Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزاح

MORE BYخواجہ عبدالغفور

    زندگی کی تلخیوں اور اُداسیوں سے مدافعت کا ایک ہی حربہ ہے کہ حِس مزاج کی لطافت سے کام لیا جائے۔ آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ، حساس اور باشعور انسانوں کی سچی تصویر ہے۔ ہنسی محض ایک فطری تقاضا نہیں کہ جیسے انسان وقت پر کھاپی لیتا ہے، حوائج ضروری سے فارغ ہولیتا ہے، یا سوتا اور جاگتا ہے۔ دراصل اس کے پیچھے بہت ساری حسیات، شعور اور حواس کام کرتے ہیں۔ نفسیاتی اور فطری عمل اور رد عمل اختیاری اور غیر اختیاری طور پر اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس کا مظاہرہ چہرے پر فی الفور ہوتا ہے۔ اس کے محرکات کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے۔

    ابتدائے آفرینش کا تصور کر کے عہد ھجری کے انسان کے متعلق غور کیا جائے تو ایک لحیم شہیم انسان نظروں کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے، جس کو عناصر قدرت سے ہر قدم پر مقابلہ کرنا ہوتا تھا۔ جنگلی درندے خونخوار رقیب کی طرح اس کے اطراف گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اس کو اپنی پوری جسمانی طاقت استعمال کرنا پڑتی تھی اور بسا اوقات اپنے ہم جنسوں سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا تھا۔ ان حالات میں جب کبھی وہ اپنے مد مقابل کو مغلوب کرنے میں کامیاب ہوتا تو یکایک شادمانی، و فورِ مسرت اور فاتحانہ جذبے کے تحت نعرے لگاتا اور حلق سے ایسی آوازیں نکالتا کہ جو اس کی کامیابی کا اعلان ہوتی تھیں۔ ان فتوحات میں جو اس کے ساتھی ہوتے وہ بھی اسی طرح کی آوازیں نکالتے۔ یہ سب کچھ وحشیانہ اور جاہلانہ اقتدار کے علم کے طور پر ہوتا۔ ہزار صدیوں کے گزر جانے پر آج بھی وہی جبلت کارفرما ہے، اور آج کا انسان بھی احساسِ برتری اور کامرانی کے تحت منہ بناتا ہے تو وہ مسکراہٹ اور بلند آوازیں نکلتی ہیں جو قہقہے کہلاتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر مدتوں کے ریاض نے اور تہذیب کی بندشوں نے اس کو ایک اسلوب دیا ہے اور ایک شائستگی عطا کی ہے جو آج کے معاشرے میں ایک خالص مقام رکھتی ہے۔

    بہت زیادہ خشک اور سنجیدہ لوگوں کو شے لطیف کے فقدان کا موجب گردانا جاتا ہے اور جو بالکل ہنس نہیں سکتے ان کو قنوطی اور مخبوط الحواس بھی سمجھا جاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کو صرف حیوانِ ناطق ہی نہیں بلکہ حیوانِ ظریف بھی بننا پڑتا ہے۔ یہی صلاحیت انسان کو زندہ رکھتی ہے کہ بغیر ہنسے ہنسائے انسان اپنے دُکھ دردپر قابو نہیں پاسکتا۔ کچھ دیر کی ہنسی نہ صرف غم و اندوہ کو بھلا دیتی ہے بلکہ اس سے ایسی تازگی اور فرحت پیدا ہوجاتی ہے کہ غم ہائے دنیا کو برداشت کرنے کی از سر نو طاقت آجاتی ہے :

    ہر مصیبت کا دیا ایک تبسم سے جواب

    اس طرح گردشِ دوراں کو رُلایا ہم نے

    ویسے تو ہنسی وفورِ جذبات کے اظہار کا ایک فطری اور خوشگوار ذریعہ ہے لیکن رنج و غم کی شدت کو رفع کرنے کا ذریعہ آنسوہیں لیکن یہ موڈ کو نہیں بدلتے۔ صرف غبارِ خاطر گھٹا دیتے ہیں۔ یہ نعمتیں صرف انسان کو ودیعت کی گئی ہیں۔ حیوان اس سے محروم ہیں۔

    ہنسی کی ابتدا اگر اس طرح ہوئی ہے تو پھر یہ بھی صحیح ہے کہ ارتقائی منازل اس تیزی سے طے ہوئے ہیں کہ آج اس کا رنگ ہی جدا ہے۔ فاتحانہ جذبے سے ہٹ کر اب متمدن اور شائستہ قومیں اور ان کے افراد اپنے آپ پر بھی ہنستے ہیں۔ دوسروں کی کمزوریوں پر ان کی اصلاح کے لیے ہنستے ہیں۔ اور اس ہنسنے ہنسانے کے سلسلے کو قائم رکھنے کے لیے تقریر، تحریر، عمل، حرکات و سکنات سب ہی کا سہارا لینے لگے ہیں۔ ان ہی کے مجموعے کو فنون لطیفہ میں ایک مقام مل گیا ہے۔

    امتدادِ زمانہ کے ساتھ انسان کی طرزِ فکر اور کچھ سوجھ بوجھ بدلتی گئی اور تفریحی مشاغل بھی اپنا نیا رنگ روپ ڈھال چکے ہیں۔ روم میں بھوکے شیر ببر کے سامنے زندہ آدمی کو ڈھکیل کر حاکم اور تماشائی محفوظ ہوا کرتے تھے ایک عرصۂ دراز تک پاگلوں اور مخبوط الحواس لوگوں کو زنجیروں سے باندھ کر ان پر لوگ پتھر پھینکتے اور ان کی غیر ارادی حرکتوں پر ہنسا کرتے تھے۔ اب ایسی باتیں خلافِ تہذیب سمجھی جاتی ہیں اب تو شائستگی کی کہانی علامت یہ ہے کہ کوئی تضحیک و تذلیل پر اُتر آئے تو اس کو ہنس کر ٹال دیا جاتا ہے کہ وہ خود نادم اور شرمسار ہوکر رہ جاتا ہے اور دوسروں کی نظر میں اُلٹا وہی ذلیل و خوار ہوجاتا ہے۔

    فی زمانہ انسان کی بشاشت اور خوش طبعی کے محرکات اور آثار بہت ہی مختلف ہیں اور ان حسیات کے مدارج بھی ہیں۔ چنانچہ کسی بات پر زیرِ لب مسکرانا ہی کافی ہوتا ہے۔ کبھی تو یہ آنکھوں آنکھوں میں کھیل کر رہ جاتی ہے کہیں کڑوی مسکراہٹ کھل کر وار کرجاتی ہے اور بسا اوقات بادلِ ناخواستہ ہنسی، بیزارگی اور تکدر کو ظاہر کرتی ہے تو کبھی یہ زہر خند بن جاتی ہے۔ فاخرانہ اور فاتحانہ مسکراہٹ دوسرے کے درجے کو گھٹا دیتی ہے۔

    مسکراہٹ سے بات ذرا آگے بڑھتی ہے تو ہنسی کا مقام آتا ہے۔ اس کے اور آگے کھلکھلاکر ہنسی نکلتی ہے تو ایک شرارہ پھوٹ پڑتا ہے کبھی اس کا فوارہ چھوٹتا ہے تو قہقہہ بن جاتا ہے کبھی کیف و کم کا یہ عالم ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ پر بے ساختہ ہنستا ہے۔ کبھی کبھار ہنسی اس اطمینان کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ خود کسی ستم ظریفی کا شکار نہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو اپنی مصیبت پر بھی ہنس پڑتے ہیں تاکہ اس کا احساس کم ہو اور ہنگامی فرار نصیب ہو۔

    فرائیڈ نے اسی لیے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ہنسی کا سہارا لے کر آدمی اپنی مصیبتوں سے دور بھاگنا چاہتا ہے۔ فعلیاتی طور پر بھی ہنسی ہم کو مداوا نہ سہی سہارا ضرور دیتی ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ اعصاب کے اضمحلال کی وجہ سے نروس لوگ بات بات پر بلا وجہ ہنس پڑتے ہیں اور جب فی الواقعی ہنسی کی بات ہوتی ہے تو چپ سادھ لیتے ہیں یہ اوروں کے لیے ہنسی کا باعث ہوتا ہے۔

    جب کسی محفل میں نو وارد زور زور سے باتیں کرتا ہے اور بے وجہ ہنس پڑتا ہے تو یہ اس کی خود اعتمادی کے فقدان کی دلیل ہے جس کو وہ چھپانا چاہتا ہے۔

    سنیما یا تھیٹر یا کسی مجمع میں کبھی کبھار ہم کسی کو بے موقع بآواز بلند ہنستے ہوئے دیکھتے ہیں تو دراصل وہ اس بات کا اظہار کر رہا ہوتا ہے کہ وہ وقتی مزاح یا ڈراما اور کہانی کی ادق زبان کی باریکی اور مذاق کو سمجھ رہا ہے جب کہ دوسرے اس سے قاصر ہیں۔

    بسا اوقات لوگ کچھ ایسی بات کر بیٹھتے ہیں کہ جس کو وہ بزعم خود نہایت ہی برجستہ، بامحل، اور دوسروں کی، سمجھ بوجھ سے بالاتر سمجھتے ہیں اور پھر خود ہی بآوازبلند قہقہہ لگاتے ہیں۔ اور اپنی دانست میں فراست کا ثبوت دیتے ہیں۔

    ایسا بھی ہوتا ہے کہ بوڑھے مرد کو جوان لڑکی سے خلا ملا کرتے دیکھ کر لوگ بے اختیار ہنس پڑتے ہیں۔ اپنی مجبوری پر ہنسی کھسیانی ہوتی ہے۔ شرمندگی میں جو ہنسی لبوں پر آتی ہے وہ زہر خند ہوتی ہے۔

    اس طرح مسکراہٹ سے بڑھ کر ہنسی اور اس سے آگے قہقہہ اس بات کا سائن بورڈ ہوتا ہے کہ ہنسنے والا اپنے تئیں مطمئن ہے کہ اس کی ہنسی اوروں سے بلند و برتر ہے۔ ساتھ ساتھ وہ دوسروں پر اس بات کا رعب بھی جمانا چاہتا ہے کہ وہ کچھ زیادہ سمجھ دار اور لائق ہے۔ یہ بھی امر مسلمہ ہے کہ لوگ دوسروں پر ہی زیادہ ہنسا کرتے ہیں۔ اپنے آپ پر ہنسنے والا شاذ و نادر ہی ملتا ہے۔ اور یہ اس کی اعلیٰ ظرفی کی دلیل ہوتی ہے۔ تیونس کے صدر حبیب بارگوبیا کا قول ہے : جو انسان اپنے آپ پر ہنس سکتا ہے وہی سدا خوش و خرم رہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہنسنے کے مواقع کی اس کے لیے کوئی کمی نہیں۔

    آئیے اب اس بات کا تجزیہ کریں کہ لوگ کس بات پر کب اور کس لیے ہنستے ہیں؟ کوئی بات یا کسی واقعے کی نزاکت سے ہم کیوں کھل کھلا اٹھتے ہیں؟ یا بالفاظ دیگر ہم کیوں ہنستے ہیں؟

    لندن کی ایک یونیورسٹی میں ایک نوجو ان ٹونی چاپ من نے پی ایچ ڈی کے لیے اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے اور یہ بھی خبر ہے کہ منیلا یونیورسٹی میں مزاح اور بذلہ سنجی کی تعلیم و تدریس کا ایک شعبہ قائم کیا جارہا ہے، جہاں پر اس کے اصناف اور اقسام پر سبق پڑھائے جائیں گے اور اس مضمون پر ڈگریاں دی جائیں گی۔

    اس کا نصاب اس بنیاد پر تیار کیا جائے گا کہ آج کل کی دنیا میں فرد کے تعلقات سماج اور معاشرے سے بہت الجھے ہوئے نظر آتے ہیں اور دنیا کے تمام مشکل مسائل زندگی میں نِت نئے انداز میں کھڑے ہوتے جارہے ہیں ان کے حل اور سلجھائو کے لیے بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی اور خوش مذاقی کو ابھارنا از بس ضروری دکھائی دیتا ہے۔ اسی لیے ہنسی کیا ہے؟ لوگ ہنستے کیوں ہیں؟ اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان محرکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔

    عشق و محبت کی طرح ہنسنے کا شعور بھی کسی سائنٹفک تجزیے اور تجربے پر نہیں بیٹھتا۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کی دیگر حسیات کو اکسانے والے جملہ محرکات سے کہیں زیادہ ہنسنے کے شعور کو ابھارنے والے محرکات ہیں۔ لیکن اس طرف ماہرنفسیات نے بالکل توجہ نہیں کی۔ کچھ سطحی نظریے ضرور قائم کیے گئے ہیں لیکن وہ بھی مسلمہ اور مصدقہ نہیں کہلائے جاسکتے۔

    چاپ من کا کہنا ہے کہ انسانی چہرے کے اعصاب و عضلات شدت سے حساس ہوتے ہیں۔ ان کا کھنچائو آدمی کے مزاج میں انقباض پیدا کرتا ہے اس کا بہترین مظاہرہ غصے کے عالم میں چہرے پر ہوتا ہے اس کے برعکس ہنسی اور قہقہے ہی انسان کے اعصابی تنائو کو ڈھیلا کردیتے ہیں اور اس کی لاشعوری یاسیت کو دور کرتے ہیں۔ اس نے کالج کے طلبہ پرالکٹروڈ کے ذریعے بہت سارے تجربے کیے ہیں اور اعصاب کے کھنچائو کو ناپنے اور ان کے گراف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اس کے تجربوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پُر مزاح گفتگو اور لطیفوں کے سننے کے بعد لوگ بہت زیادہ پُر سکون اور مطمئن پائے گئے۔ ہنسی کو اس نے متعدی بھی بتایا ہے کہ اگر ایک آدمی ہنستا ہے تو دوسرے بھی خواہ مخواہ ہنسنے پر مائل ہوجاتے ہیں۔ مسکراہٹ یا قہقہے ماحول کی مناسبت سے ہوتے ہیں۔ یعنی نہایت ہی مذہب سوسائٹی جن تکلفات کی پابند ہوتی ہے اس میں شاید ہلکی سی مسکراہٹ پر بات ختم ہوجائے۔ برخلاف اس کے نوجوان خوش فکروں اور بے تکلفوں کی محفل میں اسی بات پر فلک شگاف قہقہے بلند ہوسکتے ہیں۔ اعلیٰ عہدے دار یا بارسوخ صاحبِ ثروت کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں پر اس کے ماتحت یا زیرِ اثر لوگ ضرور ایسے ہنسیں گے کہ جیسے انھوں نے وہ باتیں پہلے کبھی نہ سنی ہوں چاہے وہ کتنی ہی گھسی پٹی ہوں۔

    یہ تو سمجھ سکتے ہیں کہ کن باتوں پر بالعموم ہم کو ہنسی آتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ ایسا کوئی قطعی اصول یا قاعدہ تراش لیں کہ جس کے مطابق یہ کہہ سکیں کہ ہم کیوں ہنستے ہیں۔ بعض ماہر نفسیات اور عمرانیات کا خیال ہے کہ ہماری ہنسی کا محرک ایک دماغی رد عمل ہے جو کہ کسی قابل تعریف بات کو سن کر ہم میں پیدا ہوتا ہے۔ ا س لیے ہم ان لطیفوں پر زیادہ ہنستے ہیں جن میں بذلہ سنجی، نکتہ فہمی، حاضر دماغی، تحریف، فکاہات، مطائبات کا دخل ہوتا ہے اور جن سے دماغی ورزش بھی ہوتی ہے اور تلذذ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایک دوسرا نظریہ اس مشاہرے پر قائم ہے کہ جب انسان جانوروں جیسی حرکتیں کرتا ہے یا جانور انسان جیسی تو پھر یہ ہنسی کے محرک ہوتے ہیں۔

    یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ سنجیدہ اور متین انسان کے رکھ رکھاؤ کو ذرا سا دھکا لگے تو دوسروں کی ہنسی کا مرکز بن جاتا ہے۔ اچانک پن اور تضاد بھی اسی طرح ہنسی پیدا کرتے ہیں۔ بچیوں کے تاک جھانک یا آنکھ مچولی کے کھیل بہت زیادہ مسرت و انبساط کے باعث ہوتے ہیں اور بڑوں کے لیے اسی قسم کے تحیر کن اور عجائبات ہنسی کے محرک ہوتے ہیں۔ حماقت، طنزہ، استہزائی، رمز و کنایہ بھی ہنساتے ہیں۔

    یہ امرضرور قابل غور ہے کہ چاہے مہذب آدمی ہو کہ جاہل کندۂ ناتراش، اس کے اندر جب تک مزاح کا جبلّی شعور ودیعت نہ ہو وہ کبھی بطور خود ہنس نہیں سکتا۔ یہ شعور یا تو پوری طرح موجود ہوتا ہے یا پھر اس کا کوئی محرک ہوتا ہے۔ درمیانی شکل کچھ زیادہ ممکن نہیں۔ چٹکلہ، لطیفہ، شگوفہ، یا بذلہ سنجی ہنسی کے محرک ضرور ہوتے ہیں، لیکن پیش کرنے کا انداز ان کو بامعنی بناسکتا ہے یا مہمل۔ سیاستداں، ملا، پجاری، پنڈت، فیلسوف دوسروں کی ہنسی کا نشانہ تو ضرور بنتے ہیں لیکن خود ان کو اوروں پر اور اپنے آپ پر ہنسنا نہیں آتا۔ اور شاید یہی بات ہم سب پر بھی صادق آتی ہے کہ ہماری قوم کی قوم چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑنے اور بُرا ماننے کی عادی سی ہے اور یہی حسیات ایک بند بوتل کی طرح دل میں رہتی ہیں اور موقع بے موقع غصہ اور غضب کے روپ میں ظاہر ہوتی ہیں۔

    بہرکیف ایسا کوئی شاید ہی ملے گا کہ جو خود ہنسی کا نشانہ بننا پسند کرے۔ لیکن دوسروں کو ہنسی کا نشانہ بنانے کبھی کوئی تامل نہیں کرتا۔

    اس ساری بحث کے باوجود یہ سوا ل پھر بھی جواب طلب رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں ہنستے ہیں؟

    قیاس یہ ہے کہ جس دن اس کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا تو شاید انسان ہنسنا چھوڑ دے، انگریز صرف ایسی باتوں پر ہنستے ہیں کہ جو ان کی سمجھ سے باہر ہوتی ہیں۔ جیسے تجریدی آرٹ، پنچ کے لطیفے، موسم، صنفِ نازک و غیرہ، اس کے برخلاف ہندوستانی ایسی باتو ں پر ہنستے ہیں کہ جو ان کی سمجھ میں آجاتی ہیں مثلاً عشقیہ شاعری، پنچایتی راج، ہر سال کا بجٹ، جس میں نئے ٹیکسوں کی بھرمار ہوتی ہے۔

    ہمارے یہاں اب بھی مدارس اور کھیل کے میدان میں نظم و ضبط کا یہی مطلب ہے کہ لڑکے بالکل نہ ہنسیں، دفاتر میں بھی ہنسنا ہنسانا یکلخت منع ہے۔ بزرگوں کے سامنے ہنسنا آداب کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔

    لوگوں کو اس لیے ہنسنا چاہیے کہ تکدّر، پژمردگی، قنوطیت، پست مزاجی، اضمحلال دور ہو اور بے وجہ ہنسنا بھی جائز قرار دیا جانا چاہئے۔ اگر خود بخود ہنسی نہ آئے تو ایسے ذرائع ڈھونڈنا چاہئیں کہ جو ہنسی کے محرک ہوں اور کچھ نہیں تو اپنے پسند کے لطائف کو دہرائیں اور انھیں کا سہارا لیں۔

    چاپ من کے تجربے شاید اس مسئلے کا حل بتاسکیں کہ انسان کیوں ہنستا ہے اور جو یہ عقدہ کھل جائے تو دنیا کے امن و اماں کی بے قراری میں اس سے مدد مل جائے گی۔ چاپ من کا مشاہدہ کہ گرین لینڈ کے اسکیمو اپنی ذاتی پُرخاش اور عناد پر بجائے لٹھ اور پستول کے استعمال کے ایک محفل سجاتے ہیں اور اس میں ایک ڈھولک لے کر اپنے حریف کے مقابل کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کی ہجو، تضحیک اور تذلیل اپنی لچھے دار باتوں سے کیے جاتے ہیں۔ اس دوران میں مجمع ہنستا اور قہقہے لگاتا ہے اور جب دونوں کے منہ دکھ جاتے ہیں اور زبان خشک ہوجاتی ہے اور ان کے پاس مزید مزاح کا ذخیرہ نہیں رہتا تو ہار جیت کا فیصلہ اس امر سے ہوتا ہے کہ حاضرین کو کس نے زیادہ ہنسایا ہے۔

    مہاراشٹر میں لائونی اور پائوڈا بھی کچھ اسی قسم کے فن ہیں کہ جس میں اپنے زور کلام اور اندازِ بیان سے ایک پارٹی اپنی سکہ جماتی ہے اور دوسرے کو ہرادیتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے سارے قضیے اور جھگڑے کچھ اس طرح طے کرلیا کریں اور دوسروں کو ہنسنے کا موقع فراہم کریں۔

    ان ہی خیالات اور اسی خوش فکری کو قلم بند کرنے کے لیے انشائیہ کا سہارا لیا جاتا ہے جس کو فرانسیسی زبان میں ESSAIS کہا جاتا ہے اور موسیو مونٹیج کو اس نگارش کا موجد مانا جاتا ہے۔ انگریزی میں چارلس لیمپ موجد اور بانی مبانی ہیں۔ لیکن عربی کے لفظ السعی کوEssayیا انشائیہ کا پیش رو کہا جاتا ہے کہ جس کا مفہوم ہی یہ ہے کہ سعی کاوش توجہ اور دھیان سے مربوط اور غیر مربوط خیالات کو ذہن و فکر کی اُپج کے ساتھ موضوعی اور موضوعاتی تانے بانے میں بُنا جائے۔ انشائیہ میں سالمیت اور مواد ضروری نہیں اور نہ ہی عوامل و محرکات لازمی ہیں کبھی خود کلامی کا اسلوب ہوتا ہے تو کبھی مراقبہ کے تاثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ کوئی معنی خیز، خیال آرائی تو کوئی منطقی استدلال کو طرز نگارش بناتا ہے کہیں لفّاظی کہیں مقفیٰ عبارت، ادق گوئی، ثقیل بندش، فلسفہ منطق نظر آتے ہیں۔ بعض ادیب اس طرح قلم برداشتہ لکھتے ہیں کہ مہم جوئی اور وسیع تناظر کے ساتھ ہر خیال کسی مہمیز کا کشتہ لگتا ہے۔ کہیں سمندر کی بے کرانی اور تلاطم تو کہیں وادی کا بہتا چشمہ اور سبک خرامی غرض کہ انشائیے کے فن پارے ژرنگارش ہوتے ہیں کہ جو دبستانِ ادب کی ادبی اکائی کا احاطہ کرتے ہیں۔

    انشائیہ بذات خود نہ تو مزاحیہ مضمون ہوسکتا ہے نہ مزایہ افسانہ، نہ ہی کوئی طنزیہ اور مقالہ۔ بنیادی طور پر جو بھی مضمون یا نگارش کسی بھی موضوع یا عنوان کے تحت ہو وہ مختلف خیالات کی رنگارنگ نقش نگاری ہے۔ تنوع کے باوجود غیر واضح کیفیات، آپس میں بے ربط ہوتے ہوئے بھی تسلسل خیال اور رابطہ سے بندھے ہوتے ہیں۔ بیان میں سادگی اور بے تکلفی ہوتی ہے۔ واقعات کا تاثر اور تجربے کا انوکھا پن انشائیہ کا اساس ہیں۔ اب اگر ان میں شگفتگی ہو تو مزاج اُبھر آتا ہے۔ تجربے کی تلخی ہو، ناہمواریت کا مشاہدہ قلم بند ہو تو طنز نمایاں ہوتا ہے۔

    انشائیہ ذہنی اُپج ہے لیکن ہر ذہنی اُپج انشائیہ نہیں بن سکتی، اس لیے کہ محض فکر کافی نہیں اس کے ساتھ ذکر بھی درکار ہے۔ انشائیہ کے اسلوب میں فلسفہ، تنقید اور ادب کے تمام شعبے جیسے طنز، تعریض مزاح بھی شامل ہیں اور ایک دوسرے میں خلط ملط نظر آتے ہیں۔

    طنز نگار اور مزاح نگار انشائیہ کے اسلوب سے ہٹ نہیں سکتے۔ لیکن یہ عنصر غالب ہوں تو وہی اسلوب وہی نگارش انشائے لطیف کی حیثیت سے منفرد ہوجاتی ہے۔ اس طرح مزاح نگاری انشایہ کی وصف ضرور ہے صنف نہیں۔

    اردو میں انشائیے کی ابتدا عبد الحلیم شرر، ریاض خیر آبادی اور سجاد حیدر یلدرم کی تحریروں سے ہوتی ہے۔ شرر نے عام عنوانات پر خوبی سے فکر انگیز اور گہرے خیالات کا اظہار کیا ہے، ان کا اسلوبِ انشاء اور عشق دونوں ہی کتابی ہیں۔ ریاض کی شاعری میں تفنن ہے لیکن شوخی سطحی ہے۔ نثر میں یہ کچھ سست پڑجاتی ہے۔ یلدرم کے پاس حالات کی رعنائی ہے شوخی ہے، خیال کی رنگینی ہے اور نزاکت کے ساتھ جذبہ کی متانت اور اسلوب نگارش متوازن ہیں۔

    سرسید، حالی، ذکاء اللہ، محسن الملک، وقار الملک، محمد حسین آزاد، مہدی حسن، شبلی، سجاد انصاری اور ابو الکلام آزاد ممتاز منفرد بلند پایہ اسلوب کے مالک ہیں۔ ان کے ساتھ ہی ساتھ خلیق، خواجہ حسن نظامی، نیاز فتحپوری، رشید احمد صدیقی وغیرہ بھی اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان سب کے انشائیوں میں روشن ضمیری، قلب و نظر ی گہرائی، دانش و بینش نظر آتے ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا’خیال پارے‘؟، غلام جیلانی اصغر’کچھ جھوٹ کی حمایت میں‘، جمیل آذر ’نیم پلیٹ‘، انور سعید ’چوک‘، سید ضمیر حسن دہلوی ’ہاتھ‘، پریم شنکر سریواستو ’نہیں کھیل یا رو جھک مارنا بھی‘، عبد الغنی رہبر ’جوتوں کا غبار‘، انجم انصار ’منگنی کی انگوٹھی‘۔ ان سب انشائیوں میں طنز و مزاح ظرافت بذلہ سنجی تفنن سب ہی بھرپور ہیں۔ یہاں یہ ممکن نہیں کہ ان کو اس لیبل یا اُس لیبل کے تحت چھانٹا جائے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے