اردوغزل میں کوئی آٹھ کردارہوتے ہیں۔ یہ سب موقع موقع سے اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں۔ ان میں سے تین کردارمرکزی، مقوّی اور مفید کہلائے جاسکتے ہیں۔ یہ تینوں غزل کو جسم و جان بخشتے ہیں۔ (جاں بخشی نہیں کرتے) اپنی افادیت اوراپنے صفات کےلحاظ سے ان میں معشوق سرِفہرست ہے کیونکہ عشق اوّل دردِد ل معشوق پیدا می شود۔ یہ طے شدہ بات ہے اس پر کافی تحقیق کی جاچکی ہے۔ یہ شخص عام طور پر کمسن اور ظالم ہوتا ہے۔ بالاخانے پر رہتا ہے اور اگر کسی وجہ سے بالاخانے پر نہیں رہتا تو دن میں دوچار مرتبہ اوپر آتا ضرور ہے (کپڑے سکھانے) چھت پر عموماً ننگے پاؤں میں آیا کرتا ہے۔ (حالانکہ چھت گرم ہوتی ہوگی) اور اس کے پاؤں جلتے ہوں گے، (بعد میں مہندی لگا لیتا ہوگا) اس کی رہائش گلی یا کوچے میں ہوتی ہے۔ کسی پوش لوکلٹی میں یا کسی شاہراہ پر کسی معشوق کو رہائش کرتے نہیں دیکھا گیا۔ عام شاہراہیں یا تجارتی مقامات جہاں بسوں اور موٹروں کی بھیڑ ہوتی ہے، عشق کے لیے مناسب جگہ نہیں ہوتی۔ کوئی ٹکر ماردے تو۔ معشوق فطرتاً ہرجائی ہوتا ہے (اسی میں اس کا بھلا ہے) ویسے یہ قابلِ غور شخص ہے کیونکہ اس میں جگہ جگہ حسن پایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں نزاکت بھی ہوتی ہے۔
غزل میں معشوق کے فوراً بعد عاشق کا درجہ ہے جو عموماً ناشاد و نامراد ہوا کرتا ہے اور وصل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ کہتا تو یہی ہے۔ یوں بیچ میں کبھی کبھی قتل ہو کر مرغ بسمل کی طرح تڑپا کرتا ہے۔ اس کے شب و روز اچھے نہیں گزرتے۔ اس کا دل شام ہی سے اداس رہتا ہے (دن میں کون سا خوش رہتا ہے) اس کی راتوں کی ابتدائی ساعتیں میخانے میں اور میخانے بند ہونے کے بعد کی گھڑیاں، ہجر میں گزرتی ہیں۔ اسے حساب نہیں آتا لیکن تارے گننے کی کوشش کرتا ہے، گنتی بھول جاتا ہے تو دوبارہ شروع کرتا ہے۔ (اسے زیرِ سما ء سونے سے منع کرنا چاہئے) عاشق راتوں کو اٹھ کرروتا بھی ہے اوراس کے ہمسایے جو پہلے ہی سے اپنے ازدواجی مسائل کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں اس کی غیر ضروری اور پکے راگ سے ملتی جلتی گریہ وزاری کی وجہ سے ٹھیک سے سو نہیں سکتے۔ (صبح دیر سے اٹھتے اور کام پر دیر سے پہنچتے ہیں)
غزل کا تیسرا مرکزی اور مقتدر کردار رقیب ہے جو عاشق کے پوشیدہ کاموں میں روڑے اٹکاتا ہے۔ یہ بہت تیز طرّار اور فعّال شخص ہوتا ہے۔ غضب یہ ہے کہ عشق و محبت کے ایسے معاملات میں بھی جو خفیہ خط و کتابت کے لائق ہوتے ہیں۔ یہ شخص عاشق سے سبقت لے جاتا ہے۔ رقیب، عاشق کی طرح گریبان چاک نہیں گھوما کرتا۔ اپنی شکل سے اس کی خوب گھٹتی ہے، عاشق اسی لیے اسے رقیبِ روسیاہ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ معشوق بھی عاشق کے مقابلے میں رقیب کو زیادہ پسند کرتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ رقیب شاعری نہیں کرتا اوراس کا یہی ہنر اس کے کام آتا ہے۔۔۔ غزل میں اسے عدو کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
ایک معشوق، ایک عاشق اور ایک نفررقیب، یہ تین افراد ایک غزل کے لیے کافی تھے لیکن غزل میں زیبِ داستان نام کی بھی ایک چیز ہوتی ہے جس کے لیے کچھ مزید کردار درکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ غیر متعلق اشخاص ہوتے ہیں اور غزل کے اصل موضوع سے ان کا تعلق سرسری ہوتا ہے۔ یہ صرف آنکھوں دیکھا حال نشر کرتے ہیں۔ رقیب تو نہیں لیکن عاشق ان کا بہرحال مخالف ہوتا ہے۔ اس کا دل ان لوگوں کی طرف سے صاف نہیں۔ یہ اشخاص تعداد میں پانچ ہیں اور ان کے نام ہیں واعظ، محتسب، زاہد، شیخ اور ناصح۔ ان میں سب سے زیادہ مظلوم شخص ناصح ہے۔ یہ کم گو اور کم آمیز آدمی ہے۔ عاشق کے کوائف سے باخبر رہتا ہے لیکن ان میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا اور دین و شرع سے متعلق یا تواس کی معلومات کم ہوتی ہیں یا وہ خود ہی کسی مصلحت کی بنا پران میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا۔ صرف سماجی نقطۂ نظر سے یا اپنی طبی صلاحیتوں کی بنا پرکبھی کوئی نصیحت کردی تو کردی ورنہ اپنے کام سے کام رکھتا ہے (یہ اور بات ہے کہ اس بات سے کوئی واقف نہیں ہے کہ اس کا اصلی کام ہوتا کیا ہے)
ناصح کے اس طرزعمل اوراس کی میانہ روی کے باعث عاشقوں نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ ایک لحاظ سے اس کی تھوڑی بہت عزت ہی کی ہے، ورنہ ناصح کے علاوہ دوسرے لوگ جو غزل میں پائے جاتے ہیں احتجاجی فہم کا نشانہ بنے ہیں، (خود ان کا رویہّ بھی تو ٹھیک نہیں رہا ہے) ناصح کی تو اتنی قدر و منزلت ہوئی ہے کہ عاشق نے اس کی راہ میں دیدۂ و دل بچھانے کا بھی اہتمام کیا ہے بس اتنا پوچھا ہے کہ میرے ہاں وہ آیا تو سمجھائے گا کیا؟ ناصح کی طرف سے اسے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملا۔ کم سے کم غزل اس معاملے میں خاموش ہے لیکن اس بات کا ضرور پتا چلتا ہے کہ ناصح نے اپنی نسبی شرافت کی بنا پرعاشق کواپنےگھرمہمان بھی رکھا تاکہ وہ کوچہ و بازار میں مارا مارا نہ پھرے اور بدنام نہ ہو، لیکن عاشق نے ناصح کی اس بردباری اور دریا دلی کا غلط مطلب نکالا اور یہ اعلان کیا کہ کیا اس طرح اسے قید کرنے سے اس کے اندازِ جنوں چھوٹ جائیں گے؟ (عاشق کو تو جب بھی قید کرنا ہو خود اس کے گھر میں نظر بند کرنا چاہئے)
محتسب قدرےسخت گیرشخص ہوتا ہے۔ ایک مدرس کی طرح مروت اوررعایت کے معنی ضرور جانتا ہے لیکن ان الفاظ کو عملی جامہ نہیں پہناتا (پہنائے بھی کیسے اس نے تیار ملبوسات کی دکان نہیں کھولی ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ خود جامہ کے باہر رہتا ہے) چشم پوشی اسے پسند نہیں۔ وہ سمجھتا ہے چشم پوشی بس اسی وقت زیب دیتی ہے جب آنکھیں بند ہو رہی ہوں، اور اس میں ظاہر ہے کہ دیر لگتی ہے؟ محتسب دل کا کمزور ہوتا ہے اس لیے اپنے چال چلن کا بڑا خیال رکھتا ہے۔ اندر ہی اندر خواہ وہ کچھ ہو، کوشش کرتا ہے کہ ناپسندیدہ اجیبا نہ سمجھا جائے۔ اپنی اسی احتیاط اور رکھ رکھاؤکے باعث وہ عاشق جیسے بدگمان شخص کو بھی ٹھیک ہی آدمی نظر آیا۔ لیکن واعظ، زاہد اور شیخ یہ تینوں تو تین حرف سےزیادہ کےمستحق نہیں قرارپائے۔ ان پر فریب، مکر، عیاری کے علاوہ چوری اور تغلب جیسے قبیح جرائم کے الزام بھی لگائے گئے۔ فریب، مکر اورعیاری کی حد تک آخر ٹھیک ہے کیونکہ واعظ، زاہد اور شیخ بھی بہرحال آدمی کی ایک قسم ہیں اورآدمی زمانۂ دراز سے یہ مشغلہ اختیار کیے ہوئے ہے لیکن واعظ کا چوری کی واردات میں بذات خود ملوث ہونا دکھ کی بات ہے۔ چوری اور وہ بھی ایک بوتل کی،
گماں بے جا نہ تھا بوتل اڑا لینے کا واعظ پر
تلاشی لی جو حضرت کی تو زیرِ آستیں نکلی
ہم بہرحال اس خیال کے حامی ہیں کہ آدمی کا عمل نہیں اس کی نیت دیکھنی چاہئے، ہوسکتا ہے کہ واعظِ مذکور نے شراب کی مبینہ بوتل دوسروں کو بلا نوشی سے باز رکھنے کے لیے اٹھالی ہو اور اس کا ارادہ کسی مناسب موقع پر اس بوتل کو تلف کر دینے کا ہو۔ یہ بات قرینِ قیاس ہے لیکن اسے کیا کیا جائے کہ چھپ کر پینے کے معاملے میں یہ تینوں اتحاد ِثلاثہ کی طرح حد سے زیادہ بدنام ہیں اور انھیں شراب خانے کے اندر داخل ہوتے دیکھنے والے لوگ جنھیں چشمِ دید گواہ کہا جاتا ہے، تعداد میں کم نہیں ہیں،
زاہد نے پہلے آکے تو دیکھا ادھر ادھر
پھر سر جھکا کے داخلِ میخانہ ہوگیا
سرتواس نے میخانے کے احترام میں جھکایا ہوگا۔ زاہد کے علاوہ واعظ کو بھی عین اس وقت پکڑا گیا جب کچھ لوگ سیر ہو کر پینے کے بعد میخانے کے دروازے سے نکل رہے تھے اور یہ داخل ہو رہے تھے (میخانوں میں بھی پچھلے دروازوں سے آمد و رفت کا انتظام ہونا چاہئے۔ پچھلا دروازہ تو سبھی جگہ ہوتا ہے) اور جناب شیخ جاتے ہوئے تو نہیں لیکن وہاں سے واپس ہوتے وقت بچ نہ سکے،
میخانے سے پلٹتے ہوئے شیخ جی ملے
پوچھا جہاں گئے تھے تو بولے کہیں نہیں
(پینے کے بعد یاد نہیں رہا ہوگا)
واعظ اور زاہد کے بارے میں تو نہیں سنا گیا لیکن شیخ کے تعلق سے تو یہاں تک مشہور ہے کہ انہوں نے شراب کے لیے اپنا جُبہّ و دستار تک گرو رکھنے میں تکلّف نہیں کیا،
شیخ اتنا تو جتاؤ نہ تم اپنا تقویٰ
عوضِ مے ہے گر وجبہّ و دستار ہنوز
اسی لیے شیخ نماز بھی پڑھے اور کتنی ہی توجہ سے کیوں نہ پڑھے شبہ، عیاری کا ہوا ہے (اس لحاظ سے اس شیخ کے مقابلے میں شیخ چلی بہتر معلوم ہوتے ہیں جن کے نمونے آج بھی جگہ جگہ ملتے ہیں شعر وادب میں چلی شیوخ کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے)
واعظ، زاہد اور شیخ اپنی عمر، عمامہ اورعصا کی وجہ سے بھی عوام کی عقیدت کے سزاوار ہیں لیکن عاشق کی دستبرد سے ان کی ریش تک محفوظ نہیں رہی (یہ بھی تغلب ہی ہوا) کسی بھی عاشق کو زیب نہیں دیتا کہ وہ شکست تو کھائے رقیب سے، لیکن انتقام لےان لوگوں سے، ممکن ہے یہ لوگ کبھی کبھی پیتے بھی ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ عاشق ان کا خون پی لے۔ ان کا قصور اتنا ہی ہے کہ انھیں شراب خانے جاتے دیکھا گیا۔ یہ کوئی ایسے ذی حیثیت لوگ نہیں ہیں کہ دو دو مکان کرایے پر لیں یا اپنے رہائشی مکان پر الگ سے کوئی انتظام کریں۔ ان کے پاس اتنا پیسہ ہوتا تو یہ بھی اپنا ایک فاؤنڈیشن بنا لیتے۔ یوں مطعون نہ ہوتے، بچارے۔
گردشِ ایام عام طور پر نقصان پہنچاتی ہے لیکن ان پانچ بچاروں کے حق میں گردشِ ایام، باعثِ آرام ثابت ہوئی۔ غزل سے انھیں سبکدوش کردیا گیا اور ان کی جگہ اب منصف، مسیحا، فقیہہ شہر اور امیرِ کارواں کی جامہ تلاشی ہی نہیں خانہ تلاشی ہو رہی ہے۔ کافی مال برآمد ہو رہا ہے۔
غزل کے اصل کرداروں کا رہن سہن اور ان کے عادات و اطوار بھی بہتر ہوگئے ہیں(حالانکہ رہائش کی آسائش اب کم ہی میسر ہے) عاشق اب ادبی اور سیاسی جلسوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا ہے۔ کرسی پر بھی بیٹھتا ہے تو تمیز سے۔ اس کے پاؤں زمین پر ٹکے رہتے ہیں۔ اس کے کردار میں حیرت ناک تبدیلی آگئی ہے۔ وہ توآگ لینے بھی نہیں گیا تھا۔ پیمبری اس کے گھر آگئی۔ جو عاشق اپنے قتل ہونے پر مرثیہ پڑھتا تھا اب کوئے یار سے نکلتا بھی ہے تو سیدھے سوئے دار جاتا ہے۔ (شہر کا جغرافیہ ہی بھول گیا ہے) راستے میں سنگل بھی ملیں تو نہیں ٹھہرتا اور تو اور خود معشوق بھی تزکیۂ نفس اورتفضیۂ قلب کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ شخص جو پہلے بڑی سفاکی سےعاشقوں کے قتل پر تل جاتا تھا، اب عالمی امن کاؤنسل کا ممبر بن گیا ہے۔ اس سے شاید کسی نے کہہ دیا ہے کہ میاں اب ایک دو قتل سے کام نہیں چلتا، یہ قتلِ عام کے دن ہیں۔ تم نادرشاہ تو ہو نہیں اور نہ تھانیدار ہو کہ لوگوں کو بلا بلا کر اندھا کر سکو۔ یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی ہے اور رہا رقیب تو وہ مفرور ہے۔ کسی اور کے پاسپورٹ پر باہر چلا گیا ہے اس کی فراری پر لوگ اتنے خوش ہیں کہ تلاش گمشدہ کااشتہار بھی نہیں چھپتا۔ ان پانچ بے چاروں کی البتہ اب بھی یاد آتی ہے۔ اچھے لوگ تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.