Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

معدے کا مریض

سید عابد حسین

معدے کا مریض

سید عابد حسین

MORE BYسید عابد حسین

     

    پہلا منظر
    (حکیم صاحب کا مطلب، فرش بچھا ہے، مسند رکھا ہے، صدر خالی ہے۔ حکیم صاحب کا شاگرد مسند کا کونا دبائے بیٹھا قلم بنا رہا ہے ایک مریض داخل ہوتا ہے)

    مریض، آداب عرض ہے حکیم صاحب۔ 

    شاگرد، آئیے آئیے، حکیم محلسرا میں ہیں، ابھی تشریف لاتے ہیں۔ 

    مریض، آپ بھی مریض ہیں، میں سمجھا حکیم صاحب ہیں۔ 

    شاگرد، آپ کی پہلی تشخیص بھی غلط اور دوسری بھی۔ میں طب کا طالب علم ہوں ابھی تکمیل نہیں کی ہے۔ حکیم صاحب کے مطلب میں بیٹھتا ہوں۔ 

    مریض، تو یہ کہیے آپ نیم حکیم ہیں۔ 

    شاگرد، آپ کا کام تمام کرنے کے لیے کافی ہوں۔ کہیے کیا شکایت ہے؟

    مریض، ایک شکایت ہو تو کہوں، میں تو سراپا شکایت ہوں۔ 

    پر ہوں شکوے سے میں یوں راگ سے جیسے باجا
    اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتاہے

    شاگرد، تو حضرت معاف کیجیے، حکیم صاحب خود ہی چھیڑیں گے، آپ کا مضراب انھیں کے پاس ہے۔ 

    مریض، (گھبرا کر) مضراب کیسی؟ یہ تو ضَربَ یضربُ کا صیغہ معلوم ہوتا ہے۔ مارا اس نے مارتا ہے اور مارے گا۔ 

    شاگرد، جی بس ان کی انگلیاں مضراب ہیں۔ جہاں انھوں نے نبض کے تاروں کو چھیڑا آپ کا باجا خود بہ بجنے لگے گا۔ لیجیے حکیم صاحب آگئے۔ 

    حکیم صاحب، اجی تشریف لائیے۔ میں آپ کی نبض دیکھتا ہوں۔ آپ کا حال؟

    مریض، کیا عرض کروں حکیم صاحب۔ عجب درد بست در معدہ۔ 

    حکیم صاحب، نثر میں ارشاد ہو۔ 

    مریض، ارشاد کیا خاک ہو۔ آپ نے تو ہنسنے پر روک دیا۔ 

    حکیم صاحب، تفصیل طول کو ترک کیجیے، مختصر فرمائیے۔ 

    مریض، قبلہ ابھی میں نے کون سی مطوّل بیان کیا ہے جو آپ مختصر کی فرمائش کرتے ہیں۔ غضب خدا کا برسوں کی بیماری اور آپ چاہتے ہیں کہ چند لمحوں میں اس کا حال بیان کردوں۔ اچھا اب آپ ہی پر چھوڑتا ہوں جو کہیے وہ کہہ دوں۔ 

    حکیم صاحب، معدہ کا حال۔ آنتوں کا فعل۔ اشتہا، اجابت۔ 

    مریض، اللہ رے اختصار! بہت خوب! سنیے معدہ کا حال ناگفتہ بہ، آنتوں کا قول وفعل دونوں ناقابل اعتبار، اشتہا کا بھوکا ہوں۔ اجابت کی دعا کرتا ہوں۔ 

    حکیم صاحب، فم معدہ میں کچھ درد کی خلش بھی ہے؟

    مریض، فم معدہ میں درد کی خلش، حضور فم معدہ میں قلب معدہ میں روح معدہ میں درد کی خلش نہیں بلکہ درد کا سیلاب ہے۔ درد کا طوفان ہے۔ 

    درد ہے یہ یا کوئی طوفان ہے
    ہم تو اس معدے کے ہاتھوں مرچلے

    حکیم صاحب، (شاگرد سے مخاطب ہوکر) لکھو (نسخہ لکھواتے ہیں جس کے الفاظ سننے والوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ شاگرد لکھتا ہے)

    مریض، لیجیے اب وظیفہ ہونے لگا۔ خدا جانے نسخہ کی نوبت کب آئے گی۔ 

    شاگرد، (مریض سے) یہ نسخہ لیجیے رات کو بھگو دیا کیجیے اور صبح کو تڑکے پی لیا کیجیے۔ 

    مریض، (نسخہ دیکھ کر) افوہ کوئی تیس چالیس دوائیں ہوںگی۔ دوسرے سے اختصار کی تاکید اور اپنی طرف سے یہ طول! کیوں جناب اس نسخہ کی کیا قیمت ہوگی؟

    شاگرد، جو دواخانہ نکڑ پر ہے وہاں چار آنہ میں بندھ جائے گا اور جگہ زیادہ دام لیں گے۔ 

    مریض، تو لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیےکہ فائدہ کتنے دنوں میں ہوگا؟

    شاگرد، یہی کوئی تین چار برس میں۔ 

    مریض، بجا ہے۔ ذرا مجھے قلم دوات کاغذ عنایت ہو۔ 

    حکیم صاحب، کیوں خیریت ہے۔ 

    شاگرد، شاید کوئی ناگفتہ بہ حال لکھنا ہوگا۔ 

    مریض، (حساب لگاتا ہے) چار آنہ روز، سال تین سو ساٹھ دن کا، مان لیجیے چار دن کا ایک روپیہ ہوگا، تین سو سا ٹھ کو چار سے تقسیم کیا، نہیں یہ کیوں کروں، پھر چار سے ضرب دینا ہوگا۔ تین سو ساٹھ روپے ہوگئے (حکیم صاحب سے) حضرت! بقراط زماں! میری جاں بخشی کیجیے۔ میں ایسے علاج سے باز آیا۔ تین سو ساٹھ کس کے گھر سے لاؤںگا۔ 

    حکیم صاحب، لاحول و لا قوۃ، انہوں نے مزاحاً چار برس کہہ دیے۔ آپ نے باور کر لیا۔ آپ چندے اس نسخے کو استعمال کیجیے۔ 

    مریض، جی ایسے چندے میں نے بہت دیکھے ہیں۔ میری ساری عمر آپ ہی حضرات کے علاج میں گذری ہے (اٹھ کر) بس اب اجازت ہو (چلا جاتا ہے)

    شاگرد، خس کم جہاں پاک (پردہ گرتا ہے) 

    دوسرا منظر نامہ
    (بنگالی ڈاکٹر کا مطب میز کرسی لگی ہے۔ صدر میں ڈاکٹر صاحب بیٹھے ہیں اور ان کے قریب ہمارے مریض)۔ 

    ڈاکٹر، ویل مائی ڈیر سر، واٹ کین آئی ڈو فار یو؟

    مریض، آپ تو نسخہ بتانے لگے، پہلے حال تو سن لیجیے۔ 

    ڈاکٹر، اوہو! آپ انگلش نہیں جانتا۔ آپ کو کیا ہوگیا؟

    مریض، مجھے کچھ نہیں ہوا۔ آپ اپنے دماغ کا علاج کیجیے۔ 

    ڈاکٹر، آپ کو کیا مرج؟

    مریض، پہلے یہ بتائیے کہ آپ بھی حکیم صاحب کی طرح اختصار پسند طول نویس ہیں؟

    ڈاکٹر، کیا کہا، ہم نہیں سمجھا؟

    مریض، پورا حال کہوں یا تار کی زبان میں گفتگو کروں۔ 

    ڈاکٹر، بہوت بات نہیں کام کا بات۔ 

    مریض، بہت اچھا، کام کی بات سنیے۔ معدہ خراب، سینے میں جلن، پیٹ میں ریاح، قبض۔ 

    ڈاکٹر، درد ہوتی ہے؟

    مریض، ہوتی نہیں ہوتا ہے۔ (پیٹ پر ہاتھ رکھ کر) 

    اک ہوک یہاں پر اٹھتی ہے اک درد یہاں پر ہوتا ہے
    ہم رات کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتاہے

    ڈاکٹر، آپ رویے نہیں، اچھا ہو جائے گا۔ آپ اسٹول اگزامن کرا لیا۔ 

    مریض، کیا کہا؟ اسٹول کیا۔ 

    ڈاکٹر، فجلہ! فجلہ!

    مریض، ہاں فضلہ پھر؟

    ڈاکٹر، موائینہ کرایا؟

    مریض، فضلہ کا بھی معائنہ ہوتا ہے؟ یہ آج ہی سنا اس چودھویں صدی میں جو کچھ نہ ہو کم، جی نہیں میں نے معائنہ نہیں کرایا اور کراؤں کیسے، مجھے تو ہمیشہ قبض رہتا ہے۔ 

    ڈاکٹر، ہم آپ کا پیٹ دیکھے گا۔ آپ چل کر میج پر لیٹ جائے گا۔ 

    مریض، پہلے یہ بتا دیجئے کہ نسخے کی کیا قیمت ہوگی؟

    ڈاکٹر، پہلے ہم دیکھ لیں پھر بٹا سکتا۔ 

    مریض، جی نہیں پہلے آپ بتا دیجئے، پھر ہم دکھا شکٹا۔ 

    ڈاکٹر، آپ کیا آدمی ہے؟ کھیر آپ کی کھوشی، دوائی کا اسٹیمٹ دو روپے روج۔ 

    مریض، فائدہ کتنے دنوں میں ہوگا۔ 

    ڈاکٹر، او! معدے کے مرج کو فائدہ بہت دنوں میں ہوتا ہے۔ 

    مریض، آخر؟

    ڈاکٹر، کم سے کم چھ مہینا۔ 

    مریض، چھ کا صفر ہی صفر چھ تئے اٹھارہ۔ ایک سو اسی، اٹھارہ دونی چھتیس صرف، تین سو ساٹھ لیجئے۔ وہی تین سو ساٹھ ہوگئے۔ 

    ڈاکٹر، او! آپ کو دورہ ہوا، ہم دوائی دیتا۔ 

    مریض، جی مجھے دورہ وورہ کچھ نہیں ہوا، ہاں قلب پر ضرور صدمہ پہنچاہے۔ کیوں حضرت اس سے مہنگا علاج کوئی اور نہیں ہے۔ یہ تو آپ نے بہت سستا نسخہ بتادیا۔ 

    ڈاکٹر، اور آپ مہنگا علاج چاہتا۔ آپ جرمنی چلا جائے واٹرنگ پیلیس۔ 

    مریض، پیلیس؟

    ڈاکٹر، چشمے کا جگہ، گندھک کے چشمے کا۔ 

    مریض، تو اپنے گھر کے کنوئیں کا پانی کیوں نہ پئیں۔ رنگ بالکل گندھک کا ہے۔ بُو اور مزہ اس سے بھی بڑھ کر، کیوں صاحب اس گندھک کے علاج میں کتنا خرچ ہوگا؟

    ڈاکٹر، ہم کو ٹھیک مالم ُنہیں، دس ہجار، بیس ہجار۔ 

    مریض، دس ہزار، بیس ہزار، چالیس ہزار، آپ کا کیا جاتا ہے۔ پہاڑا پڑھتے چلے جائیے۔ حضرت میں نے توبہ کی، اب علاج کا نام نہیں لوں گا۔ فیس تو آپ کی نذر کرہی چکا۔ اب تک ہضم بھی ہوگئی ہوگی۔ اب رخصت چاہتا ہوں۔ 

    ڈاکٹر، آپ کھپا ہوگیا ہمارا کون کشور!

    مریض، جی نہیں آپ کا کوئی قصور نہیں، میری تقدیر کا قصور ہے۔ نہ یہ کمبخت مرض ہوتا، نہ یہ پہاڑے سننے پڑتے۔ بہت اچھا، آداب عرض ہو۔ 

    ڈاکٹر، آدابرج (I did not know he was stark mad)

    تیسرا منظر
    (مریض اپنے دوست بابو جی کے گھر جاتا ہے) 

    مریض، آداب عرض ہے بابو جی!

    بابو صاحب، آئیے آئیے! مدت کے بعد زیارت نصیب ہوئی۔ آپ تو عید کا چاند ہوگئے۔ 

    مریض، جی عید کا چاند نہیں، چاند ماری کا نشانہ بن گیا ہوں۔ جو حکیم ہے جو ڈاکٹر ہے مجھی پر فیر کرتا ہے اور کوئی فیر تین سو ساٹھ سے کم کا نہیں ہوتا۔ 

    بابو صاحب، اچھا تو وہ آپ کے ہاضمہ کی شکایت اب تک چلی جارہی ہے۔ 

    مریض، اب تک چلی جارہی ہے۔ یہ نہیں کہتے دن دونی رات چوگنی ہوتی جاتی ہے۔ 

    مریض معدہ پر لعنت خدا کی
    مرض بڑھتا گیا جوں جو دوا کی

    بابو صاحب، حضرت جب تک آپ حکیموں، ڈاکٹروں کے پھیر میں پڑے رہیں گے یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ میں بھی مدتوں یہ پاپڑ بیل چکا ہوں۔ آپ میرے کہنے پر چلیں تو مہینہ بھر میں اچھے ہوجائیں۔ 

    مریض، کیا کوئی عطائی نسخہ ہاتھ لگ گیا ہے؟ بتائیے خدا کے لیے جلدی بتائیے مگر یہ بھی وہی تین سو ساٹھ کا نسخہ!

    بابو صاحب، عطائی نسخہ! توبہ کیجئے! کیا آپ نے مجھے ایسا جاہل سمجھا ہے اور یہ تین سو ساٹھ کی آپ نے کیا رٹ لگائی ہے۔ 

    مریض، اجی جو بتاتا ہے ایسا ہی علاج بتاتا ہے جس میں تین سو ساٹھ روپے خرچ ہوں اور وہ بنگالی ڈاکٹر تو دس ہزار کا پہاڑہ پڑھ رہا تھا۔ 

    بابو صاحب، جی نہیں جو تدبیر میں آپ کو بتاؤں گا اس میں سیکڑوں ہزاروں کا کیا ذکر ہے، ڈھیلے کا بھی خرچ نہیں، بلکہ آپ کو کچھ بچت ہوجائے گی۔ 

    مریض، ارے بھائی، تو کوئی تعویز ہے، گنڈا ہے کیا ہے؟ تم تو پہیلیاں بجھواتے ہو۔ 

    بابو صاحب، تعویز گنڈے کو میرا دور سے سلام ہے۔ میں آپ کو خالص سائنٹیفک علاج بتاتا ہوں۔ 

    مریض، یہ سائن ٹلی کون بزرگ ہیں، کہاں رہتے ہیں؟

    بابو صاحب، سائنٹیفک یعنی سائنس کے مطابق عملی۔ 

    مریض، اور حکیم ڈاکٹر علم سے نہیں تو کیا جہل سے علاج کرتے ہیں؟ آخر وہ آپ کا علمی، اخلاقی، معاشرتی نسخہ کیا ہے؟ کچھ کہیے تو سہی؟

     

    بابو صاحب، آپ کو ئی ورزش کرتے ہیں؟

    مریض، ورزش! بہت خوب! اب معلوم ہوا آپ کا علمی علاج۔ یہاں اٹھنا بیٹھنا دوبھر ہے اور آپ ورزش لیے پھرتے ہیں۔ 

    بابو صاحب، اٹھنا بیٹھنا اسی لیے دوبھر ہے کہ آپ نے اپنے جسم کو کاہل بنا رکھا ہے۔ زہریلا مادہ آپ کی رگوں میں پھیل گیا ہے اور اسی نے بدن کو بوجھل کر دیا ہے۔ 

    مریض، آپ خود زہر اگل رہے ہیں۔ غضب خدا کا میں کاہل ہوں، دن بھر دفتر میں چکی پیستا ہوں۔ صبح، شام بچوں کو پڑھاتا ہوں۔ رات کو گھر کا حساب لکھتا ہوں۔ اسی کو کاہلی کہتے ہیں۔ 

    بابو صاحب، بھائی صاحب آپ بہت کام کرتے ہیں مگر یہ سب دماغی کام ہے۔ جسم آپ کا معطل رہتا ہے۔ پھر ہاضمہ ٹھیک ہو تو کیسے ہو؟ اور کچھ نہیں توصبح و شام دوچار میل ٹہلا کیجیے۔ 

    مریض، اور لیجیے، اب آپ ٹہلانے لگے۔ یہاں مرنے کی بھی فرصت نہیں ٹہلنے کا وقت کہاں سے آئے۔ 

    بابو صاحب، دوڑا کیجیے اس میں کم وقت لگے گا۔ 

    مریض، اے سبحان اللہ، میں چالیس برس کا بوڑھا، چھ بچوں کا باپ، ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا پھروں، کوئی دیکھے تو سمجھے پاگل ہوگیا ہے۔ 

    بابو صاحب، بندۂ خدا تم گھر پر ہی ورزش کرلیا کرو۔ مَلرکی اکسرسائز صرف پندرہ منٹ کا کام ہے۔ 

    مریض، کس کی کیا؟ یہ تم کیا بک رہے ہو۔ 

    بابو صاحب، مَلر ایک شخص کا نام ہے۔ اس نے ورزش کا سائنٹیفک طریقہ ایجاد کیا ہے۔ میں آپ کو ابھی سکھادوں گا۔ 

    مریض، پھر وہی سائن ٹلی، آخر اس مولر کی ورزش میں کون سا سرخاب کا پر لگا ہے۔ جوانی میں ہم دس دس ڈنڈ بیس بیس بیٹھکیں روز لگاتے تھے اس پر بھی چوپٹ ہوگیا۔ 

    بابو صاحب، جوانی کی بیٹھکوں سے بُڑھاپے کا کھانا کیسے ہضم ہو سکتا ہے اور بیٹھک کوئی سائنٹیفک ورزش بھی نہیں۔ اچھا خیر ورزش کو اس وقت جانے دیجیے۔ 

    مریض، اس وقت جانے دیجیے، نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈالیے۔ یہ آپ کے سائن ٹلی اور مولر ہی کو مبارک رہے۔ 

    بابو صاحب، اب یہ بتائیے آپ کھاتے کیا ہیں۔ 

    مریض، کھاتا کیا ہوں، خاک پتھر۔ 

    بابو صاحب، آخر کچھ آپ کی غذا بھی ہے؟

    مریض، وہی جو بھلے آدمیوں کو ہوتی ہے، دال روٹی گوشت۔ 

    بابو صاحب، یہی تو خرابی کی جڑ ہے۔ 

    مریض، پھر کیا مولر کا سر کھاؤں؟

    بابو صاحب، آپ کی غذا میں پروٹین کے سوا کچھ نہیں، کاربو ہائیڈریٹ اور وٹامن کی کمی ہے۔ 

    مریض، یا الٰہی یہ کس انگریز کی ارواح سے سابقہ پڑا ہے۔ کھانے کا ذکر ہے اور خدا جانے کیا کیا نام لے رہاہے جنھیں سن کر جی متلاتا ہے۔ یہ کاربوٹ کیا بلا ہے اور واٹیم کس چڑیا کا نام ہے؟

    بابو صاحب، مطلب یہ ہے کہ غذا میں صرف غلہ اور گوشت کے اجزا ہوں تو جسم کی پوری طرح پرورش نہیں ہوتی اور پھر بدہضمی اور قبض کی مصیبت الگ۔ آپ کو دال گوشت کے علاوہ ساگ ترکاری دودھ دہی کھانا چاہیے۔ 

    مریض، مجھے کوئی بیل بکری سمجھا ہے یا دودھ پیتا بچہ مقرر کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ گھاس کھایا کرو اور دودھ پیا کرو، دودھ کے تو میں نام سے کانپتا ہوں۔ چھٹی دودھ یاد آجاتا ہے اور دہی کی ایک کہی، نزلے کا گھر کھانسی کا اڈا۔ 

    بابو صاحب، تو جناب آپ کا علاج لقمان کے پاس بھی نہیں ہے۔ آپ کے آگے سائنٹیفک غذا کا ذکر کرنا بھینس کے آگے بین بجاناہے۔ 

    مریض، اور کچھ نہیں چلی تو گالیوں پر اتر آئے۔ بھینس میں ہوں یا تم اور تمہاری سائن ٹلی جو گھاس کھاتا ہے اور دودھ پیتا ہے میں علاج کے پیچھے انسانیت نہیں کھونے کا۔ اس بک بک جھک سے سر میں درد ہونے لگا اور پیٹ میں الگ ہائے رے ہائے رے، کسی کو کیا معلوم کہ مجھ پر کیا گذرتی ہے۔ حکیم ڈاکٹر تین سو ساٹھ کا نسخہ بتاتا ہے۔ دوست احباب منطق چھانٹتے اور ہنسی اڑاتے ہیں۔ 

    افسوس کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
    معلوم کیا کسی کو درد نہاں ہمارا

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے