کے لیے بہت ہی غیرمتعلق اِدھر اُدھر کے سوالات کیے گئے تھے۔ مگر ہر غیرمتعلق سوال کی کڑی ہیر پھیر کر انھوں نے ڈپٹی مجسٹریٹی کے پوسٹ سے ملادی جس کی وجہ سے ہم لوگ اس نتیجہ پر پہونچے کہ جنرل نولج تو کیا آپ کے کنڈیڈیٹ میں ’’کومن سنس‘‘ (CommonSense) تک نہیں۔
اب آپ ہی حقاً ایماناً خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کہ کہیے کہ بلایا گیا تھا میں ڈپٹی مجسٹریٹ کے کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے اور پوچھا جاتا ہے صحت بخش آب وہوا کے متعلق۔ ڈپٹی مجسٹریٹی کے امیدوار کوہیلتھ اوفیسری کا کنڈیڈیٹ سمجھنا یہ خود کہاں تک کومن سنس کے مطابق ہے۔
خیر پہلے انٹرویو کے اس تجربے نے یہ بتلا دیا کہ انٹرویو کا سسٹم قابلیت و اہلیت اور صلاحیت ولاحیت جانچنے کے لیے نہیں جاری کیاگیا ہے، بلکہ صرف کومن سنس اور جنرل نولج کا اندازہ لگانے کے لیے۔ لیکن سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جنرل نولج کسی خاص علم وفن کے جاننے کا تو نام نہیں بلکہ دنیا بھر کے معلومات کو جنرل نولج کہتے ہیں۔ اب آپ ڈپٹی مجسٹریٹی کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے انٹرویو میں بلائے گئے ہیں اور پوچھا جاتا ہے آپ سے ڈاکٹری کے متعلق کہ پلیگ اور طاعون میں کیا فرق ہے یا آپ منصفی کے کنڈیڈیٹ ہیں اور آپ سے دریافت کی جاتی ہیں انجینئری کی باتیں کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کس طرح سے بن سکتی ہے یا رجسٹراری کے انٹرویو میں بلائے گئے ہیں اور آپ کا امتحان لیا جاتا ہے علم نباتات کے متعلق کہ آپ گھاس کاٹ سکتے ہیں یا نہیں۔ غرض کہ معلومات کی حیثیت سے آپ چوں چوں کا مربہ ہیں یا نہیں۔ ایسی حالت میں انسائیکلوپیڈیا حفظ کیے بغیر انٹرویو میں جانا خود اپنے پاؤں میں کلہاڑی یا سر پر ہتھوڑا مارنے کے برابر ہے کہ نہیں؟
اس لیے میں نے سوچا کہ انسائیکلو پیڈیا اگر نہیں تو جنرل نولج کے لیے کم سے کم بک آف نولج کا حافظ ہوجانا از بس ضروری ہے۔
چنانچہ آئندہ سال کنڈیڈیٹ ہونے کے لیے انٹرویو کے امتحان کی تیاری کی غرض سے بک آف نولج کی اسٹڈی شروع کردی۔ اتفاق سے اس کے چھ سات ہی ماہ بعد منصفی کی تقرری کا اعلان گزٹ میں دیکھ کر میں نے سوچا کہ ڈپٹی مجسٹریٹی اُمید میں ایک سال تک اپنے ہاتھ پر ہاتھ یا کسی کے پاؤں پر پاؤں دھرے بیٹھنے رہنا مناسب نہیں بلکہ دوسری سروس کے لیے بھی گھونسے لات کی شکل چھوڑ کر اور ہر طرح سے ہاتھ پاؤں مارنا چاہیے۔ اس خیال کو مدِّ نظر رکھ کر منصفی کی درخواست بغیر اسٹامپ چپساں کیے۔ وکالتاً نہیں بلکہ اصالتاً داخل کردی۔ حسب دستور تاریخ مقررہ پر انٹرویو میں جو حاضر ہوا تو سوالات کی ابتدا اس طرح سے شروع ہوئی۔
سوال، آپ نے اس سے پہلے بھی کسی سروس کے لیے اپلائی (Apply) کیا تھا؟
جواب، جی ہاں، ڈپٹی مجسٹریٹی کے لیے۔
سوال، آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا نام کیوں نہیں بھیجا گیا؟
جوابا، مؤثر ذرائع نہیں رہنے کی وجہ سے۔
سوال، یہاں ذرائع کا کیا کام، صلاحیت اور قابلیت کی کمپٹیشن میں جو کمپیٹنٹ کنڈیڈیٹ ہوتا ہے اس کا انتخاب ہوتا ہے۔ چوںکہ اس کمپٹیشن میں آپ پورے نہیں اُترے ہوں گے اس لیے آپ کا نام نہیں بھیجا گیا۔
جواب، حضور، اس کو میں بھی عرض کررہا ہوں کہ کوالیفکیشن میں تو خدا کے فضل سے نہیں البتہ ریکومینڈیشن کے کمپٹیشن میں کافی نمبر نہیں لاسکا۔
سوال، ڈپٹی مجسٹریٹی اور منصفی ان دونوں سرکاری سروسوں میں آپ کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں؟
جواب، حضور، بات یہ ہے کہ ڈپٹیوں کو صرف مارپیٹ، چوری ڈکیتی، نقب زنی، خون ریزی وغیرہ کے مقدمات کی سماعت کی وجہ سے روزانہ ڈاکوؤں، بدمعاشوں، چوروں، اٹھائی گیروں سے واسطہ رہتا ہے ’’اور صحبتِ صالح ترا صالح کند‘‘ کا مقولہ غلط نہیں ہے۔ یہ جو ڈپٹیوں میں شانِ غرور، ڈینگ، ہیکڑی اور ’’ہم چومن دیگرے نیست‘‘ قسم والا انداز دیکھتے ہیں یہ انہیں صحبتوں کا اثر ہے، برخلاف اس کے منصفوں کو انھیں اپنے اجلاس پر زیادہ تر بڑے بڑے دولتمندوں، سرمایہ داروں کی ڈگری دلانے کی وجہ سے منسکر مزاج مہاجنوں اور ساہوکاروں سے تعلقات رہتے ہیں اور یہ منصفوں میں جو گربہ مسکین قسم کی انکساری وغیرہ دیکھتے ہیں، یہ انہیں ساہوکار بنیوں کی فیض صحبت کا اثر ہے، اس لیے فرسٹ کلاس ڈپٹی مجسٹریٹی کے عوض فرسٹ سکنڈ مصنف کیا تھرڈ کلاس منصف ہونا میں کہیں بہتر سمجھتا ہوں۔ چنانچہ اس منصفی کے بارے میں شاعروں نے بھی کہا ہے؛
منصفی ہو تو غضب نا منصفی ہو تو ستم
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
سوال، آپ نے وکالت بھی پاس کی ہے یا نہیں؟ اور اگر کی ہے تو پاس کیے کتنے دن ہوئے؟
جواب، حضور، ’’سول‘‘ اور ’’کریمنل‘‘ دونوںسبجیکٹ میں پاس کیا ہے اور پاس کیے ابھی دو ماہ بھی نہیں ہوئے۔ آپ اسی سے سمجھ لیجئے کہ ابھی ڈگری تک بھی نہیں ملی ہے۔ گون تک نہیں بنوایا ہے، ایک دم ’’تازہ وفرِش‘‘ وکیل ہوں۔
سوال، آپ کو معلوم ہے کہ منصفی میں اپلائی (Apply) کرنے کے لیے کم سے کم چھ ماہ کی پریکٹس لازمی ہے؟
جواب، حضور، منصفی میں تو وکالت اور قانون دانی کی چنداں ضرورت ہی نہیں ’’شہر سکھائے کوتوالی‘‘ کی مثل کے مطابق جب ایک معمولی ڈپٹی وکیل کی بحث سُنتے سُنتے قانون داں ہوجاتا ہے تو بیچارے منصف ایسے بھدے دماغ کے تھوڑے ہی ہوتے ہیں کہ بحث کے وقت سمجھانے پر بھی دماغ میں نہ اَٹے۔ قانون پڑھنے اور دفعات سمجھانے کا پیشہ تو وکلا کا ہے۔ بیچارے حاکموں کا کام تو اجلاس پر صرف اظہار جرح، لکھنا، بحث سننا اور فریقین کے وکلاء میں سے جس نے زبردستی جو قانون دماغ میں ٹھوس دیا، اسی کے مطابق فیصلہ دینا یہ چھ ماہ کی پریکٹس کی قید تو بلا قصور منصفوں پر ٹھوک دی گئی ہے اور اگر اس پر بھی یہ قید حضور لازمی سمجھتے ہیں تو پروبیشن (Probation) کے زمانہ میں چھ ماہ کیا سال بھر تک اس کمی کو پورا کرنے کا موقع ہے۔
یہ مدلل بحث سن کر وہ سب کچھ اس طرح سے مسکرائے کہ مجھے یقین ہوگیا کہ انٹرویو کے امتحان میں اوّل نمبر لانے کی وجہ سے منصف اول ہوجانا اب لازمی ہے۔ مگر کئی روزکے بعد اس انٹرویو کا غیرمنصفانہ نتیجہ سن کر یقین ہوگیا کہ منصفی کا پوسٹ تو قائم ہے مگر حقیقی معنوں میں دنیا سے منصفی ایک دم اُٹھ گئی اور میری طرح تعجب، حیرت، غصّہ، افسوس کی قسم سے کئی طرح کی جذباتی کیفیتیں بیک وقت آپ پر بھی طاری ہونے لگیں گی۔ میرے متعلق یہ رائے قائم کی گئی کہ مجھ میں کومن سِنس کافی مقدار میں نہیں پایا جاتا۔ اب انھیں کون سمجھائے کہ ہر شخص کی سمجھ اور سنس جُدا ہے۔ ’’کومن ویلتھ‘‘ (CommonWealth) کی طرح کومن سنس کا خود ساختہ اصول بناکر کسی کی قابلیت اور صلاحیت کا معیار قرار دینا نون سنس قسم کی باتیں ہیں۔
اب ناکامی کے بعد آپ نے سمجھا ہوگا کہ بددل ہوکر میں نے نئے سروس کی کوشش چھوڑدی ہوگی۔ لاحول ولا قوۃ، وہ کوئی دوسرے بزدل اور پست ہمت کنڈیڈیٹ ہوں گے جو اک ہی دوبار کی شکست کے بعد میدان چھوڑکر بھاگ جاتے ہیں۔ میں مہاتما دل ودماغ کا آدمی ہوں۔ بیسیوں بار فیلیور (Failure) ہونے پر بھی اپنی حرکتوں سے باز آنے والا نہیں۔ یہ سروس کمیٹی کیا ہے، بادشاہ تک کے انٹرویو میں فیل ہوجانے کے بعد بھی صرف خود ہی نہیں بلکہ ساتھیوں کو بھی میں یہی مشورہ دیتا رہوںگا کہ؛
کیے جاؤ کوشش مرے دوستو
چنانچہ دوسرے سال جب سب رجسٹراری کی خبر ملی تو فوراً بذریعہ رجسٹری درخواست بھیج دی۔ اب حسبِ دستور جب انٹرویو کے لیے بلایاگیا تو اب کے زبانی امتحان کے بجائے تحریری امتحان شروع ہوگیا اور وہ اس طرح کہ اُردو کے صاف خوشخط اور بدخط وثقائق کا ایک بنڈل علی الترتیب جو میز پر پہلے ہی سے رکھا گیا تھا۔ اس میں سے ایک ایسا بدخط حروف کا وثیقہ جو بدقسمت کنڈیڈیٹ کے خطِ تقدیر سے بھی زیادہ شکستہ تھا جسے میں کیا ممتحن صاحبان بلکہ خود لکھنے والا بھی نہیں پڑھ سکتا تھا، نکال کر مجھے پڑھنے کے لیے دیاگیا۔ وہ تو خیریت تھی کہ ایک انٹرویو زدہ تجربہ کار کنڈیڈیٹ کے کہنے پر وثیقوں کے ڈھرے اور انداز تحریر سے مانوس ہونے کی غرض سے دو روز پہلے ہی ایک دوست کے یہاں سے لاکر چند پرانے وثیقوں کو صرف پڑھا ہی نہیں بلکہ دو کو ازبر بھی کرلیا تھا۔ یہی احتیاطی تدبیر اس وقت کام آگئی۔ فوراً اس جنّاتی حروف کے وثیقہ کو ہاتھ میں لے کر اپنے منھ کے سامنے کرکے اپنے یاد کیے ہوئے وثیقہ کے مضمون کو شبینہ کی طرح ایک سانس میں اس طرح دہرایا کہ مارے حیرت کے سب میرا منھ تکنے لگے اوریہ ہمت میں نے اس لیے کی کہ کوشش کرنے پر بھی کسی سے وہ حروف آسانی سے پڑھے نہیں جاتے۔
خیر یہ مرحلہ تو خدا کے فضل سے سر کرلیا۔ اب اس کے بعد دوسری مصیبت یہ پیش آئی کہ ایک دوسرا وثیقہ ناگری حروف میں لکھا ہوا پڑھنے کے لیے پیش کیاگیا۔ اس موقعہ پر پہلی ترکیب تو کام دے نہیں سکتی تھی، کیونکہ میں اردو کے وثیقے یاد کیے ہوئے تھا اور اس کی زبان سنسکرت آمیز بھاشا تھی۔ تھوڑی بہت ہندی جاننے کے باوجود میرے دماغ اور نگاہوں نے پوری قوت کے ساتھ زور آزمائی کی مگر گاڑی آگے نہ چل سکی۔ مجبوراً میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ حضور عالی، نحیف اور کمزور انسانوں سے دیوناگری یعنی دیو کے حروف پڑھوانا کہاں تک مناسب ہے۔ اس کے علاوہ کوئی سب رجسٹرار یا رجسٹرار رجسٹری کے وقت خود وثیقہ ’’بقلم خاص‘‘ پڑھتا نہیں۔ یہ کام تو پیشکار اور کلرک کا ہے اور میں کلر کی یا پیشکاری کا نہیں بلکہ سب رجسٹراری کا امیدوار ہوں۔ اور یوں ہی مجھ سے پڑھوانے کی ضد ہے تو ایک روز کی مہلت دی جائے۔ یہ ناگری کیا، بنگلہ، اڑیا تک کے وثیقہ پڑھ کر بلکہ زبانی یاد کرکے برزبانی سنادوںگا۔ اس معقول عذر پر معنی خیز تبسّم کے ساتھ مجھ سے کہاگیا کہ اس وقت آپ جائیں۔ آئندہ کسی موقع پر یاد کرکے آئیے گا۔ میں سمجھ گیا کہ پھر نیت ان لوگوں کی گڑبڑ معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ اس وقت جب کہ جنّاتی حروف کا وثیقہ نکال کر میرے سامنے پیش کیاگیا تھا، میں اپنے خطِ تقدیر کو پڑھ چکاتھا۔ مگر امید عجیب بلائے بے درماں چیز ہے۔ آنکھ کے دیکھے ہوئے واقعہ اور کان کی سنی ہوئی باتوں کو بھی جھٹلاتی رہتی ہے۔ لیکن خدا بھلا کرے ان ممبران انٹرویو کا کہ اسی وقت میری قسمت کا فیصلہ سنادیا اور انتظار کی پریشانیوں میں ہفتوں مبتلا نہیں رکھا۔
اس تیسرے انٹرویو کی ناکامی کے بعد میں نے سوچا کہ لاکھ بی اے اونرس یا ایم اے کی اعلیٰ سے اعلیٰ سارٹیفکیٹ بھی ہو جب بھی یہ اونچے درجے کی سرکاری ملازمت کے انٹرویو میں مجھ جیسے بے یار ومددگار کینڈیٹ کو منتخب کرنا سروس کمیٹی کے ممبروں کے لیے ایک بھاری مصیبت ہے۔ اس لیے کہ یہ بیچارے فرشتہ تو ہیں نہیں، جنھیں نہ کسی رشتہ ناتہ، نہ بھائی بندی، نہ دوستانہ راہ ورسم ہو، آدمیت بھی نہ ہو، جب بھی یہ لوگ آخر پیدائشی آدمی ہیں۔ بیسوں اعزاء واقربا، سینکڑوں دوست احباب، ہزاروں ملاقاتی کا ہونا لازم اور ہر پوسٹ کے امیدوار میں کسی نہ کسی عزیز یا دوست یا ملاقاتی کے لگاؤ کا کنڈیڈیٹ نکل ہی آتا ہے۔
اب ایسے موقعوں پر آدمی اپنے چند روزہ پوزیشن کو دیکھے یا ہمیشہ کے نہ منقطع ہونے والے تعلقات کا خیال رکھے۔ اس خیال کو مدنظر رکھ کر میں نے ارادہ کرلیا کہ گزیٹیڈ پوسٹ کا خیال چھوڑکر اس سے نیچے درجہ کی سرکاری ملازمت کے لیے کوش کروں۔ مگر شومئی قسمت کا کیا علاج کہ ایک خاص قسم کی انسپکٹری کے لیے درخواست دینے پر جب انٹرویو کے لیے بلایا گیا تو آفس میں پہونچ کر معلوم ہواکہ انٹرویو کے پہلے کامیاب امیدوار نامزد ہوگیا۔ بقیہ ناکام امیدواروں کا ڈِس کوالیفائیڈ (Disqualified) بنانے کے لئے رسماً انٹرویو شروع ہوگیا۔ مدعی کے اظہار کے پہلے ہی اس کے حق میں فیصلہ صادر ہوجانے کی وجہ دریافت کی تو محکمہ کے ایک اہلمد سے معلوم ہوا کہ اس ڈیپارٹمنٹ کے کمشنر کے پرسنل اسسٹنٹ کے اس خاص عزیز کے متعلق پہلے ہی سے طے شدہ بات تھی۔ اب پرسنل معاملہ میں دخل دینا صرف ایٹی کیٹ ہی نہیں بلکہ ’’پرسنل لا‘‘ کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے بہ اطمینان شام اپنے گھر واپس چلا آیا۔ اس کے چھ سات ماہ پولیس انسپکٹری کے لیے جب درخواست دی تو،
بہر جا کہ رسیدیم آسماں پیدا ست
والا مضمون وہاں بھی تھا۔ یعنی انٹرویو میں سوالات پوچھنے والے اِس۔ پی صاحب کے خود حقیقی خالہ زاد ماموں کے سگے لخت جگر کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے موجود۔ ایک تو اس۔ پی کا عزیز، اس پر دیکھنے میں بدن میں ذرا گٹھیلا اور ’’ہلدی‘‘ (Healthy) اس لیے ہر کنڈیڈیٹ سے ورزش اور جسمانی صحت کے متعلق پوچھاجانے لگا۔ مجھ سے بھی جب یہ کہا گیا کہ سب انسپکٹری کے لیے آدمی ہلدی (Healthy) ہونا ضروری ہے تمہیں ورزش کا شوق ہے یا نہیں؟ میں نے کہا حضور! ورزش نہ کرنے کے باوجود جس کنڈیڈیٹ سے چاہئیے بھڑا دیجئے، پھر دیکھیے اگر پٹک کر ہَلدی لگانے کے لائق نہ بنادوں تو ہلدی نہ ہونے کی بناء پر میرا نام چھانٹ دیجئے۔ مگر وہاں تو ایک مخصوص ہلدی کنڈیڈیٹ کی ضرورت تھی۔ اس سے مایوس ہوکر آفس کی کلرکی کی طرف میری کوشش کا نزلہ رجوع ہوا۔ مگر وہاں تو ہرمحکمہ کے کلرکوں کے اعزاء واقرباء خالی ہونے یا نئے پوسٹ کی ضرورت سے ہی مسقل کنڈیڈیٹ بنے بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہر ہونے والی تقرری کی جگہ پر ناجائز محرّر کی حیثیت سے کام بھی کررہے ہیں۔ اب جس کلرکی کی جگہ کے لیے میں نے درخواست دی ہے، انٹرویو میں پہلا سوال مجھ سے یہی کیا گیا کہ آفس میں اس سے پہلے بھی کام کیا ہے؟ کلرکی کا کچھ تجربہ ہے؟ میں نے کہا کہ جناب کلرکی کا تو نہیں، البتہ کلرکوں کا مجھے سخت تلخ تجربہ ہے۔ جس آفس میں رہوںگا، ممکن ہیں کہ کوئی بغیر علم میرے کسی سے کچھ لے سکے لیکن وہی جو میں نے عرض کیا تھا کہ ہر آفس کے کلرک اپنے محکمے کے افیسروں پر ایسا چھائے رہتے ہیں اور اپنے یگانوں سے اپنے محکمہ کا راستہ نئے آدمی کے لیے ایسا روکے رہتے ہیں کہ کوئی نیا کنڈیڈیٹ گھسنے بلکہ ادھر جھانکنے کی بھی نیت نہیں کرسکتا۔
مختصر یہ کہ ڈپٹی مجسٹریٹی، منصفی، سب رجسٹراری، سب انسپکٹری مختلف محکموں کی کلرکی کے سلسلہ میں اتنے انٹرویو سے واسطہ پڑا کہ ہرایک کی اگر تفصیلی حالات لکھوں تو ایک ضخیم ’’انٹرویو نامہ‘‘ ہوجائے۔ اس لیے مختصراً اپنے آخری انٹرویو کے کچھ دل چسپ سوال وجواب کے حالات لکھنے پر اکتفا کرتا ہوں۔
مسلسل کئی سال تک انٹرویو کے پھیرے میں رہ کر جب قریب اور ایج (over age) ہوگیا تو مایوس ہوکر گھر بیٹھ رہا۔ اتفاق سے ایک روز ایک دوست نے کہا، ’’ساٹھ روپئے ماہانہ تنخواہ کی ایک ٹمپریری جگہ پولس آفس میں خالی ہے، بیکار سے بیگار بھلی۔ تم بھی ایک درخواست پولس آفس میں دے دو۔‘‘
گزشتہ انٹرویو کے تجربات نے اس نتیجہ پر پہونچا دیا کہ ’’انٹرویو سسٹم‘‘ جب تک رہےگا، ایسے کنڈیڈیٹ کو جس کا کوئی سرپرست نہ ہو جگہ ملنی دشوار ہے۔ اس لیے اس امید پر نہیں کہ جگہ مل جائے گی بلکہ محض اس خیال سے کہ،
سروس کی ہے اُمید ہی کس روسیاہ کو
اک گونہ دل لگی ہمیں دن رات چاہیے
ایک آخری انٹرویو کا دل چسپ تماشہ دیکھنے کی غرض سے پولس آفس میں جاکر بدست خاص اس۔ پی کے ہاتھ میں اپنی درخواست دے دی۔ انھوں نے ایک ہفتہ کے بعد انٹرویو کے لیے طلب کیا۔ حسب الحکم مقررہ تاریخ پر پہونچا تو انٹرویو میں جو سوالات وجوابات ہوئے انھیں بھی آپ ملاحظہ فرمائیں۔
ایس۔ پی، تم کہاں تک انگریزی جانتا ہے؟
میں، حضور میں بی۔ اے پاس ہوں۔
ایس۔ پی، ہم اتنا ہائی ایجوکیشن والا آدمی نہیں مانگتا۔ ہم کو کھالی (خالی) میٹرک انگریزی جاننے والا کا ضرورت ہے۔
میں، حضور مجھے بی۔ اے۔ کیے ہوئے دس سال ہوگئے۔ اس لیے سب بھول گیا۔ اس جگہ کے لیے جتنی انگریزی جاننے کی ضرورت ہے بس اس قدر یاد رہ گئی ہے۔
ایس۔ پی، تمہارا فیشن ایبل سوٹ بولتا ہے کہ تم پیسہ والا گھر کا لڑکا ہے۔ تیس روپیہ مہینہ تو تمھارا سوٹ بوٹ کا لر ٹائی میں خرچ ہوجانے سکتا ہے۔ اس واسطے تمھارا لائک (لائق) یہ جگہ نہیں۔ گریب (غریب) آدمی کا واسطے ہے۔
میں، غریب پرور یہ سوٹ بوٹ خاص میرا اپنا نہیں۔ یہ انٹرویو کے واسطے دوستوں سے مانگ تانگ کر لایا ہوں ورنہ گھر پر تو؛
وہی کُرتہ وہی لنگی جو آگے تھی سو اب بھی ہے
ایس۔ پی، تم ٹائپ جانتا ہے؟
میں، آپ کے اقبال سے میں ہر قسم کا اور ہر ٹائپ کا انگریزی صرف لکھ پڑھ سکتا ہوں۔
ایس۔ پی، تم شوٹ ہینڈ جانتا ہے؟
میں، حضور میرا مائنڈ ایسا زبردست ہے کہ شوٹ ہینڈ کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک بار جو بولنا ہو بول دیجئے اور کل باتیں لکھی ہوئی مجھ سے لے لیجیے۔ اس کے علاوہ میں ایسا ’’سوئیفٹ رائٹر (Swift Writer) ہوں کہ آپ بولنے کے ساتھ ساتھ کیا بلکہ بعض وقت قلم کی روانی میں منہ سے الفاظ نکلنے ہی کے پہلے لکھا جاتا ہے۔
ایس۔ پی، تم تیرنا جانتا ہے؟
میں، اس پوسٹ کے لیے تیراکی جاننے کی شاید اس لیے ضروری ہے کہ خدا نخواستہ کبھی بڑا سیلاب آجائے اور دروازہ پر نوایڈمیشن لکھے رہنے کے باوجود پانی زبردست آفس میں گھس آئے تو آفس کے کاغذات کو تیر کر باہر نکالنے کے لیے تیراکی کا جاننا ضروری ہے تو حضور عالی گردن تک پانی میں تو بغیر کشتی تیر کر کاغذات سمیت باہر نکل آسکتا ہوں۔
ایس۔ پی، اچھا تم سامنے والا تالاب میں تیرنے سکتا ہے؟
میں، یہ تالاب کیا ہے حضور کا حکم ہو تو سمندر میں کود کر جان دے سکتا ہوں۔
ایس۔ پی، تم گھوڑا چڑھنا جانتا ہے؟
میں، حضور گھوڑا چڑھنا کیا چیز ہے، زینہ لگاکر ہاتھی پر چڑھ سکتا ہوں۔
ایس۔ پی، پولِس ڈیپارٹمنٹ میں تمہارا اپنا آدمی بھی کوئی ہے؟
میں، یوں توپولس میں بیسوں میرے اپنے عزیز اور رشتہ دار ہیں جن کو بالفعل میں نہیں جانتا۔ تاہم دو تین شخصوں کے متعلق تو کہہ سکتا ہوں جو اس محکمہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک میرے ماموں جان کے قریبی رشتہ کے خالہ زاد بھائی جو داروغہ اور انسپکٹر نہیں بلکہ ایک یورپین اِس۔ پی کے خاص اردلی میں ہیں۔ دوسرے سسرالی رشتہ میں ایک طرح کے قریبی سالے ہوتے ہیں، وہ سپاہی سے ترقی کرکے ہیڈ کانسٹبل کے درجہ پر پہونچ گئے۔ تیسرے خود افسران پولیس کا یہ کفش بردار خاکسار سروس کا امیدوار آپ کے سامنے موجود ہے ہی۔
ایس۔ پی، اچھا اب تم جاسکتا ہے۔
میں، تو پھر اپوائنٹمنٹ لیٹر کب تک میرے نام ایشو ہوگا؟
ایس۔ پی، آج کا انٹرویو کا بعد اچھا کنڈیڈیٹس کا کل یا پرسوں پھر انٹرویو مانگتا ہے۔
میں، تو میرے نام دوبارہ انٹرویو کو بھی آج ہی ختم کردیجئے۔
ایس۔ پی، پھاجل (فاضل) بات مت بولو۔ آج دوسرا انٹرویو ہونے نہیں سکتا۔
میں، حضور عالی، اصل بات یہ ہے کہ آج بارہ بجے شب کے بعد میں ’’اور ایج‘‘ ہوجاؤںگا۔ آج ٹھیک شب کے گیارہ بج کر ۵۹ منٹ یا زیادہ سے ۶۰ منٹ تک انڈر ایج ہوں۔ اس کے ایک دو منٹ کے بعد اوور ایج ہونے کی وجہ سے پولس کے کام کے لائق نہیں رہوںگا۔ اس لیے وہ انٹرویو بھی آج ہی ختم کردیجئے۔
ایس۔ پی، تمہارا عمر کیا ہے؟ کِس عمر میں بی۔ اے پاس کیا ہے؟
میں، 16 سال کی عمر میں بی۔ اے پاس کیا اور پاس کئے دس سال ہوگئے۔
ایس۔ پی، ایسا بات ہے تو 26برس کا تمہارا عمر ہونے مانگتا ہے تم دو برس سے ’’اوور ایج‘‘ ہے۔
میں، سر، اسکول اور کالج کی عمر کا کوئی اعتبار نہیں۔ دوسری بار کے ’افیڈیوٹ‘‘ (Affidavit) کی رو سے آج بارہ بجے شب تک انڈر ایج ہوں۔
ایس۔ پی، ہمارا پاس پھاجل وکت (فاضل وقت) نہیں۔ (کلرک کو مخاطب کرکے) انٹرویو کے واسطے کتنا کنڈیڈیٹ اور ہے؟
کلرک، حضور، تقریباً اور ایک سو کنڈیڈیٹ انٹرویو کے انتظار میں کھڑے ہیں۔
ایس۔ پی، اومائی گاڈ، اتنا آدمی کا انٹرویو کا واسطے ہمارے پاس وکت (وقت) نہیں۔ باہر جاکر بول دو انٹرویو کھتم (ختم) ہوگیا۔
کلرک، جب انٹرویو کارڈ ایشو ہوچکا ہے تو بغیر ملاقات واپس چلے جانے پر اخباروں میں بڑا ہلّا ہوگا۔ یہ انٹرویو تو صرف امیدواروں کے تسلّی کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ اپوائنٹمنٹ افسروں کی جس پر مہربانی کی نظر ہوتی ہے اسی کو جگہ ملتی ہے۔ باقی رہا جب حضور کے پاس فاضل وقت نہیں اور اس جھنجھٹ کو آج ہی ختم کردینا چاہتے ہیں تو بجائے ایک ایک کے پانچ پانچ کنڈیڈیٹ اکٹھے بلاکر ایک دو بات پوچھ مات کر رخصت کردیجیے۔
ایس۔ پی، وِل بابو، تم ٹھیک بولتا ہے۔ اُول رائٹ۔ پانچ کنڈیڈیٹ کا بیچ (Batch) انٹرویو کا واسطے آنے کو بولو۔
صاحب کے حکم کے مطابق پانچ امیدواروں کو پہلا جُتھّا پریڈ کے قاعدہ سے ’’کوئیک مارچ‘‘ کرتا ہو صاحب کے سامنے حاضر ہوکر فوجی سلام کرنے کے بعد جب صف بستہ کھڑا ہوگیا تو کلرک کا اشارہ پاتے ہی میں باہر چلا آیا اور دروازہ کے پاس پردہ سے لگ کر اس دل چسپ انٹرویو کا تماشہ دیکھنے لگا۔
صاحب، (پانچوں رنگروٹ سے مخاطب ہوکر) تم سب نے انگریزی کتنا پڑھا ہے؟
پہلا، آئی اے پاس ہوں۔
دوسرا، بی اے کی ڈگری میرے پاس ہے۔
تیسرا، حضور میں بی اے اونر ہوں۔
چوتھا، جناب میں گولڈ میڈلسٹ ہوں۔
پانچواں، میں فرسٹ ڈویژن۔۔۔ (یہ جملہ پورا بھی نہ ہونے پایا تھاکہ صاحب نے بگڑکر کہا) ہمارا پاس پھاجل وکت نہیں۔ تم سب الگ الگ جواب دینے مانگےگا تو ہم کچھ کرنے نہیں سکتا۔ سب کا طرف سے ایک آدمی جواب دینا مانگو۔
سب کی طرف سے ایک نے کہا، حضور ہم سب میٹرک پاس ہیں۔
صاحب، تم سب کا عمر کیاہے؟
ایک، ۲۱ سال
دوسرا، ۲۰ سال
تیسرا، ۲۲ سال
چوتھا، ۲۳ سال
پانچواں کچھ کہنا چاہتا تھا کہ صاحب نے ڈپٹ کر کہا،
صاحب، ہم بول چکا کہ سب کا طرف سے ایک آدمی بولو۔
پانچواں، حضور ہم سب کی عمر ’’انڈر ایج‘‘ ہے۔
صاحب، میٹرک کا آگے تم لوگ اور ’’اسپیشل کوالیفکیشن‘‘ رکھتا ہے؟
پہلا، حضور ہم ٹائپ جانتے ہیں۔
دوسرا، ہم شورٹ ہینڈ جانتے ہیں۔
تیسرا، ہم سائیکل ریس میں فرسٹ ہوئے۔
چوتھا، ہم پولس آفس میں عوض میں کام کرچکے ہیں۔
صاحب، (غصہ میں) تم سب ہمارا اوفس کو ’’فِش مارکیٹ‘‘ بنا دیا۔ پھر تم سب لوگ الگ الگ بولنے لگا۔ ’’اسپوکس مین‘‘ (SpokesMan) فقط ایک آدمی مانگتا ہے۔
پانچواں، (سب کی طرف سے) اس پوسٹ کے لیے جس کوالیفکیشن کی ضرورت ہے اس سے فاضل کوالیفائڈ ہم لوگ ہیں۔
صاحب، اچھا، ہمارا پاس پھاجل وکت (فاضل وقت) نہیں۔ اب تم لوگ جانے سکتا ہے۔
صاحب، (کلرک سے مخاطب ہوکر) ایسا مافک پانچ پانچ آدمی ہمارا بھیجا کھانے مانگے تو ہم پاگل ہوجائے گا۔ تم باہروالا کنڈیڈیٹ سب کو بول دو اب انٹرویو کا جرورت (ضرورت) نہیں ہے۔ سب لوگ اپنا گھر چلا جائے۔
کلرک، حضور فدوی کی اگر رائے مانی جائے تو چند منٹ کے واسطے باہر تشریف لے چل کر کل کنڈیڈیٹ سے اکٹھے صرف دو دو ایک ایک بات پوچھ کر انٹرویو کا کام ختم کردیا جائے۔ پھر امیدواروں کو شکایت کا موقع نہیں ملےگا کہ بغیر ا نٹرویو واپس چلا دیا گیا۔
صاحب، ’’اول رائٹ‘‘ باہر سب کو ایک جگہ کھڑا ہونے بولو۔
صاحب کے آرڈر کے مطابق آفِس کے باہر سائبان کے نیچے پریڈ کے قاعدے سے سب کے صف بستہ کھڑے ہوجانے کے بعد صاحب آفس سے باہر تشریف لائے۔ سب نے سینہ تان کر فوجی سلام کیا۔ صاحب نے ہرایک سے نام پوچھا اور کہا تم لوگ اب اپنا اپنا گھر جانے سکتا ہے۔ ایک ویک (Week) کے بعد بحالی کا حکم دےگا۔
صاحب اس زیارتی انٹرویو کو دو منٹ میں ختم کرکے جب پھر آفِس میں تشریف لائے تو میں بھی دوبارہ کلرک اور صاحب کی گفتگو سننے کو پھر پردے سے لگ کر کھڑا ہوگیا تاکہ اس دل چسپ ا نٹرویو کے نتیجہ کاکچھ اندازہ لگ سکے۔ آفس کے اندر پہونچ کر صاحب نے کلرک سے کہا،
صاحب، وِل بابو، کمشنر صاحب جس کا واسطے ریکومنڈیشن لکھا ہے اور کلکٹر صاحب جس کنڈیڈیٹ کا واسطے سِلپ دیا ہے اور ڈی ایس پی کل جس کا واسطے ہم سے وعدہ لیا ہے، ان سب کا درکھاس (درخواست) ہمارے آفس بکس میں رکھ دو۔ باقی درکھاس (درخواست) فائل کرنے سکتا ہے۔
کلرک، مگر ہر درخواست پر اس کے نامنظور یا فائل کرنے کی وجہ کچھ نہ کچھ لکھ دینا مناسب ہے۔ میں درخواست حضور کے سامنے پیش کرتا جاتا ہوں۔ ہرایک پر جو نوٹ لکھوانا چاہیں فرماتے جائیں میں لکھ کر فائل کرتا جاؤں۔
صاحب، (گھبراتے ہوئے لہجہ میں) ہمارا پاس وقت نہیں۔ تم اپنا گھر سے نوٹ لکھ کر لائے گا، ہم اس پر دستخط کردےگا۔
کلرک، کچھ تو ہنٹ (Hint) دے دیا جائے کہ پورا کوالیفائیڈ ہونے کا باوجود نامنظور یا فائل کردینے کے لیے، کس قسم کا نوٹ اس پر لکھا جائے۔
صاحب، او، تم اتنا پرانا کلرک اتنا بات بھی نہیں جانتا۔ ہم دوچار بات بتادیتا ہے۔ اسی بات کو لکھنا مانگو۔
1۔ سوال کا جواب میں دیر کرتا ہے۔ ’’انٹلی جنٹ‘‘ نہیں ہے۔
2۔ یہ ہلدی (Healthy) نہیں ہے۔
3۔ بات کرتا ہے تو بیوقوف معلوم ہوتا ہے۔
4۔ رعب داب والا نہیں ہے۔
یہ سب کر اپنی درخواست کا جو حشر ہونے والا تھا اس سے مطمئن ہوکر گھر واپس چلا آیا۔ افسوس ’’اور ایج‘‘ ہوجانے کی وجہ سے انٹرویو کے پھر دل چسپ تجربات کا اب موقعہ نہیں، ورنہ عمر بھر اس پُرلطف تماشہ سے لطف اندوز ہوتا رہتا۔
راقم،
بہر سروس کوشش پیہم سے جی ہارا ہوا
ایک کنڈیڈیٹ انٹرویو کا مارا ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.