پلٹوں کا ہمارے گھر آنا
اس مضمون کا عنوان ذرا وضاحت طلب ہے۔ ’’پلٹون‘‘ لفظ ’’ پَلٹا‘‘ سے اخذ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ پنجاب کی زرخیززمین پر بسنے والے لوگوں کی ایک ذات پلٹا کہلاتی ہے۔ اس لئے پلٹون سے مراد اسی پلٹا سے تعلق رکھنے والا میاں بیوی کا ایک جوڑا ہے۔
پیشتر اس کے کہ میں پلٹوں کا ذکر خیر کروں یہ بتادینا ضروری ہے کہ یہ انمول جوڑا ہمارے اجڑے ہوئے گھر کی رونق اس وقت بنا جب کہ ہم ایک بڑی ذمہ داری سے نپٹ کر اس خیال سے مطمئن ہو بیٹھے تھے کہ کم از کم ایک سال تک فراغت رہے گی۔ بڑی لڑکی کے پیر ہلکے ہوچکے تھے اور ہمارا گھرانہ تیمار داری رشتہ داروں کی خاطر داری، قرض داری اور دوادارو کی زیر باری سے فراغت پا چکا تھا۔ میری چھوٹی لڑکی اور بیوی خدمت گزاری کرتے کرتے بری طرح نڈھال ہوگئی تھیں۔ بالکل بنڈی کے ان بیلوں کی طرح جو وزن کا بوجھ نہ سہار سکنے کی وجہ سے، باوجود کوڑے مارنے کے قدم ہلانے سے قاصر ہوکر سڑک پر ہی گرجاتے ہیں۔ خادم بھی ہر اعتبار سے ہلکا ہوچکا تھا۔ جیب خالی، ذہن خالی، دماغ خالی۔ اس کے علاوہ قدموں میں لڑکھڑا ہٹ، زبان میں لکنت، دل میں گھبراہٹ اور نظر میں دھندلا ہٹ پیدا ہوگئی تھی۔
زندگی کی کچھ ایسی اجڑی ہوئی کیفیت میں ایک رات ہم تینوں نیند کی بے ہوشی میں کھوئے ہوئے تھے کہ گھر کے دروازے پر کسی کی دستک اور کتے کے بھونکنے کی آواز نے ہمیں بستر پر سے اٹھنے پر مجبور کیا۔ نیم بیداری کی حالت میں آنکھیں ملتے ہوئے خاکسار گھر کا دروازہ کھول کر باہر نکلا۔ دروازے کے سامنے ایک تانگہ ہمہ قسم کے سامان سے لدا کھڑا تھا جس کے ایک طرف تانگہ والا اور دوسری طرف ایک صاحب کھڑے تھے کہ تانگہ میں کسی کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ یہ صاحب اپنی یتیمانہ شکل وصورت اور خستہ حالی سے بالکل ایک ایسے لسانی وزیر معلوم ہوتے تھے جو قلمدان وزارت۔ پر تصرف کرنے سے پہلے اپنا توشہ دان سنبھالے جنتا کہ تصویر بن کر منظر عام پر دکھائی دے۔
میں چونکہ ان صاحب کو نہیں جانتا تھا اس لئے میں نے ان سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے جناب کسی غلط فہمی میں یہاں تشریف لائے ہیں۔ یہ مکان خالی نہیں ہے، اس میں ہم رہتے ہیں، پیشگی کرایہ مہینہ کی پہلی تاریخ کو ادا کرتے ہیں۔ دیکھئے میں ابھی ابھی بستر سے اٹھ کر آرہاہوں۔
موصوف کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ کہنے لگے غلط فہمی مجھے ہورہی تھی۔ وہ تو صحیح پتہ پر پہنچے تھے۔ اتنے میں تانگہ میں رکھے ہوئے سامان میں حرکت پیدا ہوئی میں نے سمجھا یہ حرکت تانگہ کے ٹٹوکے پاؤں ڈگمگانے سے پیدا ہوئی ہوگی۔ مگر میری حیرت کا اندازہ کیجئے جب مختلف قسم کی ٹوکریوں، ہتھیلیوں، توشہ دانوں اور ایک بہت بڑے بستر کے نیچے سے یک لخت ایک دیوی جی ایسے نکل آئہیں جیسے کسی محل کی آڑ سے پیلا ماہتاب یا جیسے ملا کا عمامہ، جیسے بنئے کی کتاب۔
دیوی جی جن کادم ان کے اوپر رکھے ہوئے سامان کے بوجھ سے گھٹنے لگا تھا، ذرا دم لے کر بولیں، یہ کیا بحث ہورہی ہے۔ میں نے کہا دیوی جی یہ صاحب آپ کے جو بھی ہیں، ان سے کہئے کہ براہ کرم اپنی راہ لیں۔ نہ میں ان کو جانتا ہوں نہ آپ کو پہچانتا ہوں۔ اگر یہ سامان جوآپ کے تانگے میں لاد کر لائی ہیں میرے کسی نامعلوم بھکاری چچا نے وصیت میں میرے لئے چھوڑا ہے تو میں اس سے دست بردار ہوتاہوں۔ اگر آپ کرم فرما مرحوم کا نام وغیرہ بتا دیں تو میں فوراًً اپنی وصیت آپ کے نام لکھ دیتا ہوں۔ میں اس سامان کو اپنی جھونپڑی میں نہیں آنے دوں گا۔ ادھر دیکھئے تانگے کا ٹٹواس سامان کے بوجھ سے بالکل اسی طرح دبا جا رہا ہے جس طرح ملازمت پیشہ لوگ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دم توڑ رہے ہیں۔ مجھ پر نہیں تو کم از کم اس بے زبان پر ہی ترس کھائیے۔
یہ بحث چل رہی تھی کہ بیوی بھی ڈگمگاتے قدموں سے باہر نکل آئیں۔ کہنے لگیں، یہ کیا ہنگامہ مچارکھا ہے، یہ لوگ کون ہیں؟ کیا آپ نے بغیر پوچھے ہراج میں یہ کوڑا کرکٹ خرید لیا تھا؟
میں نے کہا ہرگز نہیں۔ بلکہ میں بھی یہی جاننا چاہتاہوں کہ یہ لوگ کون ہیں۔ یہ کس کا سامان ہے؟ اور یہ ہمارے گھر کے سامنے کیوں کھڑے ہیں؟ میں کہہ چکاہوں کہ گھر کرایہ کے لئے خالی نہیں مگر یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ گھیراؤ۔ کئے کھڑے ہیں۔ پرماتما کے لئے اپنا شاہانہ عتاب استعمال کرو اور اس عذاب سے نجات دلاؤ۔
اس پر موصوف گہر ریز ہوئے کہ ہم آئے تو ہیں قیام ہی کے لئے مگر کرایہ پر نہیں۔ بولو کیا تم کھنہ نہیں ہو؟ کیا تمہاری بیوی کانام منورما نہیں؟ کیا تمہاری پتری کا نام مہامایا نہیں؟ کیا یہ مقام سکندر آباد نہیں؟
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موصوف ہر دوار کے پنڈے ہیں۔ لیکن محض کسی کا نام معلوم کرلینا گھر میں گھس جانے کا اجازت نامہ نہیں ہوسکتا۔ میں چاہتا تھا کہ ان کو جواب دوں کہ میرا نام ’’خبط الحواس‘‘ ہے، میری بیوی ’’قریب المرگ‘‘ کہلاتی ہے اور بیٹی ’’قسمت کی ماری‘‘ یہ مقام جہاں ہم رہتے ہیں اس کا نام ’’دوزخ‘‘ ہے۔ اس لئے دفع ہوجاؤ۔ ورنہ میں ایسے قتل کا مرتکب ہو جاؤں گا جو ناقابل برداشت اشتعال کی وجہ سے عمل میں آتاہے۔ مگر دیوی جی جو تانگہ سے اتر کر پاس ہی کھڑی تھیں، نیک بخت کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں، ’’منورما، یہ پلٹا صاحب ہیں، تم شاید ان کو نہیں جانتیں؟‘‘
نام سنتے ہی نیک بخت کو چکر آگیا اور اگر میں ان کو سہارا دے کر تھام نہ لیتا تو وہ یقینا دھڑام سے زمیں پر آرہتیں۔ پلٹا صاحب نے صبح کے دھند لکے میں جو یہ ماجرا دیکھا توفرمانے لگے آپ لوگ شاید الڑا موڈرن قسم کے لوگ ہیں جو صبح کی ملاقات گلے مل کر کرتے ہیں۔ بہرحال ہماری موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے صبح کے روزمرہ کے پروگرام پر کاربند رہیے۔
میں چاہتاتھا کہ پلٹا صاحب کا گلا دبوچ ڈالوں مگر دونوں ہاتھوں سے بیوی کو تھامے کھڑا تھا۔ اس لئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اتنے میں بیوی نے ہوش سنبھالا، سرکو ایک دوجھٹکے دیے کہ دماغ سے دھندلکے کے جالے نکل جائیں۔ پھر کہنے لگیں، پلٹا صاحب میری چاچی کے تایا جی کی چچیری بہن کے سوتیلے بھائی کی پہلی لڑکی کے شوہر ہیں۔
یہ رشتہ سن کر میں کانپ اٹھاجو اتنا ہی دور دراز کا تھا جتنا فاصلہ حیدرآباد سے پٹیالہ کا ہے اور اس رشتہ کو عالم وجود میں لانے کے لئے متعلقہ مرد اور عورتوں کو ایک دومرتبہ بڑی لائین سے چھوٹی لائین پر بھی سفر کرنا پڑا ہوگا۔ لیکن مجھے حیرت اس بات کی تھی کہ یہ پلٹے اتنی دور سے ہمارے گھر کو نشانہ قیام بناکر کس طرح گھر سے نکل پڑے تھے۔ کیا یہ ضروری تھا کہ وہ ایسے وقت نازل ہو ں جب کہ ہم اپنی تمام مالی اور جسمانی قوت برداشت تمام کر چکے تھے اور پھر اگر اس طرح مرگ ناگہانی کی طرح آنا ہی تھا تو اس کی کیا ضرورت تھی کہ ساری گرہستی کا سامان لے کر خانہ بدوشوں کی طرح گھر سے نکل پڑیں۔
ایک سنّاٹا سا چھایا ہوا تھا، میرے کان میں سائیں سائیں کی آوازیں آرہی تھیں، کبھی کبھی ٹانگے کا ٹٹوبھی کان پھٹکنے لگتا تھا۔ تانگہ والے نے اس طلسم خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا میں کب تک اس بوجھ کو لادے یہاں کھڑا رہوں۔ اگر یہیں اترنا ہے تو سامان اتارئیے۔
پلٹا صاحب کسی ایسے اشارے کے منتظر ہی تھے۔ انہوں نے تانگے والے کی ہدایت کو گھر میں ٹھہرنے کی اجازت سمجھ کر سامان اتارنا شروع کردیا۔ میں ہار مانتے ہوئے اس طرف لپکا جہاں ہمارا نوکر بے خبر سورہاتھا۔ میں نے اسے جگایا اور کہا کچھ مہمان آئے ہیں، ان کا سامان اندر رکھو۔
نوکر کہنے لگا کہ صاحب، بندگی بہت ہوچکی۔ جب میں ملازم ہوا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ گھر میں صرف تین لوگ ہیں، مگر آپ کا گھر تو ایک مستقل سرائے ہے اگر ایک شخص رخصت ہوتاہے تو اس کی جگہ دوآموجود ہوتے ہیں۔ آپ توخیر سے خیرمقدم کرکے الگ سٹک جاتے ہیں اور کام کا بوجھ مجھ پر آن پڑتاہے۔ میں بھی آخر انسان ہوں، گدھا نہیں کہ سرجھکائے آپ کے مہمانوں کا کام کئے جا ؤں۔ میں تو رخصت ہورہاہوں، آپ خود ہی اپنے مہمانوں کو سنبھالیے۔ یہ کہہ کر وہ اپنا سامان سمیٹنے لگا میں نے اس کی بڑی منت سماجت کی کہ بھئی یہ تو بن بلائے مہمان ہیں، گھر میں آجانے والے کو کس طرح دھتکارا جائے۔ وہ کہنے لگا آپ کی تہذیب آپ کو مبارک۔ میں اب یہاں نہیں رہ سکتا، آپ ان کو نکالیے ورنہ میں چلا۔
میرے لئے اب اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پلٹ کر پلٹا صاحب کے ساتھ سامان اتارنے میں ہاتھ بٹاؤں۔ بڑی جدوجہد کے بعد ہم سب اس سامان کو گھر کے اندر پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا بستر اتناوزنی تھا کہ معلوم ہوتا تھا اس میں بستر کے بجائے کسی موٹے انسان کی لاش ہے یا سیسہ بھرا ہوا ہے۔ تین انسانوں نے بمشکل اسے گھسیٹ کر گھر کے اندر پہنچایا۔ کے اندر حالت یہ تھی کہ سب کمروں میں پلٹوں کا سامان الٹ پلٹ پڑاتھا۔
بیوی نے رسماً، اس یقین کے ساتھ کہ اتنی صبح یہ لوگ ’’نہیں‘‘ کہیں گے۔ پوچھا کہ آپ تھکے ہوں گے، چائے بناؤں؟ میں نے حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا، نوکر گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ وہ مزید مہمانوں کو ہمارے گھر میں دیکھنا پسند نہیں کرتا۔
پلٹا صاحب نے صراحت فرمائی کہ نوکر فالتو قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ہم برابر چائے پئیں گے، گہری تیز چائے۔
دیوی جی نے ارشاد فرمایا میں گائے کا خالص کچا دودھ پیوں گا۔ گائے کا خالص کچادودھ اور 1968کے آزاد ہندوستان میں جس میں ہر شخص کو چیزوں میں ملاوٹ کی پوری پوری آزادی حاصل ہے۔ یہ سن کر مجھ پر مرگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ بیوی اور لڑکی سکتہ میں آگئیں۔ کچھ دیر تک ہم تینوں پتھر کی مورت بنے کھڑے رہے۔ آخرمیں مردہ آواز میں کہا کہ گائے کے کچے دودھ کا تذکرہ غالباً سنسکرت میں لکھے ہوئے رامائین اور مہابھارت کے نسخوں میں ہوگا۔ ہم نے اس شئے کو کبھی دیکھا نہیں۔ ہم کو بڑی مشکل سے ڈیری کے دودھ کی دوبوتلیں ملتی ہیں جس کو ہم بغیر کسی تحقیق کے کہ یہ بکری۔ گائے، بھینس، خرگوش یا شتر مرغ کا دوھ ہے۔ بڑ ے اختصارسے چائے میں ڈال کر پیتے ہیں اور پروردگار کا لاکھ لاکھ شکر بجالاتے ہیں۔ گائے کا خالص دودھ تو کجا، آ ج کل خالص گائے جس کا تصور ہمارے ذہن میں ہے، نظر نہیں آتی۔
بیوی نے رسوئی خانے کا رخ کیا۔ میں سامان پھاندتا ہوا ایک کونے میں بادشاہ پورس کی طرح اپنی قسمت کو کوستا ہوا بیٹھ گیا۔ لڑکی غسل خانے میں جا بیٹھی کہ بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔
اتنے میں بیوی چائے کی بڑی کیتلی معہ لوازمات ایک ٹرے میں رکھ کر لے آئیں۔ میں بیوی کو گھر کے ایک غیر آباد حصہ میں لے گیا اور درخواست کی کہ اس زبردستی گھس آنے والے جوڑے سے ان کا پروگرام دریافت کرنا مناسب ہوگا تاکہ پتہ چلے کہ اس بلائے بے درمان سے کب چھٹکارا حاصل ہوگا۔
ہم دونوں مختلف سمتوں سے واپس کمرے میں آئے۔ ان چندمنٹوں میں پلٹا صاحب نے چائے کی کیتلی خالی کررکھی تھی۔ دراصل ٹرے میں رکھی ہوئی ہر چیز خالی تھی۔ پلٹا صاحب نے چائے کے چھ پیالے اس ٹھاٹھ سے پئے تھے کہ شکر دانی کی سب شکر اور دودھ دان کا سب دودھ چائے میں گھول کر پی گئے تھے۔ حد یہ کہ کیتلی میں جو چائے کی پتی تھی اسے بھی کھکھور کر کھاگئے تھے۔ غرض یہ کہ ڈھکنا الگ پڑا تھا، پینداچمک رہاتھا۔ بڈٹی پینے کا ایسا شاندار مظاہرہ دیکھ کر میرے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوگئی۔ پلٹا صاحب اخبار پڑھ رہے تھے۔ ان کے لبوں پر مسکراہٹ کھل رہی تھی، چہرے پر دمک اور آنکھوں میں چائے کے سرور کی چمک تھی۔ دیوی جی نے بستر کھول دیا تھا، بستر کیا تھا اس میں ایک دنیا آباد تھی۔ ایک چھوٹا ترازواور چکی۔ پانچ سیر گیہوں تولنے کی باٹ، ایک چھوٹی سی انگیٹھی، کوئیلوں کی گٹھڑی، مختلف وضع قطع کی تھیلیاں، پیتل کے چھوٹے موٹے برتن، ایک ٹاٹ کا ٹکڑا، توا، بیلن، ایک بکٹ نما لمبا گلاس اور بستر کی تعریف میں آنے والی اشیاء کی حد تک دونہایت غلیظ تکئیے۔ میں نے غور سے نگاہ ڈالی تو ایک تکئے پر یہ تکیہ کلام درج تھا،
بشر پیدا ہی ہوا ہے خوب کھانے کے لئے
زندگی اس کی ہے ورنہ آنے جانے کے لئے
اور دوسرے تکیئے پر یہ تحریر تھی،
اب کے بالم پھر کھلا دے سبزیاں ابلی ہوئی
گوبھی، مٹر اور لوکی، سب کے سب ابلی ہوئی
حیرت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ کھاکر جو ہم نے سر باہر نکالا تو دیکھا دیوی جی بستر میں بیلن ہاتھ میں لئے بیٹھی ہیں۔ بیوی ان کے آئندہ کے پروگرام کے متعلق پوچھ رہی تھی اور دیوی جی کہہ رہی تھی کہ اب کا سب پروگرام خاک میں مل گیا تھا۔ گائے کا خالص دودھ نہ ملنا ان کے لئے ایک عظیم سانحہ سے کم نہ تھا۔ بہرحال دیوی جی نے فیصلہ کرلیاتھا کہ وہ صبح کے وقت سنتروں کے چھلکوں کی چائے۔ گڑ اور ڈیری کا دودھ ملا کر ہی مجبوراً پی لیا کریں گی۔ یہ نسخہ سن کر میری لڑکی غسل خانے سے باہر نکل آئی۔ بستر کو دیکھا تو ٹھٹکی اور تصویر حیرت بن کر دیوار سے لگ کر کھڑی رہ گئی۔
پلٹا صاحب نے کہا کہ وہ کوئی گورنر تو تھے نہیں جن کا پروگرام مرتب کیا جاتاہے۔ کشتی عمر رواں میں وہ بیٹھے تھے اور کشتی جس جگہ ان کو لے جاتی تھی، وہی ان کی منزل وہی ان کاکنارہ بن جاتا تھا۔ فکر فردانے انہیں کبھی نہیں ستایا تھا۔
ظاہر ہے کہ فکر فردا پلٹا صاحب کو کیوں ستاتی جب کہ ہمارے جیسے رشتہ دار ابھی دنیا میں موجود تھے۔ وہ تو مزے سے کشتی میں بیٹھے تھے مگر خاکسار بحرفنا میں ڈوبا جا رہا تھا۔ پلٹا صاحب اس روایتی کمبل کی طرح ہم سے چمٹ گئے تھے جو ہمیں نہیں چھوڑرہاتھا۔
دیوی جی نے کہا، ’’ہم دونو ں بیمار ہیں، تبدیلی ہوا اور صحت۔ بنانے کے لئے نکلے ہیں۔ ظاہر ہے تبدیلی آب وہوا کا اثر تین چار ہفتوں سے پہلے کیا ہوسکتاہے۔‘‘
مدت قیام کی صراحت سن کر میں غش کھاکر گرنے لگا تھا کہ بیوی نے مجھے گلے لگالیا میں وہاں سے ہٹ گیا اور جاکر اپنے بستر پر گرپڑا کیونکہ یہ مناسب نہیں تھا کہ ہم میاں بیوی بار بار غیروں کی موجودگی میں اس طرح دیکھے جائیں گو گلے ملنے کے جو حادثات زیر بحث ہیں وہ جذبات بھڑکنے سے نہیں بلکہ حواس بھٹکنے سے پیدا ہو رہے تھے۔
بستر میں پڑے جو آوازیں میرے کانوں تک پہنچ رہی تھیں ان کا نچوڑ مختصراً یہ تھا کہ یہ جوڑا صحت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے کھانے پینے میں پرہیز اور انتہائی احترازبرتتے تھے۔ دیوی جی نیچر پیتھی کی قائل تھیں اور کچی سبزیاں، پکے پھل اور ابلی ہوئی چیزیں نمک کے بغیر استعمال کرتی تھیں۔ البتہ پلٹا صاحب کھانے کے معاملہ میں اتنی کڑی احتیاط نہیں کرتے تھے بلکہ کچی پکی سبزیاں، کچے پکے ہر قسم کے پھل، ابلی اور تلی ہوئی ترکاریاں وغیرہ بھی بلا اعتراض کھالیتے تھے۔ یہ لوگ اصلی گھی کھاتے تھے، کھانا پکانے کے لئے لکڑیاں جلاتے تھے اور گیہوں چکی میں پیس کر آٹا بناتے تھے۔
بیوی نے جو آہیں بھرتی ہوئی یہ تفصیلات سن رہی تھیں۔ بالآخر کہا آپ لوگ منھ ہاتھ دھولیں تو ناشتہ تیار کردوں۔ پلٹا صاحب نے کہا شیر بھی کبھی منھ دھوتے ہیں۔ دیوی جی نے کہا کہ وہ ریل گاڑی سے اتر نے سے پہلے ہی سب ضروریات سے فارغ ہوچکی تھیں۔ اس لئے بیوی نے دل پر پتھر رکھ کر ناشتہ تیار کیا۔ دیوی جی کے لئے سنتر وں کے چھلکوں، دودھ اور گڑ کوابال کر بنایا ہوا مرکب۔ اس کے ساتھ جس قدر پھل گھر میں موجود تھا وہ جماکر میز پر رکھ دیا۔ پلٹا صاحب کے لئے انڈے، ٹوسٹ اور چائے ناشتہ میز پر جمایا ہی جارہاتھا کہ پلٹا صاحب ایک دو جماہیاں لیتے ہوئے دیوی جی کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہ میز بان کو بلانے کی زحمت نہ گوارا کرنی پڑے، آکر کرسیوں پر ڈٹ گئے۔
دیوی جی نے کہا، پلٹا صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ انڈے نہیں کھائیں گے۔ پلٹا صاحب نے کہا کہ انڈے مجھے بہت پسند ہیں مگر یہ عورت ہاتھ دھوکر میرے پیچھے پڑگئی ہے۔ مجھے کچھ کھانے ہی نہیں دیتی۔ یہ کہہ کر وہ انڈوں اور ٹوسٹوں پر ٹوٹ پڑے۔ بیوی نے ہم سب کے لئے آٹھ ٹوسٹ بنائے تھے۔ پلٹا صاحب نے ان سب پر جس قدر مکھن میز پر رکھا گیا تھا لگایا اور آدھی بوتل جیم کی تہہ کی صورت میں ان پر جمائی اور پھریکے بعد دیگرے سب کا صفایا کردیا۔ حلق تر کرنے کے لئے انہوں نے مزید چار پیالے چائے کے بھی پیسے دیے۔ دیوی جی نے اپنی پرہیزی چائے اپنے لمبے بالٹی نما گلاس میں بھر کر پی۔ چائے کے ساتھ چار سنترے اور کچھ انگور کھائے۔ جو پھل وہ نہ کھاسکیں ان کو پلٹا صاحب غیر ارادی طور پر کھا گئے۔ غرض جب یہ دونوں میز پر سے اٹھے تو میز پر رکھا ہوا کھانے کا تمام سامان ختم اور مطلع بالکل صاف تھا۔ البتہ نمک دانی میں کچھ نمک رہ گیاتھا جس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ پلٹا صاحب کی نظر اس چھوٹی سی چیز پر نہیں۔ پڑی تھی۔
گھر کی نوکرانی آچکی تھی۔ وہ برتن اٹھانے لگی۔ بیوی پلٹون کی بھوک دیکھ کر حواس باختہ ہوچکی تھیں۔ وہ اپنے کمرے میں جاکر دروازے بند کرکے رونے لگیں۔ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ میں کوئی ڈرا ؤنا۔ خواب دیکھ رہاہوں۔ ہماری لڑکی کتے کو لے کر صحن کے ایک کونے میں جا بیٹھی تھی۔ میرے لئے یہ ضروری تھا کہ میں اپنے ہوش و حواس قائم رکھوں۔ بیوی اور لڑکی تو Shock کا شکار ہوچکے تھے۔ انہیں پانی میں گلو کوز ملا کر پلایا، دلاسہ دیا، ہمت بندھائی اور خود ضروریات سے فارغ ہو کر دفتر چلا گیا۔
آپ شاید سمجھیں گے کہ اب میں شاعری کرنے لگا ہوں۔ مگر یقین مانئے کہ دفتر میں بار بار مجھے یہ خیال ستاتا رہا کہ نیچروپیتھی کے پرستاروں کا یہ عجیب وغریب جوڑا کہیں ان بھوت پریتوں کی اولاد تو نہیں تھا جن کے قصے بچپن میں ہمیں ڈرانے دھمکانے کی غرض سے سنائے جاتے تھے۔ مجھے اندیشہ اس بات کا تھاکہ کہیں یہ لوگ بیوی کو ابال کر نہ کھا جائیں۔ میرا یہ اندیشہ اس وجہ سے بھی پیدا ہو رہا تھا کہ جب سے ہندوستان نے آزادی حاصل کی ہے، اس کے بہت سے نیتا رام راج قائم کرنے کے درس دیتے پھر رہے ہیں اور میں سوچنے لگا تھا کہ کہیں واقعی ترقی کرکے ہم راون اور سروپ نکھا کے زمانے میں تو نہیں پہنچ گئے تھے۔
خیر دفتر سے اٹھ کر گھر پہنچا تو بیوی کو زندہ پاکر اس نیلی چھتری والے کا شکر بجا لایا۔ درحقیقت میں نے بیوی کو بالکل اسی حالت میں پایا جس حالت میں ان کو چھوڑ کر گیا تھا۔ مطلب یہ کہ وہ پلٹوں کا پیٹ بھرنے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف تھیں، یعنی کھانا پکارہی تھیں۔ دیوی جی اپنی چکی پیس رہی تھیں اور پلٹا صاحب پلنگ پر دراز دن میں کھایا ہوا کھانا ہضم کر رہے تھے۔
اتنے میں شام ہوگئی۔ شام غریباں، شام مجبوراں، شام مہمان نوازاں، پلٹا صاحب اٹھے کہنے لگے، اس حیدرآباد کا موسم برانہیں، اچھا مقام ہے۔ میں پلٹا صاحب سے دس گز دور بیٹھا تھا۔ نزدیک اس لئے نہیں پھٹک سکتاتھا کہ ان کے جسم سے ایک عجیب قسم کی تیز بساند بو آتی تھی جیسی چڑیا گھر میں ریچھوں یاشیروں کے پنجروں کے پاس آتی ہے۔ ہمارا کتا بھی سہما سہما سا تھا، وہ ان سے دور بیٹھا ٹکٹکی باندھے دیکھ رہاتھا کہ کہیں انسان کی کھال میں کوئی درندہ تو گھر میں نہیں گھس آیا تھا۔
میں نے پلٹا صاحب سے کہا ہم لوگ رات کا کھانا جلد کھا لیتے ہیں۔ پلٹا صاحب نے جواب دیا کہ کھانے کے معاملے میں انہوں نے کبھی کسی وقت کو بے وقت نہیں سمجھا۔
دیوی جی نے بڑی ناراضگی سے اپنا کھانا خود پکایا۔ ناراض اس لئے تھیں کہ ہم جاہل نیچروپیتھی کی ہدایات کے خلاف مٹی کے تیل سے جلنے والا اسٹو استعمال کرتے تھے۔ ان کی خوراک یہ تھی، پاؤ سیر چکی سے پیسے ہوئے آٹے کی آٹھ بڑی بڑی روٹیاں۔ ایک لمبا کدو کاٹ کر ابالا ہوا اور کچی سبزیوں کی چٹنی جو پودینے کی چھ گڈیوں چار مولیوں، چھ ٹماٹر اور پاؤ سیر گاجر کو کوٹ کر بنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ گھر میں جس قدر دہی تھا وہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا گیا تھا۔
ہمارے کھانے میں بیوی نے چھ روٹیاں ہم تینوں کے لئے اور چھ پلٹا صاحب کے لئے تین پاؤ ابلا ہوا چاول۔ آدھا کلو بھنا ہوا قیمہ، آدھ سیر ماش کی دال، آدھ سیر ٹماٹر اور آلوکی ملی جلی۔ ترکاری اور آدھ سیر مٹر اور گاجر کی بھجیا تیار کی تھیں۔ پلٹا صاحب میز کی طرف بڑھ رہے تھے کہ ان کے بیٹھنے سے پہلے ہی میں نے دودوروٹیاں، ہماری تین پلیٹوں میں رکھ دی تھیں تاکہ صبح کی طرح بھوکا نہ اٹھنا پڑے۔ دیوی جی نے کہا، پلٹا صاحب قیمہ نہیں کھائیں گے اور پلٹا صاحب نے کہا، یہ عورت ٹوکنے سے باز نہیں آتی۔
قصہ مختصر پلٹا صاحب نے روٹی کھانے سے انکار کردیا۔ لیکن چاولوں کی قاب لے کر تین چوتھائی چاول اپنی پلیٹ میں پلٹ لئے اور چمچے اور کانٹے کی مدد سے چاولوں کو ایسی شکل میں جمالیا جس طرح راج مزدور گیلے چونے کے انبار لگاکر اور ان کے بیچ میں گڈھا بنا کے اس میں پانی ڈال دیتے ہیں تاکہ چونا گیلا رہے، پلٹا صاحب نے چاولوں کے بیچوں بیچ بنائے ہوئے گڈھے کو دال سے پر کرکے اس پر سبزیوں کی تہیں جمالیں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے انہوں نے کٹی ہوئی پیاز اور ٹماٹر بھی طلب کئے، چاولوں کے انبار میں چمچہ بھر بھر کر پلٹا صاحب نے کھانا پیٹ میں منتقل کرنا شروع کیا۔ کھاتے کھاتے انہوں نے قیمہ کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں جو چٹنی سی پڑی ہے ان کی طرف بڑھادی جائے۔ چنانچہ قیمہ ان کی خدمت میں پیش کیا گیا جس کو انہوں نے چاولوں میں بنائے ہوئے گڈھے میں بھر لیا اور پھر کھانے مشغول ہوگئے۔ جب بالآخر وہ اٹھے تو سوائے چھ روٹیوں کے میز پر رکھی ہوئی ہر پلیٹ اور قاب خالی ہوگئی تھی۔
پلٹا صاحب اور دیوی جی پروگرام کے مطابق بیس دن تک اپنی صحت سنوارتے اور ہماری حالت زار کو اور زیادہ خراب وخستہ کرتے رہے۔ خدا نے۔ اس جوڑے کو نہ جانے کیسی قوت ہاضمہ بخشی تھی کہ ان بیس دنوں میں انہیں کبھی بدہضمی کی خفیف شکایت بھی پیدا نہیں ہوئی۔ ورنہ جس بے تکے پن سے یہ دونوں صبح، دوپہر اور شام کے وقت غذا کو نیست وناوبود کرتے رہے تھے۔ ان کا کسی مہلک عارضہ میں مبتلا ہوجاناہمارے نقطہ نظر سے یقینی تھا، مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ ورنہ اگر مزاج دشمناں ناساز ہوجاتاتو مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ ان کی تیمارداری کا بار بھی ہمیں کو اٹھانا پڑتا۔ پلٹا صاحب کے قیام کی تفصیل ان کی بھوک کی طرح دراز ہوتی جارہی ہے مگر خدا خدا کرکے ہمارے بھی دن پلٹے اور پلٹا صاحب کے جانے کا دن آگیا۔ میں نے دفتر سے دو دن کی رخصت لے کر ان کی روانگی کا نہایت مکمل انتظام کر دیا تھا۔ اس لئے وہ مقررہ تاریخ کو رخصت ہوئے۔ میں سوچتا ہوں کہ پلٹوں کا یہ جوڑا اگر کھانے سے ذراتوجہ ہٹا کر سوچتا تو حالات کے اعتبار سے ان کا یہ کہہ دینا کہ ان کے پاس واپس جانے کا کرایہ نہیں تھا،غیر مناسب نہ ہوتا۔ اگر وہ ایسا کہتے تو ظاہر ہے کہ میں ان کا کیا بگاڑلیتا۔ ان سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے قرض لیتا اور ان کو نہ صرف واپسی کا کرایہ دیتا بلکہ سفر کے اخراجات بھی بادل ناخواستہ ان کی مٹھی میں رکھ دیتا۔ اس زاویۂ نظر سے اگر دیکھا جائے تو پلٹون کے آنے سے مجھے سراسر دو سو روپے کا فائدہ پہنچا تھا۔
خیر صاحب قصہ ختم ہوا۔ ہم تینوں خدا کے فضل سے ابھی زندہ ہیں گوحالت مردوں سے بدتر ہوچکی ہے۔ مگر ہمارا پیارا کتا پلٹا صاحب کی بو کی تاب نہ لاسکا اور ان کے جانے کے ایک ہفتہ کے اندر اندر ہمیں داغ مفارقت دے گیا۔ اب مجھے صرف اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر یہ مضمون کسی اخبار یا رسالہ میں چھپ جائے اور پلٹا صاحب کی نظر اس پر پڑجائے توکیا عجب کہ وہ داد دینے کے لئے پھر ایک مرتبہ اپنا ہمہ گیر بستر حیدرآباد کے سفر کے لئے باندھنا شروع کردیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.