مشاعرے تو بہت ہوتے ہیں لیکن ہر مشاعرہ کامیاب نہیں ہوتا اور صرف کامیابی بھی کافی نہیں ہوتی۔ مشاعرہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونا چاہئے۔ ایسی ہی کامیابی سے مشاعروں کا مستقبل روشن ہوتا ہے۔ مشاعروں کی کامیابی کا انحصار اب ہوٹنگ پر ہے۔ ہوٹنگ معرکے کی ہوگی تو مشاعرہ بھی معرکۃ الآرا ہوگا۔ دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں ہوٹنگ کا معیار اچھا خاصا ہے لیکن اضلاع کے سامعین ہوٹنگ کے معاملے میں ابھی پسماندہ ہیں۔ بعض اضلاع میں اس کا معیار ٹھیک رہا ہے لیکن اس سلسلے میں ابھی انہیں بہت کام کرنا ہے۔ مشاعروں کے سیزن میں اضلاع کے کچھ مندوبین کو بڑے شہروں کے مشاعروں میں حاضر رہنا چاہیے۔
مشاعرہ ورک شاپ میں حصہ لئے بغیر اچھی ہوٹنگ نہیں آتی۔ بڑے شہروں میں تو بعض مشاعرے ایسے بھی ہوئے ہیں کہ مشاعرے کے دوسرے دن مشاعرہ گاہ کی چھت کی مرمت کروانی پڑی ہے، اس لئے اب زیر سما مشاعروں کا رواج بڑھتا جارہا ہے۔ زیر سما مشاعروں میں، شاعر تو نہیں لیکن سامعین سماں باندھ دیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مشاعروں میں شاعروں کے کلام کا مقابلہ ہوتا ہے، اب سامعین کے کمال کا مقابلہ ہوتا ہے۔ مشاعرے بھی ٹکٹ سے ہونے لگے ہیں جو ایک لحاظ سے اچھی بات ہے۔
لنگر اور مشاعرے میں کچھ فرق ہونا چاہئے۔ لیکن افسوس اس کا ہوتا ہے کہ بڑی قیمت کے ٹکٹ خریدنے والے سامعین، ہوٹنگ میں اتنے جوش وخروش سے حصہ نہیں لیتے جتناکہ پیچھے کی صفوں میں بیٹھنے والے باذوق سامعین محنت اور مشقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے۔ کمزور طبقے پر زیادہ بار پڑتا ہے۔ بعض منتظمین مشاعرہ جو مشاعرے میں سناٹا چاہتے ہیں یا جنھیں ہوکا عالم پسند ہوتا ہے وہ اونچی قیمت کے ٹکٹ کا مشاعرہ کرتے ہیں یا صرف عطیات کے ذریعہ یہ کام کرتے ہیں۔
ایسے مشاعروں میں بھی ہال تو بھر جاتا ہے لیکن مشاعرے کا آنکھوں دیکھا حال ناقابلِ بیان ہوتا ہے۔ ان قیمتی مشاعروں کے سامعین، مشاعرے میں اس طرح بیٹھتے ہیں گویا کسی ڈی لکس سنیما ہال میں یٹھ کر انگریزی فلم کے مکالمے سمجھنے کی کوشش کررہے ہوں۔ مرد حضرات بار بار اپنے چشمے صاف کرنے اور خواتین اپنے اپنے آنچلوں کو پرچم بنانے کی فکر میں غلطاں وپیچاں رہتی ہیں۔
یہ بھی کوئی مشاعرہ سننا ہوا، شاعر آتا ہے جاتا ہے، وہ پڑھتا ہے یا گاتا ہے کسی کو پروا نہیں ہوتی۔ حتی کہ مزاح گو شاعر بھی بے باک سے بے باک شعر سنا کر یوں ناکام، نامراد لوٹتا ہے جیسے شب غم گزار کر جارہا ہو۔ سامعین میں سے کسی کی بھی زبان پر جوں نہیں رینگتی۔ کسی کے دہن مبارک سے ایک آواز آہ یا واہ کی نہیں نکلتی۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ مشاعرہ ہے یا کوئی جلسۂ تعزیت۔ اس خاموش مشاعرے اور ایک تعزیتی جلسے میں ایک نمایاں فرق یہ ہوتا ہے کہ سامعین احتراماً سر جھکاکر دو منٹ کے لئے کھڑے نہیں ہوتے۔ کم سے کم یہی کریں۔ شاعروں کو پتہ تو چلے کہ ہال میں جو لوگ تشریف فرماہیں زندہ ہیں اور زندہ ہیں تو بیمار وناتواں نہیں ہیں۔
مدعوئین، عطیہ اور عطیہ دہندگان حضرات اتنے لئے دیئے رہتے ہیں کہ ان کے پاس دینے کو کچھ ہوتا نہیں ہے، شعراء صاحبان تو تعزیتی کلمات کو کلمات خیر سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی شاعر طبعاً قنوطی نہیں ہوتا، لیکن اگر سامعین، شعراء سے خوفزدہ ہوکر دم سادھے بیٹھے رہیں تو مشاعرے کے اٹھنے کی بات تو دور رہی، خود شاعروں کا اپنے آپ پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ شاعروں کے کانوں میں کوئی نہ کوئی آواز پڑنی ہی چاہیے۔ آواز ہو یا آوازہ، اس کے لیے اس کی سماعت کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔
صحیح معنوں میں مشاعرہ وہ ہوتا ہے جب مشاعرہ گاہ میں زندگی رواں دواں ہو، مشاعرہ گاہ میں کیفیت کچھ ایسی ہونی چاہئے، جس سے یہ معلوم ہو کہ شاعروں کو سننے سامعین نہیں آئے، سامعین کا مورچہ آیا ہوا ہے۔ خوبصورت پنڈال جگمگاتا شہ نشین اور جگہ جگہ ایک ہزار کینڈل پاور کے قمقمے یہ سب بیکار ہیں۔ اصل چیز ہے ہوٹنگ۔ مشاعروں میں یہ نہ ہو تو منتظمین مشاعرہ مایوس ہوجاتے ہیں۔ ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھرجاتا ہے۔ جس طرح شاعر مشاعرے کی تیاری کرتے ہیں، اپنی غزل کی دھن بناتے ہیں۔ اس کے کئی ریہرسل کرتے ہیں، اسی طرح سامعین کو بھی باضابطہ تیاری کرنی چاہئے۔ مشاعروں میں یک رخی طریقہ اختیار کرنا ادب دشمنی ہے۔
مشاعروں میں ہوٹنگ کی ابتداء کب اور کہاں ہوئی اس کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ مشاعرہ خود اور مشاعرے کے دیگر لوازمات (جن میں ہوٹنگ شامل ہے) شمالی ہند کی دین ہیں۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کی رسم اجراء کہاں انجام دی گئی۔ تحقیق اس بات کی کرنی چاہئے کہ ٹکٹ سے پہلا مشاعرہ کس جگہ منعقد ہوا؟ اسی مشاعرے میں سامعین نے شور مچایا ہوگا۔ اسی احتجاج نے بعد میں ہوٹنگ کی شکل اختیار کی۔ جب یہ شروع ہوئی تو منظور نظر منتظمین مشاعرہ تھے۔ اب توجہ کا مرکز شاعر ہیں۔ تاہم اب بھی کہیں کہیں ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں سامعین نے شعراء کو نظر انداز کردیا بلکہ ان کی قیمت بڑھائی کہ آپ اپنا کلام سناتے رہئے ہمیں تو ان کی تلاش ہے جو آپ کو یہاں لائے ہیں۔
ہوٹنگ اب شوق یا شغل نہیں ہے ایک فن ہے اور اس میں بھی وہی صنائع بدائع ہونے چاہئیں جو شاعری میں مستعمل ہیں۔ ہوٹنگ میں اسقام کا پایا جانا معیوب ہے۔ کچھ لوگوں نے عملی تنقید کی طرح عملی ہوٹنگ کی بھی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر شاعروں کی سرکوبی کے لئے عملی ہوٹنگ سے کام لیا گیا ہے، لیکن ان وارداتوں میں ایلڈرس نے کبھی حصہ نہیں لیا۔ ان وارداتوں کو یوتھ فیسٹول سمجھ کر شاعروں کی تاریخ سے حذف کردینا چاہئے۔ ہوٹنگ دلچسپی کی چیز ہے، دل شکنی کاحربہ نہیں۔ اسی لئے عملی ہوٹنگ مقبول نہیں ہوسکی۔ مشاعروں میں آلات و ظروف استعمال نہیں کئے جاسکتے۔ میونسپل کارپوریشن کے اجلاس کی بات اور ہوتی ہے۔
چند مشاعرے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مشاعرہ بعد میں شروع ہوتا ہے، ہوٹنگ پہلے شروع ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شاعروں اور سامعین کے درمیان صدر مشاعرہ حائل ہوجاتے ہیں۔ نثر کے جلسوں میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ صدر جلسہ سب سے آخر میں تقریر کرتا ہے لیکن مشاعروں کا قاعدہ مختلف ہے۔ یہاں صدر کو پہلے موقع دیا جاتا ہے اور جب صدر یہ بھول جاتا ہے کہ یہ محفل مشاعرہ ہے تو سامعین مجبور ہوجاتے ہیں کہ صدر کو زیادہ دیر کھڑا نہ رہنے دیں اور کچھ ہی دیر میں صدر مشاعرہ کو پسپا ہوکر بیٹھ جانا پڑتا ہے۔
صدر مشاعرہ کی پسپائی مشاعرے کی کارروائی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ صدر کئی منٹ تک بحال نہیں ہوپاتا اور جب شاعر اس سے کلام سنانے کی اجازت طلب کرتا ہے تو وہ اس طرح اجازت دیتا ہے جیسے اس کا بڑا بھاری مالی نقصان ہورہا ہو۔ صدر مشاعرہ پر اگر ہوٹنگ ہوجائے تو ابتدائی دوتین شاعروں کو خالی ہاتھ واپس ہونا پڑتا ہے۔ ہال میں خاموشی تو نہیں ہوتی لیکن جو کچھ ہوتی ہے، اسے ہوٹنگ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اسے از سر نو شروع کرنے میں ذرا دیر لگتی ہے۔
دوچار شاعر یوں ہی گزر جاتے ہیں اور مشاعرے کی تمہید اچھی نہیں ہوتی لیکن جب پانچواں شاعر میدان کارزار میں آتا ہے تو مشاعرہ اچانک جاگ پڑتا ہے اورسارے سامعین باتفاق آرا اور بآواز بلند اس شاعر کی فرمائش کرتے ہیں جو اپنا ایک مصرع تحت میں ایک ترنم میں سناتا ہے۔ اب مقابلہ آرائی ہوتی ہے سامعین میں اور اناؤنسر میں۔ یہی اناؤنسر کی آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔ اس کرائسس میں وہی اناؤنسر سرخرو ہوتا ہے جسے اچھے اچھے اشعار اور لطائف یاد ہوں۔ اناؤنسر ابھی آلات حرب سے سامعین کو زیر کرتا ہے اور مائیکروفون پر ایستادہ شاعروں کو سنوا کر ہی دم لیتا ہے۔
شاعر مذکور کی روانگی کے بعد سامعین اس شاعرہ کی فرمائش کرتے ہیں جو زر کے بارڈر کی ریشمی ساڑھی میں ملفوف ڈائس پر کچھ اس طرح بیٹھی ہوتی ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں کسی پہلو قرار نہیں آرہا ہے۔ یہاں اناؤنسر بکمال ہوشیاری، صلح جوئی سے کام لیتا ہے اور خیر سگالی کے طورپر زر کے بارڈر کی ریشمی ساڑھی میں ملفوف شاعرہ ہی کو آواز دیتا ہے جو اپنی مسکراہٹ کے گل اور ثمر تقسیم کرتی قدم رنجہ فرماتی ہیں اور آدھے سے زیادہ سامعین ریشہ خطمی ہوکر رہ جاتے ہیں (یہ وہی سامعین ہوتے ہیں جنھوں نے اونچی قیمت کے ٹکٹ خریدے ہوتے ہیں) باقی کے نصف سامعین کو ہوٹنگ کا فرض نبھانا پڑتا ہے، کیونکہ شاعرات بھی ہوٹنگ کی مستحق ہوتی ہیں۔
مردوں اور عورتوں کے مساویانہ حقوق کا مشاعروں میں بھی خیال رکھنا پڑتا ہے لیکن شاعرات کے حصے کی ہوٹنگ الگ نمونے کی ہوتی ہے۔ دبی دبی آوازیں بہتر مانی گئی ہیں۔ گھٹی گھٹی آہیں بھی سودمند ہوتی ہیں، یہ سارے انداز ہوٹنگ ہی کے ہیں۔ کہا جاتا ہے ان دنوں خانۂ برانداز چمن قسم کی شاعرات اہل سخن شاعرات کے مقابلے میں زیادہ مقبول ہورہی ہیں۔ ہوٹنگ بھی سلیقے کی ہورہی ہے۔ ان شاعرات کو مشاعرے سے واپسی میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پروانوں کو یہ فکر مارے ڈالتی ہے کہ شمع جاتی کدھر ہے۔
کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود شاعر کو ہوٹنگ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ ان کی ہوٹنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔ مشہور یہ ہے کہ ایک مشاعرے میں کسی گوشے سے بچے کے رونے کی آواز آئی تو شاعر نے اپنا شعر درمیان میں ہی روک لیا اور فی البدیہہ یہ پوچھا کہ نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریر کا، یہ بھی ایک طرح کی ہوٹنگ ہوئی لیکن بالواسطہ شیرخوار بچہ درمیان میں تھا۔ بلاواسطہ ہوٹنگ کے بھی مواقع آئے ہیں لیکن ان مکالموں میں فلمی رنگ آ جاتا ہے اور شاعر کو اپنے اشعار کی ری ٹیک میں بڑی دقت ہوتی ہے۔ بعض صورتوں میں شاعر بہت ناراض ہوجاتا ہے اور اناؤنسر کو سیزفائر کی تجویز پیش کرنی پڑتی ہے۔ اس موقع پر کوئی لطیفہ کارگر نہیں ہوتا۔ ہوٹنگ میں جارحانہ انداز مشاعرے کے آداب کے منافی ہے، شاعر اپنے آپ کو ہوٹ ہوتا تو دیکھ سکتا ہے لیکن شوٹ ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔
ہوٹنگ کو ذہنیت کا نہیں، ذہانت کا مظاہرہ مانا گیا ہے۔ اگر شاعر مشاعرے میں اپنی کئی مرتبہ کی آزمودہ نظم سنانا چاہے تو سامعین کو حق ہے کہ وہ شاعر سے فرمائش کریں کہ وہ اپنی اس سے زیادہ کہنہ نظم سنائے۔ کوئی شاعر اگر اپنے اشعار ڈائس پر بیٹھے ہوئے مختلف شعراء کی نذر کررہا ہو تو سامعین اس عمل پر بھی تحدید عائد کرسکتے ہیں بلکہ خود شعراء صاحبان کو بھی اس قسم کے نذرانے قبول نہیں کرنے چاہئیں۔
مصرعے اگر گر رہے ہوں تو سامعین شاعر سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مصرعے نہیں اٹھائے جاسکتے۔ مصرع اگر نہ اٹھ سکے تو سامعین کو حق ہے کہ وہ شاعر ہی کو اٹھادیں اور اگر شاعر کھڑا ہو تو اسے بٹھا دیں۔ اسے ایک لحاظ سے بدقسمتی ہی سمجھنا چاہئے کہ اعلیٰ درجے کی ہوٹنگ کرنے والے سامعین کو نام بنام شہرت کبھی نصیب نہیں ہوئی۔ انہوں نے دراصل کام چھوڑا ہے کہیں نام نہیں چھوڑا ہے لیکن جہاں تک شاعروں کی طرف سے ہوٹنگ کا تعلق ہے، اس ضمن میں کئی نام لیے جاتے ہیں اور مولانا حسرت موہانی کا نام تو خاص طور پر بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔
ایک مشاعرے میں کلام سناتے وقت جب مولانا کو اپنے شروع کے دوتین اشعار پر داد نہیں ملی بلکہ سامعین نے چپ سادھ لی تو مولانا نے کاغذ تہہ کیا اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے کہ باقی کے اشعار بھی ایسے ہی ہیں۔
یہ ایک طرح کی ہوٹنگ ہی تھی، اس لئے کہا گیا ہے کہ اچھی اور معیاری ہوٹنگ کسی بھی محاذ سے ہوسکتی ہے۔ یوں بھی مشاعروں میں نہ تو کوئی حزب مخالف ہوتا ہے نہ سرکاری پنچ۔ مشاعرہ گاہ میں صرف شاعروں اور سامعین کے درمیان شوخی کلام اور انداز بیان کا دوستانہ مقابلہ ہوتا ہے۔ مقابلہ کتنا ہی کڑا کیوں نہ ہو، مشاعرہ تو شاعر ہی لوٹتے ہیں، سامعین بالعموم خالی ہاتھ لوٹتے ہیں۔ وہ ہوٹنگ بھی کرتے ہیں تو اپنی گرہ سے اس کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔ اس طرح ان کے ذوق کی نہ سہی شوق کی تکمیل تو ہو جاتی ہے۔
بعض مشاعروں میں شاعر اور سامعین گھر بیٹھے ہوٹنگ کر لیتے ہیں۔ اس طریقۂ کار میں ان دونوں کے درمیان دیر سے آنے کا مقابلہ ہوتا ہے اور اس میں فریقین کی عدم موجودگی ہی ان کو کہی ہوٹنگ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مشاعرے ہوتے ضرور ہیں لیکن اس وقت شروع ہوتے ہیں جب ان کے اختتام کا وقت طلوع ہوتا ہے۔ اس قسم کے مشاعرے منتظمین مشاعرے کو روپوشی پر مجبور کرتے ہیں۔ منتظمین انتخاب میں جیتنے والے امیدواروں کی طرح کئی سال تک اپنے حلقے میں نظر نہیں آتے۔
اچھا کلام، عمدہ انتظام اور مناسب ہوٹنگ کا اہتمام، یہ تین عناصر ہیں جن سے مشاعرہ بنتا ہے۔ اچھے کلام کی ذمہ داری شاعروں کی ہوتی ہے (اس لئے بعض شاعر، دوسروں کا کلام لے آتے ہوتی ہے) اور ہوٹنگ کا کارنامہ سامعین کو انجام دینا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی سامعین کی فوج بے قاعدہ واقعی کام کرجاتی ہے۔ یہ سہ جماعتی ٹیم ہوتی ہے اور اس اتحاد ثلاثہ کا ایک فریق بھی کمزور پڑ جائے تو مشاعرہ بگڑتا نہیں اکھڑ جاتا ہے اور بے جڑ کے پودے کہیں پنپے ہیں جو مشاعرہ پنپے گا۔ تین پاؤں کی دوڑ، ساری دوڑوں میں مشکل ترین دوڑ ہوتی ہے۔ کہنے کو پاؤں سے کام لینا پڑتا ہے لیکن اصل میں سر زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے اچھی اور پائے کی ہوٹنگ نے اچھے شاعر بھی پیدا کیے ہیں۔ کچھ اچھے شاعر شاید ہوٹنگ کی وجہ سے مارے بھی گیے ہوںلیکن یہ صرف ان شاعروں کے ساتھ ہوا ہوگا جن کی تعمیر میں خرابی کی کوئی صورت پہلے ہی سے مضمر تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.