کہاجاتا ہے کہ پہلی اولاد کے حصے میں والدین کی محبتیں دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ آتی ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ ذرا مختلف ہے۔ پہلی اولاد ہونے کے ناطے محبتیں تو خوب ملیں لیکن تربیت کے سارے فارمولے حربوں کی طرح ہم پر استعمال کیے گئے۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ کچھ حربے آگے آنے والے بچوں پر استعمال کرلیے جاتے؟ ویسے والدین لکھنا غلط ہوگا۔ والد کا اس ملٹری نما تربیت میں کوئی رول نہیں تھا۔ صرف امی ہی تھیں جو ہر وقت ہٹلر بنی رہتی تھیں۔ وہ تو شکر ہے کہ ہمیں دادی دادا کی محبت بھری آغوش میسر تھی۔ بالخصوص دادا کا کمرہ ہماری پناہ گاہ تھا جہاں بیٹھ کر ہم اپنے دل کے درد آزادی سے ان کے سامنے بیان کرسکتے تھے۔ ویسے دیکھاجائے تو اس میں امی کا بھی کوئی قصور نہ تھا۔ ہماری شکل وصورت سے مایوس ہوکر وہ ہمیں تعلیم و تربیت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں نک سک سے درست دیکھنا چاہتی تھیں۔ قصور شاید ہمارا ہی تھا کہ ہماری کوئی کل سیدھی ہی نہ تھی، اس لیے امی کو ہمارے ساتھ زیادہ مشقت کرنا پڑتی تھی۔ ایک تو ہمارے دماغ میں سوال بہت اٹھتے تھے، دوسرے خاموش رہنا ہماری فطرت میں نہ تھا۔ ادھر امی تھیں کہ ہمارے ہلکے سوالوں کاجواب اپنی گھورتی ہوئی آنکھوں سے دیتی تھیں۔ سوال اگر پیچیدہ ہوتا تو ہاتھ کی صفائی ایسے دکھاتیں کہ آنکھوں کے آگے تارے ناچ جاتے اور ہمیں ماننا پڑتا کہ ’’مستند ہے ان کا فرمایا ہوا‘‘۔ اوپر سے امی کا رعبِ حسن بھی ایسا تھا کہ سامنے والا ان کی غلط بات پر بھی دام میں آجاتا تھا۔ جیسے تیسے بچپن اور لڑکپن گزرا، جوانی آئی تو تربیتی کورس اور سخت ہوگیا۔ ہماری آزادی کی سرحدیں گھر سے کالج اور کالج سے گھر تک محدود ہوگئیں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم تھا کہ بارڈر لائن کراس کرنے پر بطور سزا یہ سرحد گھر سے گھر تک ہی محدود ہوسکتی تھی، سو ہم نے کبھی اس سیما ریکھا کو لانگھنے کی کوشش نہیں کی۔ گریجوئیشن مکمل ہوتے ہوتے امی نے ہماری رسّی ہمارے نئے مالک یعنی ہمارے شوہر کے ہاتھ میں پکڑا دی، مگر مزے کی بات یہ رہی کہ رسّی کی لمبائی خود امی نے ہی طے کی مگر خوش قسمتی سے ہمارے شوہر بہت نرم خو اور مخلص تو تھے ہی ہوشیار بھی اس بلا کے نکلے کہ ہمیں بھی خوب خوب آزادی عطا فرمائی اور امی کی گڈبک میں رہنے کے لیے انہیں بھی یہ احساس دلاتے رہے کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہی سب کچھ چل رہا ہے۔
شادی کے بعد بھی ہماری زندگی میں امی کا عمل دخل پورا پورا تھا، مثلاب ہماری سہیلیاں کون ہیں؟ ہم جاتے کہاں کہاں ہیں؟ ملتے کس کس سے ہیں؟ گھر گرہستی میں لاپرواہی تو نہیں کرتے، شوہر کو جواب تو نہیں دیتے ہیں۔ فضول خرچی اور بے جا فرمائشیں کرکے شوہر کے ناک میں دم تو نہیں کرتے ہیں؟ ایک ایک بات پر ان کی نظر رہتی تھی۔ ہم بھی ان کی ہی اولاد تھے۔ ان کو بھنک بھی نہ لگنے دی کہ اب تک جو پتے ہم نے سنبھال کر رکھے تھے شادی کے بعد کھولے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے گھر میں ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کا اصول نافذ کردیا ہے۔ دراصل ہم ان بدقسمت عورتوں میں اپنا شمار نہیں کروانا چاہتے تھے جو ہر چھوٹی بڑی بات یا کام کے لیے اپنے شوہروں کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہوئی ان کی ’’ہاں‘‘ یا ’’نا‘‘ کے انتظار میں زندگی گزار دیتی ہیں۔
ہماری امی ہمیں خدا اور مجازی خدا دونوں سے یہ کہہ کر ڈرایا کرتی تھیں کہ زندگی میں مجازی خدا کے اور بعد مرنے کے حقیقی خدا کے قبضے میں ہی جان جانی ہوتی ہے سو بہت دیکھ بھال کر ہر قدم اٹھانا چاہیے۔ مگر خوش قسمتی تھی ہماری کہ دادا ابا نے وقت رہتے اللہ کے رحیم و کریم ہونے والا تصور ہمارے دل میں ڈال دیا تھا اور سمجھایا تھا کہ بندے کو اپنے رب سے خوف زدہ ہونے کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنا ضروری اس سے محبت کرنا اور اس کا شکر گزار ہونا ہے۔ عبادت بھی شکر گزاری ہی تو ہے پھر شکرگزاری میں ڈر کیسا؟ ویسے بھی جہاں خوف ہو وہاں محبت ختم ہوجاتی ہے۔ خدا کی محبت ہمیشہ دل میں رہنا چاہیے۔ دادا کا یہ فارمولا ہم نے گرہ میں باندھ لیا اور دونوں خداؤں سے جم کر محبت کی۔
امی اب بوڑھی ہوچلی تھیں، بہت ساری باتیں ہم سب بہن بھائی اب ان سے چھپا جاتے تھے مگر کوشش یہی ہوتی تھی کہ ان کو یہ احساس نہ ہو کہ ان سے کچھ چھپایا جارہا ہے۔ لیکن امی کی چھٹی حس بہت تیز تھی وہ سمجھ جاتی تھیں کہ کچھ ایسا ہے جس سے وہ واقف نہیں ہیں۔ یہ دوہزار سترہ کی بات ہے، گرمیوں کے دن تھے، میں امی کے پاس کچھ دن رہنے کے ارادے سے گئی تھی۔ امی عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جلدی سوجانے کی عادی اور والد صاحب کا شوق دیر رات تک مطالعہ یا ٹیلی ویژن پر خبریں سننا ہے، دونوں کے نمبر نہیں ملتے سو دونوں کے کمرے الگ تھے۔ میں نے امی کے کمرے میں ان کے ہی بیڈ پر اپنا بستر جمایا کہ کچھ باتیں وغیرہ بھی کرناتھیں۔ اب روزانہ کاروٹین ہوگیا کہ باتیں کرتے کرتے امی سوجاتیں۔ مجھے اتنی جلدی سونے کی عادت نہیں تھیں، سو نیند نہیں آتی تھی۔ لائٹ جلانے پر امی کی آنکھ کھل جانے کی وجہ سے میں نے ان دنوں بجائے کچھ پڑھنے کے لیے موبائل کا سہارا لیا اور فیسبک اور وہاٹس ایپ پر اپنی موجودگی خوب خوب درج کرائی۔ فیسبک پر افسانہ فورمز میں جاکر افسانے پڑھے۔ شاعری کے فورمز پر غزلوں، نظموں سے لطف لیا۔ یوٹیوب پر پاکستانی ڈرامے دیکھے۔ وہاٹس ایپ پر خوب خوب گپیں لگائیں۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ایک دن امی کے ہاتھوں میری شامت آنی ہے۔ امی حسب معمول سوچکی تھیں۔ میں موبائل پر پروفیسر عمران سے چیٹنگ کر رہی تھی۔ وہ بہت دنوں کے بعد فیس بک پر نظر آئے تھے۔ میں نے سوچا سلام کرلوں اور خیریت بھی پوچھوں کہ اتنے دنوں سے غیرحاضر کیوں تھے؟ امی نے کروٹ بدلی موبائل کے روشن اسکرین کا عکس چہرے پر پڑنے سے ان کی آنکھ کھل گئی۔ پوچھنے لگیں :
’’یہ اتنی رات کو موبائل پر کیوں لگی ہو تم؟‘‘ میں تھوڑا گھبرائی پھر رسان سے امی کو سمجھانے کی کوشش کی:
’’امی ضروری بات کر رہی ہوں، بس پانچ منٹ میں فارغ ہوتی ہوں۔‘‘
’’اچھا بغیر بولے بھی بات ہوجاتی ہے تمہارے موبائل پر؟‘‘ میں نے سٹپٹاکر جواب دیا ’’جی! ہوجاتی ہے بات بغیر بولے بھی۔ میسج لکھ کر بات ہوتی ہے موبائل پر امی۔‘‘ یہ سن کر ایک لمبی سی ’’ہوں‘‘ کی آواز نکالی انہوں نے اور کہنے لگیں ’’اچھا یہ تو بتاؤ کہ کس سے بات کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ مسکرا کیوں رہی تھیں؟‘‘ مجھے محسوس ہوا کہ امی مجھے کافی دیر سے دیکھ رہی تھیں۔ میں نے بات ختم کرنے کی غرض سے جلدی سے پروفیسر عمران کو میسج ٹائپ کیا کہ ’’امی کی آنکھ کھل گئی ہے وہ ڈسٹرب ہو رہی ہیں۔ انشاء اللہ کل بات کروں گی آپ سے۔ خدا حافظ!‘‘ جوابی میسج میں ایک مسکراہٹ کی اموجی کے ساتھ میسج آیا ’’اچھا! تو آج کل آپ امی کے یہاں آئی ہوئی ہیں!‘‘ میں نے جلدی سے ’’جی‘‘ ٹائپ کیا۔ اتنے میں پروفیسر عمران کا پھر ایک میسج آگیا ’’امی کی خدمت میں میرا بھی سلام عرض کر دیجیے گا اور دعاؤں میں مجھ حقیر فقیر کو بھی یاد رکھیے گا۔ خدا حافظ!‘‘ جواب میں میں نے جلدی سے خدا حافظ لکھ کر موبائل آف کیا اور بستر پر امی کے اور قریب سرک گئی۔ میں نے سوچا پہلے امی کو فیسبک کے بارے میں سمجھادوں۔ میں نے بات شروع کی، وہ خاموشی سے سنتی رہیں۔ فیسبک کو وہ کتنا سمجھ پائیں معلوم نہیں! ان کی سوئی تو وہیں اٹکی ہوئی تھی کہ میں بات کس سے کر رہی تھی؟ لیٹے لیٹے ایک لمبی سانس لے کر انہوں نے پھر پوچھا۔۔۔
’’تم نے بتایا نہیں کہ موبائل پر کس سے باتیں کر رہی تھیں؟‘‘
میں نے رسان سے جواب دیا ’’امی! پروفیسر عمران سے بات کر رہی تھی۔ آپ کو بھی سلام کہہ رہے تھے۔‘‘
میری بات پر انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا اور بولیں۔۔۔
’’مجھے کیوں سلام کہہ رہے تھے؟ وہ مجھے کیا جانیں؟‘‘ وہ حیران تھیں
’’میں نے ہی بتایا تھا ان کو کہ امی کے گھر پر ہوں۔‘‘ امی نے عجیب نظروں سے مجھے گھورا۔۔۔
’’ہنھ! تو یہاں تک راز و نیاز ہوتے ہیں غیرمردوں سے کہ کہاں ہو کہاں نہیں!‘‘
امی کے سوالوں کے جواب مجھے نہیں سوجھ رہے تھے اور وہ سوال پر سوال کیے جارہی تھیں۔۔۔
’’کتنی عمر ہے اس پروفیسر کی؟‘‘ امی نے پھر مجھے کریدا۔۔۔
’’ریٹائرڈ ہیں۔۔۔ پینسٹھ وینسٹھ کے ہوں گے!‘‘ میں نے سٹپٹا کر جواب دیا
’’یعنی بڈھے ہوگئے ہیں مگر حرکتیں نہیں گئیں؟ ان کی اپنی بڑھیا نہیں ہے جو یوں آدھی رات کو لگے ہوئے ہیں تمہارے ساتھ باتوں میں۔‘‘
اب مجھے امی کی باتوں پر کچھ کچھ غصہ آرہا تھا! ’’امی ایسے تو نہ کہیں پلیز! بہت اچھے انسان ہیں وہ۔ پروقار شخصیت، قابل اور ذہین! افسانہ نگار بھی ہیں۔ کئی مجموعے آچکے ہیں ان کے افسانوں کے۔۔۔‘‘
میں نے امی کے سامنے پروفیسر عمران کے خصائص گنوائے۔ ’’خاموش ہوجا لڑکی! اور مجھے یہ سب مت بتا! میں سب جانتی ہوں۔ یہ راتوں کو موبائل پر چپکے رہنے والے مرد و عورت کیسے ہوتے ہیں؟‘‘ امی وہ جہاں رہتے ہیں وہاں اس وقت رات نہیں دن ہے۔ ہمارے یہاں رات ہو رہی ہے۔‘‘
’’چاند پہ رہتا ہے وہ؟‘‘ اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے میں نے ان کو بتایا۔۔۔
’’کینیڈا میں رہتے ہیں وہ، ٹورانٹو میں! پہلے انڈیا میں ہی تھے۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بیٹے بہو کے پاس شفٹ ہوگئے ہیں۔‘‘ میں نے وضاحت دی۔
’’بیوی ہے؟‘‘ امی نے پھر پوچھا۔ ہیں نا! بہت پیاری اور نفیس خاتون ہیں، بیٹا اور بہو اور پوتی بھی ہے ماشاء اللہ!‘‘
’’پھر بھی یہ رات کو الوؤں کی طرح جاگتا رہتا ہے، اپنی بیوی سے کیوں نہیں سرکھپاتا؟‘‘
’’امی کیا ہوگیا ہے؟ ابھی تو بتایا تھا میں نے آپ کو کہ وہاں رات کیا ابھی شام بھی نہیں ہوئی ہے، دوپہر ڈھلی ہے بس‘‘۔ مجھے اندر سے غصہ آنے لگا۔ ’’پیچھے ہی پڑ جاتی ہیں آپ تو! اور ہاں میں نے ہی آواز دی تھی ان کو، انہوں نے نہیں۔ وہ بہت رکھ رکھاؤ والے شخص ہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘ امی نے ایک لمبی سانس کھینچی! تو دامن پیچھے سے پھٹا ہے بیچارے کا۔‘‘
’’اُفف! امی کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔‘‘
’’لیکن میری سمجھ میں سب کچھ آرہا ہے۔ کتنے دوست ہیں تمہارے فیسبک پر؟‘‘
’’امی! ٹھیک سے نہیں معلوم، ہوں گے کوئی تین ہزار یا کچھ کم زیادہ! سات سال ہوگئے ہیں مجھے فیسبک جوائن کیے ہوئے۔‘‘
تین ہزار سنتے ہی امی ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئیں۔
’’ہیں ں ں! تین ہزاررر! تو ان سب سے تیری ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں راتوں کو؟‘‘
’’ارے نہیں امی! کچھ ہی خواتین و حضرات ہیں جن سے کبھی کبھار بات ہوجاتی ہے، وہ بھی ادب کے حوالے سے، لکھنے پڑھنے کی بات ہوتی ہے تو خیر خیریت بھی معلوم کرلیتے ہیں ایک دوسرے کی۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ انٹرنیٹ نے ہزاروں میل کی دوری کو سمیٹ دیاہے۔ بس اسی لیے رابطہ ہوجاتا ہے ورنہ کہاں ممکن تھا کسی دوسرے ملک میں بیٹھے شخص سے بات چیت کرنا!‘‘ معلوم نہیں امی مطمئن ہوئیں یا نہیں۔ میں نے ان کو بہ مشکل تمام یہ کہہ کر دوبارہ لٹایا کہ اس سلسلے میں صبح بات کریں گے آرام سے اور اب مجھے بھی نیند آرہی ہے، آپ بھی سوجائیں۔‘‘
امی کی باتوں سے دل خراب سا ہوگیا تھا میرا، نیند بھی نہیں آرہی تھی۔ میں نے خاموشی سے ان کے برابر لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔ مگر امی بھی اپنے میں ایک ہی تھیں۔ لیٹے لیٹے مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولیں ’’بی بی! صبح اپنے میاں کو فون کرکے بلاؤ، بات کرنا ہے ان سے۔ ذرا ان سے بھی پوچھوں کہ ان کو تمہارے یہ لچھن معلوم ہیں یا چھوٹ دے رکھی ہے انہوں نے؟ اور ہاں یاد آیا، وہ تمہاری بچپن کی سہیلی قدسیہ ہے نا اس کی امی کا انتقال ہوگیا ہے پچھلے ماہ۔۔۔! ان تین ہزار دوستوں سے اگر فرصت مل جائے تو کل چلی جانا اس کے گھر۔۔۔ کچھ وقت گزار لینا اس کے ساتھ۔۔۔ کوئی دلاسہ تسلّی دے دینا اس کو بھی!‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.