محلہ سدھار کمیٹی
بھائیو، بہنو! تھوڑی سی والداؤ اور بہت سے بچّو!
آپ نے یہ اچھا نہیں کیا کہ مجھے محلہ سدھار کمیٹی کی اس سالانہ میٹنگ کا مہمان خصوصی بنا دیا۔ میں مہمان خصوصی بننے سے ہمیشہ بدکتا ہوں۔ کیونکہ یہ ایک ایسی عزت ہے جو انسان کو غیرفطری بنا دیتی ہے۔ اور اس سے راست گفتاری چھین لیتی ہے۔ مثلاً اب میں اتنا بھی نہیں کہہ سکتا کہ جس کرسی پر بیٹھا ہوں، اس کی ایک ٹانگ ٹوٹنے کے قریب ہے اور میں پورے وقت ایک پہلو بیٹھ کر اپنے آپ کو سنبھالے رہا ہوں۔
حضرات! کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ پورا محلہ ایک کرسی ہے۔ جس کی ایک ٹانگ ہمیشہ ٹوٹنے کے قریب رہتی ہے اور ہم سب ایک پہلو بیٹھے اپنے آپ کو سنبھالتے رہتے ہیں۔ اس سنبھالنے پرہمارا کافی وقت صرف ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے وقت کا یہ انتہائی بھونڈا استعمال ہے لیکن ہمیں اپنے محلے سے چونکہ بے حد محبت ہے، اس لیے محبت کی خاطر ہمیں یہ بھونڈا پن کرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ جناب والا! محبت انسان کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے، یہ تو ہماری ذہانت ہے کہ ہم نے اس بدنصیبی کو قربانی کا دل فریب نام دے کر اپنے آپ کو مطمئن کر لیا ہے۔ ورنہ خدا نے تو ہمیں جذبہ محبت عطا کر کے ہمارے ساتھ کافی بڑا دھوکا کیا تھا۔
میں نے ابھی ابھی آپ سب صاحبان بلکہ ’’صاحبات‘‘ تک کی تقریریں سنیں جو محلہ سدھار کے عظیم مقصد سے کی گئی ہیں۔ ان تقریروں سے ہی مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ محلہ بگڑے ہوئے انسانوں کا ایک مجموعہ ہے، اس لیے ہمارا سدھار ہونا چاہیے۔ آہ! یہ کتنی شرمناک بات ہے کہ خود ہی اپنے آپ کو ذلیل انسان کہہ کر ذلیل کریں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل تسلیم کر لینا بہادری ہے۔ اور ہم بہادر لوگ ہیں۔
صاحبان! اگر ایسا ہے تو میں حیران ہوں کہ آپ بہادر انسانوں کا سدھار کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ وقت کا بھونڈا استعمال نہیں ہے کہ آپ پیغمبروں کو نصیحت کریں کہ آپ کے کپڑے میلے ہیں، انہیں دھویا کیجیے، حالانکہ پیغمبر اگر کپڑے نہیں دھوتا تو اس کی کوئی گہری اور فلسفیانہ وجہ ہوگی، جو اسے خود اچھی طرح معلوم ہوگی۔ اس لیے جناب! میری مانیے تو اس محلہ کا سدھار مت کیجیے، اگر آپ کے کپڑے میلے ہیں تو صابن سے دھو لیجیے صرف صابن کے پراپیگنڈہ کی خاطر اتنے زیادہ لوگوں کو ایک میٹنگ میں اکٹھا کرنے کی کیا ضرورت ہے!
چند دن ہوئے اس محلہ کے ایک بزرگ آبدیدہ ہو کر کہنے لگے، ’’فکر صاحب! اس محلہ میں چوہوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ مگر کوئی ان کا تدارک کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ وہ چوہوں کی سینہ زوری پر آبدیدہ نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کی آنکھوں میں ککرے تھے۔ ورنہ چوہے تو چوہے دان کے ذریعے بھی آسانی سے پکڑے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم چوہے دان اور صابن کا استعمال نہیں جانتے تو جناب ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہیے کہ ہمیں اگلے جنم میں انسان نہ بنائے بلکہ چوہے بنادے۔ جو کپڑے نہیں پہنتے اور جنہیں صابن کے استعمال کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ چوہوں نے کبھی چوہا سدھار کمیٹی بنائی ہو اور ککروں کی آڑ میں آنسو بہائے ہوں۔ بھائیو اور بہنو! برا نہ مانئے تو میں کہوں گا کہ چوہے ہم سے زیادہ فطری زندگی گزارتے ہیں۔
آپ شاید مجھ پر شک کر رہے ہوں گے کہ میں محلہ کا سدھار نہیں چاہتا۔ ایسا ہی شبہ مجھ پر اس محلہ میں بھی کیا گیا تھا جہاں میں دو سال پہلے رہتا تھا۔ یہ عجیب بات ہے بھائیو! کہ دنیا کے ہر محلہ میں رات کو بے تحاشا کتے بھونکتے ہیں جس سے اہل محلہ پریشان رہتے ہیں۔ ہرمحلہ میں ایک جھگڑالو عورت رہتی ہے جو خلل امن کا باعث بنی رہتی ہے۔ ہر محلہ میں دو چار آوارہ گرد نوجوان لڑکے پیدا ہو جاتے ہیں جن سے محلہ کا اخلاق تلوار کی دھار پر رہتا ہے اور ہر محلہ میں پانچ دس ریٹائر بوڑھے بھی ضرور رہتے ہیں جو نصیحتوں کے چراغ اپنے سرہانے جلا کر بیٹھتے رہتے ہیں۔
اور دوستو! یہ سب خداداد نعمتیں ہیں۔ ان سے ہم بچ نہیں سکتے۔ ان میں سے میں کسی بھی محلہ کو ان نعمتوں سے محروم کردیا جائے تو وہ محلہ نہیں رہتا بلکہ جنت بن جاتا ہے اور معاف کیجیے، جنت ایک انتہائی اکتا دینے والی چیز ہے، جنت شوکیس میں ایستادہ ’’پلاسٹک‘‘ کی ایک چیز ہے، جس کے لب اگرچہ لعلین ہیں مگر ان پر کسی کا بوسہ ثبت نہیں ہوا، کیونکہ اس بوسے میں نہ حلاوت ہوتی ہے نہ حرارت۔۔۔ سچ بتائیے کیا آپ پلاسٹک کی اس حسینہ کو کوئی محبت نامہ بھیج سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ اس جہنم کے خلاف کیوں شور مچاتے ہیں۔ میں تو جب محلہ کی کسی جھگڑالو عورت یا آوارہ گرد لڑکوں کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے جنت کے ساتھ جہنم بھی پیدا کر دیا اور ہمارے محلہ کو پلاسٹک کی حسینہ بننے سے بچا لیا۔ جناب والا! خدا پر اعتبار کیجیے۔ وہ ہم سے زیادہ ذہین اور دور اندیش ہے، جس نے ہمیں زندگی کی حلاوت اور لذت بخشنے کے لیے انگور ہی عطا نہیں کیے، بلکہ ریٹائرڈ بوڑھے بھی عطا کر دیے جو لومڑی کا رول ادا کرتے ہیں۔
آج کی میٹنگ میں ایک معزز مقرر نے اشارتاً ذکر کیا ہے کہ ہمارے محلہ میں ایک شاعر رہتا ہے جو رات کو شراب میں دھت ہو کر آتا ہے اور اودھم مچاتا ہے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ اسے محلہ سے باہر نکال دیا جائے۔ صاحبان! میری رائے ہے کہ اسے محلے سے مت نکالیے ورنہ وہ کسی دوسرے محلہ میں چلا جائے گا اور وہاں اودھم مچائے گا اور پھر نکال دیا جائے گا، کیونکہ ہر محلہ میں محلہ سدھار کمیٹی موجود ہے۔۔۔
لہٰذا میں اس شاعر کو سمجھا دوں گا کہ وہ شاعری ترک کردے اور کہیں لوئر ڈویژن کلرک بن جائے۔ شاعری ترک کرنے ہی سے وہ مے گساری ترک کرے گا کیونکہ لوئر ڈویژن کلرک کے اندر، ہلدی، نمک اور ایندھن خریدنے کی تمنا بیدار ہو جاتی ہے اور شراب خریدنے کی جرأت اور استطاعت مر جاتی ہے۔ شراب ہی لطیف اور نفیس احساسات کو جگاتی ہے۔۔۔ ہلدی اور نمک لطیف احساسات کو سلا دیتے ہیں بلکہ مار دیتے ہیں۔ اس لیے اگر ہمیں اس شاعر کا سدھار کرنا ہے تو اس کے اندر بسے ہوئے شاعر کو مار دینا چاہیے۔ ہمارے محلے کو شاعری کی ضررت نہیں، ہلدی اور نمک کی ضرورت ہے۔ کیوں ہلدی اور نمک کبھی اودھم نہیں مچاتے۔ حضرات! اگر آپ سب لوگ شاعر نہیں بن سکتے تو اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ آپ کے لطیف احساسات ایندھن کے ڈھیر کے نیچے دب گئے ہیں، سو گئے ہیں، مر گئے ہیں۔
ہاں میں، اس شاعر کو سمجھا دوں گا کہ وہ مر جائے۔ اس کی لاش کو کندھا دینے کے لیے پوری محلہ سدھار کمیٹی موجود ہے۔
چند دن ہوئے، محلہ میں کیرتن کرانے کے لیے چندہ اکٹھا کیا گیا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ اس کیرتن سے محلے میں کتنے فیصدی روحانی جذبات پیدا ہوئے۔ مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ کیرتن کے بعد پولیس آئی اور ہمارے محلے کے لالہ کانشی رام جی کو لوہے کی بلیک کے جرم میں گرفتار کر کے لے گئی۔ حالانکہ لالہ جی نے کیرتن کے لیے سب سے زیادہ چندہ دیا تھا اور کیرتن کے بعد اپنے ہاتھ سے مقدس پرشاد بانٹا تھا (کیا یہ افواہ سچ ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو نسبتاً زیادہ پرشاد دیا تھا؟) بہرکیف مجھے پولیس کا یہ فعل پسند نہیں آیا کیونکہ اس نے کیرتن کے روحانی اثرات پیدا ہونے کا بھی انتظار نہیں کیا۔ دراصل لالہ کانشی رام سے زیادہ ہمیں پولیس میں روحانی جذبات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ کیرتن کے تقدس کو اس طرح ہتھکڑیاں پہنائی جاتی رہیں گی۔
جب میں نے جیل میں لالہ کانشی رام سے ملاقات کی اور پوچھا کہ کیرتن کا یہ غلط نتیجہ کیوں نکلا تو انہوں نے فلاسفروں کی طرح جواب دیا، ’’لوہے کی بلیک ایک انفرادی مسئلہ ہے۔ آپ اسے کیرتن کے جماعتی نتیجے سے کیوں ملاتے ہیں۔ دیکھ لینا مجھے کیرتن کا پھل الگ ملے گا اور میں چھوٹ جاؤں گا۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ میں نے تشریحاً پوچھا۔
وہ مسکرائے اور بولے، ’’بھگوان نے میری عبادت سے متاثر ہو کر پولیس کی بدھی بھرشٹ کردی ہے اور وہ میرے ساتھ رشوت کی بات چیت چلا رہی ہے۔ کیرتن کا پھل رائگاں نہیں جاتا فکر صاحب! آپ کی عبادت میں سچی عقیدت اور خلوص ہونا چاہیے۔ میں پوچھتا ہوں ذرا بتائیے، پولیس کی بدھی بھرشٹ کرنے میں کس کا ہاتھ ہے؟‘‘
بھائیو بہنو! لالہ کانشی رام کی یہ تشریح اگرچہ انوکھی اور ناقابل فہم تھی لیکن اگر وہ واقعی رہا ہو گئے تو کیا ہم میں سے کسی کی جرات ہے کہ کیرتن کے روحانی اثرات سے انکار کریں۔ البتہ صرف ایک شبہ میرے دل میں ابھی تک رینگ رہا ہے کہ اس کیرتن کے بعد محلے کے بھگوان داس چپراسی کا سامان جب اس کے مالک شری نارائن داس نے باہر پھینک دیا تو کیرتن کا پھل بھگوان داس چپراسی کو کیوں نہیں ملا۔ حالانکہ کیرتن میں اس نے سب سے زیادہ سرمستی اور عقیدت اور خلوص کے ساتھ ڈھول بجایا تھا اور رات بھر جگتا اور گاتا رہا تھا۔۔۔ کیا کوئی ایسا اہتمام نہیں ہو سکتا کہ خدا بھی اپنی بدھی بھرشٹ کر لے۔
یہ محلہ سدھار کمیٹی کا فرض ہے کہ وہ رشوت کا بندوبست کرلے اور بھگوان داس چپراسی کو دوبارہ مکان دلا دے، ورنہ خطرہ ہے کہ محلہ میں کیرتن کی روایت غلط شکل اختیار کر جائے گی اور کیرتن کے روحانی اثرات میں تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کم از کم عبادت کی سطح پر تو چپراسی اور آئرن مرچنٹ میں فرق مٹ جانا چاہیے۔ ورنہ ہمارے محلے کے لوگ کیرتن کے لیے چندہ دینے سے ہچکچانا شروع کر دیں گے۔ ذرا سوچئے اگر چندہ جمع کرنے میں رکاوٹ پیدا ہو گئی تو کیا کیرتن منڈلی والے کم اجرت پر کیرتن کرنے سے انکار نہیں کر دیں گے۔
محلے کی ایک تعلیم یافتہ خاتون مسز وملا نے اپنی تقریر میں دھمکی دی ہے کہ اگر محلے کے بچوں میں گندی گالیاں دینے کی قبیح عادت ختم نہ کی گئی تو میں محلہ چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔ حضرات مجھے یقین ہے کہ وہ محلہ نہیں چھوڑیں گی۔ کیونکہ ان میں لیڈرانہ صفات پائی جاتی ہیں اور وہ محلہ کی عورتوں کی لیڈر بننا چاہتی ہیں۔ اگر محلہ کے تمام بچے آج فیصلہ کر لیں کہ وہ گندی گالیاں نہیں دیں گے تو مسز وملا کے لیے یہ انتہائی رنجیدہ فیصلہ ہوگا۔ کوئی لیڈر یہ نہیں چاہتا کہ گندی اور بری چیزیں ختم ہو جائیں۔ ہماری کمزوریاں، گندگیاں اور برائیاں ہی مسز وملا کا من بھاتا کھا جاہیں۔ ان کا خاتمہ مسز وملا کا خاتمہ ہوگا۔ ایک تیرانداز سے اگر یہ کہا جائے کہ تم بغیر نشانہ کے تیر چلاؤ تو اسے اپنے آرٹ کی توہین سمجھے گا۔ اسے آپ پر غصہ آئے گا اور ممکن ہے، غصہ میں محلہ چھوڑ کر چلا جائے۔
اگر مسز وملا، ابھی تک محلہ چھوڑ کر نہیں گئیں تو صرف اس لیے کیونکہ یہاں کے بچے برابر گندی گالیاں دیے جا رہے ہیں اور مسز وملا ان کی ماؤں کو برابر پھوہڑ، بدتمیز اور بدنصیب کہے جا رہی ہیں۔ جناب عالی! ایک تعلیم یافتہ عورت کے ذریعے غیر تعلیم یافتہ عورتوں میں احساس کمتری جاگ اٹھتا ہے اور جب لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہو جائے تو وہاں ایک نہ ایک لیڈر ضرور پیدا ہوتا ہے جو اس احساس کمتری کی ستار پر اپنا نغمہ الاپتا ہے۔
اس لیے حضرات! مسز وملا کی دھمکی کو بھی یک قسم کا نغمہ سمجھیے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے محلے کی عورتیں پھوہڑ اور بدتمیز نہ رہیں اور یہ نغمہ بند ہو جائے جسے سن سن کر ہمارے محلے کی عورتیں مست ہو رہی ہیں۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ گندی گالی تہذیب کے زوال کی علامت ہے اور مسز وملا نہیں چاہتیں کہ اس کے اپنے بچے بھی گندی گالیاں سیکھ جائیں۔ لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسز وملا یہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ ایسے قیمتی محلے کو جہاں بدتہذیبی زوروں پر ہے، چھوڑ کر چلی جائیں۔ دراصل مسز وملا اس محلہ کی عورتوں اور بچوں میں تہذیب کی داغ بیل ڈالنا چاہتی ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں کتنی قربانی دینی پڑے۔ چاہے اس کے اپنے بچے گندی گالیاں سیکھ جائیں۔ جناب! لیڈروں میں قربانی کا زبردست جذبہ پایا جاتا ہے، اس لیے مسز وملا کو قربانی کا موقع دیجیے، ورنہ ان کی افسردگی اور بڑھ جائے گی اور آنکھوں کے سیاہ حلقے اور گہرے ہو جائیں گے جو محلہ کی بدتمیزی پر کڑھتے رہنے کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں۔
بھائیو اور بہنو! اپنی تقریر ختم کرنے سے پہلے میں آخری گزارش کروں گا کہ اس محلے کے سدھار کے غم کو اتنا گہرا مت بنائیے۔ بلاشبہ آپ اس میں چند سطحی تبدیلیاں لے آئیے مگر کوئی بنیادی تبدیلی لانے کی مصنوعی کوشش نہ کیجیے۔ بیشک آپ چوہوں کو محلہ بدر کرنے کے لیے بلیاں پالنے کا پلان بنائیے، ان کے ساتھ کچھ بلے بھی لے آئیے گا تاکہ بلیوں کی زندگی ’’ڈل‘‘ نہ ہو جائے، محلے کی صفائی ستھرائی کے لیے کوئی مشترکہ فنڈ قائم کر لیجیے (فنڈ اتنا کم نہ ہو کہ اس میں غبن کی گنجائش نہ رہے) چوروں کو ڈرانے کے لیے ایک باتنخواہ پہرے دار بھی رکھیے (پہرے دار سوفی صدی جفاکش اور احمق ہوتا کہ چوروں سے نہ مل جائے) محلہ میں کسی کا انتقال ہو جائے، کسی کا جنم ہو جائے، کسی کی شادی ہو جائے یا کسی کا لڑکا لڑکی بھاگ جائے تو بیشک سب مل کر آنسو بہائیے یا قہقہے لگائیے (اور یہ سب کچھ اس لیے کیجیے کہ آپ سب کے ساتھ بھی یہ سانحہ ہو سکتا ہے۔)
غرض یہ سب کچھ کیجیے، جس کا آپ کے دل سے کوئی گہرا تعلق نہ ہو۔ جناب! میں یہ تھوڑی سی کڑوی بات اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ ہم اس سے زائد کچھ کر بھی نہیں سکتے، اور نہ ہم میں سے کوئی فرد محلہ سدھار کمٹی کو یہ اجازت دے گا کہ اس کے دل اور روح کی سلطنت پر حملہ کر دے۔ کیا آپ محلہ سدھار کمیٹی کو یہ اجازت دیں گے کہ وہ آپ کو انڈا کھانے کا حکم دے جبکہ آپ ٹماٹر کاٹ کر کھا رہے ہوں۔ ایک بار میں نے محلے کے ایک شخص سے کہا، ’’جناب! آپ کے چہرے پر جو داڑھی ہے وہ انتہائی بدنما لگتی ہے۔ آپ روزانہ شیو کیا کیجیے۔‘‘ تو وہ مجھ سے اتنا ناراض ہوا کہ میں اب اس سے ڈر کے مارے وہ دس روپئے بھی نہیں مانگتا جو اس نے مجھ سے قرض لیے تھے۔
اسی طرح ایک بار محلہ کے ایک معزز آدمی نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ آپ پان مت کھایا کیجیے۔ اس سے آپ کے دانت جھڑ جائیں گے۔۔۔ میں حیران ہوا کہ میرے دانت جھڑنے سے اس آدمی کو کیا دلچسپی ہے؟ کیا صرف اس لیے میں اس کی بات مان لوں کہ میں کبھی کبھار اس سے اخبار پڑھنے کے لیے مانگ لاتا ہوں؟
اس لیے جناب! ہم ایک محلے میں رہنے کے باوجود الگ الگ انسان ہیں۔ محلہ سدھار کمیٹی اگر ہم الگ الگ انسانوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنا چاہتی ہے تو یہ اس کی سنگدلی ہے بلکہ ایک غیرفطری حرکت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ نے مجھے خصوصی مہمان کی عزت دے کر غیرفطری باتیں کہنے پر پابند کر دیا۔ آپ کے ماتھے پر اس وقت جو شکن پڑ رہے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں نے اس پابندی کو کیوں توڑ دیا ہے اور اس کرسی کے ٹوٹنے والے پائے کا ذکر کیوں کر دیا جو شاید لالہ کانشی رام کے گھر سے لائی گئی ہے اور جو آج کل بلیک کے جرم میں جیل میں بند ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.