کہا جاتا ہے کہ حقیقی خوشی کا اندازہ شادی کے بعد ہی ہوتا ہے لیکن اب کچھ نہیں کہا جاسکتا جو چیز ہاتھ سے نکل گئی، نکل گئی۔ شادی نہ کر کے پچھتانے میں نقصان یہ ہے کہ آدمی تنہا پچھتاتا ہے۔ شادی کرکے پچھتانے میں فائدہ یہ ہے کہ اس میں ایک رفیق کار ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے دل کی چوٹ بھی کچھ کم نہیں ہوتی، ویسے دوسری صورت میں جان کا زیاں زیادہ ہے۔
شادی کو خانہ آبادی کا نام بھی دیا گیا ہے اور یہ نام اس لئے دیاگیا ہے کہ شادی کی تقریب دلہن کے دولت خانے پر منعقد ہوتی ہے اور اگر یہ تقریب کسی شادی خانے میں منعقد ہو تو یہ شادی خانہ یقیناً آباد ہوجاتا ہے۔ جو لوگ دعوت ناموں اور رقعوں کو شخصی دعوت نامہ نہیں سمجھتے بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ الداعی سے کوئی سہو ہوگیا ہوگا، وہ اپنی وسیع القلبی کی وجہ سے شادی خانے کی رونق بڑھانے میں تکلف نہیں کرتے۔ ان کی اپنی ذاتی آبادی بھی ان کے ہمراہ ہوتی ہے اور شادی خانہ ہندوستان کی آبادی کا اشاریہ بن جاتا ہے۔
کچھ لوگ جو قواعد اردو سے اور زبان کی باریکیوں سے واقف ہوتے ہیں اس خیال کے حامی ہوتے ہیں کہ شادی خانہ آبادی کے الفاظ صوتی اعتبار سے اچھے معلوم ہوتے ہیں، ورنہ اس الفاظ کی صحیح ترتیب ِ آبادیٔ شادی خانہ ہونی چاہئے۔ ہمارا ذہن اتنی دور کا سفر نہیں کرسکتا اس لئے ہمیں اپنی توجہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔
یہ بات بہرحال طے ہے کہ قدرت نے ہرشخص کا جوڑ پیدا کیا ہے۔ بس اسی جوڑے کی تلاش میں فریقین سے غلطی ہو جاتی ہے۔ انسان ہے بھی خطا کا پتلا، شادی کے بعد اس کے پتلا بن جانے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔
شادی کس طرح کی جائے اس کے کئی طریقے رائج ہیں (گوکہ نتیجہ یکساں ہوتا ہے۔) سب سے اچھی شادی وہ مانی گئی ہے جس میں دو نو مولود بچے (ان میں سے ایک کا بچی ہونا ضروری ہے) پیدائش کے فوراً بعد ایک دوسرے کے نام ہبہ کردیئے جاتے ہیں۔ یہ شادی بچوں کی نانیاں خالائیں، پھوپھیاں اور مائیں طے کرتی ہیں۔ اس فہرست میں ماں کا نام سب کے آخر میں آتا ہے۔
یہ شادی بچوں کی شکل وصورت، تعلیم اور مستقبل کی پرواہ کئے بغیر طے کی جاتی ہے۔ قدرت پر بھروسہ کرنے کی بہترین مثال یہی شادی ہوتی ہے۔ بعض صورتیں تو اس سے بھی زیادہ ہولناک ہوتی ہیں، جب نولود بچے کو صرف اس امید پر مانگ لیا جاتا ہے کہ آئندہ پھوپھی کے گھر میں جب خوشی کی واردات ہوگی اور یہ واردات صنف نازک کی صورت میں ہوئی تو یہ نو مولود لڑکا اس کے کام آئے گا۔ اس موقعہ پر چونکہ بچے کی ماں کافی بدحواس ہوتی ہے اور دائیں سے بائیں کی طرف اپنا سرہلاتی ہے (بوجہ واردات حاضرین محفل اسے ماں کی رضامندی سمجھتے اور خوشی سے تقریباً اچھل پڑتے ہیں۔)
یہ غائبانہ تقریب عقد ہوتی ہے۔ چند سال بعد جب دوشیر خوار بچوں کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں (تقریباً) منسلک ہوچکے ہیں تو دونو ں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ متعلقہ والدین ان آنسووں کو خوشی کے آنسو سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ قدرت کی کرنی ایسی ہوتی ہے کہ یہ دونوں (تقریباً) شادی شدہ بچے سن بلوغ کو پہنچ کر غیرشعوری طورپر ایک دوسرے سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی زندگی کا وہ ثانیہ جس میں یہ معاہدہ ہوا تھا سانحہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی بچہ یہ صدمہ برداشت ہی نہیں کرپاتا اور بعد میں خبر یہ پھیلائی جاتی ہے کہ بچے کو ڈبے کی بیماری ہوگئی تھی، ڈاکٹر الگ بدنام ہوئے ہیں۔ بعض بچوں کے بن کھلے مرجھا جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ سورج کی روشنی دیکھنے سے پہلے ان کی شادی طے ہوجاتی ہے۔ یہ شادی کس کی خانہ آبادی ہوگی۔ یہ ایک اور ثقافتی حقیقت ہے کہ جب سے نومولود بچوں کی رسم مناکحت کا سلسلہ منقطع ہوا ہے بچوں کی شرح اموات میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔
والدین کی عین خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے ان کی یعنی والدین کی مرضی سے شادی کا کارنامہ انجام دیں اور اس کی خواہش کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ خود ان کی شادی ان کے والدین کی مرضی اور پسند سے ہوئی تھی۔ اس طرح عقد میں ہوا اور ہونا یہ تھا کہ ماں باپ کے کہنے پر لڑکا گردن جھکا دیتا تھا (یہ گردن پھر کبھی اٹھتی نہیں تھی) اور دوسری طرف لڑکی کو چپ لگ جاتی تھی(کیونکہ اسے بھی بولنا ہوتا تھا) اس ایجاب و قبول کو بعد میں برسرِعام یعنی محفل عقد میں مشتہر کیا جاتاتھا اور فریقین کی استطاعت اور زور بازو کے مطابق مصری، بادام اور چھوہارے کچھ اس انداز سے پھیکے جاتے تھے کہ ہر سمت سے آواز آتی تھی ’’اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی۔‘‘ والدین کی پسند کی شادی کا یہ طریقہ اب بھی مقبول ہے کیونکہ بالعموم یہ والدین اس بات کی احتیاط کرتے ہیں کہ دولہا دلہن کے انتخاب میں ان سے وہ غلطی سرزد نہ ہو جو ان کے والدین سے ہوئی تھی۔ تجربہ آدمی کا سب سے بڑا معلم ہے۔
والدین کی پسند کی شادیوں میں اکثر شادیاں کامیاب بھی ہوتی ہیں۔ کامیاب شادی اس شادی کو کہتے ہیں جس میں فریقین مشیت پدری کے آگے سر تسلیم خم کردیتے ہیں۔ از کار رفتہ شادی شدہ لوگوں کا یہی معمول ہے۔ جب دوسرے سارے راستے بند ہوں تو شادی کا کامیاب ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔ ویسے شادی اور شادمانی کو دو علیحدہ واصنافِ زندگی مان لیا گیا ہے۔
جن نوجوانوں کو اپنی ذات پر بھروسہ رہتا ہے وہ دخل در معقولات نام کی کوئی بات پسند نہیں کرتے اور خود عملی قدم اٹھاتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ایسا ہوجاتا ہے کہ نگاہ کہیں پڑتی اور قدم کہیں پڑتا ہے۔ اس نوع کی تقاریب مسرت میں کبھی کبھی فریقین کو اپنی قوت بازو کا بھی مظاہرہ کرنا پڑتا ہے اور یہی وہ صورت حال ہوتی جب کوئی دلیر اور آمادہ برپیکار نوجوان شہزادہ سلیم کو مات دے دیتا ہے (حوالے کے لئے ملاحظہ ہو شہزادہ سلیم اور بی بی انار کلی کی داستان معاشقہ) شہزادہ سلیم کی مشکل یہ تھی کہ اسے تخت طاؤس اور قص طاؤس میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ اس کی پسند بہرحال شاہانہ تھی عاشقانہ نہیں۔ اس کی نیت اور عمل کے بیچ میں شہنشاہ اکبر کا دبدبہ بھی حائل تھا۔ آج کے والدین میں وہ دبدبہ معدوم ہے۔ یوں بھی ہر شخص مہابلی تھوڑے ہی ہوتا ہے۔ یوں بھی آج کل سبز باغ دیکھنے کی وجہ سے نوجوان کچھ زیادہ ہی باغی ہوگئے ہیں۔
اپنی پسند کی شادی کا سلسلہ بظاہر نیا معلوم ہوتا ہے لیکن نیا ہے نہیں۔ دنیا میں کون سی چیز نئی ہے، اپنی پسند کی شادی سوئمبر کا ایک نیا روپ ہے۔ سوئمبر میں ہوتا یہ تھاکہ راج کماروں اور دیگر امیدواروں کو تو معلوم ہوتا تھاکہ ان کی مرکز نگاہ کون ہے۔ صرف راج کماری کو طے کرنا ہوتا تھا کہ حاضرین میں سے کس کا ستارہ گردش میں ہے۔ یہ بھی پسند کی شادی ہوتی تھی، پس فرق یہ تھا کہ اس میں فریقین کے بزرگوں کی منظوری شامل رہتی تھی۔ اب اسلوب بدل گیا ہے اور والدین کا حقِ ولدیت سلب کرلیا گیا ہے۔ مطلوب کرنے کایہ ایک مہذب طریقہ ہے۔ والدین کی پسند کی شادیوں میں کوئی دیباچہ نہیں ہوا کرتا تھا، اپنی پسند کی شادیوں میں دیباچے ضرور مانے گئے ہیں۔ یہ دیباچے کلکام اور طعام پر مشتمل ہوتے ہیں۔
شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں مل کر اپنے شہر کے ہر ہوٹل اور ریستوران کا سروے کرلیتے ہیں۔ اس سروے میں لڑکے کی طرف سے پہل ہوتی ہے (پہل لڑکی کا کام ہوتا ہے) لیکن شادی کے بعد جب لڑکی سابقہ رویے پر ثابت قدمی کے ساتھ برقرار رہنا چاہتی ہے تو گھر میں سے دھواں تو اٹھتا ہی ہے لیکن یہ چولھے کا نہیں ہوتا۔ ارمان اور شادی میں یہی فرق ہے۔ طبیعات اور مابعد الطبیعات کو ایک ہی مضمون سمجھ لینا کوئی اچھی بات نہیں۔ طبائع انسانی پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔
شادیوں کا یہ پہلو بہرحال افسوسناک ہے کہ نوشاہ کے آنسو نظر نہیں آتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس تقریب کا یہ پہلو کافی خوشگوار ہے کہ اب لڑکیوں میں بیداری اور مردم بیزاری زیادہ پھیل گئی ہے (مردم بیزاری کا عمل صرف مردوں کی حد تک ہے) لڑکیوں میں یوں بھی غور کرنے کا مادہ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اول تو کلیوں کی طرح کم کم کھلتی ہیں اور کھلنے میں تو انھیں اور زیادہ دیر لگتی ہے۔ حوالے کے لئے ملاحظہ ہو پروین شاکرؔ کا شعر؛
حُسن کو سمجھنے کو عمر چاہئے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
لڑکوں کا معاملہ الگ ہے وہ عجلت پسند واقع ہوتے ہیں (جہاں تک کم کم کھلنے کا تعلق ہے اس کے لئے میرؔ کے کلام کا مطالعہ مفید رہے گا) پروینؔ شاکر نے جو کچھ کہا ہے وہ کلیہ نہیں ہے۔ میرؔ کا شعر البتہ کلیے میں آتا ہے۔ پسند اور محبت فی الواقع دو الگ چیزیں ہیں۔ محبت پہلی نظر میں ہوجاتی ہے، یہ پہلی نظر میں ہوجائے تو بار بار اسی طرف اٹھتی ہے اور ہر نظر پہلی نظر ہوتی ہے، نظر ثانی نہیں ہوتی۔ پسند کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اس میں محبت کا عمل دخل دیر سے ہوتا ہے۔ جس محبت میں سوچ اور سمجھ کے عناصر شامل ہوں، افلاطونی نقطۂ نظر سے اسے محبت نہیں کہا جاسکتا۔ محبت بعض وقت صرف فلسفے کی حد تک رہتی ہے، اس میں شادی کا ہونا یا نہ ہونا ضروری نہیں۔ لوگ یوں بھی زندگی بسر کرلیتے ہیں۔
افلاطون نے ایک ہی تحفہ دنیا والوں کو دیاہے اور وہ افلاطونی محبت۔ سقراط نے یہ کام نہیں کیا۔ افلاطونی محبت میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے اور اس کا ثبوت اس مٹھائی سے ملتا ہے جس کا نام افلاطون ہے۔ انگریز اس مٹھائی سے محروم ہیں۔ ابھی حال میں ایک امریکی اداکارہ نے اپنی نویں شادی انجام دی لیکن شادیوں اور شوہروں کی تعداد میں ایک کا فرق تھا، وہ یوں کہ موصوفہ نے اپنے سابقہ معزول شوہروں میں ایک کو دوبارہ خدمت شوہری پر بحال کردیا۔ کچھ لوگ جو تحقیقی مزاج رکھتے ہیں شریک حیات کی تلاش میں عمر بھر گرداں اور آبلہ پار ہتے ہیں۔ یہ کور چشم تو نہیں ہوتے لیکن سامنے کی چیز انھیں نظر نہیں آتی۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو بینائی کی جگہ (نام نہاد) دانائی اور دانائی کی جگہ بینائی استعمال کرتے ہیں۔ فون پر بھی بات کرنی ہو تو پہلے عینک لگا لیتے ہیں، عینک لگا کر آواز سننے والوں کو شادی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ بعض وقت فریق ثانی کچھ کام بے آوازبھی کرتا ہے۔ شادی کے بغیر بھی شاد کام رہا جا سکتا ہے لیکن وہ لوگ یعنی وہ دونوں لوگ جو شادی کے بعد خوش رہنے پر قادر ہیں، واقعی بڑے لوگ ہوتے ہیں انہیں خوش فہمی یہ ہوتی ہے کہ ان دونوں کو قدرت نے ایک دوسرے کے لئے بنایا ہے۔ ہرآدمی کو زندگی میں کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کرنا پڑتا ہے، جو لوگ تجارت کا رجحان رکھتے ہیں اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے یہ کام ’’شادی‘‘ سے شروع کرتے ہیں اس میں منافع زیادہ ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.