ہر نیا سال اپنے وقت کا پابند ہوتا ہے اور اس مہمان کی طرح ہوتا ہے جو بالکل ٹھیک وقت پر معینہ دنوں کے لیے آتا ہے اورخاموشی سے چلا جاتا ہے۔ اس کے آنے اور جانےکونظام ِشمسی بھی نہیں روک سکتا۔ نئے سال اور موسم میں یہی فرق ہوتا ہے۔ ہم نے حساب کیا تو یہ نیا سال یعنی 1983ء اس صدی کے آخری اٹھارہ سالوں کا افتتاحی سال ہے یعنی اس بات کی گنجائش اب باقی نہیں رہی ہے کہ جو بچہ اب پیدا ہوگا وہ اس صدی میں قانونی طورپربالغ ہوگا اور ’اے‘ سرٹیفکٹ کے فلم دیکھ سکے گا۔ یہ شوق اسے اب اکیسویں صدی میں پورا کرنا ہوگا لیکن اس میں متاسف ہونے یا کسی قسم کا غم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں جانے کے لیے آدمی کا بالغ ہونا ضروری نہیں اوراتفاق سے وہاں سب کچھ موجود ہوتا ہے جو ’اے‘ فلموں میں بھی نہیں ہوتا۔ اور فلم تو یوں بھی بے جان چیز ہے۔
نئے سال کے لیے ہم نے اب تک کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے اوراس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم پچھلے کئی سالوں سے بناتے رہے ہیں اوران پرعمل نہیں کرپاتے ہیں۔ ہم نے اب تک جتنے بھی منصوبے بنائے حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں ان کا تعلق لاٹری کے ٹکٹ سے تھا۔ ہم مسلسل کئی سال سے یہ ٹکٹ خرید رہے ہیں (ایک مقصد یہ بھی ہے کہ حکومت کے ہاتھ پاؤ مضبوط کئے جائیں) اورساتھ ہی ساتھ وہ اخبارجس میں لاٹری کا نتیجہ اور ہمارا حشر چھپتا ہے، اس میں اب تک کوئی فرق نہیں آیا، جو نتیجہ برسوں سے چلا آرہا ہے ویسے کا ویسا برقرار ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے کتنے پیسے خرچ ہوئے اس کا حساب ہم نے نہیں رکھا کیونکہ یہ رقم ہمارے نقصان کی نشان دہی نہیں کرسکتی۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ اب تک ہمارا لاکھوں کا نقصان ہو چکا ہے۔ پچھلے ہی مہینے5 لاکھ کا گھاٹا ہوا کیونکہ جس لاٹری کا ٹکٹ ہم نے خریدا تھا وہ پورے 5 لاکھ کی تھی (ٹکٹ پر چھپا تو یہی تھا اور یہ 6 ہندسوں کی رقم اب تک ہماری نظروں کے سامنے گھوم رہی ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے)
یہ صدی دشمنِ اربابِ ہنر ہے شاید
ہاں یہ آپ نے ٹھیک پوچھا کہ ہمیں ہنرکیا آتا ہے۔ جانے دیجئے۔ ہم یہ مصرع جو ہمارا ہے بھی نہیں واپس لیتے ہیں اور ایک دوسرا مصرع آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں،
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
یہ مصرع یقینا ہمارے حسبِ حال ہے اوراس سلسلے میں ہماری کسی صلاحیت کوزیِربحث نہیں لایا جاسکتا۔
ہم عملاً بے حس آدمی ہیں اس لیے ہم نے کبھی بھی کسی سال کے جانے پراور کسی سال کے آنے پر نہ تو اظہارِغم کیا نہ اظہارِ مسرت۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جولوگ نئے سال کا استقبال کرنے کے لیے رات کے 12 بجے تک جاگتے اور مختلف طریقوں سے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، نئے سال کے پہلے دن ہی بہت دیر تک سوتے رہتے ہیں اوران میں سے بہتوں کی طبیعت کئی دن تک خراب رہتی ہے لیکن اس نئے سال کے آنے پر ہمیں واقعی خوشی ہے اور وہ اس لیے کہ ہم نئے سال میں ایک نئے دل کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں اور یہ مصنوعی دل ہے۔
خالص پلاسٹک کے بارے میں ہم نے کئی مضامین اور مقالے پڑھے ہیں اورکئی تقریریں اورنظمیں سنی ہیں اورہم اب تک یہی سمجھ رہےتھے کہ ہمیں اس بات کی تلقین کی جارہی ہے کہ ہم اپنے خیالات تبدیل کریں کیونکہ یہ خیالات دل میں آیا کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہوا کہ اصل میں اس دل کو بدلنا مقصود تھا جو ہمیں ہمیشہ حیران و پریشان رکھا کرتا ہے۔ یہاں ذرا ٹھہرجائیے اوراس مصنوعی دل کی تفصیل جانےسےپہلےانسان کے اعضائے جسمانی کے تعلق سے چند باتیں سن لیجئے۔ یہ بھی کچھ کم ضروری نہیں ہیں۔
انسان کے اعضائے جسمانی میں کس عضو کو سب پر فوقیت حاصل ہے اس معاملے میں دانشوروں اور سائنس دانوں میں ہمیشہ اختلاف رہا ہےاورجہاں تک شاعروں کا تعلق ہے وہ تو کبھی کسی بات پر متفق نہیں ہوئے ہیں۔ ایک شاعرنےاعضائے جسمانی میں سب سے زیادہ اہمیت کلیجے کو دی ہے اور کہا ہے،
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
شاعر نے یہ کام اس وقت کیا جب اپنے محبوب کو خط لکھ رہا تھا۔
اکثر و بیشتر شاعر، جن کا کلام ہماری نظر سے گزرا ہے، قدموں کے بارے میں بہت زیادہ حساس رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی محبوب چلتے وقت نیچے دیکھ کر نہیں چلا کرتا، وہ اپنا دل اس کے قدموں تلے رکھ دیتے ہیں۔ وہ شعر ہمیں اب تک یاد ہے جس میں شاعر نے کہا ہے،
اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی
آپ کے پاؤں کے نیچےدل ہے
دانشوروں کے ہاں بھی نقشِ قدم کی اہمیت ہے اور وہ ہمیشہ دوسروں کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں اورایک بڑے شاعر نے تو نقشِ قدم کو خیاباں خیاباں ارم تک کہا ہے۔
اسی طرح اعضائے جسمانی میں ہاتھوں کو بھی بہت اہم مانا گیا ہے اورخاص طورپرسیدھے ہاتھ کوتو بہت اونچےمقام پر پہنچا دیا ہے۔ دستِ راست اسی لیے مشہور ہے۔ ہر صاحب اقتدار کا ایک دستِ راست ضرور ہوتا ہے اور یہی دستِ راست، اس شخص کی طرف سے سارے کام کرتا رہتا ہے۔ یہ اوربات ہے کہ اس دستِ راست کے کیے ہوئے سارے کام الٹے ہوتے ہیں اچھا ہوا کہ پاؤں کے معاملے میں دائیں اور بائیں پاؤں میں کوئی امتیاز نہیں برتا گیا۔ زندگی کے سفر میں دونوں پاؤں پر مساوی زور ڈالنا پڑتا ہے اور اپنے قدموں پرکھڑے رہنے کے لیے بھی دونوں پاؤں استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ انگریزوں کے ہاتھ پاؤں کی اہمیت ذرا زیادہ ہی ہے ان کے ہاتھ محفلوں میں، مباحثوں میں اورمناظروں میں لوگوں کے پاؤں (جنھیں ٹانگیں بھی کہا جاتا ہے) بہت کھینچے جاتے ہیں، اس لیے اس میں پائے راست اور پائے چپ نہیں ہوا کرتے۔ ڈاکٹر بھی ان میں تفریق نہیں کرتےاوراگرکسی مریض کےسیدھے پاؤں کا آپریشن کرنا ہےتووہ بائیں پاؤں کا آپریشن کرنےمیں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے۔
آنکھ کے تعلق سے بھی کچھ اشعار ہم نے پڑھے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ آنکھ کواعضائے جسمانی میں سب پرفوقیت حاصل ہے کیونکہ،
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
لیکن اکثریت کی رائے دل کے حق میں رہی ہےاسی لیے جب بھی کوئی موقع آیا ہم نے کسی کو شیر ِدل کا لقب دیا یا دریا دل کا۔ کسی کو دلدار کہا تو کسی کو دلبر۔ لیکن دل کے تعلق سے بھی اب ساری باتیں غلط ثابت ہورہی ہیں بالکل اسی طرح جس طرح چاند کا راز کھلنے پر محبوباؤں اور گل عذاروں نے ماہ جبیں کہلانے سے انکار کردیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آدمی نے جب تک چاند پر قدم نہیں رکھا تھا دنیا کے سارے حسین ماہ وش، ماہ رو، ماہ جبیں بلکہ بذات خود مہتاب کہلاتے تھے اور ایک چودھویں کی شب کوتو بحث چھڑ گئی تھی اورحاضرین محفل میں سے،
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرہ ترا
اب دل کا بھی یہی حال ہونے والا ہے۔ کئی مہینے پہلے کا وہ واقعہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا جب ہمارے پچھلے آقاؤں کے دارالسلطنت لندن میں کسی شخص کے اصلی دل نے کام کرنے سے انکار کردیا۔ اسے کافی بہلایا پھسلایا گیا لیکن اس کی کاہلی میں فرق نہیں آیا اور ڈاکٹروں کو مجبوراً اس شخص کے سینے میں ایک اوردل نصب کرنا پڑا۔ ڈاکٹر چاہتے تو اس آدمی کا اصلی دل باہر نکال لیتے اور یہ نیا دل اس کی جگہ فٹ کردیتے لیکن صرف اس خیال سے کہ شاید پرانے دل میں کوئی جذبۂ رحم پیدا ہواوروہ پھرسےکام کرنا شروع کردے، ڈاکٹروں نے ایک اضافۂ دل کی گنجائش نکال لی اوراس دسمبرکی پہلی تاریخ کو تو کمال ہوگیا۔ ایک دندان ساز کے سینے میں مصنوعی دل فٹ کر دیا گیا ہے اس پر بھی ہمیں تعجب نہیں ہوا کیونکہ تعجب کرنا تو ہم نے برسوں پہلے ترک کردیا۔ تعجب البتہ اس بات پر ضرور ہوا کہ جب یہ شخص ہوش میں آنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنی بیوی سے ملا تو اس نے پہلی بات جو کہی یہ تھی، میں تمہیں چاہتا ہوں۔ ڈاکٹروں کا جو کمال ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی، لیکن مریض کے اس جملے سے پوری انسانی تاریخ متاثر ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پلاسٹک کے دل سے بھی محبت کی جاسکتی ہے یا یہ کہ محبت اصل میں دل سے نہیں دماغ سے کی جاتی ہے، جسے ہم اب تک فراموش کیے ہوئے تھے۔
اس لیے ہم یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف ہم ہی نہیں، دنیا کے سارے لوگ نئے سال میں نئے دل و دماغ کے ساتھ داخل ہورہے ہیں دل تو بدل ہی گیا ہےاوردماغ کی اہمیت ظاہرہوگئی ہے۔ عاشقوں کو بھی خوش ہونا چاہئے کہ اب ان کی بات آسانی سے ان کے محبوب کی سمجھ میں آجائے گی۔ وہ (بغیر نماز پڑھے) دعائیں مانگا کرتے تھے،
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
اب اس نئے دل کی وجہ سے محبوب نہ تو تجاہلِ عارفانہ کو روبہ عمل لاسکے گا، نہ تغافلِ شاطرانہ کو۔
ہم اس شاعر کو بھی مبارکباد دیتے ہیں کہ اس نے اپنی بینائی نہیں دانائی سے انیسویں صدی ہی میں دیکھ لیا تھا کہ بیسویں صدی میں آدمیوں کے اعضائے رئیسہ کھلے بازارمیں مل جایا کریں گے۔ غریب لوگوں کو اور کچھ نہیں مناسب اعضائے رئیسہ ہی ملنے لگیں تو کافی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.