مانگے تانگے کی چیزیں
پچھلے دنوں ایک پرانے رسالے کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ مانگے تانگے کی چیزوں کے متعلق ایک مضمون نظر آیا۔ اصل مضمون تو بیری پین کا ہے اردو میں کسی صاحب نے اس کا چربا اتارا ہے۔ ما حصل یہ کہ مانگے تانگے کی چیزیں برتنا گناہ ہے۔ جیب میں زور ہے تو جس چیز کی ضرورت پڑے بازار سے خرید لائیے، نہیں تو دل پر جبر کیجئے، لیکن اس میں نہ بیری پین کا کوئی کمال ہے نہ اس مضمون کو اردو جامہ پہنانے والے نے کوئی تیر مارا ہے۔ بڑا پیش پا افتادہ اور پامال سا مضمون ہے۔ جس پر شیخ سعدی کے استاد بوٹے خاں تک سبھی طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ کتنی ہی سچائیاں ہیں جو منڈی میں جھوٹ کے بھاؤ بک رہی ہیں اور کتنے جھوٹ ہیں جنہوں نے سچ کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ بس اس کو بھی انہیں میں سے سمجھئے۔
ہمارے بیری پین صاحب تو ولایت میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارتے رہ گئے۔ ذرا ہندوستان آتے تو انہیں قدر عافیت معلوم ہو جاتی۔ یورپ کی بات کو جانے دیجئے۔ ایشیا میں تو زندگی جیسی قیمتی شے کو بھی مانگے تانگے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایران اور ہندوستان کے شاعر ہمیشہ زندگی مستعار ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ اور کہتے چلے آئیں ہیں کہ معنی کہتے چلے جائیں گے۔
میں نے عہد جدید کے ترقی پسند شاعروں کا کلام بہت کم پڑھا ہے اور جتنا پڑھا ہے اسے بھول بھی گیا ہوں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسے نکل آئیں کہ جن کے نزدیک زندگی کو مستعار کہنا یا سمجھنا فرسودہ خیالی ہو، لیکن پرانے انداز کے سخنور خاص طور پر غزل گو شاعر ہمیشہ زندگی کو مستعار ہی کہیں گے کیونکہ بہار، دیار، شمار قافیہ ہو تو حیات مستعار کی گرما گرم ترکیب مصرع میں یوں بیٹھتی ہے جس طرح انگشتری میں نگینہ۔ ہاں اگر سرے سے قافیہ ہی غتربود ہو جائے تو اور بات ہے۔۔۔ لیکن اس بحث کو چھوڑیے اورذرا اس بات پر غور فرمائیے کہ جب زندگی ہی مستعار ہے تو اس ٹیں کے کیا معنی ہیں کہ نہیں صاحب ہم تو مانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے۔
غرض زندگی مستعار ہے۔ اس مستعار زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے کا سب سے کم خرچ بالا نشین طریقہ یہ ہے کہ جہاں تک بن پڑے مانگے تانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے۔ ممکن ہے کہ آپ کو اجنبیوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کی بہت سی ترکیبیں آتی ہوں لیکن مجھے تو بس ایک ہی نسخہ یاد ہے جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوا ہے یعنی جب کسی سے شناسائی پیدا کرنا مقصود ہوتا ہے تو ہمت کر کے اس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز مانگ لیتا ہوں۔ مثلاً اکثر اوقات ایسا ہوا ہے کہ سگریٹ نکالا لیکن جیب میں دیا سلائی نہیں۔ یہ واقعہ راستہ چلتے پیش آیا تو کسی راہ گیر سے دیا سلائی مانگ کر سگریٹ سلگایا اور دیا سلائی کے ساتھ سگریٹ کیس بھی ان کی طرف بڑھایا۔ انہوں نے کسی قدر پس و پیش کے بعد سگریٹ سلگا کے کش لگایا اور اجنبیت کا حجاب دھوئیں کے ساتھ ساتھ ہوا میں تحلیل ہوکے رہ گیا۔
یہ نسخہ صدری اسرار میں سے نہیں کہ فقیر کے سوا کسی کو معلوم نہ ہو۔ اکثر لوگوں نے اسے بارہا آزمایا ہے اور ہمیشہ بہت موثر پایا ہے اور میں نے بعض لوگوں کو تو دیکھا ہے کہ جیب میں دیا سلائی موجود ہے جب بھی کسی اجنبی سے مانگیں گے۔ پھر بھی دیکھا گیا ہے کہ دیا سلائی کے اس داد و ستد سے محبت اور دوستی کا جو تعلق قائم ہوا، برسوں کی گرما گرمی میں فرق آنے نہیں پایا۔ چنانچہ بہت سی دوستیاں جو آگے چل کر شعر و شاعری کا موضوع بنیں اسی قسم کے کسی واقعہ سے شروع ہوئی ہیں اور کہیں کہیں تو ہم نے یوں ہی بیاہ ہوتے اور گھر بستے بھی دیکھے ہیں۔
آخر زندگی کا مقصد اس کے سوا اور ہے بھی کیا کہ خوش ہونے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کی جائے اور اگر مانگے کی چیز برتنا زندگی کو ہنسی خوشی گزارنے اور اللہ کی مخلوق کو خوش رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے تو اسے برا کون کہتا ہے۔ وہ تو ایک طرح کی عبادت ہے عبادت۔ اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتادوں کی مانگے تانگے کی چیزوں سے اللہ کی مخلوق کو خوش کرنے کا کام کیسے لیا جائے یا لیا جا سکتا ہے۔ ا گر آپ کے پڑوس میں کوئی کوٹھی ہے اور کوٹی میں کوئی مالی ہے تو اس سے گھاس چھیننے کا کھر پامانگ لائیے۔ اس بات پر چونک نہ پڑیے۔ حاشا و کلا میرا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ میں آپ کو گھسیارہ یا مالی سمجھتا ہوں یا میرے نزدیک کھرپا آپ کے مصرف کی کوئی چیز ہے۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہو ں کہ جب آپ مالی سے کھرپا مانگیں تو اسے اس خیال سے کتنی طمانیت حاصل ہوگی کہ اس کا کھرپا بھی بڑے کام کی چیز ہے یعنی وہ اپنے پڑوسی سے عاریتاً کھرپا دے کے اس کی گردن اپنے بار احسان سے جھکا سکتا ہے۔
آپ کو مالی کھرپا دینے سے ہر گز انکار نہیں کرے گا۔ اور انکار کرنے کی وجہ بھی کیا ہو سکتی ہے۔ وہ تو الٹا آپ کا احسان مند ہوگا کہ احسان اٹھانا گوارا کر لینا بیچارے مالی کے لئے کتنا عظیم الشان واقعہ ہے۔ اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ وہ مہینوں لوگوں سے اس واقعہ کا ذکر کرتا رہے گا۔ برسوں اس کے گن گائے گا۔ جس سے کہے گا کہ یہ صاحب جو پڑوس میں آکے ٹکے ہیں بہت شریف آدمی ہیں، ابھی کچھ دن ہوئے کہ مجھ سے کھرپا مانگ کر لے گئے تھے، جانے کیا ضرورت تھی، چاہتے تو نوکر کو بھیج دیتے، لیکن وہ خود آئے اور کھرپا مانگ کر لیے گئے اور یہ نہیں بلکہ چلتے وقت اس طرح میرا شکریہ ادا کیا کہ جیسے میں کہیں کا نواب ہوں اور جب بچے رات کو سوتے وقت کہانی کے لیے ضد کریں گے تو مالی اپنے پڑوسی بابو صاحب اور اپنے کھرپے کا قصہ لے بیٹھے، اور خدا جانے کتنی نسلوں تک یہی واقعہ کس قدر تغیر و تبدل کے ساتھ روتے بچوں کو بہلانے اور منانے کے کام آتا رہے گا۔
یہ جو کچھ میں نے کہا ہے مثال کے طور پر کہا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ صرف مالی سے مانگئے اور کھرپا ہی مانگئے۔ مالی ہی سے نہیں اڑوس پڑوس میں جتنے لوگ ہیں سب سے مانگئے۔ راستہ چلتوں سے مانگئے۔ دوکانداروں پر اعتماد کریں تو ان سے مانگئے۔ درزی سے انگشتانہ قینچی، سوئی یا ہو سکے تو کپڑے سینے کی مشین مانگ لائیے۔ بڑھئی سے بسولا، لوہار سے ہتھوڑا، سقے سے مشک غرض کہ جس گھر پر اداسی چھائی ہوئی نظر آئے وہاں سے کوئی نہ کوئی چیز مانگ لائیے۔ اکثر لوگوں کی زندگی تو اس خیال نے تلخ کر رکھی ہے کہ ان کی زندگی بے مصرف ہے۔ نہ مال ہے نہ دولت، نہ اثاثہ نہ جائیداد، نہ وہ کسی پر احسان کرنے کے قابل ہیں نہ کوئی احسان اٹھانے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی چیز مانگنا ان پر احسان کرنا ہے کیونکہ اس طرح ان کا بھی کوئی مصرف ہے۔ وہ بھی دوسرے انسانوں پر احسان کر سکتے ہیں۔ غرض مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈالیے تو آپ بھی خوش دوسرے بھی خوش۔ دوسروں کو یہ احساس کہ وہ احسان کرنے کے قابل ہیں اور آ پ کو یہ احساس کہ آپ لوگوں کے احسان اٹھا کے ان کی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں۔
اب فرمائیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نیکی اور کیا ہوگی کہ میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو مانگے کی چیز برتنے میں اپنی سبکی سمجھتے ہیں۔ کیسی ہی ضرورت کیوں نہ آپڑے کسی سے مانگیں گے نہیں۔ اس عادت نے ان کی طبیعت میں اکل کھراپن پیدا کردیا ہے۔ مزاج میں شگفتگی نام کو نہیں۔ بات کرتے ہیں توایسا معلوم ہوتا ہے کہ بس رو ہی دیں گے۔ گھر میں بیوی سے چخ چلتی ہے، باہر ملازمت یا کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے، ان سے ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے۔ ایسے لوگ چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی آسودہ کیوں نہ ہوں ان کی زندگی ہمیشہ تلخ رہے گی۔ جس محلے میں رہتا ہوں وہاں بھی اس قسم کے ایک بزرگ موجود ہیں جو نہ تو خود کسی سے کوئی چیز عاریتاً لیتے ہیں اور نہ کسی کو کوئی چیز ادھار دیتے ہیں۔ لیکن صرف اسی ایک عادت کی بدولت جسے وہ اپنی زندگی کا بڑا اہم اصول سمجھتے ہیں ان کی زندگی میں۔۔۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ نہ کوئی ان کے ہاں آتا ہے نہ وہ کسی کے ہاں جاتے ہیں۔ ایک دفعہ اندھیری رات میں اپنے گھر کا راستہ بھول گئے تھے اور ساری رات بھٹکتے رہے۔ صبح کو گھر پہنچے تو بیوی اور بچوں پر غصہ نکالا اور کئی دن تک بدمزگی رہی، مجھے تو یقین ہو چلا ہے کہ اگر ان کا یہی حال رہا تو ایک دن پاگل خانہ آباد کریں گے۔
مجھے ایک شخص نے بتایا ہے کہ ان کا بچپن سے یہی حال ہے۔ اسکول میں تھے، جب بھی مانگے تانگے کی کوئی چیز نہیں برتتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا اس میں کچھ زیادہ قصور نہیں۔ تربیت ہی ناقص ہوئی ہے ورنہ کون ہے جو اسکول میں مانگے کی چیز برتنے کو معیوب سمجھے۔ ہمارے ملک کے اسکولوں میں جہاں اوربہت سی باتیں سکھائی جاتی ہیں وہاں مانگے کی چیزیں برتنا بھی سکھایا جاتا ہے اور سکھایا کیا جاتا ہے خود آجاتا ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے قلم، دوات، کتاب، پنسل، ربڑ مانگ کر برتتے ہیں اور اس طرح ان کی زندگی ہنسی خوشی گزر جاتی ہے۔ لیکن اسکولوں میں چیزیں مانگنا محض اختیاری مضمون ہے لازمی مضمون قرار دے کر اسکول کے نصاب میں شامل کر لیا جائے اور یہی نہیں بلکہ ماں باپ کو چاہئے کہ بچے کو تربیت دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیں۔
مانگے کی چیزیں برتنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح چیزوں کو احتیاط سے برتنے کا ڈھنگ آجاتا ہے۔ اپنی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو کوئی بات نہیں لیکن دوسرے کی چیز کو برتتے وقت انسان بڑی احتیاط کرتا ہے اور جو لوگ بچپن ہی سے مانگے کی چیزیں برتنے کی عادت ڈال لیتے ہیں وہ اپنی چیزیں بھی احتیاط سے برتنے لگتے ہیں۔ اگر آپ نے نئی نئی شادی کی ہے اور آپ کی بیوی غیر محتاط ہے تو اسے ایک دن چپکے سے کہہ دیجئے کہ اس گھر میں جتنی چیزیں ہیں سب مانگے تانگے کی ہیں۔ اس لیے انہیں احتیاط سے برتنا۔ اسے یہ سن کے صدمہ تو ضرور ہوگا، لیکن آپ کی چیزیں برتنے میں احتیاط سے کام لیا کرے گی، اور آپ کو آئے دن نئی چیزیں خریدنے کی مصیبت سے نجات مل جائے گی۔
غرض یہ ہے کہ اگر آپ چیزیں برتنے کا ڈھنگ سیکھنا چاہتے ہیں تو مانگے تانگے کی چیزیں استعمال کیجئے اور اگر آپ نے بہت سی ضرورت کی چیزیں خرید لی ہیں اور انہیں برتنے کا سلیقہ نہیں آیا تو جو کوئی مانگنے آئے اسے بے تکلف دے ڈالئے۔ اس طرح آپ کی چیزیں محفوظ رہیں گی۔ اور اس زمانے میں تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ نئی چیزیں نہ خریدی جائیں اور پرانی چیزوں ہی سے کام لیا جائے اور اگر کوئی صاحب اپنی چیزوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کوئی طریقہ نہیں سوجھتا تو میری خدمات حاصل کریں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.