کیا مرد واقعی سست اور بے سلیقہ ہوتے ہیں؟ ہمارے اس سے اختلاف یا اتفاق رائے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا کیونکہ عمومی رائے یہی معلوم ہوتی ہے۔ اسی صفحے پر آپ ایک کارٹون دیکھیں گے۔ میاں نے لمبے ڈنڈے والے جھاڑو سے فرشوں کی صفائی کرنے کے بعد باورچی خانے میں بہت سی پلیٹیں دھولی ہیں۔ لیکن ابھی کچھ باقی بھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں میاں نے کچھ زیادہ دیر لگادی ہے کیونکہ بی بی پہلے اپنے کمرے میں بیٹھی ریڈیو سنتی رہیں۔ پھر ڈرائنگ روم میں رسالوں میں تصویریں دیکھتی رہیں۔ آخر اس سے بھی اکتا گئیں۔ گارٹون میں وہ میاں سے کہہ رہی ہیں، ’’ذرا جلدی کام کیا کرو جی! میرا بھی کچھ خیال ہے؟ کتنی دیر سے اکیلی بیٹھی بور ہو رہی ہوں۔‘‘
یہ مسئلہ بہت سے گھروں کا ہے۔ مرد لوگ گھر کی صفائی، چائے بنانے، برتن دھونے وغیرہ میں اتنی دیر لگادیتے ہیں کہ بیویاں عاجز آ جاتی ہیں۔ اکثر دیکھا ہے۔۔۔ صبح کا وقت ہے۔ بیوی بستر میں پڑی ہیں، میاں چائے دانی بھر کر ان کے بستر کے پاس کی میز پر رکھ تو گئے لیکن پھر جاکر فرش رگڑنے لگے یا ناشتہ بنانے لگے۔ اتنا خیال نہیں کہ چائے بنا کر بھی دینی ہے۔ ادھر بیوی ایک ہاتھ سے اخبار تھامے اسے پڑھ رہی ہیں۔ دوسرے سے سرکھجارہی ہیں۔ ان کا کوئی ہاتھ خالی ہوتا تو شائد خود ہی بنا لیتیں۔ میاں صاحب ناشتہ بنا کر بچوں کو نہلانے اور کپڑے بدلنے میں جٹ جائیں گے، اور پھر اپنے اور بیوی کے جوتے پالش کرنے کے بعد ان کو دفتر جانے کی جلدی پڑجائے گی۔ شام کو آتے ہی باورچی خانے میں جا گھسیں گے یا غسل خانے میں بیٹھ کر بچوں کے کپڑے دھوئیں گے۔ اس سے فارغ ہوئے تو کچھ سلائی کا کام لے بیٹھیں گے۔ قمیصوں کے بٹن ٹانک رہے ہیں، جرابیں رفو کر رہے ہیں۔ گلدان سجا رہے ہیں۔ گویا ہر چیز کا خیال ہے۔ نہیں خیال تو بیوی کا جو اپنے کمرے میں پڑی برابر ریڈیو سن رہی ہیں یا معمے حل کر رہی ہیں اور بور ہو رہی ہیں۔ میاں سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ آکر ان کے پاؤں ہی داب دے۔
ایک صاحبہ نے پچھلے دنوں ایک مضمون میں اس بات کی طرف توجہ دلائی تھی اور اشارۃً کہا تھا کہ مردوں کو خانہ داری کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ شوہر صاحب علی الصبح بیوی کو بستر میں ہی چائے کی ایک گرما گرم پیالی بنا کر دے دیا کریں تو یہ معمولی سی بات باہمی محبت میں اضافے کا موجب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا شکوہ بھی کیا کہ بہت سے مردوں کو سویٹر بننے نہیں آتے۔ حالانکہ یورپ میں چند صدی پیشتر یہ کام مرد ہی انجام دیا کرتے تھے۔ اس کے انہوں نے کئی فائدے بھی گنوائے تھے کہ سویٹر بننے سے سگریٹ پینے کی عادت چھوٹ جاتی ہے۔ وہ یوں کہ سگریٹ کا گل جھاڑنے کے لیے ہربار سلائیاں ہاتھ سے رکھنی پڑتی ہیں اور یہ سلائیاں چلانا اتنا دلچسپ شغل ہے کہ چند دن کے بعد مرد سگریٹ پر لعنت بھیج دے گا کہ اس سے سویٹر بننے کا مزا کرکرا ہوتا ہے۔
ہماری رائے میں مردوں کے لیے شروع ہی میں اس قسم کی تربیت کا بندوبست ہو تو اچھا ہے۔ مثلاً ان کی تعلیم میں خانہ داری کا مضمون ضرور ہونا چاہیے۔ اور اسکولوں میں انہیں آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، طرح طرح کے سالن تیار کرنا، بچوں کی نگہداشت، گھر کی صفائی وغیرہ سکھانے کا عملی انتظام ضرور ہو، تا کہ شادی کے بعد گھر سنبھال سکیں۔ اس خیال میں نہیں رہنا چاہیے کہ پڑھ لکھ کے گریجویٹ ہوگئے ہیں اور برسر روزگار ہیں تو لڑکیوں کے والدین ان کے گھر کے چکر کاٹنے شروع کردیں گے۔
اب تو یہ ضرورت رشتہ کے اشتہار میں بھی یہ قید لگا دی جائے گی کہ لڑکا قبول صورت اور پابند صوم صلوٰۃ ہونے کے علاوہ گھر داری کا سلیقہ رکھتا ہو۔ سینا پرونا جانتا ہو۔ آٹھوں گانٹھ کمیت ہو۔ جہیز کی کوئی قید نہیں۔ جتنا زیادہ لا سکے، لے آئے۔ لڑکی کی والدہ جب لڑکے کو دیکھنے آئیں گی تو لڑکے والے اس امر کا اہتمام کریں گے کہ اس وقت لڑکا حیا کی سرخی چہرے پر لیے باورچی خانے میں بیٹھا آلو گوشت پکا رہا ہو اور آٹا گوندھ کر ایک طرف رکھ چھوڑا ہو۔ لڑکے کی والدہ بہانے بہانے اپنی ہونے والی یا نہ ہونے والی سمدھن کو بتائے گی کہ یہ ساری چادریں اور غلاف میرے بیٹے نے کاڑھ رکھے ہیں۔ اپنے کالج میں کڑھائی سلائی میں ہمیشہ اول آتا رہا ہے۔ کھانا پکانے کی تربیت بھی ہم نے اچھی دلائی ہے۔ چھ مہینے تو اس نے شہر کے مشہور مسلم کالی ہوٹل میں خانساماں کا کام کیا ہے۔ اور بیاہ شادیوں میں دیگیں پکانے بھی جاتا رہا ہے۔
ادھر سمدھن اپنی بیٹی کے گن گائیں گی کہ بہت خلیق اور ہنس مکھ ہیں۔ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتی ہیں اس لیے سہیلیوں کو لیے اکثر باغوں کی سیر کرتی رہتی ہیں۔ تصویریں بھی بناتی ہیں۔ آرٹ کونسل کی نمائش میں پہلا انعام انہی کو ملا۔ وہ یوں کہ انہوں نے طوطا بنایا تھا۔ کسی نے اسے گھوڑا بتایا۔ کسی نے درخت۔ کسی نے آٹا پیسنے کی چکی۔ صحیح کوئی نہ بتا سکا۔ فلم کوئی نہیں چھوڑی اور مطالعے کا ایسا شوق ہے کہ پاکستان کا کوئی فلمی رسالہ نہیں جو نہ منگاتی ہوں۔ گاتی بھی ہیں۔ ٹکٹ جمع کرنے اور قلمی دوستی کا شوق ہے۔ ہم نے اس بات کی احتیاط رکھی ہے کہ کھانے پکانے اور صفائی دھلائی سے اس کے ان اشغال میں حرج واقع نہ ہو۔ یوں بھی ان کے ابا پرانی وضع کے ہیں۔ ان امور میں عورتوں کا عمل دخل پسند نہیں کرتے۔ اب میں مطمئن ہوں کہ جیسا بَر میں چاہتی تھی، ویسا اللہ نے دے دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.