روزہ رکھا
آج 28 واں روزہ تھا۔ غفور میاں کے کندھے پر ایک کھردرا تولیہ، قمیض اور پائجامہ پڑاتھا۔ کچھ اداس اداس گھر سے باہر پٹیوں پر بیٹھے تھے کہ بفاتی ادھر سے گذرا۔
اسلاع۔۔۔ غفور دادا۔
غفور میاں نے چونک کر بفاتی کو دیکھا اور کہہ کر دوسری طرف منھ پھیر لیا۔
کیوں دادا، آج کیا بات ہے؟ کیسا منھ لٹکائے بیٹھے ہو، کسی نے انگلی بتائی ہو تو انگلی کاٹ دوں، آنکھ ماری ہو تو کانا کردوں اور۔۔۔
ابے چپ رہ، بے فضول کو ٹرٹر کر رہا ہے۔ کوئی مر رہا ہے یا جی رہا ہے بس مذاق اڑانے سے کام۔
جب دیکھو جب پنجار گردی کیا کرتا ہے۔
اچھا لو، مذاق بالکل بند۔ یہ بتاؤ، یہ رنگ کیوں اڑ رہا ہے؟ بفاتی کہہ کر غفور میاں کے پاس بیٹھ گیا۔
غفور میاں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا، یار کل آخری روزہ ہوگا، آج نہا دھو کر فارغ ہو جاؤں۔ بس اس فکر میں تھا کہ مسجد سے یہ نمازی نکلیں تو پھر میں جاؤں نہ معلوم کتنی لمبی نماز پڑھ رہے ہیں؟
اور یہ جو سامنے نل لگاہے منسپلٹی کا یہ کس لئے ہے؟ چلو میں نہلا دوں۔ بفاتی نے مسکرا کر کہا۔
خالص بد قومے ہو خاں بفاتی! بچھو جیسی عادت ہے تمہاری بھی کہ موقع ملا اور ڈنک مارا۔ کیوں رے پنجارے، غفور میاں نے آنکھیں نکال کر کہا، تو نہلائے گا ہمیں؟ یہ منسپلٹی کے پلیت پانی سے نہاؤں گا۔ صبح سے شام تک جس تالاب میں گھوڑے بھینس خچر نہایا کرتے ہیں اور بڑے اسپتال کے تمام مریضوں کا پخانہ پیشاب اسی تالاب میں جاتاہے۔
تو دادا مسجد میں نل کسی دوسرے تالاب سے آتے ہیں؟
نہیں تو پھر! وہ اپنے شملہ پر حوض بنا ہے۔ اللہ نواب صاحب کو جنت نصیب کرے، ان مسجدوں کے لئے ہی انہوں نے حوض بنوایا تھا پاک و صاف پانی کا۔
بفاتی نے غفور میاں کی ٹھڈّی سے ہاتھ لگا کر کہا، دادا تمہیں تو جنم کنم میں ایک روزہ رکھنا ہے، اس کے لئے اتنا آگا پیچھا دیکھ رہے ہو۔ جہاں ہزار گناہ کرتے ہو وہاں خراب پانی سے نہا کر ایک اور کرلو۔
کیوں خاں، تم چپ نہیں رہو گے پنجارے! غفور میاں نے بفاتی کا ہاتھ دور کرتے ہوئے کہا، دیکھو بفاتی ہر مرتبہ کا مذاق اچھا نہیں ہوا کرتا، تو ہمارے سامنے کا لونڈا ہے۔ تو کیا جانے روزہ کی صفائی اور پاکی کیا ہوتی ہے؟ ابے خچر کی اولاد میرا ایک روزہ تو قسم ہے پیدا کرنے والے کی تجھ جیسے سو پنجاروں کے روزوں کے برابر ہوتا ہے، صرف ایک روزہ! غفور میاں نے کلمہ کی انگلی بتاکر کہا، سال بھر کے گناہ معاف کرا لیتا ہوں بیٹا، ہر سال!
واہ واہ دادا، بڑے پہنچے ہوئے ہو آپ تو۔ اچھا تو پھر میرے گناہ بھی جب جہنم میں جاؤ تو معاف کرا دینا!
غفور میاں نے چونک کر پوچھا؟ ابے کافر جہنم تو تم جیسوں کے لئے بنی ہے یار خاں تو (سینہ نکال کر) جنت میں ہوں گے! پھر ایک دم منھ پھیر کر غفور میاں نے کہا، اچھا بفاتی جاؤ اپنا کام کرو۔ نہیں تو خاں ہم بہت حرامی طبیعت کے ہیں کچھ اول فول کہہ دیا تو تھوتڑا پھول جائے گا تمہارا۔
اچھا دادا، لو مذاق بالکل بند۔ یہ بتاؤ واقعی کل رکھو گے روزہ۔ نہیں تو ایسا نہیں کہ میری افطاری بیکار جائے۔ میں روزہ کھلواؤں گا آکر اپنے ہاتھوں سے۔
غفور میاں نے خوش ہو کر ایک ہاتھ بفاتی پر رکھ کرکہا، یار بفاتی مجھے مشورہ دے کہ روزہ رکھ لوں۔ کہیں گڑبڑ تو نہیں ہو جاؤں گا۔ میرے توبفاتی یہ دیکھ (ہاتھ دکھاکر) ابھی سے رونگٹے کھڑے ہورہے ہیں۔
اللہ اپنی حفاظت میں رکھے خاں۔ روزہ رکھنا بڑے کلیجے کا کام ہے اور دیکھ یہ غفور میاں نے بفاتی کا ہاتھ جبراً کھینچ کر اور اپنے دل پر رکھتے ہوئے کہا، کیسا ہاتھ ہاتھ بھر اُچھل رہا ہے! دیکھا۔
ارے واہ دادا، تم تو پٹھان ہو۔ ہمیں تو دیکھو آٹھ آٹھ روز تک لگت رکھتے ہیں۔
ابے کیوں ڈینگیں مارتا ہے بے پنجارے، پٹھانی کیا روزے میں ہی رہ گئی ہے۔ بھوک پیاس میں کیا کوئی پٹھانی دکھائے گا سالا!
دادا، ذرا کڑا دل کرکے رکھ لو۔ کل تو ہے ہی آخری، پھر سال بھر کا آرام، ہوگئے ختم!
ہاں، ہاں خاں، یہ تو نے ٹھیک کہا۔۔۔ اچھا بفاتی یہ بتا کہ موسم تو ایسا سخت نہیں ہے، روزے کی ٹکر لے لوں گا؟ اور پھر بفاتی کے کان میں کہا، تو پھر رکھ لوں۔ تیرا مشورہ ہے نا، کروں بسم اللہ، کیوں؟
کیا دادا بات کرتے ہو بچوں کی۔ سال میں ایک تو رکھتے ہو۔
ابے چپ تو رہ، کیوں گلا پھاڑتاہے۔ میں نے تو تجھ سے خالی مشورہ لیا تھا۔ ایک روزے کی کمزوری تو دوسرے سال تک رہتی ہے۔ خیر، بفاتی۔ اور دیکھ کل تو دو ایک چکر یاد سے لگاجانا خاں، ذرا میری ہمت بندھی رہے گی۔ تمہاری دوستی پھر کس کام آئے گی خاں؟
ہاں، ہاں ضرور آؤں گا۔ افطار بھی تمہارے ساتھ کروں گا۔
افطار نہیں، وہ میری بیوی نے شبراتی کرایہ دار سے کہہ دیا ہے تو تو بس یو نہی خیریت کے لئے آجانا خالی۔ اب وہ خاں شبراتی بھی اپنا بے عذر کرایہ دار ہے۔ صبح سے شام تک سیکڑوں کام کاج کرتا ہے، کرایہ بھی پورا دیتا ہے۔ اب دیکھ کل میں نے اسے روک لیا ہے، کام پر نہیں جائے گا۔
کیوں! شبراتی کو کیوں روک لیا۔ غریب آدمی ہے اس کی مزدوری کا حرج ہوگا۔
ابے ذرا دم دلاسا دے گا۔ سرپے پانی ڈلواؤں گا دن بھر، تجھے کیا معلوم! پچھلے سال میں رکھ چکا ہوں روزہ۔ بس جان نہیں گئی تھی باقی سب کچھ ہو گیا تھا۔ ٹانگیں کھینچنے لگتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے بفاتی کہ موت ہاتھ جوڑے کھڑی ہے، اس لئے!
بفاتی پٹیوں پر سے نیچے اترا اور ذرا دور ہٹ کر اچھا دادا، اللہ تمہیں دشمن کی گولیوں سے بچائے۔ ساتھ خیریت کے واپس لائے۔
کیا مطلب؟ کیسا دشمن، کیسی خیریت بے پنجارے کی اولاد۔
ارے یہی دادا، معلوم ہوتا ہے جیسے کہیں کام پے جا رہے ہو! بفاتی کہہ کر روانہ ہوگیا اور غفور میاں گالیاں دیتے ہوئے مسجد کی طرف چل دیے کہ خاں بفاتی! اشراف ہونے کے لے ولدیت بھی اشراف ہونا چاہئے۔
دو گھنٹے تک غفور میاں نے خود کو خوب مل مل کر نہلایا۔ کپڑے پہنے اور جانماز پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں کو سر سے اونچا کیا اور اپنے سر کو دونوں ہاتھوں کے بیچ میں لٹکا کر بڑے یتیمانہ انداز میں دعا مانگی۔
اے بار الہا، تو نیکی بدی کا جاننے والا ہے۔ تو جس کام کو چاہے مشکل کردے اور جس کو چاہے آسان بنا دے۔ بندہ کی کیا قدرت ہے جو چوں کر لے۔ تو روزہ میں بھوک پیاس کو دور کرتا ہے۔ تو مشکل کشا ہے، رب العالمین۔ تجھے خوب معلوم ہے کہ تیرا غفور میاں کل روزہ رکھے گا۔ اس پر کیا گذرے گی یہ تو اور میں دونوں دیکھیں گے۔
اے معبود مجھے روزہ رکھنے کی ہمت دے، بھوک، پیاس اور بیڑی، چائے، پان کی طلب کو دور رکھنا۔ توپ چلتے وقت تک صبر ایوب دینا میرے معبود، دن میں خوب نیند عطا فرمانا۔ اے میرے غفور الرحیم تجھ پر خوب روشن ہے کہ جس طرح مجھ پر یہ روزہ گذرے گا، اللہ کسی دشمن کو بھی ایسی تکلیف۔۔۔ پھر ایک دم غفور میاں نے دونو ں ہاتھوں کو ہلا ہلا کر کہا! نہیں نہیں معبود غلط کہہ گیا۔ میرا مطلب ہے دشمن کو بھی روزے کی تکلیف میں خوش رکھنا۔ معاف کرنا، اے مالک زمین و آسمان ہزاروں روزہ دار تجھ سے اپنے مہینہ بھر کے روزوں کو قبول کرنے کی دعا کرتے ہیں مگر میں تو میرے معبود۔۔۔ (کلمہ کی انگلی بتا کر) ایک روزہ کے لئے کہتا ہوں، دس بیس کا نہیں۔ بس اس کو قبول فرمانا، آمین، ثم آمین، ثم آمین۔
غفور میاں اس خطبۂ دعائیہ کے بعد مسجد سے نکلے، گھر آئے۔ شبراتی سے کہا، دیکھو خاں شبراتی، میاں کل کام پہ نہ جانا خاں۔ تم سے بڑی ڈھارس بندھی رہے گی، ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
ہاں، ہاں دادا۔ کل یہیں رہوں گا تمہارے پاس، تم روزہ تو رکھو۔
ہونھ۔ اب کیا کسر رہ گئی۔ یہ دیکھو غسل مسل سے فارغ ہو کر ٹن چن ہو گیا۔ اللہ تجھے بھی توفیق دے۔ شبراتی میاں ہو اشراف آخر دکھتے کسی اشراف ولدیت کے ہو!
اتنے میں توپ چلی۔ غفور میاں نے ہنستے ہوئے کہا، لو شبراتی میاں کل خاں اسی وقت اپنا روزہ بھی کھلے گا، انشاء اللہ۔ ارے خاں ایک روزہ کا رکھنے میں کیا رکھنا۔ یوں چٹکی بجاتے دن جاتا ہے۔
کیوں نا؟
ہاں دادا، کچھ نہیں معلوم پڑتا۔ آج کل روزے بہت آسان ہیں۔
اللہ مجھے تیس روزے رکھنے کی ہمت دے، بس یونہی ڈھارس دلاتے رہو شبراتی میاں۔ پھر کیا ہے بیڑا پار ہے۔
رات گئے تک غفور میاں شبراتی کی کوٹھری میں بیٹھے روزہ کی اچھائیوں اور نیکیوں پر باتیں کر کے حوصلہ بڑھاتے رہے اور اسی درمیان شبراتی کو یہ بھی فہمائش کرتے رہے کہ خاں خیال رکھنا سحری کی توپ نہ چل جائے اور شبراتی جو اُکڑوں بیٹھے ہوئے اونگھ رہے تھے برابر جمائیاں لے لے کر غفور میاں کو گھر میں سو جانے کی تلقین کرتے رہے کہ دادا اطمینان سے سو جاؤ بالکل ٹائم پر اٹھا دوں گا۔
ہاں ہے تو مگر ایسا دھک دکا لگا ہے کہ اگر سحری کو آنکھ نہ کھلی تو پھر خاں شہادت کا درجہ ملے گا۔ بچنا مشکل ہے۔
غرض کہ دو بجے رات کو غفور میاں گھر میں گئے اور بیوی کو آواز دے کر اٹھایا۔
او مریم، مریم، ذرا اٹھ تو۔ کچھ سحری کا بھی خیال ہے یا نہیں!
آگ لگے تمہاری جلدی میں۔ آدھی رات کو کدھر سحری کر رہے ہو، ابھی فقیر تک تو بولے نہیں۔
ارے تو کب تک سحری کا انتظار کروں گا، دو تو بج گئے۔ تم تو بیگم جو کچھ ہو لا دو۔ کھا کر سو جاؤں، ہوتی رہے گی سحری جب اسے ہونا ہوگا۔
مریم نے دلیا اور دودھ لا کر سامنے رکھا۔ غفور میاں نے کھا کر ڈکار لی۔ حفظ ما تقدم کے لئے دو تین گلاس پانی کے اوپر سے چرھائے اور بیڑی پر بیڑی پینا شروع کردیا۔ ایک گھنٹہ ہوا ہوگا کہ فقیر نے آواز دی، اٹھو روزہ دارو، سحری کا وقت ہوا۔ غفور میاں تیزی سے باہر گئے اور فقیر سے کہا، کیوں خاں ہوگیا سحری کا ٹائم؟
ہاں، دادا ہوگیا۔
اچھا میاں صاحب، کل دن بھر اپنا روزہ رہے گا۔ یاد سے افطار کے وقت آ جانا، تمہیں بھی کچھ مل جائے گا۔
اللہ آپ کو خوش رکھے آ جاؤں گا میں ضرور۔
مگر میاں صاحب ذرا دل سے دعا مانگنا خاں کہ ہمیں روزہ کی تکلیف نہ ہو۔ آسانی سے دن گذر جائے۔
اللہ آسان کرے گا میاں، فقیر کہہ کر روانہ ہوگیا۔
غفور میاں گھر میں آئے۔ لو مریم میں نے اب سب سے دعا وغیرہ کا کہہ سن دیا۔ اب جو اللہ بنا ئے سو ہو، السلام علیکم۔ مریم نے جواب دیا، اللہ نہ ایسا روزہ رکھوائےخود بھی دیوانے ہورہے ہیں اور دوسرے جھاڑو پھروں کو بھی پاگل بنائے رہتے ہیں۔
بس بس، ٹر ٹر بند کر مریم۔ میں نے روزہ کی نیت کرلی ہے اب! روزدار کو برا بھلا کہہ کر کیوں عذاب گناہ اپنے سر لے رہی ہے بے فضول کو۔
غفور میاں فجر کی نماز قضا ہو جانے کے ڈر سے صبح تک کروٹیں بدلتے رہے۔ مسجد گئے، صبح کی نماز پڑھی۔ نمازیوں نے غفور میاں کو دیکھا۔ زیر لب مسکرائے کہ آج غفور میاں کا سال روزہ ہے۔ غفور میاں نمازیوں کے چلے جانے کے بعد دیر تک گڑگڑا کر ’’روزہ آسان دعائیں‘‘ پڑھتے رہے۔
کافی دن چڑھے گھر آئے۔
ایسا روزہ رکھنے سے کیا فائدہ کہ صبح کی نماز ہی غائب کردی یہ فاقہ ہے فاقہ مریم۔
تم تو اپنے مطلب کی بات کہو، مریم نے کروٹ لیتے ہوئے کہا۔
لاؤ روپے نکالو، سودا سلف لے آؤں۔ دھوپ تیز ہوتی جا رہی ہے۔
وہ رکھے ہیں جھولے میں، جتنے چاہو لے جاؤ۔ ایک روزہ کیا رکھ لیا ہے کہ دنیا کو نصیحتیں ہو رہی ہیں۔
بس، مختصر، مریم! روزہ ہمارا بھی ہے!
غفور میاں پلنگ کی میلی چادر اور ایک تھیلا لے کر بازار روانہ ہوگئے۔ سایہ میں زیادہ چلے۔ نیز سست خرامی کا بڑا خیال رکھا۔ جہاں تک ہو سکا بہت آہستہ چیونٹی کی چال چل کر ہر دس پندرہ منٹ کسی بند دوکان کے پٹیوں پر قیام کرتے سر پر جو بھیگا ہوا تولیہ پڑا تھا ہرمنٹ اس کی نمی کو ہاتھ سے ٹٹول کر معلوم کرتے اور ساتھ ہی ساتھ جان پہچان والوں کو مخاطب بھی کرتے جاتے تھے۔
ابے او کلّو، ذرا اپنے بابا سے کہہ دینا میرا روزہ ہے مسجد میں نہیں تو گھر پے ہی دعا مانگ لینا بھائی۔
او مجیدا! کیوں رے بے غیرت؟ نہ روزہ رکھو نہ نماز پڑھو۔ یہ اعلانیہ سگریٹ پیتے پھر رہے ہو۔ نہ ہوا بیٹا! وہ سرکار اماں کا زمانہ، نہیں تو کالا منھ کر کے گدھے پر ٹہلا ئے جاتے۔
واہ خاں ربڑ، خوب! یہ گوشت ہمارے ہی سر مار رہے ہو! (موٹی گالی بک کر) یہ چھیچڑے، ہڈے ہماری قسمت میں ہی ہیں۔ اے میاں حمیدا، ہم سے خاں قصائی پن مت کرو بھیا۔ ہم نے زندگی بھر گلابی گوشت کھایا ہے۔ تم نے تو بیٹا ایسے عالیشان بکرے دیکھے بھی نہ ہوں گے بیل، سانبھر کے برابر۔
اے بھائی کیا بینچ رہا ہے اس خونچے میں۔
پھل ہیں دادا۔
اچھا دیکھ ادھر آ، ذرا قریب (پھر ایک دم خفا ہو کر) ابے ڈرتا کیوں ہے؟ کیا شیر ہوں جو تجھے کھا جاؤں گا، سن میری بات۔
ہاں لو دادا، کیا ہے آگیا قریب۔
دیکھ تین چار بجے کے قریب وہ شفاخانے کے پاس یاد سے آجانا۔ سیدھے ہاتھ والی گلی کے بالکل نکڑ پر جو انگریزی کبیلز والا دوچار سو بیس ٹھیکہ دار کا مکان ہے۔ بس اسی سے ملا ہوا اپنا دیسی کبیلوؤں کا جھونپڑا ہے اکہرا۔ باہری بیٹھک کے ساتھ یہ بیٹھک اب اپن نے شبراتی دادا کو کرایہ پر اٹھادی ہے۔
چگی ڈارھی ہے شبراتی کی کھچڑی بال ہوں گے اور ہاں ایک سرخ رنگ کی قمیص پہنے ہوگا۔ میرا یار سال بھر سے ایک ہی قمیص کو رگید رہا ہے اور ہاں کیا نام ہے تمہارا میاں خونچے والے۔
ہیرا لال ہے دادا۔
نام تو خاں عمدہ ہے۔ تمہیں تو کہیں کا وزیر ہونا تھا، یہ کیا بینچتے پھر رہے ہو۔
دادا جلدی کہو، آپ کو کتنے پھل دے دوں؟
ہاں، ہاں۔ تو بھی کام والا آدمی ہے، خیر بس اسی گھر پر آکر غفور میاں غفور میاں آواز دے دینا یا اسی شبراتی سے کہہ دینا، بس میں دوچار آنے کے پھل تو خرید ہی لوں گا۔
واہ دادا! گھنٹہ بھر خراب کیا، دو چار آنے کے لئے چار میل دور آؤں گا! خونچے والے نے بھنا کر کہا اور چل دیا۔
دماغ تو دیکھو سالے کے، آسمان پر ہیں روزداروں سے ہی بات نہیں کرتے۔ واہ بیٹا! رمضان نہ ہوتے تو یہ سب دوکاندار گھوڑے سے لگے ہوتے۔ یہ میاں بھائیوں کا ہی دم ہے جو رمضان عید میں گھر کے گیڑے کبیلو تک بنیچ کے کھا جاتے ہیں۔
اور کیوں رے بفاتی! تم تو خوب آئے ہماری خیریت پوچھنے!
دادا، ابھی تاؤ کا وقت تھوڑی آیاہے۔
ہاں خاں، (ٹھنڈی سانس لے کر) دوستی نبھانا بڑا مشکل ہے۔ تم جیسے بدقوموں سے کیا امید رکھی جائے۔ وہ خاں بفاتی تم سے اس لئے دعا وغیرہ کا کہہ دیا تھا کہ تم مجرد آدمی ہو۔ اللہ مجرد آدمی کی جلدی دعا قبول فرماتاہے۔ بس یہ وجہ تھی ورنہ یہاں تم جیسے ہلکٹ آدمی کو اپن اپنی گرہ میں نہیں آنے دیتے۔
بفاتی نے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا، دادا مجھے بکری کا گوشت لینا ہے نہیں تو اٹھ جائے گا سب۔
واہ خاں پنجارے میاں، یہ تم بکری کا گوشت کب سے کھانے لگے؟ ابے بودا کھا، بودا۔
اچھا دادا، بودا ہی دیکھوں گا، تم جیسا کوئی مل جائے تو۔ بفاتی کہہ کر تیزی سے چل دیا۔ غفور میاں گالیاں دیتے ہو ئے پھر خریداری میں لگ گئے۔
غرضکہ تین چار گھنٹے کی شاپنگ کے بعد غفور میاں گھر لوٹے اور ڈیوڑھی میں سے چلانا شروع کیا۔
او مریم، اللہ کی بندی۔ جلدی تو آجا۔ لے سنبھال یہ اپنا سامان۔ خدا دے تو قاعدے کی عورت دے نہیں تو مرد کا پیدا ہونا ہی فضول ہے۔
اے بس چپ رہو، اللہ مریم کو زمین کا پیوند کرے۔ کہاں جھاڑو پھری پیدا ہوئی۔ روزہ کیا رکھ لیا ہے کہ دنیا جہاں کو سر پہ اٹھا لیا۔ تم پے تو (غفور میاں کی طرف ہاتھ دراز کرتے ہوئے) روزہ کا بھوت سوار ہے۔
بس بس بیگم، نہیں تو کسی کنوئیں میں جاگروں گا آج۔ کپڑے پھاڑنے کو دل چاہتاہے۔ تجھ سے اتنا نہیں بنا کہ کل منع کر دیتی۔ مگر مریم، وہ تو گھر کے گیڑے سے ہی آنکھ پھوٹتی ہے!
توبہ ہے اللہ، میں منع کرکے کیا اپنے اوپر گناہ مول لیتی۔
ہاں ہاں، تم تو جیسے اٹھتے بیٹھتے سب کام ثواب کے ہی کرتی ہو! اچھا خیر۔ غفور میاں نے پلنگ پر بیٹھ کر کہا، یہ اٹھا لو سب سامان اور یہ قیمہ اور بدامی گوشت۔ یہ دیکھو کیا گوشت لایا ہوں مریم۔ قصائی بھی دل پکڑ کر رہ گیا اپنا۔ خیر یہ الگ الگ پکانا، ذرا ڈھنگ سے۔ مسالہ باریک ہو، دردرانہ رہے اور قیمے میں کھڑی ہری مرچیں اور مٹر کے دانے ڈالنا اور بدامی گوشت کو ذرا لٹ پٹا رکھنا۔ ایسا نہیں پوری ہنڈیا میں تالاب بھر دو۔ نہیں تو قسم ہے پیدا کرنے والے کی گھر سے باہر پھینک دوں گادیگچی۔ اور یہ ٹماٹر، اہاہا۔ کیا رنگ ہے (سونگھ کر) دیکھ مریم، یہ تھا جوانی میں اپنا رنگ، خون ٹپکتا تھا گالوں سے۔
ہاں خیر، تم تو بہت حسین تھے۔ یہ بتاؤ کہ ٹماٹر کیسے پکیں گے؟
پہلے چٹنی بنانا پھر آلو پیاز کے پتے ڈال کر ایک ترکاری اور بنانا اور ہاں دال ماش کی ابھی بھگادو اور پیاز کا عمدہ بگھار دینا۔ غفور میاں نے ایک دم مریم کو گھور کر کہا، ذرا منھ سے تو بولو کیا سمجھیں؟
سب سمجھ گئی، سن لیا۔ شام تک اللہ چاہے تو میرا جنازہ نکال کر رہوگے۔ خوب سمجھ رہی ہوں۔
زبان تو دیکھو کیسی قینچی کی طرح چل رہی ہے۔ مریم شکر کر کہ یار خاں نے شادی کرلی نہیں تو نہ معلوم کہاں ٹھکانا لگتا۔
اے چلو، دو سال ناگ رگڑی تھی دہلی پر آکر، تب میرے باپ نے حامی بھری تھی۔ تم جیسے کتنے ہارپستا کے بیٹھ گئے تھے۔
اچھا بس، نہیں تو کھٹ سے طلاق دے دوںگا۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔
لاؤ رکھ دو، ڈھائی ہزار مہر کے۔ میں چلی اپنے گھر۔
ہوں، مہردوں گا تجھے! جیسے مہر دینے کے لئے ہی تو تجھ سے شادی کی تھی میں نے۔
اے شبراتی دادا، ارے شبراتی دادا۔ مریم نے ڈیوڑھی میں جاکر کہا۔
ہاں بائی، کیا بات ہے؟ شبراتی نے کہا۔
یہ انہیں خدا کے واسطے اپنے پاس بلا لو، نہیں تو میں کپڑوں میں آگ لگا کر مرتی ہوں۔ اللہ ایسا دشمنوں کا بھی روزہ نہ رکھوائے۔
غفور میاں نے ذرا ٹھنڈا ہو کر کہا، ارے مریم، تم سمجھ تو لو کہ کیا کیا پکے گا۔
سب کچھ سمجھ گئی، چھ سات رنگ کی ہنڈیاں پکادوں گی۔ مگر باہر جاکر بیٹھو۔
مگر بھجیے، پاپڑ، چنے کی دال، نمک مرچ والی چٹ پٹی ہونا چاہئے۔
ہاں ہاں، سب ہو جائے گا۔ تم تو خدا کے واسطے باہر جاؤ۔
لعنت ہو تجھ پر عورت، کہتے ہوئےغفور میاں شبراتی کی کوٹھری میں چلے گئے۔ ابھی پلنگ پر جاکر لیٹے ہی تھے کہ شبراتی نے کہا، دادا، ظہر کی نماز کا وقت ہے مسجد جاؤ۔
ٹھہر تو یار، اب گھر میں سے اس چڑیل سے پیچھا چھڑا یا تو تو بھوت کی طرح چمٹ گیا۔ میں تو دوسری مسجد میں جاؤں گا ذرا ٹھہر کے۔
کیوں دادا، سامنے والی میں کیوں نہیں؟
ارے خاں شبراتی، یہ امام صاحب بہت لمبی نماز کھینچتے ہیں خاں۔ اللہ رسول کا حکم ہے کہ نماز چھوٹی پڑھنا چاہئے۔
واہ دادا، نماز میں روزہ بہلتا ہے۔ نماز سے بڑی برکت ہوتی ہے۔
ارے ہاں یار، مجھ منحوس کی نماز کی عادت بھی ہو۔ نماز پڑھنے کھڑا ہوا تو بھوک پیاس کی طرف زیادہ دھیان رہتاہے شبراتی۔ اللہ کے یہاں دیکھو نماز روزے نہ کرنے سے کیا حال ہوتاہے۔ اللہ معاف کرے۔ تھوڑی دیر بعد اٹھ کر غفور میاں مسجد گئے۔ نماز پڑھ کر گھر اندر جاکر پلنگ پردراز ہوئے اور کروٹ لے کر صحن کے سائے پر نظریں گڑا دیں۔ مشکل سے دس پندرہ منٹ ہوئے ہوں گے کہ غفور میاں نے کہا، اللہ ہی جانے یہ دھوپ سر ک بھی رہی ہے یا نہیں۔ گھنٹہ بھر ہوگیا ایک ہی جگہ قائم ہوگئی ہے جیسے۔
غفور میاں نے ایک لانبا لوہے کا کیلا دھوپ اور سایہ کے سنگم پر زمین میں ٹھونکا اور پھر واپس پلنگ پر۔۔۔ ابھی مشکل سے بیس منٹ ہوئے ہوں گے کہ غفور میاں انتہائی غصہ میں بڑبڑاتے ہوئے باہر گئے اور شبراتی سے کہا، ذرا اٹھنا خاں، چلنا میرے ساتھ گھر میں ذرا۔ غفور میاں نے شبراتی کا ہاتھ پکڑ اور کھینچتے ہوئے مکان کے اندر لائے۔
دیکھو خاں شبراتی، دوگھنٹے ہوگئے یہ کیلا ٹھونکا تھا میں نے سمجھے۔۔۔ اور دھوپ کو۔۔۔ (گالی بک کر) موت آگئی جیسے، دیکھا شبراتی! قسم ہے پیدا کرنے والے کی آج روزے میں دنیا کی ہر چیز ہم سے دشمنی کررہی ہے خاں! پھر ایک دم غفور میاں نے سورج کی طرف دیکھا۔ کمرپر دونوں ہاتھ رکھے اور دانت پیستے ہوئے کہا، کیوں خاں سورج میاں؟ آج تو بیٹا تم ایک انچ بھی نہیں سرک رہے ہوکیوں! صبح 6بجے سے سر پر آکر ٹنگے ہو تو اتر نے کانام نہیں لیتے۔ پھر ایک ہاتھ ہوا میں لہرا کر غفور میاں نے کہا، تمہارا کام تو خاں یہ ہے کہ روز مشرق سے نکلو اور جیسے تیسے مغرب میں دفن ہو جاؤ۔ آج خاں، یہ کیسے اپنی چال بھول گئے، کیوں خاں؟ آج گرہن میں پھنس گئے کیا؟
ایسا معلوم ہوتاہے کہ جیسے کسی نے تمہارے میخ ٹھونک دی ہو۔ ایک قدم نہیں بڑھتے آگے۔
اچھا دادا سایہ میں چلو، تاؤ لگ جائے گا روزہ کا۔ شبراتی نے کمر میں ہاتھ ڈال کر کہا۔
ارے شبراتی ٹھہر جاؤ اور کیا تاؤ لگے گا۔ تاؤ تو خوب لگ گیا۔ ذرا اس سے تو دو دو باتیں کرلینے دے۔ آج یہ اللہ کے پیارے بندوں کو ستا رہا ہے (پھر سورج دیکھ کر) قسم ہے خاں تجھے پیدا کرنے والے کی جو ایک انچ بھی کھسک جائے اپنی جگہ سے۔ شام تک یہیں ٹنگے رہنا بیٹا یزید کی اولاد۔
ارے تجھے بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اور ہمیں بھی۔ یہ نہیں بنتا کہ جلدی جلدی چل کر اپنے ایک بھائی کی روزے میں کچھ مدد کردے۔
شبراتی غفور میاں کو جبراً ڈھکیل کر دلان میں لے گیا۔
دادا، تم تو اب پلنگ پر لیٹ کر سو جاؤ تھوڑی دیر۔
کیا سو جاؤں یار شبراتی۔ یہ بھوک پیاس، بیڑی کی طلب۔۔۔ (گالی بک کر) کہیں سونے دے گی مجھے۔
بہرحال غفور میاں دوایک گھنٹے لوٹتے پوٹتے رہے اور پیروں پر پانی ڈالا کئے پھر ایک دم شبراتی کو آواز دی۔
دیکھنا شبراتی یہاں! کوئی دمدمہ پر توپ کے پاس آیا یا نہیں۔
دادا، ابھی دوگھنٹے ہیں۔ ابھی سے کدھر آئے گا تو پ کے پاس؟
ارے خاں شبراتی میاں، تو پ کی بھی کچھ صفائی مفائی کریگا یا نہیں، یا یونہی گولہ گھسیڑ دیگا، کل تو اس وقت چل بھی گئی تھی خاں۔ آج کا دن دیکھو۔ سال بھر کے برابر ہوگیا قسم پروردگار کی۔
پاپڑ، بھجیے، چٹ پٹے مصالحہ دار۔ باہر کسی خوانچہ والے نے ہانک لگائی۔ ابے چپ رہ۔ ہاں شبراتی بیٹھے دیکھ رہے ہو تم باہر بھگاسالے کو دور کہیں۔ بے فضول کو روزہ مکروہ کررہاہے۔
دادا، عصر کا وقت آگیا، نماز۔ شبراتی نے آواز دی۔
ہاں خاں، تم باہر سے خوب میری اکھاڑ پچھاڑ کئے جاؤ سمجھے۔ یہ ڈھارس بندھا رہے ہو ہماری؟
غرض قصہ کو تاہ کہ غفور میاں توپ سے بیس منٹ پہلے گھر میں آئے۔ مریم نے کہا، افطار کے ساتھ کھانا کھاؤ گے یا نماز پڑھ کر۔
خدا تجھے غارت کرے عورت، اب خدا خدا کر کے اللہ یہ ٹیم لایا تو تو اب بھانجی مار رہی ہے۔ پھر ایک دم چیخ کر کہا، ارے مریم! خدا رحم نہیں کھاتا تو کیا تو بھی رحم نہیں کھاتی۔ اری کمبخت عورت! نماز تو قضا بھی پڑھ لوں گا مگر یہ سانس اکھڑ گئی تو قضا بھی نہیں پڑھ سکتا۔ غفور میاں نے اتنا کہا تھا کہ توپ داغنے کی آواز آئی۔
الحمد للہ۔ شکر ہے تیرا معبود۔ اب بھی ناحق چلیں، سحری کو ہی چلتیں۔
غفور میاں نے پون گھنٹہ مختلف پینترے بدل بدل کر کھایا اور دوبیڑیاں ایک ساتھ پی کر مریم سے کہا، مریم، اللہ گناہ معاف کرے۔ اصل میں مسلمان تو وہی ہے جو ہمیشہ پانچوں وقت کی نماز پڑھے اور پورے روزے رکھے۔
ہوں! شکر ہے اب روزے کے بعد ہوئے مسلمان! اور غفور میاں جھینپتے ہوئے مسکرانے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.