ایک بزرگ اپنے نوکر کو فہمائش کر رہے تھے کہ تم بالکل گھامڑ ہو۔ دیکھو میر صاحب کا نوکر ہے، اتنا دور اندیش کہ میر صاحب نے بازار سے بجلی کا بلب منگایا تو اس کے ساتھ ہی ایک بوتل مٹی کے تیل کی اور دو موم بتیاں بھی لے آیا کہ بلب فیوز ہو جائے تو لالٹین سے کام چل سکتا ہے۔ اس کی چمنی ٹوٹ جائے یا بتی ختم ہو جائے تو موم بتی روشن کی جا سکتی ہے۔ تم کو ٹیکسی لینے بھیجا تھا، تم آدھے گھنٹے بعد ہاتھ لٹکاتے آگئے۔ کہا کہ جی ٹیکسی تو ملتی نہیں۔ موٹر رکشہ کہیے تو لیتا آؤں۔ میر صاحب کا نوکر ہوتا تو موٹر رکشہ لے کے آیا ہوتا، تاکہ دوبارہ جانے کی ضرورت نہ پڑتی۔
نوکر بہت شرمندہ ہوا اور آقا کی بات پلے باندھ لی۔ چند دن بعد اتفاق سے آقا پر بخار کاحملہ ہوا تو انہوں نے اسے حکیم صاحب کو لانے کے لیے بھیجا۔ تھوڑی دیر میں حکیم صاحب تشریف لائے تو ان کے پیچھے پیچھے تین آدمی اور تھے جو سلام کرکے ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ ایک کی بغل میں کپڑے کاتھان تھا۔ دوسرے کے ہاتھ میں لوٹا اور تیسرے کے کندھے پر پھاؤڑا۔ آقا نے نوکر سے کہا، یہ کون لوگ ہیں۔ میاں نوکر نے تعارف کرایا کہ جناب ویسے تو حکیم صاحب بہت حاذق ہیں۔ لیکن اللہ کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔ خدانخواستہ کوئی ایسی ویسی بات ہوجائے تو میں درزی کو لے آیا ہوں اور وہ کفن کا کپڑا ساتھ لایا ہے۔ یہ دوسرے صاحب غسال ہیں اور تیسرے گورکن۔ ایک ساتھ اس لیے لے آیا کہ بار بار بھاگنا نہ پڑے۔
ایسے ہی ایک بزرگ ہمارے حلقہ احباب میں بھی ہیں۔ گلی سے ریڑھی والا ہانک لگاتا گزر رہاتھا کہ انگور ہیں چمن کے۔ پپیتے ہیں پیڑ کے پکے ہوئے۔ انہوں نے لڑکا بھیج کر اسے بلایا اور کہا، میاں جی معاف کیجیے، ہمیں ضرورت نہیں ہے، پھل والا چلا گیا تو ہم نے عرض کیا کہ اس زحمت کی کیا ضرورت تھی۔ وہ تو جاہی رہا تھا اسے روکنا کیا ضرور تھا۔ بولے۔ احتیاط کا تقاضا تھا کہ اس پر بات واضح کردی جائے اور معذرت بھی کی جائے کیونکہ بیچارہ اتنی دور سے امید لے کر پھل بیچنے آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے یہ گمان نہ گزرے کہ اس گھر میں شاید بہرے رہتے ہیں جو اس کی آواز نہیں سن پاتے۔
یہی ہمارے دوست ایک روز کار میں ہمارے ساتھ گولی مار سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ لکھا ہے تشریف لائیے۔ ربڑی، قلفی اور لسی تیار ہے۔ انہوں نے فوراً کار ٹھہرائی اور دوکاندار سے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے پاس فرصت نہیں۔ ہم ضروری کام سے جا رہے ہیں۔ دوسرے قلفی اورربڑی ہم نہیں کھاتے اور لسی کا بھلا یہ کون سا موسم ہے؟ بہرحال تمہاری پیش کش کا شکریہ۔ وہ تو بیٹھا سنا کیااور نہ جانے کیا سمجھا کیا۔ کار میں واپس بیٹھتے ہوئے ہمارے دوست نے وضاحت کی کہ یہاں کے لوگ ان آداب کو کیا جانیں۔ یہاں تو دعوت نامہ آتا ہے اور اس کے نیچے RSVP لکھا ہوتا ہے کہ جواب سے مطلع فرمائیے۔ جن کو شریک نہیں ہونا ہوتا وہ بھی چپ بیٹھ رہتے ہیں۔ میزبان کو مطلع کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ بندہ حاضر ہونے سے معذور ہے۔ اس بیچارے کا کھانا ضائع جاتا ہے۔
ہم نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ ہم خود انہی آداب سے بے بہرہ لوگوں میں سے ہیں۔ لوگ اخباروں میں طرح طرح کے اشہتار چھپواتے ہیں کہ ہم پڑھ کر ان کی طرف متوجہ ہوں لیکن ہم انہیں پڑھ کر ایک طرف ڈال دیتے ہیں۔ کوئی ہمارے لیے ٹھیکے کا بندوبست کرتا ہے اور ٹینڈر نوٹس شائع کرتا ہے۔ کسی کو ہمارے ہاتھ پلاٹ یا مکان بیچنا ہوتا ہے۔ کوئی ہمیں یہ اطلاع دیتا ہے کہ اس نے اپنے نالائق فرزند کو جائیداد سے عاق کردیا ہے۔ کہیں کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم ان کی فرزندی قبول کرلیں۔ اور ذات پات، تعلیم اور تنخواہ کی شرطیں من و عن وہی رکھی جاتی ہیں، جو ہم میں ہیں۔ کوئی ہمیں گھر بیٹھے لاکھوں روپے کمانے کا لالچ دیتا ہے۔ کوئی شارٹ ہینڈ سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بہت سے کالج مشتاق ہیں کہ ہم ان کے ہاں داخلے لیں اور بعض اپنی کاریں اور ریفریجریٹر معقول قیمت پر ہماری نذر کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان سب ضرورت مندوں سے آدمی کیسے عہدہ برآ ہو۔ بہت سوچنے کے بعد یہ ترکیب ہماری سمجھ میں آئی ہے کہ جہاں ہم ضرورت ہے، کا اشتہار چھپواتے ہیں وہاں ہم ضرورت نہیں ہے کا اشتہار چھپوا دیں۔ ہماری دانست میں ان اشتہارات کی صورت کچھ اس قسم کی ہونی چاہیے۔
کرائے کے لیے خالی نہیں ہے، ۴۰۰ گز پر تین بیڈروم کا ایک ہوا دار بنگلہ نما مکان، جس میں نلکا ہے اور عین دروازے کے آگے کارپوریشن کا کوڑا ڈالنے کا ڈرم بھی۔ کرایے پر دینا مقصود نہیں ہے۔ نہ اس کا کرایہ تین سو روپے ماہوار ہے اور نہ چھ ماہ پیشگی کرایہ کی شرط ہے۔ جن صاحبوں کو کرایے کے مکان کی ضرورت ہو وہ فون نمبر 34567 پر رجوع نہ کریں۔ کیوں کہ اس کا کچھ فائدہ نہیں۔
اطلاع عام، راقم محمد دین ولد فتح دین کریانہ مرچنٹ یہ اطلاع دینا ضروری سمجھتا ہے کہ اس کا فرزند رحمت اللہ نہ نا فرمان ہے نہ اوباشوں کی صحبت میں رہتا ہے لہٰذا اسے جائیداد سے عاق کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ آئندہ جو صاحب اسے کوئی ادھار وغیرہ دیں گے، وہ میری ذمہ داری پر دیں گے۔
ضرورت نہیں ہے، کارمارس مائنر ماڈل ۱۹۵۹بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو نہایت خوبصورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔ اوقات ملاقات ۳بجے تا ۸ بجے شام۔
عدم ضرورت رشتہ، ایک پنجابی نوجوان، بر سر روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہوار کے لیے باسلیقہ، خوبصورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دوشیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔
داخلے جاری نہ رکھیے، کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کرلیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.