Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میری روم میٹ

شفیقہ فرحت

میری روم میٹ

شفیقہ فرحت

MORE BYشفیقہ فرحت

    سنا ہے شبِ معراج کوتمام رات عبادت کرنےکےبعد جو دعا مانگی جائے وہ ضرور پوری ہوتی ہے۔ اگر واقعی اس رات کی دعامیں قبولیت کےذرا بھی امکانات ہیں تواے خدائے دوجہاں! اے وہ جس نےمجھے اورمیری روم میٹ کو پیدا کیا اور جو ہم دونوں کو جلائےجا رہا ہے۔ میرا مطلب ہےانھیں جلا رہا ہے اور مجھےمار رہا ہے۔ میں تجھے حاضر و ناظر جان کر وعدہ کرتی ہوں کہ اب کی شبِ معراج میں دس بارہ پیالی چائےپی کر میں بھی جاگوں گی اورتمام رات جاگ کر کرشن چندر کے افسانے یا فیض احمد فیض کی غزلیں پڑھنےیا جاگنے میں خواب دیکھنے کے بجائےخضوع وخشوع سےنمازیں پڑھوں گی۔ سجدے میں سررکھ کرکسی تازہ فلم کی ہیروئن کے بلاوز کے نئے ڈیزائن کے متعلق نہیں سوچوں گی اور تسبیح پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آئندہ اتوار کو سہیلیوں کو دی جانےوالی پارٹی کا مینو بھی نہیں بناؤں گی۔ بلکہ صدقِ دل سےتیری عبادت کروں گی اورجب کسی دھارمک فلم کے پوترسین کی طرح درو دیوار سےنور برسنے لگے گا اور بغیر ایوننگ اِن پیرس کی شیشی کھولے سارہ کمرہ بھینی بھینی مدہوش کن خوشبو سے مہک اٹھےگا اور سر خود بخود جذبۂ بصیرت سے سجدے میں جا پڑے گا۔ یعنی وہ گھڑی آجائے گی جب میری ایک جنبشِ لب سے دنیا کی ہرنعمت میرے قدموں پر آسکتی ہےتو اے خدائے دوجہاں میں تجھ سےصرف یہ التجا کروں گی کہ مجھے میری روم میٹ سےنجات دلادے۔۔۔

    ممکن ہےآپ یہ سوچ رہے ہوں کہ میں اورمیری روم میٹ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں۔ ہر صبح آنکھ کھولتے ہی بلکہ اکثرآنکھیں کھولے بغیر لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور پھرتھوڑے تھوڑے وقفے کےبعد یہ لڑائی دن بھر ہوتی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ رات کوخواب میں بھی ہم لڑتےرہتے ہیں۔ اوراس روز روز بلکہ منٹ منٹ کےلڑائی جھگڑےسےتنگ آکرمیں یہ دعا مانگ رہی ہوں۔

    توعرض یہ ہےکہ اتنی محنت سےاخذ کیےہوئےآپ کےیہ نتائج قطعی غلط ہیں۔ ہم دونوں میں آج تک کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ وہ دن بھرمسکرا مسکرا کر باتیں کرتی ہیں۔ دن میں چارچھ مرتبہ نہایت عمدہ قسم کی چائےبنا کے پلاتی ہیں۔ اپنی کتابیں قلم پنسل ہرچیزوقت ضرورتِ استعمال کےلیےدے دیتی ہیں۔ نتیجہ کےطورپرمیں اپنی کتابوں سےزیادہ ان کی کتابیں، اپنےقلم سے زیادہ ان کا قلم اور اپنے کپڑوں سے زیادہ ان کےکپڑے استعمال کرتی نظر آتی ہوں۔

    تب توآپ سوچ رہےہوں گےکہ یقیناً میرادماغ خراب ہوگیا ہے اتنی اچھی اچھی اتنی نیک روم میٹ سے بیزار ہوں۔ اب تک تو میرا دماغ خراب نہیں ہوا ہے لیکن اگرروم میٹ نہ بدلی گئی توانشاءاللہ جلد ہی خراب ہوجائےگا۔

    اگر وہ محض میری روم میٹ ہوتیں تو مجھےان کےوجود پرکوئی اعتراض نہ ہوتا۔ مگراب اِس بدقسمتی کو کیا کہئےکہ روم میٹ ہونےکےعلاوہ وہ افسانہ نگاربھی ہیں۔ ان کی رگ رگ میں ایک عظیم آرٹسٹ کی روح تڑپ رہی ہے۔ ان کی ساری عادتیں اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا غرض کہ پسند نا پسند ہرچیزانتہائی آرٹسٹک قسم کی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے دس میں سےپانچ افسانے شکریےکےساتھ واپس آجاتے ہیں۔ اور باقی پانچ وہ خود بھیجتی ہی نہیں۔

    انھیں اپنےافسانوں کےواپس آنےکا تواتنا رنج نہیں جتنا اس بات کا ہےکہ لوگوں کا خصوصاً ایڈیٹروں کا مطالعہ اتنا محدود اورفروق اتنا پست ہےکہ وہ ان کےافسانوں کوسمجھ نہیں سکتے۔ جب کوئی افسانہ واپس آتا ہےتو وہ ماتمی مجلس منعقد کرکےزبان وادب کی زبوں حالی پر آٹھ آٹھ آنسو روتی ہیں اوراشاروں اورکنایوں میں اہلِ مجلس کواس بات پرمجبورکرتی ہیں کہ واپس آئےہوئےافسانےکی شان میں قصیدے پڑھےجائیں۔

    اوراب اسےمیری قسمت کی خوبی کہئےکہ مجھےاس قسم کی ہرمجلس میں شرکت کرنی پڑتی ہے۔

    ماتمی مجلسیں عموماً کمرے میں ہی منعقد ہوتی ہیں اور وہ مجھے ذرا خبر نہیں کرتیں تاکہ میں بطور احتیاط اس روز کمرے سےباہر، ہوسٹل سے باہر بلکہ سرے سے شہرسے ہی باہرنہ چلی جاؤں۔ چنانچہ میں شام کو ڈائیننگ ہال سےچائے پینے اور گپیں ہانکنے کے بعد اس ارادےے سےکمرے میں آتی ہوں کہ ذراکپڑے بدل کر کھیلنے جاؤں۔ دروازہ کھولتے ہی ٹھٹھک جاتی ہوں۔ کمرے میں میری روم میٹ اوران کی سوا درجن سہیلیاں براجمان ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی روم میٹ صاحبہ بال بکھیرے ماتمی چہرہ بنائے مرثیہ پڑھنے کے انداز میں فرماتی ہیں، ’’آؤ آؤ تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے ہم لوگ۔‘‘

    میں فوراً انتظار کی نوعیت کو سمجھ جاتی ہوں اور خود کو دل ہی دل میں گالیاں دیتی ہوں کہ اگر انھیں کپڑوں میں کھیلنےچلی جاتی تو کون سی قیامت آجاتی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا ناکہ خوب صورت سی ریشمی ساڑی پاؤں میں آکر نیچے سے بالکل پھٹ جاتی۔ مگر اب کپڑے بدلنے کی حماقت کر کے تو میں نے اس سے بڑی آفت مول لےلی ہے۔ بہرحال یہ جانتےہوئے بھی کہ اب یہاں سے رہائی ممکن نہیں میں کوشش ضرور کرتی ہوں۔

    ’’اچھا تو تم لوگ بیٹھو۔ میں ابھی بیڈمنٹن کھیل کےآتی ہوں۔‘‘

    ’’اجی اب بیڈمنٹن ویڈمنٹن رہنے بھی دونا۔ یہاں ہماری جان پربنی ہےاورآپ کوکھیل کی سوجھی ہے‘‘، ادھر سے ارشاد ہوتا ہے۔

    اب ظاہر ہے کہ کھیل کمبخت کسی کی جان سےبڑھ کر تو ہو نہیں سکتا اس لیےمسیحا بن کرکسی کی جان بچانےکی خاطراپنی جان جلانا شروع کردیتی ہوں۔

    مجھےاس طرح آمادہ دیکھ کران کی کوئی ہمدرد مطلع عرض کرتی ہیں، ’’دیکھونا مِملا بیچاری کا افسانہ پھرواپس آگیا۔ یہ کمبخت رسالےوالے۔۔۔‘‘ اوروہ غزل مکمل کرنےکےفرائض مجھ پرڈال دیتی ہیں۔

    ’’کون سا افسانہ‘‘، ادھورے مصرعےکو نظراندازکرکےمیں پوچھتی ہوں۔

    ’’وہی جو میں نےتمہیں اس دن سنایا تھا۔‘‘

    ’’بھئی تم تومجھے روز ہی دس بارہ افسانےسناتی رہتی ہو۔‘‘ میں ان کی بیچارگی کو بھول جاتی ہوں کیوں کہ گراؤنڈ پر لڑکیاں خوب شور مچا رہی تھیں جس کا مطلب تھا کھیل زوروں پر ہے۔

    ’’ارے وہی والا جو ٹیلے پربیٹھ کرسنایا تھا۔‘‘

    ’’اوبھئی۔ ان مبہم اشاروں کو کیسے سمجھوں افسانے تو تم نے مجھے کمرے میں، باغ میں ٹیلے پر غرضیکہ ہر جگہ بیٹھ کر کھڑے ہوکر بلکہ چلتے پھرتے سنائے ہیں۔ میں ان سب کو کیسے یاد رکھوں۔۔۔؟‘‘

    ’’تم افسانہ ہی جودیکھ لو۔‘‘ وہ کاغذ کا پلندہ میری طرف بڑھاتی ہیں۔ میں اسے الٹ پلٹ کر دیکھتی ہوں۔ وہ چند سیکنڈ نہ جانے کس مشکل سے انتظار کرتی ہیں کہ میں افسانےکی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دوں۔ شروع شروع میں ذرا سچائی کےموڈ میں زیادہ رہا کرتی تھی۔ اس لیے ایسے الفاظ نہیں ملتےتھےجس سےکہ بات حقیقت سےزیادہ پرے بھی نہ ہو اوران کی دلشکنی بھی نہ ہو۔ لیکن چوں کہ بہت جوڑ توڑ کےبعد بھی یہ ممکن نہ تھا اس لیےمیں سوچتی ہی رہ جاتی اوروہ خود ہی کہتیں۔

    ’’اب ایسا برابھی تونہیں ہے۔ ان کےپرچےمیں توایسےایسےافسانےآتے ہیں کہ لکھنے والے شائع کرنےوالے دونوں کا منہ نوچ لینےکوجی چاہتا ہے۔ اس کا پلاٹ تو خاصا اچھا ہے۔‘‘

    میں نہایت سعادت مندی سےسرہلاکران کےاس پلاٹ کی داد دیتی ہوں جس کا ہیرو لکھ پتی کروڑ پتی کا اکلوتا بیٹا ہوتا ہےاور ہیروئن مالی، دھوبی، مہتر، چماریا ایسےہی کسی آدمی کی چندے آفتاب چندے مہتاب بیٹی۔ ہیرو ہیروئن کو برتن مانجھتے، جھاڑو دیتے یا سڑک کوٹتےدیکھ لیتا ہےاور دیکھتےہی اپنی اکلوتی جان سےعاشق ہوجاتا ہے۔ اور رسید کےطور پر ہیروئن غش کھا کر گر پڑتی ہے۔ پھر مزید نالائقی کا ثبوت دیتےہوئےدونوں چھپ چھپ کرملتے ہیں۔ حسب روایت پکڑےجاتے ہیں۔ ہیروئن کو ہیرو کا باپ یا اس کی ماں یا اس کی دادی چٹیا پکڑکرگھرسےنکال دیتےہیں۔ اور ہیرو کسی کروڑپتی کی لڑکی سےجو ہمیشہ بدصورت جاہل، پھوہڑ اورلڑاکا ہوتی ہےشادی کردی جاتی ہے۔ عشق کےبعد دق کے درجےشروع ہوتےہیں یعنی شادی کےفوراً بعد ہیروہیروئن کو دق ہوجاتا ہے۔ اگر دق نہ ہوتا تو وہ زہرکھا لیتے ہیں۔ زہرنہ ملےتوکپڑوں پرتیل چھڑک کےہنسی خوشی خود کو شعلہ زاربنا لیتےہیں۔ اور جویہ بھی نہ ہوتوندی میں ڈوب کےٹھنڈے ٹھنڈے جنت کو سدھارتے ہیں۔ طریقہ چاہےکچھ ہوصرف دونوں ہمیشہ ساتھ ہیں۔

    کبھی ہیروغریب ہوتا ہےاور ہیروئن امیرمگرانجام پھر بھی وہی ہوتا ہےجو کہ بقول ان کےہر افسانےکا انجام ہوناچاہئے۔۔۔

    کبھی مزید بدلنےکی خاطروہ ہیرو ہیروئن کوایک ہی کلاس کا بنادیتی ہیں۔ محبت بھی لازمی طور پر انھیں ایک دوسرے سےہوتی ہے۔ تمام منزلیں نہایت آسانی سےطےہوجاتی ہیں۔ صرف آنکھوں کی سوئیاں رہ جاتی ہیں تب ہیروئن کو سانپ کاٹ لیتا ہےیا وہ مارےخوشی کےناچتےناچتےکوٹھے سے گرکرمرجاتی ہے۔ یا ایسا ہی کوئی اورحادثہ ہوتا ہےاورہیروصاحب ٹاپتےرہ جاتےہیں اورچتا کے شعلوں کےساتھ ’’او دورکےمسافرہم کوبھی ساتھ لےلے۔ ہم رہ گئےاکیلے‘‘، گاتےہیں۔

    پلاٹ ہمیشہ کچھ اسی قسم کا ہوتا ہےاور جب پلاٹ کی تعریف کا مرحلہ بہ ہزار دقت طے ہوجاتا ہے تو حاضرین میں سےکوئی مجھ سےجانے کس جنم کی دشمنی نکالتے ہوئےکہتی ہیں، ’’بھئی زبان کتنی اچھی اورانداز کنتا پیارا ہے۔‘‘

    لیجئےصاحب اب زبان کی تعریف کیجئے اور اس کے بعد دنیا بھر کے رسالوں اور ان کے نالائق، بے وقوف، جاہل ایڈیٹروں کو بے بھاؤ کی سنائیے۔ جوبقول ان کےصرف قسمت یا پیسے یا باپ دادا کے اثرورسوخ سےایڈیٹر بن بیٹھےہیں اورجو ہمیشہ اپنے دوستوں کی چیزیں چھاپتےہیں یا پھران لڑکیوں کی جو ہرافسانےکےساتھ ایک عدد رنگین خط لکھ کرانھیں بھی افسانےکا ہیروبنا دیتی ہیں۔

    شروع شروع میں دو تین مرتبہ میں اس طرح بےخطا بےقصورپکڑی گئی تومیرےبھی پر، پرزے نکل آئے۔ جب اس قسم کی محفل جمتی نظرآتی میں فوراً کمرےسےیہ کہتی ہوئی نکل جاتی، ’’ ذرا ایک منٹ ٹھہرئیے۔ وہ نیچےبینا میرا انتظارکررہی ہے، اسےرخصت کرکے آتی ہوں۔‘‘ اوراس ایک منٹ کےوعدے پر وہاں سےکئی کئی گھنٹوں کےلیےغائب ہوجاتی۔

    لیکن میرا یہ بہانہ زیادہ دن نہ چل سکا ادھر میں نےکسی بینا، مینا، نجمہ، سلمہ کو ٹالنےکا نام لیا ادھران کی کوئی عاشق صادق قسم کی سہیلی یہ خدمت انجام دینےکےلیےہزارجان سےآمادہ ہوگئیں۔

    بات اگرصرف واپس آئےہوئےافسانوں کے تعزیتی جلسوں تک ہی محدود ہوتی تب بھی خیر انھیں اکنومکس کےلیکچرسمجھ کرگواراکرلیاجاتا جن میں ہرآن بھٹکتےہوئےخیالات کوکسی نہ کسی طرح قابو میں کر کے پروفیسر کے اوٹ پٹانگ سوالوں کےجواب دینےکی ناکام کوشش کرکےاپنی بےپناہ دلچسپی کا اظہارکیا جاتا ہے۔ مگر نہیں صاحب! وہ تو معلوم ہوتا ہے اگلے پچھلے کسی جنم میں کسی لاؤڈاسپیکر کی دکان کی مالک یا اخبارکےشعبۂ اشتہارات کی انچارج رہ چکی ہیں۔ انھیں تواپنی لاثانی قوتِ تخلیق کے مظاہرے کا جنون ہے۔ لہٰذا وہ تمام افسانوں پرکھلےاجلاس میں بحث کرتی ہیں (جو بحث کم اورتعریف زیادہ ہوتی ہے) جو واپس آچکے ہیں۔ جو انہوں نےلکھے ہیں۔ مگر کہیں بھیجےنہیں۔ جو ابھی تک صاف نہیں کیے گئے۔ وہ افسانے جو انہوں نے سوچے ہیں لیکن لکھےنہیں۔ وہ خاکے جن کے افسانے بنانے کا ارادہ وہ کررہی ہیں۔ اوران مطبوعہ۔ غیرمطبوعہ۔ حقیقی اور تخیلی افسانوں کی تعداد کسی بھی طرح آسمان کےتاروں سےکم نہیں۔ تاروں کی تعداد میں تو پھر بھی مزید اضافہ کے کوئی امکانات نہیں مگران کےتخیل میں تو ہر لمحے فٹافٹ کہانیاں ڈھلتی رہتی ہیں۔ ابھی صبح کےصرف آٹھ بجےہیں۔ میں بسترمیں دبکی اپنےادھورے خواب پورے کرنے کی آس میں آنکھیں بند کیے سونےکی کوشش کر رہی ہوں کہ آواز آتی ہے۔

    ’’ارے بھئی سننا ذرا۔۔۔ وہ غضب کا پلاٹ سوجھا ہے۔‘‘ پھر وہ اپنا بیچارہ خواب توگیا جہنم میں ان کا غضب کا پلاٹ غضب ڈھانےلگتا ہے۔

    رات کے دس بجے ہم نے بڑی کوششوں سےاپنے دل و دماغ کوپالٹکس پڑھنے پر مجبور کیا۔ ابھی ایک ہی پیراگراف پڑھا تھا کہ آپ کے دماغ میں پھر پلاٹ کی وحی نازل ہونےلگتی ہے پھرکہاں کی پالٹکس اور کہاں کی اکنومکس۔۔۔

    بارہا ایسا ہواکہ کھیل کےمیدان میں آپ کو پلاٹ سوجھا اورآپ نےکھیل خود بھی ادھورا چھوڑا اور مجھے بھی گھسیٹ گھساٹ کےگراؤنڈ سے لے گئیں۔ اس لیےاب میں کتنی ہی خوشامد کرتی ہوں کوئی مجھےاپنا پارٹنر بھی نہیں بناتا۔۔۔

    حدیہ کہ آپ کلاس میں لکچرکےدوران بھی پلاٹ کا ذکر کرنے سے نہیں چوکتیں۔ ان کی شاعرانہ اور ادیبانہ حرکت کی وجہ سےمیں کئی مرتبہ ڈانٹ کھا چکی ہوں اورآج تو کلاس آؤٹ کی سعادت بھی نصیب ہوگئی تھی وہ توخیرہوئی گھنٹہ بج گیا اورہم سےپہلے پروفیسرصاحب خود ہی آؤٹ ہوگئیں۔ اور مجھے تو یقین ہے کہ اگررات کودو بجے بھی ان کےدماغ میں کوئی پلاٹ آجائےتو وہ ’’آدمی بلبلہ ہے پانی کا۔۔۔ کیا بھروسہ ہے زندگانی کا۔‘‘ والی بات پریقین رکھےہوئےصبح تک انتظارنہیں کریں گی بلکہ اسی وقت مجھے سوتے سوتے اٹھا کروہ بیش بہا پلاٹ سنائیں گی اورمیراسکون غارت کر کے خود سکون حاصل کریں گی۔

    افسانےلکھنےکا انھیں ایسا ارمان ہے کہ وہ ہرمعمولی واقعہ یا اخباری خبرسےافسانہ لکھنے کی حد تک متاثر ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب انہوں نے پڑھا کہ ’’رات فلاں فلاں جگہ چور آئےاورتقریباً دو سو روپے لے گئے‘‘، توفوراً کچھ اس قسم کا پلاٹ سوچ لیا۔ متوسط طبقہ کا ایک گھرانہ۔ پہلی تاریخ کوشوہر بہت رات گئےتنخواہ لےکرآتا ہےاورپیسے میزکی درازمیں رکھ کر سو جاتا ہےصبح وہاں روپےنہیں ملتے، بیوی سمجھتی ہے میاں نے روپے خود رکھ کر چوری کا بہانہ کردیا۔۔۔ ادھر شوہرکوبیوی پرشک ہے۔ دونوں میں وہ لڑائی ہوتی ہےکہ میاں کےدوست اوربیوی کےمیکےوالےسب بلاٹکٹ تماشہ دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔ تب کسی کی نظر صحن کی دیوارکے پاس پڑے ہوئے پھٹےمفلر پر پڑتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گھر میں چور آیا تھا۔

    دوسرے تیسرے دن وہ مجھےاس پلاٹ کا افسانہ بنا کردکھاتی ہیں۔ میں آنکھیں مل مل کر دیکھتی ہوں لیکن مجھےاس سرے سے اس سرے تک نہ کہیں وہ لڑاکا میاں بیوی نظرآتےہیں۔ اورنہ چور۔ میں گھبراکر پوچھتی ہوں، ’’بھئی وہ لڑاکامیاں بیوی اورچورکیا ہوئے؟‘‘

    ’’کچھ نہیں بھئی بات یہ ہےکہ میں نےذرا پلاٹ بدل دیا ہےاپنے پہلےڈرافٹ میں نےوہی پلاٹ رکھا تھا۔ تم چاہو تو وہ بھی پڑھ لینا۔‘‘

    دو ایک مرتبہ میں ان کےپہلے ڈرافٹ کو معمولی چیزسمجھ کرپڑھنےکی ذمہ داری لےچکی ہوں، لیکن اس کےدیدار ہوئےتو پتہ چلا کہ اسےپڑھنے والاابھی اس دنیا میں پیداہی نہیں ہواوہ خود سمجھ لیتی ہوں تواوربات ہے ورنہ مجھےتو یقین ہےکہ اسےخود خدا بھی نہیں سمجھ سکتا۔ لہٰذا میں ان کی اس پیشکش کو بہ کمالِ صفائی ٹال جاتی ہوں۔ اوران کی تخلیقی قوت پردل ہی دل میں وجد کرتی ہوں کہ جس دنیا کو بنانےبگاڑنے میں خدا کو برسوں لگتے ہیں۔ اسےوہ پل بھر میں ملیا میٹ کرکے رکھ دیتی ہیں۔

    دراصل واقعہ یہ ہوتا ہے کہ دوسری مرتبہ لکھتے وقت لڑاکامیاں بیوی عاشق معشوق بن جاتے ہیں اورچوررقیبِ روسیاہ۔ تیسری مرتبہ جب وہ قلم اٹھاتی ہیں تو انہیں شہرکی فضاعشق وعاشقی کے لیےکچھ سازگارنظرنہیں آتی۔ وہ ایک جنبشِ قلم سےشہرکودیہات میں بدل دیتی ہیں۔ دوچارپنگھٹ کےرومان۔ رقیب کی لگائی بجھائی اورہیروئن کی آہوں اورآنسوؤں کےبعد ہیرو ہیروئن مل جاتےہیں، یہی حشران کےہرافسانےکا ہوتا ہےدیکھتی کچھ ہیں۔ سوچتی کچھ ہیں اورلکھتی کچھ اورہیں۔۔۔

    ان کےافسانوں سےتو پھربھی نباہ کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی شاعرانہ روح۔ شاعرانہ جذبات اور شاعرانہ اداؤں کو کیا کروں جنہوں نے نہ صرف میرے دل وجگربلکہ دماغ کو بھی چھلنی کردیا ہے اور بالکل ایک شاعرانہ محبوب کی طرح میرے ہوش وحواس، میرے صبروسکون سب کچھ مجھ سے چھین لیا ہےاور شاید وہ دن بھی دور نہیں جب میرے دامن کےچاک اورگریباں کےچاک کا فاصلہ ختم ہوجائے۔۔۔

    ایک لمبی سی کچھ گرم کچھ ٹھنڈی سانس اور ہائےکتنا پیارا ہے، ان کا تکیہ کلام ہےدن بھروہ ہر خوبصورت اور بد صورت چیزکودیکھ کرعجیب وغریب قسم کی آہیں بھرکر ’ہائے کتنا پیارا ہے‘ کا ورد کرتی رہتی ہیں۔ اب توانھیں ایسی عادت پڑگئی ہےکہ وہ کسی چیزکودیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتیں اور ہر پانچ منٹ بعد ٹیپ کا بند دھرا دیتی ہیں اور یہاں مجھےان کےہر ’پیارے‘ سےللّہی بغض ہوگیا ہے۔ حالانکہ پہلےیہی چیزیں مجھےبھی اچھی لگتی تھیں مگراب توانھیں جس پرپیارآیا مجھےجھٹ اس سےنفرت ہوگئی۔۔۔

    اوربھی کئی طریقوں سےوہ مجھےستایا جایا کرتی تھی۔ سردی اس غضب کی ہے کہ میں لحاف کےاندر بھی کانپ رہی ہوں اورآپ ہیں کہ پوری کھڑکی کھولےخواہ مخواہ چاند تاروں کوگھورنےکی کوشش کررہی ہیں۔ ان سے کھڑکی بند کرنےکےلیےکہتی ہوں تووہ پلٹ کراس حیرت سےمجھے دیکھتی ہیں گویا میں نےکوئی ایسی بات کہہ دی ہو جس کی انھیں کسی جاہل جھٹ سےبھی توقع نہ تھی۔۔۔ کچھ میری بدذوقی پر ایسا پردرد اورطویل مرثیہ شروع کردیں گی کہ مجھےفوراً تہیہ کر لینا پڑتا ہے کہ آئندہ چاہےمیں سردی میں ٹھٹھر جاؤں۔ مجھےنزلہ زکام، نمونیہ ہوجائےمگرمیں کبھی کھڑکی بند کرنےکےلیےنہیں کہوں گی۔ بلکہ اگرکبھی بھولےسےوہ خود کھڑکی بند کردیں تو میں کھول دوں گی۔۔۔

    آپ خیرسےخود کو ہمیشہ کسی نہ کسی انتہائی خطرناک مرض میں مبتلا محسوس کرتی ہیں دن بھر میں دس بارہ قسم کی دوائیں پیا کرتی ہیں۔ اور جب اس سےبھی تسکین نہیں ہوتی تو ڈاکٹرکےپاس انجکشن لگوانےپہنچ جاتیں، اورمیں چاہوں یا نہ چاہوں ساتھ ہمیشہ مجھے ہی لےجاتی ہیں۔ ڈاکٹر کے یہاں جانےسےتومجھےکوئی انکارنہیں لیکن وہاں پہنچ کرجو ڈرامہ وہ اسٹیج کرتی ہیں اس کی سائیڈ ہیروئن کارول ادا کرنا میرے بس کا روگ نہیں۔۔۔

    تشریف آپ لےجاتی ہیں انجکشن لگوانے، لیکن ڈسپنسری پہنچتے ہی ٹھنکنا شروع کردیتی ہیں، ’’ہائے اللہ ڈاکٹرصاحب۔ انجکشن مت لگائیے۔۔۔ آں۔۔۔ میں نہیں لگواؤں گی۔۔۔ بڑا دردہوتا ہےڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘

    سوئی دیکھتے ہی ان کے ہاتھ پیرٹھنڈے ہونےلگتےہیں اختلاج تو خیر بہت پہلے ہی شروع ہو چکا ہوتا ہے اور بہت بعد تک رہتا ہے۔ جیسےہی ڈاکٹر ہاتھ پکڑتا ہے وہ چیخ مار کے اچھل پرتی ہیں۔ اور گوسوئی ابھی کئی فٹ دور ہوتی ہے آپ درد سے کراہنے لگتی ہیں اور سوئی بازو میں داخل ہونے اور نکلنے کا وقفہ تو قیامت کا ہوتا ہے۔ جب یہ قیامت گزرجاتی ہےتو آپ نڈھال ہوکر کرسی پرگرپڑتی ہیں وہ تو ڈاکٹر ساٹھ سال کا بڈھا کھوسٹ ہےورنہ اس قیامت کےہمرکاب کوئی اور قیامت بھی ہوتی۔۔۔

    مگرقیامت سےتو ہر وقت مجھے بھگتنا پڑتا ہے۔ بارہا سوچتی ہوں ان سے لڑائی کرلوں مگر جب بھی لڑائی کی نیت باندھتی ہوں مجھے کپڑوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ پیسےختم ہوجاتے ہیں۔ قلم کی نب ٹوٹ جاتی ہے اور اس کےساتھ ہی میری یہ نیت بھی ٹوٹ جاتی ہے۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے