Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رموز شکم پروری

یوسف ناظم

رموز شکم پروری

یوسف ناظم

MORE BYیوسف ناظم

    ایک اچھی توند جس کی دیکھ بھال بھی مقبول طریقے پر کی گئی ہو، عمدہ صحت کی نشانی ہے۔ یہ اگر قدرت سے نصیب ہوتا ہے تو کیا کہنے ورنہ آدمی خود بھی توجہ کرے تو کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ ایک مناسب توند کا مالک نہ بن سکے، بس تھوڑی سی محنت درکار ہے۔ باڈی بلڈنگ کے کام کے لئے میونسپل لائسنس کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں ہے۔ آدمی اپنے جسم کو جیسا اس کا جی چاہے ترتیب دے سکتا ہے۔

    مردوں کے لیے خاص طور پر توند ایک ضروری چیز ہے۔ مردانہ وجاہت اسی کے سہارے بارآور ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ توند آدمی کو تکلیف پہنچاتی ہے وہ غلط سوچتے ہیں۔ ایک توند کسی دوسرے آدمی کو تو تکلیف پہنچا سکتی ہے لیکن خود اس کے مالک کو اس سے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتی۔ توند آدمی کے جسمانی حُسن میں اضافہ کرتی ہے اور یہ اضافہ دور ہی سے نظر آجاتا ہے، اس اضافے کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ جمالیاتی فائدے کے علاوہ اس کے اور فائدے بھی ہیں جن میں ایک تو تعلیمی فائدہ ہے۔ توند اگر بہت زیادہ ابھری ہوئی ہو ایک سطح مرتفع کی طرح اس کا گھیراؤ بھی خاصا بڑا ہو تو گھر میں بچوں کو یہ سمجھانے میں آسانی ہوتی ہے کہ دنیا گول ہے، ثبوت کے طور پر توند پیش کی جاسکتی ہے۔ یہ حتمی دلیل ہوتی ہے اور عین الیقین کے کام آتی ہے۔

    کرہ ارض کا اس سے بہتر اور کون سا نمونہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کا نقشہ بتانے والے جغرافیائی گولے اب بہت قیمتی ہوگئے ہیں بلکہ اب یہ صنعت ڈھاکے کی ململ اور اورنگ آباد کے ہمرو کی صنعت کی طرح روبہ زوال ہے اور دنیا کی گولائی پر مشتمل جست یا کسی اور خام مال کی مدد سے جو گولے بنتے ہیں، ہر شخص کی قوتِ خرید کے احاطے میں نہیں ہوتے۔ ان حالات میں توند ہی سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ گھومتی نہیں ہے لیکن کوشش کی جائے تو گھوم بھی سکتی ہے۔

    قدرتی اشیاء کو یوں بھی مصنوعات پر ترجیح حاصل ہے۔ توند میں ہوتا کچھ نہیں ہے، صرف توند ہوتی ہے اور اگر یہ تنومند اور شکم پرور ہو تو چلتے وقت یوں ہلتی ہے کہ بعض لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب گرنے والی ہو لیکن یہ ممکن نہیں ہے بلکہ ایسا سوچنا بھی توند کی بے حرمتی کرنے کے علاوہ قدرت کی کاریگری کے باب میں سوئے ظن ہے۔ قدرت نے اسے آدمی کا جزو لاینفک بنایا ہے۔

    کچھ لوگ خود اپنی محرومی اور کم مائیگی کی وجہ سے دوسروں کی اس نعمت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے اور بنا وٹی اخلاق کو زیر استعمال لاکر توند کو چھانٹنے کا مشورہ دیتے ہیں اور کچھ طبی اور طبیعاتی مقولے پیش کرتے ہیں۔ یہ سب بغض وحسد کی بنا پر ہوتا ہے۔ ان کے مشورے پر کچھ لوگ عمل بھی کرتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہی، توند کوئی بادل تو ہے نہیں کہ چھٹ جائے۔ اسے رفع کرنے کے لئے جو ورزش کرنی پڑتی ہے اس میں نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ اس سے آدمی کی معیشت بھی متاثر ہوتی ہے۔ چہل قدمی اور جاگنگ پارک میں جاکر کود پھاند میں وہ جوتے جو آج کل چاندی کے بھاؤ بک رہے ہیں اور جن کی پائیداری کی چھ ماہ کی ضمانت دی جاتی ہے۔

    صرف تین ہفتوں میں یا تو اپنی باچھیں کھول دیتے ہیں یا ان کی ایڑی اتنی گھس جاتی ہے کہ آدمی کی توند تو کم نہیں ہوتی، اس کا قد ضرور گھٹ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں گھوڑے کی سواری یا تیراکی کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے(مشورہ دینے میں اپنے گھر سے تو کچھ جاتا نہیں ہے) لیکن گھوڑے کی سواری کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گھوڑے کرایے پر ضرور مل جاتے ہیں لیکن وہ صرف (جائز) شادی کے موقعوں پر دولھوں کے استعمال کے لئے دیئے جاتے ہیں۔ اسپ آزاری کے لئے نہیں دیئے جاتے۔

    گھوڑا بھی آخر مخلوقِ خداوندی ہے اور ریس کے گھوڑوں کو توند دور کرنے کے مشن میں استعمال کرنا قدرے خطرناک ہے۔ دونوں کے لئے اور ترینے کی ورزش کا معاملہ تو اسے نقش بر آب سمجھئے۔ ہر علاقے میں سوئمنگ پول تو ہوتے نہیں اور جو ہوتے ہیں ان میں گنجائش نہیں ہوتی کہ یہ دنیا گول ہے کا مظاہرہ پیش کرنے والوں کے لئے جگہ نکالی جاسکے۔ اس کے علاوہ یہ حوض مقاماتِ مہوشاں ہوتے ہیں۔

    اعلیٰ درجے کے کلب میں غسل آبی کے لئے جو حوض بنائے جاتے ہیں ان کے گرد اور ان کے اندر تیرنے والوں سے زیادہ ڈوبنے والوں کا مجمع ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں سوئمنگ پول کے علاوہ بوٹ کلب بھی ہوتے ہیں لیکن یہ بھی ہمارے ممدوحین کے اغراض و مقاصد کے کام نہیں آسکتے۔ اول تو کلب تک پہنچنے کا راستہ بالعموم ان خادمانِ ملک وقوم کے زیر استعمال رہتا ہے جو اپنے کاروبار کی عملی وضاحت کے لئے ہرروز ایک ریلی منعقد کرتے ہیں۔

    ریلی اس چیز کو کہتے ہیں جس کے لئے دنیا کا کوئی قانون کام نہیں آسکتا۔ یہ ہمیشہ اور ہر جگہ منعقد ہوتی رہیں گی اور ایسے ملک میں جہاں پر روزگار تلاش کرنے والاوں کی بہتات ہے۔ ہر روز کم سے کم چار ریلیاں تو ہونی ہی چاہئیں۔ ان ریلیوں میں ہر وہ شخص حصہ لیتا ہے جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس ریلی کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ ہمارے یہاں خوش قسمتی سے چونکہ لاعلم لوگوں کی کمی نہیں ہے اس لئے اس قسم کی ریلیوں میں ایک تا پانچ لاکھ افراد کی شرکت ایک معمول ہے، یہ راحت کا معاملہ ہے۔

    ریلی کے شرکاء کے اخراجات و ماحضر سربراہان ریلی کے ذمہ ہوتے ہیں اور ایک ریلی میں شرکت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کم سے کم دو شب و روز شکم سیر ہوکر گذارے جاسکتے ہیں۔ ان شب و روز میں سے دن کے مقابلے رات بہتر گزرتی ہے، یہ مخلوط ریلیاں ہوتی ہیں۔ حساب داں لوگوں کا خیال ہے کہ ایک ریلی پر اس غریب اور مقروض ملک میں جتنی رقم خرچ ہوتی ہے اس رقم سے پورے ملک کی شکستہ سڑکوں کی مرمت کی جا سکتی ہے۔ کم سے کم گڑھوں کی خانہ پوری تو ہوہی سکتی ہے۔ یہ کام اس لئے ضروری ہے کہ یہ سڑکیں آخر ریلیوں اور رتھ یاتراؤں میں ہی استعمال ہوںگی۔

    ہمارے یہاں اب اس کے علاوہ ہوتا بھی کیا ہے۔ سڑکوں کی مرمت ہو جائے تو ضمناً ضرورت مند لوگ بھی انھیں استعمال کرلیں گے۔ یہ بات بہرحال طے ہے کہ ان ریلیوں کے پس پشت جو لوگ ہوتے ہیں وہ خود ان میں اس لئے حصہ نہیں لیتے کہ کہیں اتنے طویل سفر کی وجہ سے ان کے تن و نوش پر بڑا اثر نہ پڑے۔ کچھ توندیں تیل کے ذخائر کی طرح فیض رساں ہوتی ہیں اور ہمارے ملک وقوم کے بہی خواہ ان ذخائر سے حسب ضرورت تیل حاصل کرتے رہنے کے ماہر ہوتے ہیں۔

    یہ ٹیکنالوجی کسی نصاب یا درس کی نہیں بلکہ میدان سیاست میں برسہا برس کی ریاضت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے خود ان ماہرین کی توند بھی بن جاتی ہے۔ لیکن یہ نظر نہیں آتی۔ سارے چمتکار دکھائی تھوڑے ہی دیتے ہیں ان لوگوں کے دامن کانٹوں سے محفوظ رہتے ہیں اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نباتات میں بھی جان ہوتی ہے۔ یہ بات اب تسلیم کرلی گئی ہے اور اب تو خاردار درختوں اور پودوں کے کانٹے بھی اتنے حساس ہوگئے ہیں کہ وہ کوئی ایسا دامن نہیں تھامتے جو صاف نہ ہو۔ عوام کے ہمدرد لوگ اسی لئے کسی جگہ بھی جا بسیں کوئی دامن گیر نہیں ہوتا۔ ان کے سرخرو ہونے کے لئے ہر جگہ گرین سگنل موجود ہے۔

    ہمیں کچھ کچھ یاد ہے کہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں لیکن یہ کوئی کار آمد بات نہیں تھی بلکہ ایک شاعر نے تو اپنے راستے میں کانٹے بچھے دیکھ کر کہا تھا کہ جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر۔ بھلا یہ بھی کوئی نظریۂ حیات ہوا۔ اسی قسم کی باتوں سے تو زندگی میں اداسی اور مایوسی درآئی ہے زندگی گذارنے کا فن صرف ان لوگوں کو آتا ہے جو گلوں کی بات کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً گلزاروں سے انسپریشن حاصل کرتے ہیں اور اس کے لئے آدمی کو یا تو سیاسی شطرنج کا کھلاڑی ہونا چاہئے یا پھر کم سے امتحانی پرچوں کا ممتحن بلکہ ممتحن ہونے میں فائدے زیادہ ہیں۔

    اسٹار ٹی وی کے پروگراموں سے گہرا تعلق رکھنے والے (ذہین) طالب علموں کے (مجبور) والدین ممتحوں کی فلاح وبہبود کے لئے ہمہ توند فکرمند رہتے ہیں۔ یہ بھی ان کے روز مرہ مشاغل میں ایک اہم مصروفیت ہوتی ہے اور ان کی اس فکر اور توجہ کے طفیل طالب علم کبھی فیل نہیں ہونے پاتے، البتہ کمپیوٹر فیل ہوجاتے ہیں۔ کمپیوٹروں کے انھی پوشیدہ فوائد کی وجہ سے اب ہر نوجوان انہی کی طرف راغب ہوتا جارہاہے۔ بعض صورتیں تو اتنی خوشگوار ہوتی ہیں کہ مخصوص طالب علموں کے چند منتخب جوابی پرچے ممتحن تک پہنچنے نہیں پاتے اور گمشدہ پرچوں پر شبہ کا فائدہ دیئے جانے کا مقبول عام طریقہ جو حال حال میں رائج ہوا ہے، ان طالب علموں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دیتا ہے اور یہ دروازہ پچھلا دروازہ نہیں ہوتا، اسے حُسن انتظام کہا جاتا ہے۔ ریلیوں کے شرکاء کی طرح یہاں بھی متعلقین کے دوچار شب و روز اچھے گذر جاتے ہیں۔

    ان والدین کو بھی مناسب داد دی جانی چاہئے جو اپنے فرزند ارجمند یا دختر نیک اختر کی شادی کے موقعہ پر اپنے مہمانوں کو صرف دعوتی کارڈ نہیں بھیجتے، ساتھ میں چاندی کا سکہ بھی بھیجتے ہیں، اپنے نام کا سکہ جاری کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقعہ نہیں ہوتا۔ ان سکوں میں ۱۰۰ فیصد چاندی استعمال کی جاتی یہ نہیں کہ سرکاری سکوں کی طرح ملاوٹ کے سکے جاری کردیئے جائیں، اپنے نام کے سکے جاری کرنے کا حق پچھلے زمانے میں صرف بادشاہوں، راجاؤں اور مہاراجاؤں کا تھا۔ ہر سکے پر ان کی شبیہ بھی ہوتی تھی۔ شبیہ تو اتنی صاف نہیں ہوتی تھی لیکن تاج شاہی والا حصہ بہت صاف رہتا تھا اور تاج کے پورے خد وخال نمایاں رہتے تھے۔ اُڑتی چڑیاؤں کے پرگن لینے والے لوگ تو تاج میں لگے ہوئے موتی بھی گن لیتے تھے۔ راجے مہارج اور بادشاہ اپنے اپنے مداحوں کے منہ اشرفیوں سے بھرتے تھے۔ (مشہور تو یہی ہے) یہ والدین اپنے باراتیوں کے منہ چاندی کے سکوں سے بھرتے تو نہیں ہیں لیکن بند ضرور کردیتے ہیں۔ قارون کے خزانے کے دفن ہوجانے کے واقعے سے ہمارا عتقاد اٹھتا جارہا ہے (ضعیف العمری اور ضعیف الاعتقادی میں بھی شاید بہناپا ہو۔)

    ہم نے ٹیلی ویژن پر کچھ ایسے پہلوانوں کو بھی دیکھا ہے جن کی کمر میں ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ اتنی وسیع اور فراخ ہوتی ہے کہ قانون کے لمبے ہاتھ بھی یہاں کام نہیں آسکتے۔ اس کمر کو کمر کہنا مناسب نہیں ہے۔ ان پہلوانوں میں سے کمترین کمر رکھنے والے پہلوان کی کم سے کم وہ سو کمریں سما سکتی ہیں جن کا ذکر اردو شاعری میں آیاہے۔ ایسی مدور مرغن اور سڈول کمر کے بارے میں معلوم نہیں ہمارے شاعر طبع آزمائی کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ کمر ایک شعر میں نہیں سما سکتی اس کے لئے پورا ایک شاہ نامہ درکار ہے۔ یہ امر بھی دریافت طلب ہے کہ آخر یہ کمر آتی کس کام ہے۔ کوئی فیتہ اسے ناپ نہیں سکتا اور سرخ فیتہ تو کب کا بیکار ہوچکا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے