پچھلے دنوں ایک کتاب چھپی ہے، ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے۔‘‘ اس کے فاضل مصنف کا کیا عمدہ قول ہے کہ انسان کی صحیح قدر اس کے وطن سے باہر ہی ہوتی ہے جہاں اس کی اصلیت جاننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سفر وسیلۃ الظفر کا مطلب بھی شاید یہی ہے۔ ان صاحب کاجب چین میں تعارف کرایا گیا کہ یہ اپنے ملک کے نامی گرامی ناول نویس ہیں اور فسانہ آزاد، گئودان، آگ کا دریا، خدا کی بستی اور آنگن وغیرہ انہی کی تصانیف ہیں تو یہ ہرچند کہ ناول لکھنا پڑھنا بھی نہ جانتے تھے، فرط عجز و انکسار سے دہرے ہوگئے۔ کسی بات کی تردید کرنا خلاف آداب جانا۔ ایک اور صاحب کسی کاروبار کے سلسلے میں کسی باہرکے ملک میں گئے اور ملک الشعرا ہوکر واپس آئے۔
آقائے حاجی بابا اصفہانی بھی اصفہانِ آنا خلافِ مصلحت جانتے تھے۔ استنبول میں تو یہ ایک رئیس کے داماد ہوکر ٹھاٹ دکھاتے تھے۔ لیکن وطن آتے تھے تو پرانے گاہک بجائے سرآنکھوں پر بٹھانے کے یہی فرمائش کرتے تھے کہ خلیفہ ذرا میرا سر تو مونڈ دیجیو اور ہاں داڑھی بھی تراش دیجیو۔ اللہ بخشے تمہارے باپ کا سا خط بنانے والا اب سارے اصفہان میں کوئی نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ استنبول کی آب و ہوا کی تعریف کیا کرتے تھے اور جب تک زندہ رہے وہیں قیام کرنا پسند کیا۔
مقصود اس قصے کا یہ ہے کہ ہمارا اپنے ہی شہر اور اپنے ہی پرانے کالج میں مہمان خصوصی بن کر آنا ایک طرح کی سنگین غلطی بلکہ غلط کاری ثابت ہوتا۔ لیکن ہم نے اطمینان کرلیا ہے کہ ہمارے زمانے کے اساتذہ میں سے کوئی کالج میں بچا ہے تو مروت کے مارے ہماری کسی بات پر یہ نہ کہے گا کہ ہماری بلی ہم ہی کو میاؤں۔ صاحبو! ویسے تو ہم آہیں بھر بھر کر اپنے ماضی کی عظمت کی جو جو داستانیں چاہیں بیان کریں لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس درس گاہ کے برآمدوں میں دوبرس جوتیاں چٹخاتے ہوئے ہم نے نہ کچھ کھویا، سوائے عزت سادات کے۔ اور نہ کچھ پایا سوائے ڈگری کے۔ ہماری کلاسیں ایک طرح سے تعلیم بالغاں کی کلاسیں تھیں۔ ہمارے اساتذہ نے ہمارا عیب و ثواب اور نفع نقصان ہم ہی پر چھوڑ رکھا تھا کیونکہ ہمارے ہم سبقوں میں ایک دو تو شاید صاحب اولاد بھی تھے۔ ان اساتذہ کے علم و فضل میں کلام نہیں، لیکن ان کا فیض صحبت ہمارا کچھ بگاڑ نہ سکا۔ ہم جیسے چھلے چھلائے اور دھلے دھلائے آئے تھے ویسے ہی واپس آگئے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم قطب بنے اپنے گھر میں بیٹھے رہتے تھے اور ہمارا ستارہ گردش میں رہاکرتا تھا۔ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم خود گردش میں رہنے لگے اور ہمارے ستارے نے کراچی میں بیٹھے بیٹھے آب و تاب سے چمکنا شروع کردیا۔ پھر اخبار جنگ میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے عنوان سے ہماری تصویر اور حالات چھپے۔ چونکہ حالات ہمارے کم تھے لہٰذا ان لوگوں کو تصویر بڑی کراکے چھاپنی پڑی اور قبول صورت، سلیقہ شعار، پابند صوم و صلوٰۃ اولادوں کے والدین نے ہماری نوکری، تنخواہ اور چال چلن کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کردیں۔ یوں عیب بینوں اور نکتہ چینیوں سے بھی دنیا خالی نہیں۔ کسی نے کہا یہ شاعر تو ہیں لیکن آج کے نہیں۔ کوئی بے درد بولا، یہ آج کے تو ہیں لیکن شاعر نہیں۔ ہم بددل ہوکر اپنے عزیز دوست جمیل الدین عالی کے پاس گئے۔ انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اور کہا دل میلا مت کرو۔ یہ دونوں فریق غلطی پر ہیں۔ ہم تو نہ تمہیں شاعر جانتے ہیں نہ آج کا مانتے ہیں۔ ہم نے کسمسا کر کہا، یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟ بولے، میں جھوٹ نہیں کہتا اور یہ رائے میری تھوڑی ہے سبھی سمجھ دار لوگوں کی ہے۔
ابن انشاء، یہ نام ہم نے نہ جانے کب رکھا تھا اور کیوں رکھا تھا، اور کیوں رکھا تھا کی توجیہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ ہمارے اصلی نام میں ایک چوپائے کا نام شامل ہے۔ نیانام رکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگ سید انشاء اللہ خاں انشا کی رعایت سے ہمیں بھی سید لکھنے لگے۔ یعنی گھر بیٹھے ہماری ترقی ہوگئی۔ اسی نسبت سے دلی والوں نے ہمیں اپنا ہم وطن جان کر ہماری زبان پر کم اعتراض کیے اور دلی مرکنٹائل ہاؤسنگ سوسائٹی والوں نے ایک پرفضا پلاٹ کی ہمیں پیش کش کی۔ لکھنؤ والوں نے البتہ ہماری زبان کے نقائص کے لیے اسی کو بہانہ بنا لیا کہ ہاں دلی والے ایسی ہی زبان لکھا کرتے ہیں۔ پھر ایک روز ایسا ہوا کہ ایک صاحب نے آکر ہمارا ہاتھ ادب سے چوما اور کہا، واللہ آپ تو چھپے رستم نکلے۔ آپ کا کلام پڑھا اور جی خوش ہوا۔ ہم نے انکسار برتا کہ ہاں کچھ ٹوٹا پھوٹا کہہ لیتے ہیں۔ آپ نے کون سی غزل دیکھی ہماری۔ حافظے پر زور ڈال کر بولے، ’’کچھ اس قسم کی ہے، کمر باندھے ہوئے چلنے کو یہاں سب یار بیٹھے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا، ’’کہاں پڑھی ہے؟‘‘ بولے، ’’مولوی محمد حسین آزاد کی آبِ حیات میں منقول ہے۔‘‘
جنگ میں ’’آج کا شاعر‘‘ کے ضمن میں خواتین کے بھیجے ہوئے پسندیدہ اشعار بھی چھپا کرتے ہیں۔ ایڈیٹر صاحبہ نے ہمیں فون کیا کہ ذراچیک کرکے بتائیے۔ یہ سارے اشعار آپ کے ہیں؟ بعض اوقات بیبیاں مختلف شاعروں کے اشعار کو خلط ملط بھی کر دیتی ہیں۔ ہم نے کہا سنائیے۔ ان میں بھی پہلا شعر جو کوئی دس خواتین کی پسند تھا۔ یہی تھا۔
کمر باندھے ہوئے۔۔۔
یہ غزل ہمیں ہمیشہ سے پسند رہی ہے۔ لہٰذا ہم نے ایڈیٹر صاحبہ سے کہا کہ کسی کا دل توڑنے کی ضرورت نہیں۔ اگر کسی کو ہمارا یہی شعر پسند ہے تو خیر چھاپ دیجیے۔ دوسرا شعر بھی اسی غزل کا تھا۔
بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں
ہم نے کھنکار کر کہا۔ خیر یہ بھی ٹھیک ہے۔ آگے چلیے۔ اس سے اگلا شعر تھا۔
یاد آتا ہے وہ حرفوں کا اٹھانا اب تک
جیم کے پیٹ میں اک لفظ ہے سو خالی ہے
ہم نے کہا، ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ شعر ہمارا ہو۔ مشتبہ بات ہے اسے کاٹ دیجیے اس کے بعد نوبت ان شعروں پر پہنچی۔
کہیں بچھڑا ہوا دیکھا جو اک سرخاب کاجوڑا
تو ڈھاریں مار کر رویا بطِ گرداب کاجوڑا
لگی غلیل سے ابرو کی، دل کے داغ کو چوٹ
پر ایسی ہے کہ لگے تڑ سے جیسے زاغ کو چوٹ
شوق سے تو ہاتھ کو میرے مروڑ
میں ترا پنجہ مروڑوں کس طرح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.