Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سامع

MORE BYکنہیا لال کپور

    جس دن سے وہ ایک گم نام جزیرے کی سیاحت سے واپس آیا تھا، بہت اداس رہتا تھا۔ یہ بات تو نہیں تھی کہ اسے اس جزیرے کی یاد رہ رہ کر آتی تھی، کیوں کہ وہ جزیرہ اس قابل ہی کب تھا کہ اس کی زیارت دوبارہ کی جائے۔ کوئی بڑا فضول سا جزیرہ تھا۔ ’’کانا بانا کاٹا‘‘اور واقع تھا وہ بحرالکاہل میں۔ وہ ایک کلچرل وفد کے ساتھ اس جزیرے میں گیا تھا۔

    یہ صحیح ہے کہ اس جزیرے میں رہنے والوں کےطور طریقے عجیب و غریب تھے۔ مثال کے طور پر وہ چائے یا کافی کی بجائےسونف کا عرق پیتےتھے۔ مصافحہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے کان اینٹھتے تھے۔ کوٹ کے اوپر قمیص پہنتےتھے۔ ناچتےوقت روتے اور عبادت کرتے وقت زور زور سے ہنستے تھے۔

    یہ ایسی باتیں تھیں جنہیں دلچسپ کہا جاسکتا ہےاور جنہیں سننے کےلیےلوگوں کوبیتاب ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے جب بھی اس نے ’’کانا بانا کاٹا‘‘کا ذکرکسی مجلس میں کیا اسےسخت مایوسی ہوئی۔ اول تو ’’کانا بانا کاٹا‘‘ کا نام سن کرہی سامعین قہقہےلگا کر ہنسنے لگے۔ نہیں تو کوئی فوراً چمک کر کہتا۔ ’’ہٹاؤ یار بکواس کو۔ تم وہاں کیا گئے ایک دم Bore بن کے لوٹے۔ جب دیکھو کانا بانا کاٹا۔ کوئی کام کی بات کرو۔‘‘

    کئی بار اس نے موقع محل سمجھ کر’’کانا بابا کاٹا‘‘ کا ذکر چھیڑا۔ لیکن لوگوں نے تو جیسے اس میں دلچسپی لینےکی قسم کھا رکھی تھی۔ ایک دفعہ چند شاعروں کےدرمیان بیٹھے ہوئے اس نےکہا۔ آپ شاید نہیں جانتےکہ’’کانا بانا کاٹا‘‘میں تمام شاعر نثر میں شاعری کرتے ہیں۔ اور وہ بھی چند گنے چنے موضوعات پر۔ مثلاً گیدڑ، کھٹمل، چمگادڑ۔ سب سے بڑا شاعر اس شخص کو سمجھا جاتا ہےجس نےگیدڑ پر سب سےزیادہ نظمیں لکھی ہوں۔ میں آپ کو گولا گولا کی ایک نظم سناتا ہوں۔ گیدڑ کو مخاطب کرتے ہوئے وہ کہتا ہے۔

    ’’اے گیدڑ! اگر تجھے شب بھر نیند نہیں آتی تو، تُو مارفیا کا ٹیکہ کیوں نہیں لگوا لیتا۔ اے گیدڑ! اتنے زور سےمت چلا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تیرا بڑا سا پھیپھڑا پھٹ جائے۔‘‘

    ’’اور اے گیدڑ۔۔۔‘‘

    کسی شاعر نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔ ’’خدا کے لیے رحم کرو ہمارے حال پر۔ کیوں بور کرنے پر تلے ہو۔‘‘ اوراس کی حسرت دل ہی دل میں رہ گئی تھی کہ گیدڑ والی ساری نظم وہ شاعروں کو سنا نہ سکا۔

    اسی طرح ایک دفعہ اس نے وکیلوں کی ایک محفل میں کہا۔ ’’آپ شاید نہیں جانتے، کہ ’کانا بانا کاٹا ‘میں وکیل کو ’ٹاپا‘ کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں’دلچسپ جھوٹ بولنےوالا‘۔ اور ’جج‘ کو ’کاپا‘ کہا جاتا ہے، جس کےمعنی ’غلط فیصلہ کرنے والا‘ اورگواہ کو کہتےہیں ’ماپا‘جس کےمعنی ۔۔۔‘‘

    اس پر ایک وکیل نے اس کی طرف اشارہ کرتےہوئےکہا تھا، ’’اور آپ کو ’باپا‘ کہا جاتا ہے‘‘، جس کےمعنی ہوئے فضول بکواس کرنےوالا۔ اس دن کےبعد اس نےمعمول بنا لیا تھا کہ کسی مجلس میں ’’کانا بانا کاٹا‘‘ کا ذکرنہیں کرے گا۔ بلکہ اکیلے دُکیلے آدمی کےساتھ بات چلانےکی کوشش کرے گا۔ ایک دن سڑک پر چلتے ہوئے ایک فقیر نےاس سے پیسے کا سوال کیا۔ اس نے فقیر کی ہتھیلی پر ایک لکٹری کا سکہ جو وہ کانا بانا کاٹا سے لایا تھا رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’جانتے ہو یہ کس ملک کا سکہ ہے۔‘‘

    ’’نہیں جانتا۔‘‘

    ’’یہ ’کانا بانا کاٹا کا‘ سکہ ہے۔ جانتےہو یہ ملک کہاں واقع ہے۔‘‘

    ’’نہیں جانتا۔‘‘

    ’’بحرالکاہل میں، جاپان سےتین ہزار۔۔۔‘‘

    ’’جی ہوگا۔ لیکن غریب پرور میں نے تو پیسے کا سوال کیا تھا۔‘‘

    ایک دوکاندار سے صابن خریدتے وقت اس نےکہا۔ ’’کانا بانا کاٹا‘‘ میں صابن نہیں ہوتا۔ دراصل اس کی ضرورت بھی نہیں، وہاں عام طور پر لوگ ایک سال بعد نہاتے ہیں۔ عجیب ملک ہے۔ وہاں دوکاندار کو ’’چمپیٹو‘‘ کہتے ہیں جس کےمعنی ہوئے۔۔۔

    دوکاندار نے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’اچھا توآپ کو کون سا صابن چاہیے۔‘‘

    ایک بار باغ میں ٹہلتے ہوئے اس کی ملاقات ایک ضعیف آدمی سے ہوئی۔ اس نےسوچا موقعہ اچھا ہے، اس سےفائدہ اٹھایا جائے۔ آداب بجالانے کے بعد اس نےکہا۔ ’’بڑے میاں آپ کی کیا عمر ہوگی۔‘‘

    ’’کانا بانا کاٹا‘‘میں کسی شخص کو ساٹھ سال کےبعد زندہ رہنےکی اجازت نہیں۔

    ’’کانا بانا کاٹا کیا بلا ہے۔‘‘

    ’’بلا نہیں صاحب، ایک بڑا عجیب جزیرہ ہے۔ بحرالکاہل میں جاپان سے۔۔۔‘‘

    ’’اچھا ہوگا۔‘‘

    ’’لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں، کہ وہاں ساٹھ سال کے بعد کسی کو زندہ ۔۔۔‘‘

    ’’توکیا اسے پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔‘‘

    ’’جی ہاں۔‘‘

    ’’بڑا بے ہودہ ملک ہے۔‘‘

    ’’جی نہیں۔ بےہودہ نہیں۔ دیکھئے نا، اس قانون کا یہ فائدہ ہے کہ۔۔۔‘‘

    ’’اجی رہنےدیجئے۔ بزرگوں کےساتھ ایسا بےرحمانہ سلوک۔‘‘

    ’’سنئے تو۔ آپ نےپوری بات تو سنی نہیں۔‘‘

    ’’معاف کیجئے۔ میں ایسی فضول باتیں نہیں سنا کرتا۔‘‘

    آخر جب یہ حربہ بھی کوئی خاص کامیاب نہ رہا تو اس نے ایک اور تدبیر سوچی۔ ’’کانا بانا کاٹا‘‘سے وہ اپنے ساتھ چند سنگتراشی کے نمونے لایا تھا۔ وہ اس نےاپنےکمرے میں رکھ دیئے۔ اس کا خیال تھا کہ جب کوئی ملاقاتی اس سے ملنے آئےگا تو ضرور ان پرنظر دوڑانے کے بعد ان سےمتعلق سوال کرے گا، اور بات چل نکلےگی۔ لیکن اس کےسب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اکثرملاقاتیوں نےان کی جانب دیکھا تک نہیں۔ ایک آدھ نےدیکھنے کے بعد فرض کرلیا کہ کسی کباڑی سے اونے پونے چند فضول مجسمے خرید لیے گئے ہیں۔ ایک دن اس نےایک ملاقاتی کی توجہ ایک مجسمےکی طرف مبذول کراتے ہوئےکہا۔

    ’’یہ کس کا مجسمہ ہے۔‘‘

    ’’کسی بندر کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    ’’ارے نہیں۔ بندر کا نہیں۔ یہ کانا بانا کاٹا کےمشہور فلسفی ’موموکوکو‘ کا ہے۔‘‘

    ’’ہنھ۔‘‘

    ’’مومو کوکو‘‘ بڑا پہنچا ہوا فلسفی تھا۔ اس کےخیال میں انسان کی سب سے بڑی کمزوری عورت نہیں افیون ہے۔ خود ’’موموکوکو‘‘ہر روز تین سے چھ ماشے افیون کھا یا کرتا تھا۔ ایک دن جب اسے افیون نہ ملی۔ تو جانتے ہو اس نےکیا کیا۔

    ’’شاید خودکشی کرلی۔‘‘

    ’’نہیں خود کشی نہیں کی۔ وہ ایک پوستکا پودا جڑ اور پتوں سمیت کھا گیا۔ لیکن جب اسے۔۔۔‘‘

    ’’اچھا یا رکوئی اور بات کرو۔ یہ کس کا ذکر لے بیٹھے ۔‘‘

    ’’اسے سب سےزیادہ افسوس تب ہوتا تھا جب بات چل نکلنے کے بعد درمیان میں رک جاتی۔ مثلاً ایک اتوار کو اس کا ایک اخبار نویس دوست اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نےاسےمخاطب کرتےہوئے کہا۔‘‘تم شاید نہیں جانتےکہ ’’کانا بانا کاٹا’’ میں لوگ اخبار پڑھنے کے لئے نہیں آگ جلانے کے لیے خرید تے ہیں۔‘‘

    ’’لیکن وہ اخبار پڑھتےکیوں نہیں۔‘‘

    ’’ان کا خیال ہےکہ اخباروں میں سکینڈل کےعلاوہ کچھ نہیں ہوتا۔‘‘

    ’’یہ تو کوئی معقول دلیل نہیں۔‘‘

    ’’اپنا اپنا خیال ہے۔ اور ہاں وہاں سب اخباروں کے نا م ایک سے ہوتے ہے۔ یعنی ’رگڑرگڑ‘ جس کےمعنی ہوئے۔۔۔‘‘

    ’’کچھ بھی ہوئے، وئی کام کی بات کرو۔‘‘

    اور ایک دن تو اس کے ساتھ ایک عجیب سانحہ پیش آیا۔ اس کا ایک دوست جوپیرس سے تین سال کے بعد واپس آیا تھا، اسے ملنے کے لیے۔ اس نےسوچا کہ وہ ضرور’’کانا بانا کاٹا‘‘ کے کچھ حالات سننے پر رضا مند ہوگا۔

    اس نے ابھی تمہید ہی باندھی تھی کہ اس کے دوست نے مسکرا کر کہا۔ ’’لیکن یارکیا بات ہےفرانس کی۔ بڑا دلچسپ ملک ہے اور پیرس! پیرس زندہ دلوں کا شہر ہے۔ ہررات شب برات کا درجہ رکھتی ہے۔ آرٹسٹ بڑی لا ابالی طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ گلیاں بڑی پراسرار، ہوٹل دلہنوں کی طرح سجائے جاتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں پر پرستان کا دھوکا ہوتا ہے۔ سڑکیں اتنی صاف شفاف کہ ہاتھ لگے میلی ہو جائیں۔ سیاست دان معاملہ فہم اور نکتہ داں۔ شراب، آہ ظالم گویا شراب نہیں ایک تیز چھری ہےکہ اترتی چلی جائے وغیرہ وغیرہ۔‘‘

    آخر دو گھنٹے کے بعد جب اس کے دوست نے پیرس کا تذکرہ ختم کیا تواس نےمحسوس کیا کہ ایسےشخص سے ’’کانا بانا کاٹا‘‘ کا ذکر کرنا پرے درجے کی حماقت تھی۔

    جب اس کا حربہ بیکارثابت ہوا تو کھویا کھویا سا رہنےلگا۔ اسےانسانوں سے وحشت سی ہونے لگی۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔ انہیں اپنےسوا کسی چیز میں دلچسپی نہیں۔ صرف روٹی کمانے کا دھندا ان کے دل و دماغ پر سوار ہے۔ کانا بانا کاٹا کا ذکر نہ سن کر یہ اپنےساتھ کتنا ظلم کررہے ہیں۔ وہ جتنا ان باتوں کےمتعلق سوچتا اس کی اداسی میں اتنا ہی اضافہ ہوتا۔

    ایک دن اس نے اپنے آپ کو ضرورت سےزیادہ اداس پایا۔ اس نےایک ڈاکٹر کی دوکان کا رخ کیا۔ اتفاق سے ڈاکٹر کے پاس ایک مریض بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہ دوا لےکر رخصت ہوا تو ڈاکٹر نےکہا۔

    ’’فرمائیے آپ کو کیا شکایت ہے۔‘‘

    ’’ہروقت اداس رہتا ہوں۔‘‘

    ’’وجہ؟‘‘

    ’’بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔‘‘

    ’’یہ شکایت کب سے ہے۔‘‘

    ’’جب سےکانا بانا کاٹا سےلوٹا ہوں۔‘‘

    ’’کانا بانا کاٹا۔ یہ کسی ملک کا نام ہے کیا؟‘‘

    ’’جی ہاں، ایک جزیرہ ہے بحر الکاہل میں۔‘‘

    ’’جاپان سےکتنا دور ہے۔‘‘

    ’’کوئی تین ہزار میل۔‘‘

    ’’آپ وہاں کس سلسلے میں تشریف لے گئے تھے۔‘‘

    ’’ایک کلچرل وفد کے ساتھ گیا تھا۔‘‘

    ’’آپ فن کارہیں۔‘‘

    ’’مصور ہوں۔‘‘

    ’’تو خوب سیر کی۔‘‘

    ’’جی ہاں ایک مہینہ رہا‘‘

    ’’تو کیا کیا دیکھا وہاں آپ نے۔‘‘

    ’’بہت کچھ۔ بڑا عجیب جزیرہ ہے۔‘‘

    ’’ہمیں بھی کچھ بتائیے۔‘‘

    ’’وہاں ڈاکٹر نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’ڈاکٹر نہیں ہوتے، تو پھر جو لوگ بیمار پڑتے ہیں وہ علاج کس سے کراتے ہیں۔‘‘

    ’’چوں کہ انہیں معلوم ہےکہ علاج کرنے والا کوئی نہیں، اس لیےوہ بیمار ہی نہیں پڑتے۔‘‘

    ’’اچھا کوئی اور بات بتائیے۔‘‘

    ’’وہاں مکانوں کے دروازے نہیں ہوتے۔‘‘

    ’’تو لوگ اندر کس طرح آتے ہیں۔‘‘

    ’’کھڑکیاں جو ہوتی ہیں۔‘‘

    ’’اچھا اور کیا دیکھا۔‘‘

    ’’وہاں بچےکی پیدائش پرماتم منایا جاتا ہے۔‘‘

    ’’وہ کیوں۔‘‘

    ’’وہ کہتےہیں کہ ہرنیا بچہ اپنے ساتھ نئی مصیبتیں لاتا ہے۔‘‘

    ’’بہت خوب۔ اچھا میں آپ کےلیےدوا تیار کرلوں۔ باقی باتیں۔۔۔‘‘

    ’’دوا رہنےدیجئے۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔‘‘

    ’’ابھی توآپ کہہ رہےتھے کہ آپ ہروقت اداس رہتے ہیں۔‘‘

    ’’جس شے کی کمی مجھے اداس رکھتی تھی وہ مجھے مل گئی۔‘‘

    ’’وہ کون سی شے ہے۔‘‘

    ’’سامع سننے والا‘‘

    ڈاکٹر اس کا منہ تکنے لگا۔ لیکن وہ چپکے سے ’’آداب عرض ہے‘‘ کہہ کر دوکان سے باہر چلا گیا۔

    مأخذ :
    • کتاب : Taraqqi Pasand Ghalib (Pg. 23)
    • Author : Kanahiya Lal Kapoor

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے