مہمان
میں شروع ہی میں مانے لیتا ہوں کہ مجھے مہمانوں سے نفرت ہے، سخت نفرت ہے! اگرچہ میں اتنا پڑھا لکھا نہیں لیکن یہ بات ضرور جانتا ہوں کہ ہماری سبھیتا میں مہمان کا بہت بڑا درجہ ہے۔ یہ تو مہمان کی اپنی بدکرداریوں اور اس کے نام میں لگی ہوئی فالتو سی ’م‘ نے گڑبڑ کردی، ورنہ وہ تھا ہی مہان۔۔۔ آپ ذرا اسے لکھ کر تو دیکھیے۔
اتتھی سنسکار کا ہماری پستکوں میں بڑا مہتو ہے۔ جگہ جگہ اس بات کی پریرنا کی گئی ہے کہ مہمان کیسا بھی ہو، اسے بھگوان کرکے مانا جائے۔ اس زمانے میں شاید خیالات کی زیادتی تھی یا سوچ بچار کی کمی کہ ان درشن شاستروں کے لکھنے والے گھوم گھام کر پھر شبد مہان پہ چلے آتے تھے۔ غالباً وہ سب اس لیے کرتے تھے کہ خود ان کے پاس پہننے کو لنگوٹی تھی اور نہ کھانے کو روٹی اور وہ جانتے تھے کہ ایک نہ ایک دن ان کو کسی کا مہمان ہونا ہی پڑےگا۔ اگر یہ بات ٹھیک ہے کہ مہمان کا درجہ بھگوان کا ہے تو میں بڑی نمرتا سے آپ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہوں گا کہ مجھے بھگوان سے بھی نفرت ہے!
جس زمانے میں ہمارے شاستر لکھے گئے تھے، اس زمانے میں جگہ کی کیا کمی تھی؟ سواے وشالتا کے اور تھا ہی کیا؟ نیچے زمین، اوپر آسمان اور بیچ میں مہمان، چاہے درجنوں لٹک جائیں۔ آج کس کے پاس ۱۰ x۱۰ فٹ سے بڑا کمرہ ہے؟ شامت اعمال اگر مہمان چھ فٹ کا آ جائے تو آپ کو ٹانگیں سکیڑ کر انہیں چھاتی سے لگاکر باقی کے چار فٹ میں گزارا کرنا پڑےگا۔ حالانکہ مرنے کے لیے بھی آدمی کو کم سے کم چھ فٹ جگہ چاہیے۔۔۔ جس میں کہ مہمان پڑا ہوتا ہے۔ صبح اٹھیں گے تو آپ کی ٹانگیں چھاتی کے ساتھ ہی لگی رہ جائیں گی اور جب انہیں پھیلانے کی کوشش کریں گے تو یوں لگےگا جیسے آپ پھر سے پیدا ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اگلے وقتوں میں ہمارا پورا فلسفہ مہمان کی مدد کرنے پر تلا ہوا تھا۔ جب لوگ جنگل میں جاکر کندمول وغیرہ کھا لیتے تھے اور اسی میں سنتشٹ ہو جاتے تھے لیکن آج کا دُشٹ مہمان چکن روسٹ سے کم بات ہی نہیں کرتا۔ کچھ اس انداز سے چکنی چپڑی باتیں کرتا ہے کہ آپ اپنے آپ کو کوالٹی ریستوران میں بیٹھے ہوئے پاتے ہیں۔ آخر دم تک یہی معلوم ہوتا ہے کہ بل وہ دینے والے ہیں۔۔۔ یہ مسئلہ آپ کا ہے، مہمان کا نہیں کہ دیش بھر میں کھانے کو نہیں۔ راشننگ کی تلوار سرپر لٹک رہی ہے۔ بیوی کی شکل دکان پہ کھڑے کھڑے کیوسی ہو گئی ہے۔ پھر پرانے زمانے میں انسان زیادہ تھے اور مہمان کہیں اکا دکا ملتا تھا۔ لیکن آج مال تھوسی کے عقیدے کے مطابق، اس بھوکی ننگی دنیا میں مہمان ہی مہمان رہ گئے، انسان کہاں نظر آتا ہے؟
اس زمانے کے مہمانوں میں پھر کوئی آنکھ کی شرم تھی، حیا تھی، دوسرے کی تکلیف کا احساس تھا۔ لیکن آج کل کے مہمان؟ ارے توبہ۔ آپ تو انہیں مجھ سے بہتر جانتے ہیں، کیونکہ ہندوستان میں کوئی ایسا آدمی نہیں جسے اس موذی سے پالانہ پڑا ہو۔ وہ موت کی طرح سے ہر ایک پہ آتا ہے۔ جینا جھوٹ ہے اور مرنا بھی جھوٹ۔ صرف مہمان سچ ہے۔ آج کل کے مہمان کو تو بس گولی ماریے۔ ذرا سوچیے تو، ہم جو خود اس دنیا میں کل دوہی دن کے مہمان ہیں اور اوپر ایک اور مہمان کو لے آئیں جو مہینے بھر سے پہلے جانے کا نام ہی نہ لے؟نا صاحب۔ گھر میں مہمان لانے سے تو اپنی بیوی پہ سوت لے آنا اچھا۔
اس دنیا میں تکلف کی بھی ایک جگہ ہے۔ مثلاً آپ کسی کے گھر کھانا کھائیں تو شوربے میں ڈوبے ہوئے دو آلوؤں کے بارے میں ضرور کہنا پڑےگا۔۔۔ واہ صاحب مزا آ گیا۔ برسوں کے بعد ایسا لذیذ کھانا نصیب ہوا ہے۔ یا رخصت ہوتے ہوئے اپنے میزبان کی بیوی کے بارے میں کہنا ہوگا۔۔۔ آپ کی بیوی بڑی CHARMING ہے۔ سمجھ دار میاں تو اس بات کو سمجھتا ہے۔ وہ صرف ایک بار مڑکر اپنی بیوی کو دیکھتا ہے اور پھر گھبراکر بوٹ کے تسمے بند کرنے لگتا ہے۔ لیکن مہمان؟ آپ کہیں غلطی سے بھی اسے کہہ دیں۔ آپ غریب خانے پر تشریف لے چلیے، وہ آپ کا اپنا ہی گھر ہے تو پھر دیکھیے کیسے وہ آپ کے ہاں انتقال فرما جاتے ہیں اور وہیں اپنی قبر بناکر رہتے ہیں۔ آپ کو، آپ کی بیوی کو، آپ کے بچوں کو مجاور بناکر چھوڑتے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ اپنے ہی گھر میں مہمان ہو گئے۔ میزبان تو وہ ہیں، بذاتِ خود!
اپنے دل میں پھر سے گھر کا احساس جگانے کے لیے آپ کے پاس ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگلے پھیرے میں آپ اس کے گھر میں مہمان ہو جائیں اور ہر بات میں ان کی جھونپڑی کو بار بار دولت خانہ کہیں۔ ’’تشریف رکھیے‘‘ ، ’’پہلے آپ‘‘ اور اس قسم کے جملوں کا آزادانہ استعمال کریں۔ پھر ایک اور بات جو ان سے سہواً چھوٹ گئی۔ اس کی بیوی سے عشق بھی کریں، اس لیے نہیں کہ آپ کا جی چاہےگا، بلکہ اس لیے کہ اس کمینے کو پتا تو چلے کہ کسی دوسرے کے گھر میں مہمان کیسے ہوا جاتا ہے؟
بمبئی کے فلیٹوں کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔ سالے بہت ہی فلیٹ ہیں۔ ان میں اگر آپ ایک چارپائی رکھ دیں تو دوپائے والے کے لیے کہیں کوئی گنجایش نہیں۔ آخر چارپائی تک پہنچنے کے لیے تھوڑی جگہ تو چاہیے ہی۔ بہرحال وہ کھاٹ جسے آپ کی بیوی جہیز میں لائی تھی اور جسے آپ پلنگ نہ کہیں تو وہ مرنے مارنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے، مہمان کو دینا پڑتی ہے اور خود نیچے سونا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے اگر آپ کے مہمان ساتھ اپنی بیوی کو بھی لائے ہوں تو پھر آپ اوپر سو سکتے ہیں، نہ نیچے۔
ہاں، تو جب آپ مہمان صاحب کو چار پائی پر سونے کے لیے کہیں گے تو پہلے وہ ضرور کہےگا۔۔۔ نہیں صاحب! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ پلنگ پر سوئیے، میں نیچے سو جاتا ہوں لیکن اس کی نیت ہرگز ایسی نہ ہوگی۔ وہ جانتا ہے ناکہ اس کی خاطر کرکے میزبان اپنے کر تو یہ ہی کا تو پالن کر رہا ہے۔ اس کی اس پیش کش سے انکار کیا تو بےچارے میزبان کے دل پر کیا بیتےگی؟ چنانچہ وہ پلنگ پر ٹانگیں پھیلاکر مزے سے سو جائےگا۔ تھوڑی دیر بعد آپ کو یوں لگےگا جیسے دشمن کا ریڈیو براڈکاسٹ کر رہا ہے۔ لیکن آپ کوڈ نہ جاننے کی وجہ سے اسے سمجھ نہیں سکتے۔ پھر آپ کو اچانک خیال آئےگا۔ نہیں بھائی، اس WAVE LENGTH پر تو پہلے ہی بیسیوں نشریات سن چکے ہیں۔ یہ تو مہمان کے خراٹے کے ہیں۔
چنانچہ مہمان صاحب سو رہے ہیں۔ ہمیشہ کی نیند نہیں۔ صبح وہ پھر جگ جائیں گے۔ ایک نہیں نیند آتی تو آپ کو اور آپ کی بیوی کو جو سوچ رہے ہیں کہ کل اِن کو کیا کھلائیں گے؟ آپ سوچتے تو نیلا تھوتھا ہیں اور لاتے سیب ہیں، جن کا منہ بھی مہنگائی کے اس زمانے میں آپ نے مہینوں سے نہیں دیکھا۔ پھل بیچنے والا پیشہ ور آدمی ہے۔ وہ آپ کو دیکھتے ہی تاڑ جاتا ہے کہ ہو نہ ہو ان کے گھر میں کوئی مہمان آیا ہے اور اتتھی ستکار کی بھاونا ان کے من میں ویاکل ہو اٹھی ہے۔ چنانچہ وہ سیب تو ایک دیتا ہے اور روپے دو مانگتا ہے۔ جیسے اکیلا وہی ایک سیب ہے جو ہوائی جہاز میں بیٹھ کر کشمیر سے آیا ہے۔ پھر آپ آم خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ وہ مقابلہ میں سستا پڑتا ہے۔ گھر پہنچ کر آپ اس آم کی بہت سی قاشیں کاٹ کر مہمان کے سامنے رکھتے ہیں تاکہ انہیں ایک کے دو معلوم ہوں۔ مہمان ایک بار پھر آپ کا دل نہیں دکھانا چاہتا۔ چنانچہ لپڑ چپڑ وہ سارے کا سارا آم چٹ کر جاتا ہے۔ آپ سوچتے ہیں، شاید وہ سمجھ رہا ہے کہ اندر اور بھی بہت سے آم ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اندر صرف بیوی ہے جو غصے سے کانپ رہی ہے اور اس کی شکل انناس کی سی ہو گئی ہے۔
مہمان کے گھر میں آنے سے سب سے بڑی بےہودگی جو ہوتی ہے، وہ آپ کے سب راز، سب پول کھل جانا۔ آپ گھر میں آدھی کھائیں یا ساری، یا بھوکے ہی سو رہیں، لیکن مہمان کے آتے ہی آپ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ آپ کتنا ہی اس سے چھپانے کی کوشش کریں مگر وہ سب ایسے ہی بےکار ہے جیسے کارک کو پانی میں ڈبونے کی کوشش۔ مہمان اس وقت اندر سے خوش لیکن باہر سے اداس دکھائی دیتا ہے اور اکثر یہ جملہ کہتا ہے، ’’کیا ہوا بھائی، گھروں میں ایسا ہوتا ہی ہے۔۔۔‘‘
وہ ہمدردی کر رہا ہے جسے آپ سخت ناپسند کرتے ہیں۔ جب تک آپ پڑوس سے سو روپے کا نوٹ پکڑ سکتے ہیں، کسی کو ہمدردی جتانے کا کیا حق ہے؟ اگر آپ کسی نہ کسی طرح حقیقت حال چھپانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو پھر مہمان بڑے شاطرانہ انداز میں کریدنے کی کوشش کرتا ہے، ’’کیوں بھائی! کاروبار کاکیا حال ہے؟‘‘ آپ جواب دیتے ہیں، ’’اچھا ہے۔‘‘
’’کوئی ترقی ورقی نہیں ہوئی؟‘‘
’’ہوئی کیوں نہیں۔۔۔ ہر سال ہوتی ہے، جیسے ہر معقول ہندستانی عورت کے بچہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔ ہی۔‘‘
چنانچہ ہنسی میں بہہ جانے کی وجہ سے آپ کو بالکل اندازہ نہیں رہتا کہ آپ کیسے دھیرے دھیرے مہمان کی سازش میں آ رہے ہیں۔ وہ آپ کے بھونڈے مذاق پر آپ سے کہیں زیادہ ہنستا ہے اور اعتراف بھی کرتا ہے کہ اس کے پیٹ میں بل پڑ گئے اور پھر ایکا ایکی آپ کو پورے طور پہ نہ دیکھتے ہوئے اپنے ترکش سے ایک اور تیر چھوڑتا ہے۔۔۔ اب تو تنخواہ تین سو روپے مہینہ ہو گئی ہوگی؟‘‘
آپ کی رگِ حمیت ایک دم پھڑک اٹھتی ہے اور کچھ یاد نہیں رہتا۔ آپ اپنے آپ کو کہتے ہوئے پاتے ہیں، ’’تین سو؟ پانچ سو تو میری پچھلے برس تھی۔۔۔‘‘ جبھی آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ نے کیا حماقت کی۔ خود کو کنویں میں گراکر اب آپ بچنے کے لیے بےکار ہی ہاتھ پیر مارتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’پانچ سو میں آج بنتا ہی کیا ہے؟ کچھ انکم ٹیکس کٹ جاتا ہے، کچھ انشورنس، پراویڈنٹ فنڈ میں چلا جاتا ہے۔ کچھ بیوی کمیٹی کے لیے رکھ لیتی ہے تاکہ اس بیٹی کی شادی کر سکے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی۔۔۔‘‘ لیکن صاحب آپ کچھ بھی کیجیے۔ مہمان اندازہ لگا چکا ہے کہ آپ کے گھر میں اور کتنے دن رہا جا سکتا ہے۔
ہر معقول آدمی کا بیوی سے جھگڑا ہوتا ہے کیونکہ مرد عورت کا رشتہ ہی جھگڑے کا ہے۔ لیکن جب مہمان گھر میں آتا ہے تو وہی جھگڑا مہابھارت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ بیوی آپ سے کتنی نفرت کرتی ہے، اس کا اس وقت تک پتا نہیں چلتا، جب تک مہمان گھر میں نہ آئے۔ جیسے آپ کو بھولنے کے سوا کچھ نہیں آتا، ایسے ہی بیوی یاد رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ جانے کب کا بغض آپ کے خلاف سینے میں لیے بیٹھی ہے جو مہمان کے آتے ہی پنڈورا باکس کی طرح آپ کے سرپر الٹ دیتی ہے۔ مہمان سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے وہ کہتی ہے، ’’دیکھیے بھائی صاحب!دن میں چوبیس گھنٹے پان کھاتے ہیں اور اس پہ دودھ کا ایک گلاس نہیں پیتے۔ آپ بتائیے ان کو خشکی ہوگی کہ نہیں ہوگی؟ نہ ناشتے کا کوئی وقت ہے نہ کھانے کا۔۔۔ اب پینے کی نئی لت پڑ گئی ہے۔ اس بات کے انتظار میں رہتے ہیں کہ کوئی مہمان آئے اور ان کے پینے کا بہانہ ہوجائے۔۔۔ آج تو میں انہیں ہاتھ بھی نہیں لگانے دوں گی۔‘‘
’’کسے؟‘‘ مہمان شرارت سے کہتا ہے۔ بیوی کچھ مسکراتے اور کچھ شرماتے ہوئے کہتی ہے، ’’بوتل کو، اور کسے؟ آپ بھی بالکل نہ پیجیےگا، بھائی صاحب۔‘‘ مہمان تھوڑا گھبرانے لگتا ہے اور لہجے میں وہ پیار لے آتا ہے جو وہ اپنی سگی بیوی کے لیے کبھی نہیں لایا، ’’کبھی کبھی پی لینے میں کوئی حرج نہیں، بھابی! مرد لوگ۔۔۔‘‘ بیوی ایکا ایکی میز پر ہاتھ مار کے کہتی ہے، ’’نہیں!‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں جواباً کہتا ہوں اور بوتل ڈھونڈنے چل نکلتا ہوں جو بیوی نے گودریج کی الماری میں چھپا رکھی ہے اور تالا لگا دیا ہے۔ میں کنجی مانگتا ہوں اور وہ ٹھنٹ دکھاتی ہے۔ میں جانتا ہوں چابی کہاں ٹھنسی ہے، لیکن مہمان کے سامنے وہاں سے نکال نہیں سکتا۔ چونکہ میرے شوہری وقار کو ٹھیس لگتی ہے، اس لیے میں آگ بگولا ہو جاتا ہوں اور بیوی کے خلاف زہر اگلنے لگتا ہوں، ’’یہ عورتیں۔۔!آپ دو روپے کمائیں اور دیانت دار آدمی کی طرح آتے ہی ایک روپیا ان کے ہاتھ میں تھما دیں۔ باقی کے روپے میں آپ بس کا کرایہ رکھیں اور صرف اٹھنی اپنے موج میلے کے لیے، جب بھی ان کی نگاہ آپ کی اٹھنی پر رہےگی۔ مرد سے یہ آخری سانس تک نچوڑ لیں گی اور جب وہ مر جائے تو اونچی اونچی آواز میں روئیں گی۔ اس لیے نہیں کہ وہ مر گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ اب نچوڑیں گی کسے؟‘‘
’’بکومت۔۔۔‘‘ بیوی کی بلند آواز آتی ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی ہے۔ ابھی سے اسے فکر پڑ گئی کہ یہ گیا تو روپیا کہاں سے آئےگا؟ لیکن آپ اپنا ٹیمپو کم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ آپ مہمان سے کہتے ہیں، ’’آپ ہی بتائیے بھائی صاحب۔۔۔ ہر بیوی شادی کے دس سال میں یہ ہو جاتی ہے۔ اس دلہن کو دیکھیے جسے آپ برسوں پہلے گھر لائے تھے اور جس سے والہانہ پیار کیا تھا، دو گھونٹ پینا ضروری ہیں یا نہیں؟ یہ ذلیل سا گھر ہمارا۔۔۔ جب میں پی لیتا ہوں تو مجھے یہ سچیو الیہ معلوم ہونے لگتا ہے اور یہ گندا سا محلہ ہینگنگ گارڈن!‘‘ پھر میں آنکھوں میں شعلے اور انگارے برساتے ہوئے بیوی کی طرف دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں، ’’دیکھو شانتی! مجھے آکاش وانی ہو رہی ہے۔‘‘
بیوی آکاش وانی کا مطلب سمجھتی ہے، اس لیے ڈر کے مارے چابی میرے ہاتھ میں تھما دیتی ہے لیکن اس کے بعد جو ہتھیار میرے خلاف استعمال کرتی ہے، اس کے سامنے آکاش وانی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ رونے لگتی ہے اور مہمان سے مخاطب ہوتی ہے، ’’آپ کو کیا بتاؤں بھائی صاحب! جب یہ پی لیتے ہیں تو آدمی نہیں رہتے۔‘‘
’’کیا ہو جاتے ہیں؟‘‘ وہ پوچھتا ہے۔ بیوی ہچکچاتے ہوئے کہتی ہے، ’’باہر جاتے ہیں۔‘‘
’’باہر جانے میں کیا حرج ہے؟‘‘ مہمان عارفانہ تجاہل کے ساتھ کہتا ہے، ’’باہر کی کھلی ہوا۔۔۔‘‘
’’اوہو۔ آپ نہیں سمجھتے۔‘‘
’’او۔۔۔‘‘ مہمان کہتا ہے، جیسے وہ سمجھ رہا ہے۔
’’آپ ایسے نہیں، تو سمجھتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی مرد ایسا نہیں؟‘‘ اور پھر گھگھیاکر رونے لگتی ہے اور ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ذلیل اور گھٹیا مہمان ہم میاں بیوی پہ جج بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ بیوی مجھے نقطوں سے بھری ہوئی گالیاں دیتی ہے اور میں اسے بےنقط سناتا ہوں۔ مہمان بیچ بچاو کرتا ہے۔ باہر سے دکھی مگر اندر سے سکھی نظر آتا ہے۔ آخر وہ مجھے بے تحاشہ صلواتیں سنانے لگتا ہے، ’’شرم آنی چاہیے آپ کو۔ ہم نے ہزاروں عورتیں دیکھی ہیں لیکن شانتی ایسی دیوی نہیں دیکھی۔ آپ اگلے سات جنم تک بھی لگے رہیں تو ایسی ستی ساوتری آپ کو نہ ملےگی۔‘‘
’’اگلے سات جنم؟ میں پچھلے سات جنم سے لگا ہوا ہوں۔‘‘
’’کیا کہا؟‘‘
’’پچھلے سات جنم سے ستی ساوتری کی تلاش میں ہوں، اور اب جاکر مجھے یہ ملی ہے شانتی۔ اب تو مجھے موکش ملنے والا ہے۔‘‘
بیوی عقیدت کے ایک جذبے سے مہمان کی طرف دیکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس گھر میں مہمان کی نوکری پکی۔ یہ تو موٹی عقل کا مہمان بھی جانتا ہے کہ کسی کے گھر میں رہنا ہے تو بیوی کے ساتھ بناکر رکھو۔ اب وہ مجھے اور بھی برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ بیوی چونکہ مرد کا EGO ہوتی ہے، اس لیے میاں اوپر سے بےحد خفا ہوتا ہے اور بھیتر سے خوش۔ بیوی کے سلسلے میں اسے کھانا کھاکر اتنی خوشی نہیں ہوتی، جتنے جوتے کھاکر ہوتی ہے۔ ہر بیوی کسی انتقامی جذبے سے چاہتی ہے کہ مرد کو وہ بے بھاو کی پڑیں کہ نانی یاد آ جائے اور پھر وہ بے دست وپا ہوکر اس کی شرن میں چلا آئے۔ جب وہ اسے ایسا پیار دے جو ماں ہی اپنے بچے کو دے سکتی ہے، جب وہ پڑوس کے کلوا سے پٹ پٹاکر گھر آتا ہے۔ لیکن آپ کا مہمان تھوڑی ہی دیر میں آپ کا سب مزا کر کراکر دیتا ہے۔ وہ آپ کو آنکھ مار کر ایک طرف لے جاتا ہے اور بالکونی پر لے جاکر بڑی رازداری سے کہتا ہے، ’’آپ بھی ایک ہی پنتک ہیں۔ ہوتی میری بیوی تو ایک جھانپڑ دے کر گھر سے نکال دیتا۔‘‘
مہمان کو گھر سے بھگانے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اس کے کپڑوں پہ سیاہی انڈیلنے، روٹی میں ریت ڈالنے، گھر کا مین سوئچ آف کر دینے کے سب طریقے پرانے ہو چکے ہیں۔ جدید طریقہ یہ ہے کہ خود ایک دم گھبرا جاؤ، جس سے آپ کا مہمان بھی گھبرا جائےگا۔ اس کی اتنی خاطر کرو کہ وہ توبہ توبہ بول اٹھے۔ اس کا پانو ہی زمین پر نہ پڑنے دو۔ اس کے منہ سے ’پ‘ نام کا حرف نکلے تو دوڑ کر پانی کا گلاس لے آؤ۔ پلنگ پر بیٹھا وہ زمین کی طرف دیکھے تو سلیپروں کی جوڑی اٹھاکر سامنے رکھ دو۔ وہ آپ سے بار بار معافی مانگےگا۔ لیکن اس بات کا آپ پہ ذرا بھی اثر نہ ہو۔
باتھ روم کا بٹن آپ دباؤ۔ نل بھاگ کے کھولو اور ایسے میں دیوار سے ٹکراکر اپنا سر پھوڑ لو۔ غلطی سے کہیں وہ خود ہاتھ دھونے لگے تو ایک تولیہ لے کر کھڑے رہو۔ ٹٹی کا لوٹا خود ہاتھ میں لے کر سامنے بیٹھ جاؤ اور اس کے منت کرنے پر بھی نہ ٹلو۔ لیکن یاد رہے یہ سب نسخے باریک عقل کے مہمانوں پر چلتے ہیں، موٹی عقل کے مہمانوں پر نہیں۔ پچھلے مہمان کو میں باریک عقل کا سمجھتا تھا لیکن وہ موٹی عقل کا نکل آیا۔ میرے یہ سب کرنے کے بعد اس نے منڈی ہلائی اور کہا، ’’آپ بڑے دیوتا آدمی ہیں۔‘‘
جب میری سمجھ میں آیا کہ میں کیا ہوں؟
پھر مہمان کے ساتھ جو اس کی بیوی آتی ہے، وہ عجیب ہی چیز ہوتی ہے۔ نہ جانے آپ کیسے اسی وقت اندر کے کمرے میں جاتے ہیں، جب وہ کپڑے بدل رہی ہوتی ہے۔ وہ آپ کو دیکھتے ہیں ہڑبڑا کر ایک طرف بھاگتی ہے۔ آپ کھڑکھڑاکر دوسری طرف۔ اسی گھبراہٹ میں اس کی رہی سہی ساری بھی کھل جاتی ہے اور جب آپ دونوں سخت وحشت کے عالم میں الٹی سمتوں میں بھاگتے ہیں تو نہ جانے کیسے پھر برآمدے میں ٹکرا جاتے ہیں۔ آخر بڑی مشکل سے آپ اپنے ہونٹ پونچھتے ہوئے الگ ہو جاتے ہیں۔۔۔
مہمانوں کے ساتھ ایک بہت بڑی ایوالانش بھی آتی ہے جس کا نام بچے ہیں اور جو شکل ہی سے مہمان کے بچے معلوم ہوتے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ بچوں سے پیار کرنا چاہیے کیونکہ وہ پرماتما کے راج بھوت ہوتے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کیجیے کہ چھوٹے نلی چو چوکی ناک بہہ رہی ہے، جسے وہ ہمیشہ اپنی قمیص کے کف سے پونچھتا ہے۔ بڑا باہر سے کھیلتا ہوا آتا ہے اور اپنے کیچڑ سے لت پت پانو دوان پر رکھ دیتا ہے۔ ان کی ماں رسمی طور پر انہیں ڈانٹتی ہے۔ لیکن آپ کہتے ہیں، ’’بچے ہیں بھابی۔ یہ تو ایسے ہی کریں گے جیسے بچے کرتے ہیں۔ انہیں روکنا بڑی غلطی ہے۔‘‘ یہی نہیں، آپ اپنے علم کے زور پر اسے بتاتے ہیں کہ بچے تھوڑی بہت توڑ پھوڑ نہ کریں تو ان میں تخریبی جذبے دَب جاتے ہیں اور اس وقت نکلتے ہیں، جب وہ بڑے ہو جائیں لیکن یہ بات تو آپ بھی نہیں جانتے کہ آج کل کے بچے، آپ کی سب بات سمجھ رہے ہیں۔
ابھی آپ نے کھانے کے لیے لقمہ منہ میں نہیں رکھا کہ اڑڑڑڑ دھڑام کی آواز آتی ہے۔ آپ سب بھاگتے ہوئے بغلی کمرے میں پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ لینن کا بت جو آپ لینن گراڈ ہی سے لائے تھے، زمین پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے اور نلی چو چو پاس کھڑا کچھ فاتحانہ، کچھ مجرمانہ انداز سے ہنس رہا ہے۔ ہے ہے ہے۔۔۔ اب ماں دکھاوے کے لیے تھپڑ مارتی ہے لیکن صاف پتا چلتا ہے کہ وہ کس پھولوں کی چھڑی سے اس کی تواضع کر رہی ہے۔ اب آپ ہیں اور آپ کی بیوی جو اسے چھڑا رہے ہیں۔ آپ کا انتا کرن تو کہتا ہے سالے کو ننگا کرکے، ٹکٹکی لگاکر وہ بید مارو کہ چمڑی ادھڑ جائے لیکن اوپر سے آپ یہی کہتے ہیں، ’’کیا ہوا بھابی؟ بچے تو توڑیں گے ہی۔ میں نے آپ سے کہا نہیں تھا۔۔؟ چھوڑو اب مار ہی ڈالوگی معصوم کو؟‘‘ پھر چھڑانے کی بجائے اسے آگے دھکیلتے ہوئے آپ کہتے ہیں، ’’روس والے اب مجھے REACTIONARY سمجھنے لگے ہیں ورنہ میں ایک اور بت ماسکو سے لے آتا۔‘‘
بجلی مجھ پر اس وقت گرتی ہے جب میرا مہمان اور اس کی بیوی دونوں مل کر بچے سے کہتے ہیں، ’’نمستے کرو، نمستے کرو انکل کو۔۔۔ ارے کنگ۔‘‘ اب کنگ ماں کی دھوتی پکڑ کر اس کے پیچھے چھپنے لگتا ہے اور مشکوک انداز سے آپ کی طرف دیکھتا ہے اور بڑی ادا سے کہتا ہے، ’’نائیں۔۔۔‘‘ بچے کا باپ اسے پکڑتے، سامنے لاتے ہوئے کہتا ہے، ’’ارے، نمستے کر سالے، انکل چاکلیٹ دیں گے۔‘‘ جبھی ماں اتراتی ہے، ’’میرا کنگ چاکلیٹ بہت پسند کرتا ہے۔‘‘ آپ فوراً کہتے ہیں، ’’چاکلیٹ لے دوں گا بیٹے۔ اور ٹافی بھی۔‘‘ حالانکہ انتا کرن کہتا ہے تھوڑا۔۔۔ پوٹاشیم سائنائیڈ بھی۔ میں پھر شروع ہوتا ہوں، ’’تمہارے لیے غبارہ لاؤں گا کنگ! بہت بڑا غبارہ۔۔۔ نمستے۔۔۔‘‘
’’ہی ہی ہی۔ نمشتے!‘‘ آخر کنگ کہتا ہے۔ پھر اس کا باپ شروع ہوتا ہے، ’’یارکنگ، انکل کو اے بی سی ڈی سناؤ۔‘‘ کنگ انکار میں سرہلا دیتا ہے اور پھر ماں کے پیچھے چھپنے لگتا ہے۔
’’ارے سناؤنا، شرماکیوں رہے ہو؟‘‘ ماں اسے پھر سامنے لاتے ہوئے کہتی ہے، ’’انکل سائیکل لے کر دیں گے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ میں کہتا ہوں، ’’کار لے دوں گا۔‘‘
جب کنگ فارم میں آتا ہے اور کہتا ہے، ’’چابی والی کارنائیں، انکل! وہ والی۔‘‘ اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے اسٹیرنگ وہیل کی شکل بناتا ہے۔ آخر میرے وعدہ کرنے پر وہ شروع ہوتا ہے، ’’اے۔۔۔ بی۔۔۔ شی۔۔۔ ڈی۔۔۔ ای۔۔۔ ہی ہی، مجھے سو سو آیا ہے ممی۔‘‘
’’ارے!‘‘ ممی یوں اظہار کرتی ہے، جیسے کوئی ان ہونی بات ہو گئی۔
’’چل اندر۔‘‘
اور وہ وہیں سے اس کا ازاربند کھولتی ہوئی کنگ کو باتھ روم کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن جاتے میں یہ بھی کہہ جاتی ہے، ’’بالکل باپ پر گیا ہے، کام کے وقت سو سو۔۔۔‘‘ باپ ہنستا ہے۔ میں بھی ہنستا ہوں۔ میری بیوی ہنستی ہے۔ ساری دنیا ہنستی ہے۔
ہمارا مہمان پھر شروع ہوتا ہے، ’’بڑا ذہین ہے اپنا کنگ!‘‘
’’کیوں نہ ہو۔‘‘ میں اتفاق کرتا ہوں، ’’ذہین ماں باپ کی اولاد۔۔۔‘‘ حالانکہ میرا انتا کرن کہتا ہے گدھے کا بچہ گدھا ہی ہوگا، گھوڑا کیسے ہو جائےگا؟ جبھی ایک طرف سے کوئن چلی آتی ہے۔ انگریزی GENDER کے سب قانون جھٹلاتی ہوئی، کیونکہ وہ کوئن ہونے پر بھی کنگ کی بہن ہے۔ وہ اپنے بھائی کی ہر دل عزیزی دیکھتی اور جلتی رہی ہے۔ شاید اس لیے کہ وہ کسی پتری پاٹھشالہ میں پڑھتی ہے، سامنے آتے ہی وہ بنا کسی فرمایش کے، ایک پرانا، بے سرا سا گانا شروع کر دیتی ہے، ’’ہئیے دیا مئے، ہم سبھوں کو شدھتائی دیجیے۔۔۔‘‘
میں بھجن سنتا ہوں لیکن نہ جانے کیوں مجھے اپنی تائی یاد آ جاتی ہے، جو بہت ہی شدھ ہے۔۔۔ میں اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے کوئن کو بیچ میں ٹوک دیتا ہوں اور کہتا ہوں، ’’واہ، کیا گلا پایا ہے۔۔۔ بڑی ہوگی تو لتا منگیشکر سے کم کیا ہوگی؟‘‘ اور میرے انتا کرن سے آواز آتی ہے۔ مینڈک کی اولاد! لیکن کوئن بدستور گا رہی ہے۔ انترہ پہلے اور استھائی بعد میں اس سے بھجن اور بھی مؤثر ہو جاتا ہے۔
’’ایسی کرپا اور انوگرہ ہم پہ ہو پرماتما۔‘‘
چونکہ وہ بچی ہے، اس لیے بھلائی اور برائی میں تمیز نہیں کر سکتی اور بڑی نمرتا سے پرارتھنا کرتی ہے۔ جس سے وہ پرانا اور فرسودہ گانا نیا اور ماڈرن ہو جاتا ہے۔
’’دور کرکے ہر بھلائی کو برائی دیجیے!‘‘
اتنے میں کنگ فارغ ہوکر چلا آتا ہے اور کوئن کو گاتے دیکھ کر شروع ہو جاتا ہے، ’’میں بھی سناؤں گا اردو کا سبق۔‘‘
’’ارے سناؤ، سناؤکنگ۔۔۔ یار کنگ تم تو۔۔۔‘‘ ہم سب کہنے لگتے ہیں۔ اب کنگ ایک ہی سانس میں سبق سنا جاتا ہے، ’’بچھو سے کسی نے پوچھا تو جاڑے میں باہر کیوں نہیں آتا؟بچھو نے کہا گرمیوں میں مری کون سی خاطر ہوتی ہے جو جاڑے میں بھی باہر آؤں؟‘‘ اور پھر کنگ یک بارگی الٹا سانس لیتا ہے۔ ہا۔۔۔!
آخر ایک دن ہمیں آناً فاناً پتا چلتا ہے کہ ہمارے مہمان جانے والے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ پہلے ہی سے ہمیں اپنے سرگباش ہونے کی خبر دے دیتے ہیں بلکہ کچھ یوں کہ اس سہانی صبح کو ہمارا مہمان ہمارے پاس آتا ہے، محبت بھرا ہاتھ ہمارے کاندھے پہ رکھ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ خود سرکتا ہمیں سرکاتا ہوا، بالکونی کی طرف لے جاتا ہے اور کھسر پھسر کے انداز میں بات شروع کرتا ہے، ’’بات یہ ہے، میں نے بینک میں ایک چیک ڈالا تھا۔۔۔‘‘ میں ایکاایکی سب سمجھ جاتا ہوں اور اسی وقت پوچھتا ہوں، ’’کَے روپے چاہییں آپ کو؟‘‘ وہ کہنے لگتے ہیں، ’’میں دلی پہنچتے ہی آپ کو لوٹا دوں گا۔‘‘
اب میں اپنے مہمان کو یہ نہیں بتا سکتا کہ جو آدمی مجھے پیسا لوٹانے کی بات کرتا ہے، میرا اس کے منہ پہ تمانچا مارنے کو جی چاہتا ہے۔ خیر وہ تو میرا نتا کرن ہے۔ میں اسے صرف اتنا ہی کہتا ہوں، ’’ارے یار، تم نے آتے ہی کیوں نہ مانگے۔۔۔ کتنے چاہئیں؟‘‘
’’زیادہ نہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’یہی تین اِک سَو روپے۔‘‘
میں فوراً بھاگا ہوا اندر جاتا ہوں اور اپنی بیوی کے پانو پر سر رکھ دیتا ہوں اور اس سے تین سو روپے لاکر مہمان کو دے دیتا ہوں۔ وہ کچھ کھسیائے ہوئے انداز میں مجھے تکلیف دینے کی معذرت چاہتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ میں اندر سے کتنا خوش ہوں۔ بھلا مہمان، اس کے لاؤلشکر۔ کنگ کوئن، پرنس رائل اور اس کے پورے شاہی خاندان سے چھٹکارا پانے کی تین سو روپے بھی کوئی قیمت ہے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.