دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ انڈا پہلے یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقہ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریب شہر ہو تو اس کے لیے انڈا پہلے اور غریب شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈا اس کی گرفت میں آ سکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے، مقدم رکھنا چاہیے۔
ایک زمانے میں ہمارا دھیان کبھی کبھی مرغی کی طرف بھی جایا کرتا تھا۔ لیکن جب سے بکری کے دام گائے کی قیمت کے برابر ہوئے ہیں اور مرغی بکری کے دام پانے لگی ہے اور انڈا مرغی کے بھاؤ دستیاب ہونے لگا ہے، ہمارے لیے انڈا ہی مرغی ہے۔ ہم وحدت الوجود کی منزل میں آگئے ہیں۔ انڈا یوں بھی بڑی خوبیوں کی چیز ہے۔ اس میں سفیدی ہوتی ہے۔ اس میں زردی ہوتی ہے۔ اس میں چونا ہوتا ہے۔ اس میں پروٹین ہوتی ہے۔ اسے دانہ نہیں ڈالنا پڑتا۔ یہ بیٹ نہیں کرتا۔ بلیاں اس کی جان کی خواہاں نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے ڈربا نہیں بنوانا پڑتا۔ اس کے خول پر رنگ کرکے اسے گھر میں سجا سکتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ گندا ضرور نکل جاتا ہے۔ سو اسے آسانی سے اٹھا کر باہر گلی میں پھینکا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال بھی جب نئی تہذیب کے کسی گندے انڈے کو دیکھتے تھے، یہی کہا کرتے تھے۔ افسوس کہ پرانی تہذیب کے گندے انڈوں کے متعلق انہوں نے اپنے کلام میں کوئی واضح ہدایات نہیں چھوڑیں۔ اس لیے ان کے عقیدت مند ان کو سنبھال سنبھال کر رکھے جا رہے ہیں۔
اقبال کے ایک شارح نے تو اس شعر کی مدد سے علامہ اقبال کی گھریلو زندگی پر بھی پورا مقالہ لکھ دیا ہے۔ آج کل دستور یہی ہے کہ غالب کی زندگی معلوم کرنی ہے تو اس کے دیوان سے اخذ کرو کہ وہ شہر میں بے آبرو پھرا کرتے تھے۔ دھول دھپا اور پیش دستی کیا کرتے تھے۔ درکعبہ سے الٹے پھر آیا کرتے تھے۔ سیدھے نہیں۔ اور مرنے کے بعد بھی بولا کرتے تھے۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال ایک روز بازار سے نئی تہذیب کے کچھ انڈے لے کر آئے۔ ان کی بیوی آملیٹ بنانے بیٹھیں تو انہیں دوسرا مصرع پڑھنا پڑا۔
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے۔
اس پر علامہ موصوف نے ترکی بہ ترکی یعنی مصرع بہ مصرع ہدایت کی کہ ان کو، اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں۔
یہ تحقیق یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ اتنی سی بات کو ہر عامی بھی سمجھ سکتا ہے۔ شارح موصوف کا کہنا ہے کہ شاعر کا گھر کسی گلی میں تھا۔ یہ شعر لازماً ان دنوں کا ہے جب علامہ مرحوم نے میوروڈ پر ابھی اپنی کوٹھی نہیں بنائی تھی۔ ورنہ وہ یہ فرماتے کہ اٹھا کر پھینک دو باہر سڑک پر۔ جناب محقق نے علامہ اقبال کی زبان میں نقص بھی دریافت کیا ہے کہ باہر کا لفظ زاید ہے کیونکہ گلی گھر کے اندر نہیں ہوتی۔ مزید لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ہر معاملے میں خوامخواہ اپنی رائے دینے کی عادت تھی ورنہ گندے انڈے کو گلی میں پھینکنے کا فیصلہ ان کی بی بی خود بھی کر سکتی تھیں۔
شارح موصوف نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شعر علامہ اقبال مرحوم کے ابتدائے جوانی کا ہے۔ جب انہیں پہلوانی اور کسرت اور کرتب بازی سے دلچسپی تھی۔ وہ بھاری بھاری وزن کو اٹھا کر دوچار بار گردش دیتے تھے، پھر پھینکتے تھے۔ یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اس لیے کہا ہے کہ اٹھا کر پھینک دو۔ صرف ’’پھینک دو‘‘ کہنا کافی نہیں سمجھا۔ معاملہ انڈوں ہی کا کیوں نہ تھا۔ ہمارے خیال میں اس شعر سے ابھی اور معنی نچوڑنے کی بھی گنجائش ہے۔ علامہ مرحوم کو اپنے باطن کی صفائی کی طرف زیادہ دھیان رہتا تھا۔ باہر کی صفائی کا کچھ خیال نہ کرتے تھے۔ ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ انڈے اٹھاکر باہر گلی میں پھینک دو۔ انہیں کوڑے کے ڈرم میں پھینکنا چاہیے تھا۔ باہر کسی بھلے آدمی کی اچکن پر گر جاتے تو بڑا فضیحتا ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قوم کو علامہ مرحوم کی ہر ہدایت پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں اپنی عقل کا واجبی استعمال بھی کر لینا چاہیے۔ تھوڑی احتیاط بھی لازم ہے۔ ہرخوشہ گندم کو جلانے، مر مر کی سلوں سے ناخوش و بیزار ہونے، اس رزق سے موت اچھی ہونے اور گندے انڈے گلی میں اٹھاکر پھینک دینے کے متعلق اشعار اس کی محض چند مثالیں ہیں۔
آج انڈوں کی طرف رہ رہ کر ہمارا دھیان جانے کی کئی وجہیں ہیں۔ ایک تو سردی دوسرے حکومت کا یہ اعلان کہ گوشت اور دودھ کی طرح انڈوں کی بھی قیمتیں مقرر کی جارہی ہیں تاکہ مقررہ قیمتوں پر نہ ملیں۔ تیسرے شاد عارفی مرحوم کا ایک نادرہ کار شعر ہماری نظر سے گزرا ہے۔ صیاد اور قفس اور نشیمن کے مضمون بہت شاعروں نے باندھے ہیں۔ نئے رنگ اور نئے ڈھنگ سے بھی باندھے ہیں۔ خود علامہ اقبال مرحوم نے بھی ایک بلبل کی فریاد لکھی ہے۔ لیکن اس مضمون کے جملہ تعلقات پرکسی کی نظر نہیں گئی تھی۔ فرماتے ہیں شاد عارفی رام پوری،
انہیں بھی ساتھ لیتا جا، کہیں ٹکیاں بنالینا
ارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں
انڈے کا مضمون تو ختم ہوا لیکن اپنے دوست عنقا کے شکریے کے ساتھ شاد عارفی مرحوم کے چند اور اشعار۔
تاچند باغبانیٔ صحرا کرے کوئی
لیکن سوال یہ ہے کہ پھر کیا کرے کوئی
جناب شیخ ہی اب رہ گئے ہیں لے دے کے
وہ دن گئے کہ کسی برہمن پہ چوٹ کروں
ستم گر کو میں چارہ گر کہہ رہا ہوں
غلط کہہ رہا ہوں مگر کہہ رہا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.