ہمارے عزیز دوست جمیل الدین عالی دوہوں والے، تماشا مرے آگے والے، نے اپنے ناطقہ کو سربگر بیاں کرتے ہوئے اخبار میں ایسا رقت انگیز مضمون لکھا ہے کہ جدھر جائیے خلقت زاروقطار رو رہی ہے۔ سارا شہر دیوار گریہ بنا ہوا ہے۔ لیاری کی جھگیاں بہہ گئی ہیں اور محرم کی مجلسیں ماند پڑگئی ہیں۔ ہم دوسروں کو کیا کہیں۔ ہمارا اپنا یہ حال ہے کہ یہ مضمون ہم لکھ نہیں رہے، ایک کرم فرما کو لکھوارہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاتھ خالی نہیں۔ ایک تولیہ اس ہاتھ میں ہے، ایک اس میں۔ بولتے جاتے ہیں اور اپنی اشک شوئی کرتے جاتے ہیں۔
اس میں کچھ تاثیر موضوع کی بھی ہے۔ ان کا یہ مضمون علامہ اقبالؒ مرحوم کے بارے میں ہے اور خود علامہ مرحوم کے متعلق سبھی وقائع نگار متفق ہیں کہ بات بات پر رو دیا کرتے تھے۔ جہاں قوم کا نام آیا ان کی آنکھوں سے اشک کا چشمہ رواں ہوا۔ عالی صاحب کا کالم جواب کے ذرا دھندلا دھندلا چھپا ہے اس کی وجہ بھی مشین کی خرابی نہیں۔ لکھنے والا کاتب بھی صاحب دل تھا۔ اس کے آنسو لکھتے میں کاغذ پر ٹپکتے گئے اور سیاہی پھیل گئی۔ مشین مین نے اسے درست کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی پڑھا لکھا تھا۔ قوم کا درد دل میں رکھتا تھا۔ سیاہی کو مزید پھیکا کرنے میں کچھ حصہ اس کا بھی سمجھیے۔
عالی صاحب پہلے سیدھا سیدھا مضمون لکھا کرتے تھے۔ مطلب اخذ کرنے کا کام قارئین پر چھوڑ دیتے تھے لیکن پڑھنے والوں نے کہا کہ جناب آج کل اتنی فرصت کسے کہ پڑھے بھی اور اس کا مطلب بھی سوچے۔ آج کل کالجوں، یونیورسٹیوں تک میں تعلیم خلاصوں کے ذریعے اور امتحان گیس پیپروں کی مدد سے دیے جاتے ہیں۔ آپ بھی اپنی بات کا خلاصہ آخر میں ایک دو تین نمبر ڈال کر لکھ دیا کیجیے۔ آخر حکایات لقمان والے لقمان اور گلستان سعدی والے سعدی بھی تو یہی کیاکرتے تھے۔ آج تک کسی نے اعتراض نہ کیا کہ قارئین پر کند ذہنی کا گمان کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کے عالی صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں ضروری نکات مفید مشوروں کی صورت میں رقم کردیے اور یہ کام ایسا ہے کہ اس میں ان کا حریف کوئی نہیں۔ ان کی جو سانس آتی ہے اور جاتی ہے، مفت مشوروں سے خالی نہیں ہوتی۔ ’’مولوی صاحب کا گھوڑا‘‘کے مولوی صاحب کی طرح مشورہ دیا اور آگے چل دیے۔ ہم نے کئی بار عرض بھی کیا کہ رک کر دیکھ لیا کیجیے آپ کے مشورے کا نتیجہ کیا ہوا، کیا گل کھلا۔ لیکن،
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
کراچی کے یوم اقبالؒ کی عدیم المثال کامیابی سے خوش ہوکر، جو سرکاری سرپرستی میں ہوا، عالی صاحب نے فرمایا ہے کہ آیندہ یوم اقبال ہرڈویژن، ہرضلع، ہر تحصیل، ہر تھانے اور ہر گاؤں میں منایا جائے، اس سے قطع نظر کہ وہاں اقبال کو جاننے اور سمجھنے والا کوئی ہے کہ نہیں۔ یوم وغیرہ رضاکارانہ طور پر منانے کی عملی دقتوں سے واقف ہونے کی وجہ سے انہوں نے فرمایا ہے کہ یوم اقبالؒ منانا ہر مقامی حاکم کا ایک غیرسرکاری فرض قرار دے دیا جائے کہ بس اتنا سا سرکاری مراسلہ جاری کردیا جائے کہ مقامی حکام تقریبات اقبال کی ہمت افزائی کریں۔ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔
یہ بات ہمارے بھی تجربے میں آئی ہے۔ جہاں کوئی کمشنر یا ڈپٹی کمشنر ادب سے دلچسپی رکھنے والا آیا، سارا ضلع اشعار اور استعاروں میں باتیں کرنے لگا۔ بنیادی جمہوریتوں والے بھی غزلیں کہنا اور رسالے نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی کا یوم ہے۔ چونکہ سال میں صرف تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں، لہٰذا بعض شاعروں اور ادیبوں کے نام قلم زد بھی کرنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ ایک دن میں ایک سے زیادہ آدمیوں کا یوم منانا کچھ بھلا نہیں لگتا۔ ایک ضلع میں ہم ایک کام سے گئے۔ دیکھا کہ ایک گاؤں میں جھنڈیاں لگی ہیں اور لوگ دیگیں پکا رہے ہیں۔ ہم نے کہا کسی کی شادی یا عرس ہے کیا؟ معلوم ہوا نہیں۔ حضرت ملنگ گڑگانوی کایوم ہے۔
ایک صاحب کو جو پیش پیش تھے، ہم نے روک کر پوچھا کہ یہ کون صاحب تھے۔ کیونکہ ہم گڑگاؤں میں رہے ہیں، ان کانام نہیں سنا۔ کہنے لگے سنا تو ہم نے بھی نہیں، لیکن اوپر سے حکم آیا ہے۔ سنا ہے ڈپٹی کمشنر صاحب کی بیگم کے ماموں تھے۔ کلام ان کاچھپا نہیں۔ رسالوں والے متعصب تھے۔ چھاپتے ہی نہ تھے ورنہ شاعر سنا ہے اچھے تھے۔ آج ہم ان کی یاد تازہ کریں گے۔ قوالوں سے ان کی غزلیں گوائی جائیں گی اور جو چندہ گاؤں والوں نے تھانیدار صاحب کو رضاکارانہ طور پر دیا ہے، اس سے ملنگ مرحوم کا دیوان چھاپا جائے گا۔
اندریں حالات ہماری سفارش یہ ہے کہ اگر ادب کی ترقی مطلوب ہے تو آیندہ کسی کو حاکم ضلع مقرر کرتے ہوئے دیکھ لیا جائے کہ آیا شاعر ہے۔ کہیں نراسی ایس پی تو نہیں۔ یہ ہو جائے تو دیکھیے ادب میں کیسی بہار آتی ہے۔ سب لوگ کھیتی باڑی، آبپاشی وغیرہ چھوڑ کر یوم منانے میں لگ جائیں گے۔ کیونکہ ہوتا یہ ہے کہ جونہی کسی ضلع میں نیا ڈی سی چارج لیتا ہے، فورا ً اہل معاملہ سراغ لگاتے ہیں کہ آیندہ لائحہ عمل کیا ہو۔ اگر موصوف گھوڑوں کے شوقین ہیں تو گھوڑوں اور مویشیوں کا میلہ کیا جائے اور میونسپلٹی سے ریس کورس قائم کرنے کے لیے جگہ الاٹ کرائی جائے۔
اگر مزاج میں تصوف ہے تو عرس کیے جائیں اور مقامی درگاہ پر سفیدی کرائی جائے گی۔ اگر نمازی ہیں تو نماز سیکھی جائے کیا عجب کبھی پڑھنی پڑجائے۔ اگر پتہ چلتا ہے کہ شاعر ہے، حضرت آفتاب اکبر آبادی کا شاگرد ہے تو سبھی اپناقبلہ راست کرلیتے ہیں۔ فوراً ایک دھوم دھامی ملک گیر مشاعرے کا اعلان ہوتا ہے بلکہ ایک آدھ رسالہ بھی ڈپٹی کمشنر صاحب کی زیرسرپرستی آب و تاب سے نکلنا شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ نوبت چند روزہ ہوتی ہے۔ جونہی حضرت کا تبادلہ ہوا۔ ہم نے یہ دیکھا کہ بزم ادب کے دفتر میں کھلی بنولوں کی دکان کھل گئی اور ماہنامہ آفتاب عالم تاب کے دفتر میں کورے لٹھے کا ڈیپو قائم ہوگیا۔
خیر اقبال تو قومی شاعر ہے۔ تصور پاکستان کا خالق ہے تاہم یہ بعید از امکان نہیں کہ گاؤں کی یونین کونسل میں سر کلر پہنچے کہ اب کے یوم اقبال منایا جائے تو اس قسم کی گفتگو ہو۔
’’ایہہ کہیڑا اقبال بھئی؟‘‘
’’ڈاکٹر اقبال!‘‘
’’کون ڈاکٹر اقبال؟‘‘
’’ڈاکٹر اقبال نہیں جانتے۔ حکیم الامت ڈاکٹر اقبال!‘‘
’’یہ ڈی سی صاحب ہیں یا سول سرجن جو ڈاکٹروں حکیموں کے دن منائے جانے لگے۔ یہ کیا لگتے ہیں ڈی سی صاحب کے۔‘‘
’’کچھ بھی نہیں لگتے۔ شاعر تھے بہت بڑے، ۱۹۳۸ء میں مرگئے۔‘‘
’’مرگئے تو پھر یوم منانے کی کیا ضرورت ہے۔ کیوں اتنا خرچہ کیا جائے۔ جب کہ وہ ڈی سی صاحب کے رشتہ دار بھی نہ تھے۔ کہاں کے رہنے والے تھے؟‘‘
’’سیالکوٹ کے۔‘‘
’’سیالکوٹ کے؟ پھر تو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ ہماری بیگم کے گرائیں تھے۔ ضرور کوئی تگڑے آدمی ہوں گے۔‘‘
بعد ازاں رپورٹیں طلب کی جائیں گی۔ کس کس گاؤں میں یوم اقبالؒ منایا گیا کہاں نہیں۔ کوئی ہزار عذر کرے کہ جناب کوئی قوال ہی خالی نہیں ملا۔ ہم یوم اقبال کیسے مناتے۔ کوئی عذر مسموع نہ ہوگا۔ تھانے دار باندھ کے لے جائے گا کہ بدمعاش یوم اقبال نہیں مناتے؟ ڈی سی صاحب کے حکم کی سرتابی کرتے ہو؟ دو جی اسے حوالات میں، پڑھواؤ اسے بانگ درا، صبح خود ہی بانگ دیتا ملے گا کہ حضور غلطی ہوئی۔ بال بچوں والاہوں۔ آج ہی جاکے مناتا ہوں یوم اقبال۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.