ریڈیو سننا
جی ہاں ناپسند ہے۔ مجھے ریڈیو سننا سخت ناپسند ہے۔ اگر آپ شاعر ہیں اور بے قافیہ نظمیں لکھتے ہیں تو بیاض نکالیے اور مجھے اپنا سارا کلام سنا دیجئے، میں مصیبت ہنسی خوشی برداشت کرلوں گا۔ بلکہ کیا خوب سبحان اللہ اور مکرر ارشاد فرمائیے کے نعرے بھی لگاؤں گا اور آپ پر یہ ظاہر نہیں ہونے دوں گا کہ آپ کے کلام بلاغت التیام کا ایک مصرع بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔
اگر آپ شاعر نہیں بلکہ افسانہ نویس ہیں اورآپ کو اپنے افسانے سنانے کا شوق ہے تو آئیے اپنے افسانوں کا پشتارہ میرے سر پر دے ماریے۔ میں تو تھانے رپٹ لکھوانے نہیں جاؤں گا۔ لوگوں سے آپ کی شکایت نہیں کروں گا۔ اخبار میں آپ کے خلاف مضمون نہیں لکھوں گا۔ مجھ پر ایسے ویسے حادثے بہت گزر چکے ہیں اور آپ شاعر اور افسانہ نگار دونوں نہیں بلکہ نرے نقاد ہیں اور جناب تربوز شادابی مرموز عنابی کی شاعری کے پس منظر پر تقریر کرکے مجھے مرعوب کرنا چاہتے ہیں، تو میں بڑی آسانی سے مرعوب ہو جاؤں گا لیکن خدا کے لیے مجھے ریڈیو سننے کو نہ کہیے گا۔ میں ریڈیو نہیں سنوں گا۔ میں ہرگز نہیں سنوں گا۔ آپ نے ریڈیو سیٹ خریدا ہے تو میں کیا کروں؟ غریبوں محتاجوں کو اس خوشی میں کھانا کھلائیے اور اس پر بھی تسکین نہ ہو تو ان بے چاروں کو چلتے وقت ریڈیو بھی سنوا دیجئے، لیکن خدا کے لیے مجھ پر مشق ستم نہ فرمائیے، بس یاد رکھئے کہ ادھر آپ نے ریڈیو سیٹ کو ہاتھ لگایا اور ادھر میں بھاگ گھڑا ہوا۔
ریڈیو سننے سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مجھے موسیقی کا ذوق نہیں، یا ریڈیو پر جو ڈرامے اور تقریریں وغیرہ براڈ کاسٹ ہوتی ہیں، انہیں میں پسند نہیں کرتا۔ ڈرامے کے متعلق اتنا سن لیجئے کہ کون تھین نیو الفریڈ اور بھارت بیاکل ٹھیٹریکل کمپنی سے لے کر شاہ عالمی روازے کی پیسہ کمپنی تک کھیل دیکھ ڈالے ہیں۔ تقریریں ادبی اور غیر ادبی ہر قسم کی سنی ہیں۔ موسیقی سے میرے شغف کا یہ حال ہے کہ تان توڑ خان، استاد تان دراز خان، استاد تان رس خان سب کو سنا ہے۔ اور موسیقی سے میرے حسن عقیدت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ میاں تان سین کے مزار پر جو بیری کا درخت ہے، اس کے پتے ہر سال منگواتا ہوں اور اپنے محلے کے لوگوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ غرض مجھے نہ موسیقی سے کد ہے نہ ادبی بحثوں، ڈراموں، تقریروں اور مشاعروں سے بلکہ مجھے تو صرف ریڈیو سننے سے وحشت ہوتی ہے۔
نادر شاہ کے متعلق مشہور ہے کہ جب ہندوستان آیا تو ہاتھی کی سواری کا شوق ہوا۔ ہاتھی پر سوار ہوا تو مہاوت سے کہنے لگا عنانش بدستم۔ مہاوت نے جواب دیا فیل عنان ندارد۔ نادر شاہ یہ کہہ کر ہاتھی سے اتر آیا کہ مرکبے کہ عنانش بدست غیر باشد سواری را نشاید یعنی جب مرکب کی باگ ڈور دوسرے کے ہاتھ میں ہو وہ سواری کے لائق نہیں۔ ریڈیو کا معاملہ بھی ہاتھی کی سواری کا سا ہے۔
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
آپ چاہتے ہیں تو ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ ہندوستان میں ریڈیو کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ایک صاحب کے ہاں کچھ لوگ بیٹھے ریڈیو سن رہے تھے، اتنے میں ایک نے کہا ذرا زہرہ جان کی کوئی چیز سنوائیے۔ دوسرا بولا میں تو چھوٹی بڑی سوئیاں سننا چاہتا ہوں۔ شیخ صاحب بولے بھئی یہ ریڈیو ہے گراموفون نہیں۔ صاحب جنہوں نے پہلے فرمائش کی تھی بولے اچھا یوں کہیے کہ ریڈیو اپنی کہے جاتا ہے، کسی کی نہیں سنتا۔ چلو میاں رحیم بخش فقیرا کو بلوا کے اس سے سنیں۔ ظالم کو زمانے بھر کی چیزیں یاد ہیں جو چاہو سن لیجیو۔
اب اس قصہ میں نہ پڑیے کہ یہ بات کس نے کہی اور کس موقع پر کہی۔ فقیرا کون تھا اور رحیم بخش کون لیکن اتنا تو آپ بھی مانیں گے کہ کہنے والا بڑے پتے کی بات کر گیا۔ ریڈیو بہت بڑی ایجاد سہی لیکن اس کے زبان ہی زبان ہے نہ کان ہیں نہ آنکھیں۔ اب اگر آپ کو ایسے بہرے آدمی سے واسطہ پڑ جائے جس کی زبان کترنی کی طرح چلتی ہو تو آپ کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کہ یا تو اس سے کسی طرح پیچھا چھڑاکر بھاگ نکلیے یا چپ چاپ اس کی باتیں سنتے رہیے، لیکن اس کی باتوں کو جواب دینے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔ چلا چلا کے باتیں کیجئے گا تو اپنا ہی نقصان ہے۔ خناق یا نفث الدم ہونے کا اندیشہ ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آج کل دوائیں بہت مہنگی ہیں۔ حکیم اور ڈاکٹر صاحب دونوں کامیاب ہیں۔ حکیم صاحب ہوالشافی کر کے نسخہ لکھ دیں گے۔ لیکن دوا کے پورے اجزا کہاں سے لائیے گا۔
آپ جی میں کہتے ہوں گے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے۔ ریڈیو کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب جی چاہے سنیے۔ جب جی چاہے بند کردیجئے۔ آپ کا خیال درست ہے، لیکن صاحب اس قسم کے اختیارات اپنے ریڈیو سیٹ تک محدود ہیں، مجھے تو سرود خانہ ہمسایہ نے مارا۔ اغل بغل جو لوگ رہتے ہیں سبھی کے یہاں ریڈیو موجو دہے۔ پھر ان کے شوق کا یہ حال کہ صبح سے سننا شروع کرتے ہیں اور رات کے بارہ بجے تک برابر سنتے چلے جاتے ہیں۔ یعنی ریڈیو تھک جائے تو تھک جائے یہ نہیں تھکتے۔ فرمائیے ان کے ریڈیو سیٹ پر مجھے کیا اختیار ہے۔ آخر انگریز کی حکومت ہے نادر شاہی تو نہیں ہے کہ دھونس سے کام چل جائے۔ اب میری مجبوریوں اور پریشانیوں پر غور کیجئے کہ ریڈیو سننا نہیں چاہتا لیکن برابر سنتا ہوں۔ اب یہ تو ہونے سے رہا کہ جب تک گھر میں بیٹھا رہوں، کانوں میں انگلیاں ٹھونسے رکھوں، لے دے کے یہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ مکان چھوڑ دوں لیکن اول دوسرا مکان ملنا ناممکن ہے۔ پھر اگرمکان مل گیا تو وہاں کیا پڑوس میں ریڈیو نہ ہوگا،
بہر زمین کہ رسیدم یم ریڈیو پیداست
غرض میرا معاملہ یہ ہے کہ گڑ کھاتا ہوں، گلگلوں سے پرہیز کرنا چاہتا ہوں۔
ریڈیو پر تقریر کرنے سے مجھے انکار نہیں صرف ریڈیو نہیں سننا چاہتا۔ میں بلا ناغہ سنتا ہوں اور بے قصد و ارادہ سنتا ہوں۔ بہتیرا چیختا چلاتا ہوں کہ جبر و اختیار کے فلسفے پر پہروں غور کرتا رہتا ہوں لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس مصیبت سے نجات کی کوئی صورت نہیں۔
یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے
آپ ریڈیو سنتے ہیں، ریڈیو سننے کو ضروریات زندگی میں سمجھتے ہیں، اس لیے اندیشہ ہے کہ میری اس گفتگو سے آپ کے جذبات کو ٹھیس لگے۔ اس لئے میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں ریڈیو کا احترام کرتا ہوں۔ ریڈیو پر جو صاحب کمال لوگ اپنے ہنر کی نمائش کرتے ہیں، ان سے بھی مجھے بے حد عقیدت ہے۔ میں ریڈیو سننا نہیں چاہتا تو اس کی وجہ وہی ہے جو میں عرض کرچکا ہوں۔ یعنی مجھے گونگوں کی محفل میں بیٹھنے سے انکار نہیں لیکن بہروں سے بہت ڈرتا ہوں۔ گانا سننے کا شوق ہے لیکن گانا سننے اور سنانے کا لطف اسی میں ہے کہ سننے اور سنانے والا دونوں آمنے سامنے موجود ہوں۔ آپ جو چیز سننا چاہتے ہیں داد کا موقع ہو تو داد بھی دیں۔ اگر آپ کن رس ہیں، اتنا سمجھتے ہیں کہ گویے نے کیا چیز گائی اور حسب موقع داد بھی دے سکتے ہیں تو یقین کیجئے کہ گویّا جی توڑ کے گائے گا۔ ورنہ ریڈیو کا گانا قبرستان میں مردوں کو گانا سنانا ایک ہی جیسا ہے۔ ایسا گانا سننے سے تو اچھا ہے کہ کسی ماہر روحانیات سے دوستی گانٹھیں اور تان سین کی روح کو بلوا کر گانا سنیں یا طوطا پالیں اور اس سے باتیں کریں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ریڈیو پر گانا سن کر بھی آپ داد دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ داد نہیں بے داد ہے۔ سبحان اللہ کے جواب میں جب تک آپ آداب عرض نہ سن لیں، داد دینے کا کیا لطف ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس ادھوری بات کا ثواب بیچارے گویے کی روح کو پہنچ جاتا ہو لیکن میرے نزدیک یہ بات بھی محل نظر ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں میں تو یہی کہوں گا کہ موسیقی کے بہت سے ایسے اسرار ہیں جو گانے والے کے چشم و ابرو میں پوشیدہ ہوتے ہیں اور بہت سے رموز اس قسم کے ہیں جو گلوری کے ساتھ حلق میں اترتے اور چودہ طبق روشن کر جاتے ہیں۔ پھر اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ترنم رہبری نہ کرے تو سننے والا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارتا پھرے۔
ریڈیو پر ہمیں گانا جو سننے کا موقع ملتا ہے وہ یکسر ابہام ہے اور آپ جانتے ہیں کہ ابہام سے ہر شخص کو الجھن ہوتی ہے۔ گانے کا جانے دیجئے۔ شعرا کو ہی لیجئے۔ ریڈیو پر مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔ شعرا اپنا کلام بھی سناتے ہیں لیکن اس شعر خوانی کی حیثیت اس شاعر سے پوچھیے جو غزل شروع کرتا ہے۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ اس وقت سارا ہندوستان میرا کلام سن رہا ہے۔ لیکن جب داد کا سہارا نہیں پاتا تو اسے یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ سب لوگوں نے اپنے اپنے ریڈیو بند کردیے ہیں۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جو میرا کلام سننا چاہتا ہو۔
آپ جانتے ہیں کہ اکثر لوگ چونّی خرچ کر کے مشاعرے میں اس لئے شریک ہوتے ہیں کہ بیچارے شاعر سے چونّی وصول کریں گے۔ اگر شاعر نے اپنا کلام تحت اللفظ سنانا شروع کیا تو ہر طرف سے آوازیں آتی ہیں کہ ترنم سے ترنم سے گا کے سنائیں، گا کے سنائیے۔ بعض شاعر اس شور وغل کو خاطر میں نہیں لاتے اور کوئی سنے یا نہ سنے غزل پوری کر کے دم لیتے ہیں۔ بعض موسیقی سے ناواقف ہونے کے باوجود گنگنانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر بیٹھ جائیے، بیٹھ جائیے گا، کا شور مچتا ہے۔ لوگ زور زور سے پاؤں فرش پر مارتے ہیں، سیٹیاں بجاتے، بلی کی بولیاں بولتے ہیں اور بیچارا شاعر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ ریڈیو کے مشاعروں میں ان تمام آفات سے محفوظ ہوتا ہے۔ اس لیے سننے والوں کو تو خاک لطف آتا ہوگا۔ شاعروں کو بھی جن کی عمر اسی قسم کے ہنگاموں میں گزر گئی ہے، ریڈیو کے مشاعرے روکھے، پھیکے معلوم ہوتے ہیں۔ آخر وہ مشاعرہ ہی کیا جس میں شور نہ مچے۔ ہنگامہ نہ ہو۔ آوازیں نہ کسی جائیں۔
ریڈیو کے مشاعرے کیا ہیں۔۔۔ کاغذی پھول۔۔۔ جو خوشبو نہیں رکھتے یا مشینی چاول جن میں وٹامن بہت کم ہیں۔ شاعری کو بھی وٹامن، عام مشاعروں کی کھلی فضا اور شاعروں کی باہمی چشمکوں اور ہنگامہ آرائیوں کی بدولت ہی قائم رکھ سکتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر مشاعرہ بدقسمتی سے ریڈیو ہی کا مرغ دست پرور بن کے رہ جائے تو بیچاری شاعری چند دنوں میں خون تھوکنے لگے۔ وہ تو خدا کا شکر ہے کہ مشاعرہ ابھی تک ریڈیو کی گھٹی ہوئی فضا کے باہر سانس لے رہا ہے ورنہ ریڈیو نے مشاعرے اور اس کے ساتھ بیچاری شاعری کو خدا گنج پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔
تو بندہ پرور یہ کتھا بکھانے سے مقصد یہ ہے کہ مجھے ریڈیو سننا پسند نہیں لیکن اس سے خدا نخواستہ یہ نہ سمجھیے کہ آج ریڈیو سیٹ گھر گھر موجود ہیں، اور میں غالب کی طرح وبائے عام میں مرنے کو کسر شان سمجھتا ہوں۔ نہیں صاحب! میں غالب کی طرح ترک افراسیابی نہیں جو ہر بات میں اپنا راستہ نکال لوں۔ عوام کے تتبع کو گناہ سمجھوں بلکہ بات صرف اس قدر ہے کہ میں مشینی شاعری، مشینی موسیقی، خطابت کا چنداں قائل نہیں لیکن اگر آپ قائل ہیں تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ ہاں اس سلسلے میں ایک اور بات عرض کردوں کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یہ بہ ثبات عقل و ہوش بے جبر و اکراہ، بے اشارت و ایما کہا ہے۔ اپنے ورثا کو میری وصیت ہے کہ وہ میری قبر پکی بنائیں تاکہ ریڈیو کی آواز مجھ تک نہ پہنچ سکے۔ ورنہ خدا جانے قیامت سے پہلے کتنی بار مجھ پر قیامت گزر جائے اور صور اسرافیل پھونکنے سے پیشتر کتنی دفعہ چونک کے لحد میں اٹھ بیٹھوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.