خودکشی
آخر اس نے خود کشی کر لی۔ کیا اسے کسی سے عشق تھا؟کیا وہ گھوڑ دوڑ میں روپیہ ہار گیا تھا؟کیا وہ مقروض تھا؟ نہیں، اسے صرف زکام کی شکایت تھی، بس اتنی سی بات پر، اتنا بزدل۔
نہیں صاحب وہ بزدل نہیں تھا جو شخص متواتر پندرہ دن سونف کا جوشاندہ پی سکتا ہے۔ یک ماہ خشخاس اوربنفشہ کا شربت زہر مار کر سکتا ہے۔ ڈیڑھ ماہ عناب بنفشہ اور ادرک کی چٹنی کھا سکتا ہے وہ وکٹوریہ کراس کا مستحق ہو نہ ہو بزدل نہیں ہو سکتا۔
بات در اصل یہ تھی کہ اسے صبح و شام اس شدت سے چھینکیں آتی تھیں کہ وہ چھینکتے چھینکتے بد حواس ہو جاتا۔ اس نے دوستوں سے اپنی تکلیف کا ذکر کیا۔ وہ الٹا اسے بنانے لگے، ’’ارے میاں یہ بھی کوئی مرض ہے، کالی کھانسی نہ تپ دق، محض زکام۔‘‘ جب اس نے اصرار کیا کہ زکام اتنا ہی ازیت بخش مرض ہے جتنا کہ تپ محرقہ، تو کسی دوست نے کہا، فاقہ کرو، کوئی بولا پیٹ بھرکر کھاؤ۔ کسی نے مشورہ دیا، ٹھنڈے پانی سے غسل کرو، کسی نے بتایا گرم حمام میں نہاؤ کسی نے فرمایا کھلی ہوا میں زور زور سے سانس لو، کسی نے سمجھایا، بند کمرے میں آنکھیں موند کر لیٹ جاؤ۔ اس نے ہر ایک دوست کے مشورہ پر عمل کیا لیکن کچھ افاقہ نہ ہو۔ اب اس نے ویدوں اور حکیموں کی دکانوں کا رخ کیا اور شربت عناب سے لے کر گندھک کے تیزاب تک ہرایک رقیق شے کو پی گیا لیکن اسے زکام سے نجات نہ ملی۔تنگ آ کر اس نے ڈاکٹروں سے رجوع کیا۔ ایک ڈاکٹر نے تشخیص کی کہ اس کی ناک میں نقص ہے۔ دوسرے نے کہا اس کے گلے میں خراش ہے، تیسرے نے بتایا اس کے بائیں پھیپھڑے میں ورم ہے، چوتھے نے کہا دائیں میں سوزش ہے۔ پانچویں نے کہا دونوں پھیپھڑے گل چکے ہیں۔ چھٹے نے ایک ایسے مرض کا نام بتایا جو تین سطروں میں بمشکل لکھا جا سکتا تھا۔ اس نے ناک کا آپریشن کرایا، گلے میں دوا چھڑکوائی۔ پھیپھڑوں کو تقویت دینے کے لئے مچھلی کا تیل پیا لیکن اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ایک تجربہ کار ڈاکٹر کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے اس نے گلے کا آپریشن کرایا۔ چونے کے انجکشن لئے چھ ماہ اسپتال میں رہا لیکن اسے بدستور چھینکیں آتی رہیں۔ جب وہ اپنا سارا اثاثہ ڈاکٹروں کی نذر کر چکا تو اسے بتایا گیا کہ اسے اس لئے چھینکیں آتی ہیں کہ اس کی ناک میں لمبے لمبے بال ہیں۔ اس اطلاع سے اسے اتنا صدمہ پہنچا کہ اس نے خود کشی کر لی۔
اس نے خود کشی کر لی۔ آخر کیوں؟ کیا اس کی بیوی بد صورت تھی؟ کیا وہ دائم المریض تھا؟ کیا اس کا دیوالہ پٹ گیا تھا، نہیں۔ تو پھر؟ کیونکہ وہ جونکوں سے ڈرتا تھا۔جونکوں سے؟ بہت بزدل نکلا۔ نہیں صاحب وہ بزدل نہیں تھا۔ غیر معمولی جرأت کا مالک تھا۔ پھر اس نے خود کشی کیوں کی؟ کیونکہ یہ جونکیں بھی غیر معمولی تھیں۔ یہ وہ جونکیں تھیں جو جوہڑوں اور تالابوں میں رہنے کی بجائے مٹی کے گھروندوں میں رہتی ہیں۔ مثلا ایک جونک تھی جسے یہ وہم ہوگیا تھا کہ اگر کوئی شخص اس کی مدد کرے تو وہ ناول لکھ سکتی ہے۔ یہ جونک ہر تیسرے دن اس کے دماغ سے چپک جاتی اور جب تک نس نس کا خون چوس نہ لیتی علاحدہ نہ ہوتی۔ اس جونک کا مطالبہ تھا کہ اسے پہلے ناول لکھنے کا ڈھنگ بتایا جائے۔ پھرکردار سازی کا طریقہ سمجھایا جائے۔ ناول کا پلاٹ مہیا کیا جائے،کردار بہم پہنچائے جائیں اور اگر ہو سکے تو ناول لکھ کر اس کے سپرد کیا جائے۔
ایک جونک تھی جسے باتیں بنانے کا شوق تھا۔ یہ جونک ہر چیز اور ہر مسئلہ کو تین قسموں میں منقسم کرتی اور انہیں شمار کرتے وقت ایک قسم ہمیشہ بھول جاتی۔ مثلاً انسان تین طرح کے ہوتے ہیں۔ زندہ دل، مردہ دل اور تیسری قسم؟ تیسری قسم تو میں بھول ہی گیا۔ دوست تین اقسام کے ہوتے ہیں، فرشتہ سیرت اور ابلیس نمااور تیسری قسم میں پھر بھول گیا۔ عورتیں تین قسم کی ہوتی ہیں۔ با مذاق اور بد دماغ، اور۔۔۔ خیر تیسری قسم میں پھر بتاؤں گا۔ ایک وہ جونک تھی، جو ہر بات کا آغاز ’’کاش یوں ہوتا‘‘ سے کرتی تھی۔ ’’کاش میری زندگی میں کوئی خوبصورت عورت ہوتی،‘‘ ’’کاش میرے کپڑے پھٹے پرانے نہ ہوتے۔‘‘ ’’کاش میری بیوی ذہین ہوتی‘‘۔ ’’کاش میری لڑکی ہر سال امتحان میں فیل نہ ہوتی‘‘۔ ’’کاش مجھے بواسیر کی شکایت نہ ہوتی۔‘‘ ایک جونک اس سے روپے کمانے کی تجاویز پوچھنے آتی تھی۔ ’’بسکٹ بنانے کی بھٹی لگا لوں؟ چڑیاں ور طوطے بیچنا شروع کر دوں؟ جوتے گانٹھنے کا کام کیسا رہے گا؟ سر مایہ کتنا در کار ہوگا؟ دکان کیسے ملے گی؟ آپ کتنا روپیہ قرض دے سکیں گے؟‘‘ اسی طرح ایک جونک تھی جسے اخبارات میں شکایتی خطوط چھپوانے کا مرض تھا۔ اس جونک سے اس کا تب تک چھٹکارا نہ ہوتا جب تک وہ اسے شکایتی خط کا مضمون تیار کر کے نہ دیتا۔ ’’آج میونسپلٹی کے خلاف خط لکھ دیجئے۔آج یونیورسٹی والوں کو ڈانٹ بتائیے۔ آج لوگوں کی توجہ بنگال کے قحط کی طر ف مبذول کرایئے۔ آج فلاں سڑک کی مرمت کے متعلق کارپویشن کو کھری کھری سنایئے۔ آج بھنگیوں کی ہڑتال کے بارے مں کچھ لکھ ماریئے۔ آج جہیز کی رسم کے خلاف جہاد کیجئے۔ آج فلاں افسر کا پول کھول کر رکھ دیجئے۔‘‘
متواتر پندرہ سال یہ جونکیں اس کا خون چوستی رہیں۔ اس نے ان سے پیچھا چڑھانے کے لئے ہزاروں حیلے بہانے کئے لیکن بے سود۔ آخر تنگ آ کر اس نے یکم جنوری1946 کو خود کشی کر لی۔
اس نے خود کشی کر لی۔ کیا اسے زکام تھا؟ کیا وہ جونکوں سے ڈرتا تھا؟ نہیں؟ اس نے صرف شادی کی تھی۔ بس اتنی سے بات پر! ہاں صاحب لیکن در اصل یہ ’’اتنی سی بات‘‘ نہ تھی۔ اس کی شادی کے چند ماہ بعد اس کا سسر اس کی ساس، اس کی بڑی سالی،اس کے دو سالے غرضیکہ اس کا سارا سسرال اس کے ہاں چلا آیا۔ اس کا سسر پرانے خیالات کا آدمی تھااور ’’دخل در معقولات‘‘ کا قائل، وہ اپنے داماد کی ہر بات میں ٹانگ اڑانا فرض سمجھتا تھا۔ ’’دیکھو میاں،تمہارافلاں دوست مجھے اول درجے کا کمینہ نظر آتا ہے۔ اسے منہ نہ لگاؤ۔‘‘ ’’دیکھو صاحب زادے، بیوی سے کبھی گستاخی سے مت پیش آؤ۔ نقصان اٹھاؤگے۔‘‘ ’’دیکھو عزیز!کھانا چبا چبا کر کھاؤ، ورنہ بد ہضمی میں مبتلا ہو جاؤگے۔‘‘ ’’دیکھو شریف زادے میری ہر بات پر عمل کرو، ورنہ تباہ ہو جاؤگے۔‘‘
اس کی ساس کا صرف ایک شغل تھا۔ اپنی بیٹی کی ہر بات میں حمایت کرنا۔ ’’میری زبیدہ،بچپن سے لاڈلی ہے۔ نوکر چاکر کیا، وہ تو ماں باپ پرحکومت کرنے کی عادی ہے۔‘‘ ’’میری زبیدہ ایک دفعہ نہ کر نے کے بعد کبھی ہاں نہیں کرتی، چاہے کوئی مایوس ہو کر زہر کیوں نہ کھالے۔‘‘ ’’میری زبیدہ جب روپیہ خرچ کرتی ہے تو بخل سے کام نہیں لیتی، چاہے روپیہ کمانے والے کا دیوالہ ہی پٹ جائے۔‘‘ ’’میری زبیدہ جب جلال میں آتی ہے تو حریف کو ناکوں چنے چپوا دیتی۔‘‘
اس کے دونوں سالے بیکار تھے جنہیں ڈنڈ پیلنے، پیٹ بھر کر کھانے اور اس کے بہترین سیگرٹ چرانے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔
اس کی سالی چوبیس گھنٹے اپنے مرحوم خاوند کو کوستی رہی۔ ’’میں نے سو بار سمجھایا، اتنی شراب مت پیا کرو لیکن وہ تو مرنے پر تلا ہوا تھا۔‘‘ میں کہتی ہوں ’’اگر وہ احمق نہ ہوتا تو ساری جائیداد جوا میں کیوں ہارتا۔‘‘ ’’میرا تو اس دن نصیب پھوٹ گیا جب احمد کی بجائے اس سے میری سگائی ہوئی۔‘‘ اس کی سالی کا لڑکا وقت بے وقت اس کی گود میں آبیٹھتا کبھی اس کی عینک کا شیشہ توڑ ڈالتا کبھی اس کے قلم کی نب موڑ دیتا۔ کبھی اس کے نئے سوٹ پر سیاہی کی بوتل انڈیل دیتا، کبھی اس کی کتابیں پھاڑ ڈالتا، وہ جب اسے منع کرتا تو منہ چڑانا یا گالیاں دینا شروع کر دیتا اور اس کی ماں بد تمیزی سے مسکرانے یا ہنسنے لگتی۔
متواتر تین سال وہ خدا سے دعا مانگتا رہا کہ اسے ان بن بلائے کے مہمانوں سے چھٹکارا دلائے لیکن اس کی ایک بھی دعا کارگر نہ ہوئی۔ جب اس کے صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا تو اس نے ایک دن نہایت شرافت سے راوی میں ڈوب کر خود کشی کر لی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.