نانی چندو
خدا معلوم یہ ہماری نانی چندو دنیا میں تشریف ہی کیوں لائیں۔ اور اگر لائی بھی تھیں تو نانا صاحب قبلہ کے حصے میں کیوں آئیں۔ اور اگر آئی بھی تھیں تو ہمارے زمانے تک یہ کیوں زندہ رہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے مگر ان کی ہر بات میں تنزل ہے۔ پہلے حور کی صورت تھیں اس کے بعد انسانوں کی شکل ہوئیں، اور اب انسان تو کیا شاید کوئی جانور بھی ان کی صورت کا ہو تو ہو۔ پہلے ماہ افروز تھیں۔ اس کے بعد گھٹ کر چاندنی خانم ہوئیں اور اب صرف نانی چندو رہ گئیں۔
اللہ کے بھی کچھ عجیب کارخانے ہیں۔ جوان مرے چلے جاتے ہیں اور نہیں مرتیں تو یہ سوا سو برس کی نانی چندو۔ گھر والے دوسروں کے مرنے پر روتے ہیں اور ان کے جینے پر روتے ہیں۔ خود ان کی یہ حالت ہے کہ مرنے کا نام آیا اور یہ رو دیں۔ مطلب یہ ہے کہ باوجود بھگڑی بیر ہو جانے کے یہ ابھی اس دنیائے فانی سے تشریف لے جانا پسند نہیں کرتیں۔ بچوں کو ان کی چڑھ ہاتھ آ گئی ہے۔ ایک آیا اور کان میں کہہ گیا کہ ’’نانی چندو اب تم کب مروگی؟‘‘ انہوں نے سنا اور کوسنے دینے شروع کئے۔ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا اور انہوں نے کہا، ’’دیکھنا بوا۔ یہ کون دروازہ دھڑ دھڑا رہا ہے۔ غضب خدا کا مامائیں بہری ہو گئیں ہے۔ جواب تک نہیں دیتیں۔‘‘ ان کا اتنا کہنا اور کسی نہ کسی نے آ کر چپکے سے کہہ دیا، ’’نانی تمہارے ہی پاس ایک صاحب آئے ہیں۔‘‘ انہوں نے پوچھا، ’’اری، میرے پاس کون آنے لگا۔ تو مجھ سے بھی مذاق کرتی ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا ’’نانی، میں کوئی جھوٹ تھوڑی بولتی ہوں، اللہ میاں نے تمہارے لے جانے کو فرشتے بھیجے ہیں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ نانی چندو نے ہزاروں صلواتیں سنانی شروع کر دیں۔ غرض گھر میں سارے دن یہی آفت بپا رہتی ہے۔ بڑے تو بڑے بچے بھی تو ان کے ستانے میں کسر نہیں کرتے۔ رضیہ مولوی صاحب کے پاس سے آئی۔ سیدھی نانی چندو کے پاس پہنچی اور کہنے لگی، ’’اجی نانی، اجی نانی، آج ہم نے بڑے مزے کاسبق پڑھا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’شاباش بیٹا، جلدی جلدی پڑھ کر اپنے بھائی سے آگے بڑھ جا۔ ہاں تونے آج کیا پڑھا۔‘‘ رضیہ نے کہا، ’’الحمد۔ نانی چندو، چوہا لٹکے، بلی ٹپکے۔‘‘ یہ سننا تھا کہ نانی چندو کا پارہ سوا سو ڈگری پر پہنچ گیا۔ اور اس کے بعد جو انہوں نے برا بھلا کہنے کی لین لگائی تو جب چیختے چیختے گلا ہی خشک ہو گیا اس وقت کہیں جا کر چپکی ہوئیں۔
خیر اب تو یہ نانی چندو ہیں۔ مگر پہلے کی کچھ نہ پوچھو کہ یہ کیا تھیں۔ سارے دلی شہر میں کوٹھوں پر بیٹھنے والیوں کی ناک تھیں۔ شکل خدا نے وہ دی تھی کہ انسان دیکھے اور عش عش کرے۔ آنکھوں میں وہ جادو بھرا تھا کہ جس کو نظر بھر کر دیکھ لیا وہ ان کا کلمہ پڑھنے لگا۔ بڑے بڑے رئیس اور امیر ان پر لوٹ تھے مگر ان کا وہ رکھ رکھاؤ تھا کہ کسی کو اپنی حد سے بڑھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ گلا اس غضب کا پایا تھا کہ جس نے سنا وہ محو ہو گیا۔ علم موسیقی میں ایسا دخل تھا کہ تان سین خاں کان پکڑ تے تھے۔ بادشاہ سلامت نے بھی کئی دفعہ کوشش کی کہ یہ قلعہ میں آ کر کچھ سنائیں۔ مگر ان کا وہ دماغ تھا کہ صاف انکار کر دیا۔ خدا معلوم صحیح ہے یا غلط مگر سنتے تو یہ ہے کہ بھیس بدل کر خود بادشاہ سلامت ان کا گانا سننے آیا کرتے تھے۔ جب صورت شکل ایسی ہو، گلا ایسا ہو، آواز ایسی ہو، فن ایسا ہو تو پھر روپے پیسے کی کیا کمی ہو سکتی ہے۔ گھر میں ہن برستاتھا۔ بڑا زبر دست کارخانہ تھا نوکر، چاکر، مامائیں، اصیلیں، غرض سیکڑوں آدمی بھرے پڑے تھے اور اب۔
اب کی کچھ نہ پوچھو۔ اب تو ان کو دیکھ کر کوئی کہہ بھی نہیں سکتا کہ یہ وہی ماہ افروز ہیں جن پر ساری دلی جان دیتی تھی۔ کمر جھک کر دوہری کیا تہری ہو گئی ہے۔ چہرے پر جھریاں اس غضب کی پڑی ہیں کہ الو کیا ہوا کپڑا بھی کیا ہوگا۔ آنکھیں اندر دھنس کر غائب ہو گئی ہیں۔ پپوٹوں نے لٹک کر آنکھوں پر پرد ہ ڈال دیا ہے۔ دانتوں نے ٹوٹ کر ہمیشہ کے لیے منہ کھول دیا ہے۔ زبان کسی روک نہ ہونے کی وجہ سے اکثر باہر نکلی رہتی ہے۔ چو کا دب جانے سے ناک جھک کر ہونٹوں پر آگئی ہے۔ گھٹنے کانوں سے نکل کر سر سے بھی کچھ اوپر نکل گئے ہیں۔ جب یہ بیٹھتی ہیں تو ان کا منہ ٹانگوں کے عین بیچ میں آ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی کھڑکی میں سے جھانک رہا ہے۔ اب رہی آواز تو آواز میں گورس نہیں رہا پھر بھی بلندی وہ ہے کہ کسی جوان آدمی کی بھی کیا ہوگی۔ بچاری اپنی پہلی حالت کا اکثر ذکر کیا کرتی ہیں کبھی رو دیتی ہیں اور کبھی ہنسنے لگتی ہیں۔
ہمارے ہاں ایک ماما ہے۔ شکل و صورت تو کچھ واجبی واجبی ہے۔ ہاں بال اتنے بڑے ہیں کہ سارے ہندوستان میں کوئی دس پانچ عورتوں ہی کے ہوں گے۔ بلا مبالغہ ایڑی تک آتے ہیں۔ ایک دن میری چھوٹی بہن بی عزیزہ نے کہا، ’’نانی میرے بال موئے بڑھتے ہی نہیں۔ چقندر کا تیل ڈالا مہینوں مالش کی۔ دال سے سر دھویا، حکیم جی کا بتایا ہوا تیل دنوں سر میں رگڑا لیکن بال بڑھتے تو کہاں۔ الٹے اترے چلے جا رہے ہیں۔ کنگھی کرتی ہوں تو لچھے کے لچھے اترتے ہیں، اور اس نگوڑی نصیبن کو دیکھو اس کے بال بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ابھی پاؤں تک آتے ہیں۔ آگے چل کرپاؤں میں آئیں گے۔ اور ڈالتی موئی کیا ہے دھوئی تلی کا تیل۔ آخر آپ بھی تو دنیا دیکھے ہوئی ہیں۔ آپ ہی کوئی نسخہ بتائیے۔‘‘ نانی چندو نے ایک بڑا لمبا سانس کھینچا اورکہنے لگیں، ’’بیٹی کیا بتاؤں تم میرے بال دیکھتیں تو حیران رہ جاتیں۔ اے ہے اتنے بڑے ہو گئے تھے کہ مجھ سے تو کنگھی بھی نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔ دو دو، تین تین، مامائیں ہاتھ لگاتیں جب کہیں جا کر دو ڈھائی گھنٹہ میں کنگھی ہوتی۔‘‘
عزیزہ نے کہا، ’’اے ہے نانی، اب تو تمہارے سر میں ان بالوں میں کا ایک بال بھی نہیں رہا۔ بچاری عزیزہ نے تو بالکل بھولے پن سے یہ بات کہی تھی اور بی نانی چندو نے اس کو طعنہ سمجھا۔ نسخہ بتانا تو کیسا اس غریب کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا۔ ایسی بری طرح اس بچاری کو لیا کہ رونکھی ہو گئی۔ وہاں سے اٹھ کر دالان میں آئی اور اماں جان سے شکایت کرنے لگی۔ مجھ کو نانی چندو کی یہ بات بری لگی۔ چپکے سے وہاں سے اٹھ نصیبن کوجا کر ایک پیسہ دیا۔ اور اس کا ایک بال جڑے سے اکھیڑ کر نانی چندو کے پاس لے گیا۔ انہوں نے جو میری آہٹ پائی تو بولیں، ’’کون، سعید!‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں نانی میں ہوں، آپ کے لئے تحفہ لایا ہوں۔‘‘
تحفہ کا نام سنتے ہی بڑی بی کی باچھیں کھل گئیں۔ کہنے لگیں، ’’بیٹا کیا لایا، لا دے مجھے۔ کس نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے کہا، ’’آپ کی جو ماما اختری تھی نا۔ اس نے بھیجا ہے۔‘‘ بولیں، ’’ہیں۔ اختری ارے کیا بکتا ہے۔ اختری کو مر کر تو پچاس برس ہوئے۔ تو بڈھوں سے بھی مذاق کرتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’نانی جان یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ اختری مر چکی ہے۔ اس نے یہ تحفہ دلی سے تھوڑی بھیجا ہے جنت سے بھیجا ہے، اور لکھا ہے کہ آپ کی ایک چیز کفن میں لپٹ کر چلی آئی تھی۔ میں نے سینت کر رکھ لی تھی۔ خیال تھا کہ جب آپ آئیں گی تو دے دوں گی۔ آپ آنے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ قیامت قریب آرہی ہے۔ مجھے ڈر لگا کہ آپ کی چیز اگر آپ کو نہ پہنچ گئی تو حشر میں کیا جواب دوں گی۔ اس لئے آپ کو بھیجے دیتی ہوں۔ نانی اماں لیجئے یہ اپنی چیز۔‘‘
میرے مسخرے پن کو وہ اچھی طرح سمجھ گئیں مگر ’’چیز‘‘ ایسا لفظ تھا کہ بے اختیار انہوں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ میں نے نصیبن کا وہ بال ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ پہلے تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا بلا ہے۔ جب ذرا دونوں ہاتھ سے ٹٹول کر اور کھینچ کر دیکھا تو بال نکلا۔ بڑی بگڑیں، میں نے کہا، ’’نانی جان آپ خفا کیوں ہوتی ہیں۔ انہی بالوں میں کا ایک بال تو ہے جس کی آپ عزیزہ سے اتنی تعریف کر رہی تھیں۔‘‘ میں تو یہ کہہ کر باہر نکل آیا ور ان کی جو زبان چلی تو پھر اس وقت جا کر رکی جب کھانا سامنے آیا۔ اور پلاؤ کی خوشبو ناک میں پہنچی۔
ہماری نانی چندو ندیدی ہیں۔ اور بڑی زوردار ہیں ندیدی اور مجھ سے پوچھو تو دنیا میں کوئی ایسا نہیں جو ندیدہ نہ ہو۔ ہاں یہ دوسری بات ہے کہ کسی کے ندیدے پن کو اس کے جبہ و دستار چھپائے ہوئے ہیں اور کسی کے عزت و وقار، بر خلاف اس کے کسی کا ندیدہ پن اس کے افلاس کی وجہ سے ظاہر ہو جاتا ہے تو کسی کے لباس سے۔ مگر ہیں سب کے سب ندیدے۔ ندیدہ پن ہے کیا چیز۔ کسی چیز یا شے کو دیکھنے سے خود بخود اعضاء میں ایک خاص قسم کی حرکت یا جوش کا پیدا ہونا کہ اس چیز کو خواہ کسی طرح بھی ہو، حاصل کیا جائے۔ بعض لوگوں کے اس خیال کو بوجہ ان کی بزرگی و عظمت کے محسوس نہیں کیا جاتا اور اگر محسوس کیا جاتا ہے تو اس کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ اور بعض لوگوں کےاس خیال کو ان کی کم مائیگی و عسرت کے کے باعث پوری طرح محسوس کیا جاتا ہے، اور دل کھول کر اس پر رائے زنی کی جاتی ہے۔ اس کے چرچے ہوتے ہیں، قصے بیان کئے جاتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے ان کی تشہیر کی جاتی ہے۔ لیکن غور سے دیکھو تو در اصل ہیں دونوں کے دونوں ندیدے۔
کیا آپ شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا وہ قصہ بھول گئے کہ کسی امیر کے ہاں دعوت تھی۔ شیخ ابھی ان دنوں اسی شہر میں آئے ہوئے تھے۔ دعوت کی سن کر پھٹے کپڑوں اور زدہ حال سے دعوت میں پہنچے۔ دستر خوان پر بیٹھے اور بیٹھتے ہی شیرمال گھسیٹی۔ لوگوں نے ندیدہ سمجھ کر کھڑے کھڑے ان کووہاں سے نکالا مگر شیخ بھی طرفہ معجون تھے۔ سیدھے ایک دکان پر گئے۔ مولویوں کا سا لباس کرایہ پر لیا ور جون بدل کر پھر اسی دعوت میں آ دھمکے۔ لوگوں نے ان کی ظاہری حالت دیکھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انہوں نے دستر خوان پر بیٹھتے ہی شیر مال پر ہاتھ ڈالا۔ میز بان نے نکالنا تو کجا ان کی طرف طرح طرح کے کھانوں کی رکابیاں بڑھانی شروع کیں۔ جو رکابی آتی اس میں سے بہت سا کھانا نکالتے اور اپنی آستینوں میں بھر لیتے۔ تمام لوگ ان کی اس حرکت سےحیران تھے۔
آخر انہوں نے ہی یہ معمہ خود حل کیا اور کہا، ’’دوستو! تم میری دعوت نہیں کر رہے، میرے کپڑوں کی دعوت کر رہے ہو۔ اس لیے میں خود کچھ نہیں کھاتا، ان کپڑوں کو ہی کھانا کھلاتا ہوں۔ میں تو وہی ہوں جس کو ابھی ندیدہ سمجھ کر تم نے دستر خوان سے اٹھا دیا تھا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ دونوں قسم کے لباس میں تھے تو شیخ سعدی ہی۔ پھر کیا وجہ تھی کہ ایک دفعہ ان کو ندیدہ سمجھ کر نکال دیا گیا اور دوسری دفعہ ایسی خاطر تواضع کی گئی۔ بات یہ ہے کہ جو اصول میں نے اوپر بیان کیا ہے وہی یہاں بھی پورا اترا کہ محض لباس اور وضع قطع لوگوں کے خیالات بدل دے تو بدل دے ورنہ ہوتے ہیں سب ندیدے۔ خواہ شاہانہ لباس میں ہوں یا فقیروں کے چیتھڑوں میں۔
اگر آپ اس واقعے کو محض قصہ سمجھتے ہیں تو خود تجربہ کر لیجئے۔ دو شخصوں کو بلوائیے، جن میں ایک کو آپ ندیدہ کہتے ہوں اور دوسرے کو سیر چشم۔ دونوں کی دعوت کیجئے لیکن دستر خوان اس وقت تک نہ بچھوائیے جب تک دونوں کی انتڑیاں قل ہوا للہ نہ پڑھنے لگیں۔ اس کے بعد طرح طرح کے خوشبودار کھانے سر پوش سے ڈھکی ہوئی قابوں میں لا کر دستر خوان پر چن دیجئے اور تھوڑی دیر تک ان کویوں ہی بند کا بند رہنے دیجئے۔ اس کے بعد اپنے دونوں مہمانوں کے منہ کسی طرح کھلوا کر دیکھئے، آپ کو معلوم ہوگا کہ دونوں کے منہ میں پانی بھرا ہوا ہے اور یہی ندیدہ پن کی خاص نشانی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایک صاحب اس پانی کو گھٹ کر کے نگل جاتے ہیں اور دوسرے کی بانچھوں سے یہ پانی بہہ نکلتا ہے۔ مگر در اصل ہیں دونوں ندیدے۔
خیر تویہ ندیدہ پن کا فلسفہ اور تجربے ہوئے۔ اب نانی چندو کا ندیدہ پن دیکھئے۔ خدا کی قدرت نظر آتی ہے کہ جس عورت کا دستر خوان کبھی رئیسوں اور بادشاہوں کا سا دسترخوان ہو، جس کو دنیا جہان کی نعمت میسر رہ چکی ہو، جس کی تمام عمر اچھی سے اچھی نعمتیں کھا کر گزری ہو۔ وہ اپنی آخری عمر میں ایسی ندیدی ہو جائے کہ گھر میں کسی چیز کا آنا مشکل ہو۔ یہ نہیں تھا کہ گھر میں جو چیز آتی ہو وہ نانی چندو کو نہ ملتی ہو۔ یہ نہیں تھا کہ جو چیز وہ مانگتی ہوں وہ ان کونہ منگا دی جاتی ہو مگر ا س کا کیا علاج کہ اگر ان کو پلاؤ دو تو ان کا جی دال کھانے کو چاہے اور اگر دال دو تو پلاؤ پر ان کی رال ٹپکے۔ پیٹ بھر کر خر بوزے کھائیں اور آنکھ بچا کر چھلکے بھی حلق سے اتار لیں۔
زنانہ مکان میں جو صحن چبوترہ ہے، اس کی ایک صخچی ان کو ملی ہوئی تھی۔ صدر کے جو دالان ہیں ان میں بی اماں رہتی تھیں۔ بی اماں کیا رہتی تھیں، ساری گھرداری اسی میں تھی۔ گھر میں کوئی چیز آئی اور نانی چندو کی ناک میں خوشبو پہنچی اور انہوں نے کسی چھوکری کو پکارا، ’’اری نبین، اری نبین، ذرا ادھر تو آئیو۔‘‘ بھلا چھوکریاں ان بڑی بی کی بات کو کب سننے والی ہیں۔ ایک کان سنا دوسرے کان اڑا دیا۔ مگر بڑی بی کوئی چپ رہنے والی ہیں۔ آسامی ہیں۔ کلیجہ پھاڑ پھاڑ کر برابر کسی نہ کسی کو آواز دیے ہی جاتیں۔ آخر کوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ آہی جاتا۔ یہ پوچھتیں، ’’بیٹا دیکھو۔ آج گھر میں کیا میوہ آیا ہے۔ کیا اچھی خوشبو آ رہی ہے۔ نارنگیاں معلوم ہوتی ہیں۔ ہاں بیٹا ذرا اصغری سے جا کر کہیو کہ دو پھانکیں مجھے بھی بھیج دیں۔ میرا گلا خشک ہو رہا ہے اور دیکھیو اگر تین پھانکیں لائی تو ایک تجھے بھی دوں گی۔‘‘
اس بچاری چھوکری نے آ کر بی اماں سے کہا۔ انہوں نے پوری دو نارنگیاں اٹھا بڑی بی کو بھیج دیں۔ اب نا ممکن ہے کہ نانی چندو ایک پھانک تو کجا ایک بھورا بھی اس لانے والی چھوکری کو دیں۔ خود نارنگیاں چھیلیں۔ خود کھائیں اور چھلکے اٹھا صحن میں پھینک دیے۔ ابھی نارنگیاں کھا کر فراغت کی تھی کہ کوئی بچہ نارنگی کھاتا ہوا ان کی صخچی کے پاس سے گزرا۔ انہوں نے آواز دی، ’’کون ہے سعید ہے۔‘‘ اس بچے نے کہا، ’’نہیں نانی میں ہوں رشید۔‘‘ بڑی بی بولیں، ’’بیٹا ذرا یہاں آئیو، کیا کھا رہا ہے۔ نارنگی ہوگی۔ میٹھی ہے یا کھٹی۔ بیٹا ایک پھانک ہمیں بھی دے۔ دیکھ اچھے بچے مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔ تنہاں خوری اچھی نہیں۔ لا بیٹا، لا۔‘‘
بھلا میا ں رشید کیا پگھلنے والے آسامی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اے ہے نانی جان، ابھی تو دو نارنگیاں کھا چکی ہو۔ مجھے تو بی اماں نے چار ہی پھانکیں دی ہیں۔ ان میں سے بھی حصہ بٹوانا چاہتی ہو۔ میں تو نہیں دیتا، جاؤ بی اماں سے مانگو۔‘‘ یہ کہہ کرمیاں رشید تو چلتے ہوئے اور نانی چندو نے لیکچر دینا شروع کیا، ’’بس اس گھر کا اللہ ہی مالک ہے۔ بچے ایسے نکلے ہیں کہ نوج کسی کے ہوں۔ ہر وقت منہ چلتا رہتا ہے اور اس پر نیت کا یہ حال ہے کہ ذرا کچھ مانگو تو سامنے سے ٹل جائیں۔ کیوں نہ ہو۔ بی اصغری کے بچے ہیں۔ ایسے نہ ہوں گے تو کیسے ہوں گے۔ یہ تو وہ ہیں کہ دوسروں کے حلق میں انگلی ڈال کر کھایا پیا سب نکلوالیں۔ اور کوئی مرتا بھی ہو تو اس کے حلق میں پانی کی بوند نہ ٹپکائیں۔ لاحول ولا قوۃ۔ میری بھی کیا بری قسمت ہے جو اس گھرمیں آ کر پڑی ہوں۔ وہ کیا مرے میری تومٹی پلید ہو گئی۔‘‘
غرض اس قسم کی باتوں کا تانتا یہاں تک بندھا کہ بی اماں کو کچھ بن نہ آئی اور نارنگیوں کی ٹوکری کی ٹوکری بڑی بی کے پاس لا کر رکھ دی کہ لو نگلو۔ اب نانی چندو کی شرافت دیکھئے کہ چپکے سے لے ٹوکری اپنے ٹین کے صندوق میں بند کر دی۔ یہ بھی خیال نہیں کیا کہ بچارے بچے یوں ہی منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
ایک دن کیا ہوا کہ بی اماں ان کے پاس بیٹھی تھیں کہ اتنے میں ابا میاں نے باہر سے خربوزے بھیجے اور کہلا بھیجا کہ ابھی کاٹ کر باہر بھیج دو۔ بی اماں نے رکابیاں اور چھری منگا کر خربوزے کاٹنے شروع کیے۔ نانی چندو کی حالت تھی کہ جہاں کوئی خربوزہ کٹا اور انہوں نے پوچھا، ’’دلہن، تم نے چکھا بھی، کس مزےکاہے۔ دیکھنا کہیں کوئی پھیکا خربوزہ باہر نہ بھیج دینا۔ لوگ کہیں گے کہ ان کو خربوزے بھی نہیں خریدنے آتے لاؤ مجھے دو۔ میں چکھوں۔‘‘ بی اماں جو خربوزہ کاٹتیں، اس کی ایک پھانک ان کوبھی دیتیں۔ دس بارہ خربوزے تھے، اتنی پھانکیں کھا کر بڑی بی کا پیٹ بھر گیا ہوگا، مگر نیت کا کیا علاج۔ رکابیاں باہر گئیں، بی اماں کسی کام سے دالان میں آئیں۔ تھوری دیر کے بعد جو جا کر دیکھتی ہیں، آدھے چھلکے غائب ہیں۔ ادھر دیکھا، ادھر دیکھا جب کہیں نظر نہ آئے تو گل بدن سے بلا کر پوچھا کہ آخر یہاں سے چھلکے کون اٹھا کرلے گیا۔
گل بدن بولی، ’’لے جانے کون لگا، بڑی بی کھا رہی تھیں اور اگر آپ نہ آ جاتیں، تھوڑی دیر میں یہ باتی آدھے چھلکے بھی ختم تھے۔‘‘ یہ سن کر بی اماں کو بہت غصہ آیا اور کہا، ’’اماں جان! یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے خدا کے لئے ایسی باتیں تو نہ کیا کیجئے۔ گھر میں جو چیز آتی ہے وہ پہلے آپ کو ملتی ہے۔ اور ملتی بھی ہے تو سب سے زیادہ۔ آخر اس طرح کی باتوں سے کیا فائدہ۔ گھر کی مامائیں ہنستی ہیں۔ چھوکریاں مذاق اڑاتی ہیں۔ گھر گھر آپ کی یہ باتیں پھیلتی ہیں۔ ہم کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ خدا کے لیے جس چیز کو آپ کا جی چاہے وہ منگوا لیا کیجئے، اور پیٹ بھر کر کھا لیجئے اور للہ یہ چھلکے کھانا چھوڑیے۔ کہیں ان کو معلوم ہو جائے تو دیکھئے کیا غل مچاتے ہیں۔‘‘
اب نانی چندو کا ظلم دیکھو کہ بجائے اس کے کہ شرمندہ ہوتیں، الٹی بی اماں کی جان کو آ گئیں۔ اپنے کو کوسنے دیے۔ مرنے والوں کو برا بھلا کہا۔ گھر بھر کی نکتہ چینی کی۔ چھلکوں کو گالیاں دیں۔ غرض دوگھنٹے تک یہی باجا بجتا رہا۔ بی اماں توگھبرا کر وہاں سے اٹھ آئیں۔ ہاں نانی چندو کا بڑبڑانا آدھی رات تک یوں ہی چلتا رہا۔ جب نیند نے ان کی آنکھیں ہی بند کر دیں اس وقت کہیں جا کر امن چین ہوا۔
سعیدہ کی گڑیا کا واقعہ نانی چندو کی سب سے بڑی کار گزاری ہے۔ ہوا یہ کہ سعیدہ اپنی سلولائیڈ کی گڑیا لے کر ان کے پاس پہنچی۔ وہاں تھوڑی دیر تک کھیلتی رہی اور اس کے بعدگڑیا وہیں چھوڑ کر دالان میں چلی آئی۔ نانی چندو نے گڑیا کو اٹھا کر دیکھا تو بڑی ہلکی پھلکی تھی۔ ان کے زمانے میں کپڑوں کی گڑیاں بنتی تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کس چیز کی بنی ہے۔ دکھائی کم دیتا تھا۔ پھر بھی بہت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گڑیا کو دیکھا۔ گردن کو ذرا مڑوڑا۔ وہ تو تاگے سے جمی ہوتی ہے ٹوٹ کر ہاتھ میں آ گئی۔ سمجھیں شاید شکر کی گڑیا ہے۔ چپکے سے سارے کا سارا سر منہ میں رکھ لیا۔ مگر کچھ مزہ نہ آیا۔ تھوکنا چاہتی تھیں کہ اتنی دیر میں سعیدہ آگئی۔ اس نے جو دیکھا کہ بڑی بی بیٹھی اس کی گڑیا کا سر چبا رہی ہیں تو اس نے ایک کہی نہ دو۔ ان کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور لگی غل مچانے۔ سارا گھر جمع ہو گیا کہ خدا جانے بچی کو بچھو نے کاٹ لیا یا بھڑ چمٹ گئی۔
جب سعیدہ نے دیکھا کہ ہاں اب سب آگئے تو اس نے نانی چندو کے منہ سے ہاتھ ہٹایا۔ ہاتھ کا ہٹنا تھا کہ پٹ کر کے گڑیا کا سر بڑی بی کے منہ میں سے نکل پڑا۔ اس کے بعد جو نانی جان فیل لائی ہیں وہ بیان نہیں ہو سکتا۔ ایک تو بچاری سعیدہ کی گڑیا کا سر چبا گئیں دوسرے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ خود اس کے سر ہو گئیں کہ اس لڑکی نے زبردستی یہ میرے منہ میں ٹھونس دیا۔ وہ تو کہو بوا نصیبن یہ سارا تماشا شروع سے دیکھ رہی تھی جو بی سعیدہ بچ گئیں، نہیں تو مفت میں ان کی کندی ہو جاتی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.