کھال میں رہو بیگم
ایک کلر کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ جاڑوں کا زمانہ تھا۔ دلہن نے شوہر سے فرمائش کی کہ مجھے ایک فرکوٹ خرید دو۔ بیوی نئی نئی تھی اور وہ اتفاق سے تنخواہ کا بھی دن تھا۔ شوہر فرمائش کو ٹال نہ سکا۔ وہ بازار میں فرکوٹ کی دکان پر پہنچے۔ بیوی نے کسی جانور کی کھال کا ایک کوٹ پسند کیا۔
کوٹ کے دام ایک سو چالیس روپے اور شوہر کی تنخواہ ایک سو پچاس روپے!
لیکن شوہر کے وقار کا سوال تھا اس لئے اس نے انکار نہ کیا۔ دام ادا کرکے کوٹ خرید لیا۔
بیوی نے خوش ہوکر کہا، ’’اجی، تم کتنے اچھے ہو۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے اس وقت اس جانور پر بھی افسوس ہو رہا ہے جس کی اس کوٹ کے لئے کھال کھینچی گئی۔‘‘
شوہر نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر کہا، ’’اس ہمدردی کے لئے میں تمہارا شکر گذار ہوں۔‘‘
شوہر نے اپنی بیوی کا شکریہ تو ادا کر دیا لیکن بات ابھی ختم ہیں ہوئی۔ ہم اس شوہر کو بڑا خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ قدرت نے ایسے ایسی بیوی دی ہے جو جانور یا شوہر یا پھر دونوں کی ’’کھال کھینچنے‘‘ پر اظہار افسوس تو کرتی ہے۔ ہمارے آپ کی بیویاں تو اتنی زبانی ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کرتیں!
اپنی بیویوں کی طرف ذرا آنکھ اٹھاکر تو دیکھئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انھیں ’’دباغت‘‘ کے سوائے اور کوئی کام آتا ہی نہیں ہے جس بیوی کو دیکھو وہ شوہر کی کھال کھینچنے میں مصروف ہے۔
روز یہ لاؤ۔ وہ لاؤ۔
اگر ’’یہ وہ‘‘ نہ لاؤ تو بس بیٹھی ’’بال کی کھال‘‘ نکالنا شروع کردیتی ہیں۔
اجی میرے ابا کو میری امّاں نے بڑا منع کیا تھا کہ ’’ان‘‘ سے میرا بیاہ نہ کرو۔ قلاش اور پھکڑ لوگ ہیں، تمہاری بیٹی ہمیشہ ان کے گھر میں بھوکی ننگی رہے گی۔ مفلسی بیٹا کی ’’کھال‘‘ ادھیڑ کررکھ دے گی۔ لیکن ابّا جی آدمی بڑے ضدی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لڑکے کی صرف خاندانی شرافت دیکھنی چاہیئے۔
’’کھال دیکھنی چاہیئے۔ مال نہیں دیکھنا چاہیئے۔‘‘
یہ میں صرف اپنے گھر کی بات نہیں بتارہا ہوں بلکہ ہر اس گھر کی بات بتا رہا ہوں جو میری طرح ایک مفلس و قلاش گھرانا ہے۔ یہ گفتگو تقریباً ہر ایسے گھر میں سنی جاتی ہے۔
لیکن آپ کا یہ کہنا بھی تو واقعی صحیح ہے۔ بیویاں بے چاری کریں بھی تو کیا کریں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے چیزیں کتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ اگرچہ اب ہر چیز کا نرخ کنٹرول کرلیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا خریدنا ابھی تک آؤٹ آف کنٹرول ہے۔
ہمارے معاشرے میں بالعموم کمانے والا ایک ہوتا ہے اور کھانے والے دس۔ کسی بھی کنبے کو غور سے دیکھیئے تو یوں نظر آتاہے کہ،
’’کنبہ ایک بیل گاڑی ہے جس میں دس افراد مع اسباب جم کر بیٹھے ہیں اور کمانے والا خمیدہ پشت اس گاڑی میں بیل کی جگہ جتا ہوا ہے اور کنبے کی لگام سے بیچارے کمانے والے کی باچھیں چری ہوئی ہیں اور پسینے میں شرابور زندگی کے راستے پر یہ وزنی گاڑی کھینچتا چلا جارہاہے۔‘‘
اس کے برعکس با ہر کے متمدن ممالک کے معاشروں پر غور کیجئے تو وہاں کنبے کی گاڑی ہر فرد کھینچ رہا ہے یا ڈھکیل رہا ہے۔ کنبے کی گاڑی پر صرف مال واسباب ہے یا چھوٹے چھوٹے بچّے بیٹھے ہیں۔
شوہر آگے گاڑی کھینچ رہا ہے۔ بیوی پیچھے سے گاڑی ڈھکیل رہی ہے۔ جوان بیٹے گاڑی کے ادھر ادھر پہیئے مار رہے ہیں۔
گاڑی ہلکی ہے اور زندگی کے راستے پر تیز دوڑ رہی ہے۔ شوہر کے خون تھوکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! اسی لئے میں کہتاہوں کہ اپنے معاشرے میں بھی تعلیم نسواں، خواتین کے روزگار، جوان بچّوں کے لئے درسی تعلیم کے علاوہ ہنر اور حرفت کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔ بیوی انڈے بھی ابالے، بچے بھی پالے اور کسی گرلز اسکول یا دفتر میں روزگار کی کرسی بھی سنبھالے۔
رہے بچے۔۔۔ جوان ہوتے ہی ان بچّوں کو چاہیئے کہ ’’جمعیت پنجابی سوداگران دہلی‘‘ کے بچّوں کی طرح روزگار کی طرف متوجہ ہوں۔
ایسے بچّے اپنے سے چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھائیں۔ پارٹ ٹائم، ٹائپ، شارٹ ہینڈ اور اکاؤنٹنسی وغیرہ سیکھیں۔ زندگی کا علمی تجربہ حاصل کرنے کے لئے اسکول کے اوقات کے علاوہ کسی دکان یا فرم میں چھوٹا موٹا کام کریں۔
اور کم از کم اتنا تو کمانا شروع کردیں کہ اگر جوتا نہ خرید سکیں توجوتے کی پالش ہی خود خرید سکیں۔ اپنا ہیر آئل، اپنا کرکٹ بلا، اپنا رومال اور سنیما کا ٹکٹ خود خرید سکیں۔
ایسا ہوجائے تو پھر کیا کہنے! پھر دیکھیئے کنبے کی گاڑی زندگی کے راستے پر کیسے فرّاٹے کے ساتھ دوڑتی ہے۔
فی الحال تو مجبوری ہے۔ ہم بھی چاہیں تو ہم بھی اپنی بیوی کے لئے کسی جانور کی کھال کا ایک فرکوٹ خریدیں۔
اس کے بعد بھی بیوی اگر کہے، ’’یہ لاؤ وہ لاؤ۔‘‘
تو ہم اسے ڈانٹ دیں۔
’’بس بیوی بس، اب کھال میں رہو۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.