شیطان
اس رات اتفاق سے میں نے شیطان کو خواب میں دیکھ لیا۔ خواہ مخواہ خواب نظر آگیا۔ رات کو اچھا بھلا سویا تھا، نہ شیطان کے متعلق کچھ سوچا نہ کوئی ذکر ہوا۔ نہ جانے کیوں ساری رات شیطان سے باتیں ہوتی رہیں اور شیطان نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا کہ خاکسار کو شیطان کہتے ہیں۔ یہ فقط ذہنی تصویر تھی جس سے شبہ ہوا کہ یہ شیطان ہے۔ چھوٹے چھوٹے نوک دار کان، ذرا ذرا سے سینگ، دبلا پتلا بانس جیسا لمبا قد۔ ایک لمبی دم جس کی نوک تیر کی طرح تیز تھی۔ دم کا سرا شیطان کے ہاتھ میں تھا۔ میں ڈرتا ہی رہا کہ کہیں یہ چبھو نہ دے۔ نرالی بات یہ تھی کہ شیطان نے عینک لگا رکھی تھی۔ رات بھر ہم دونوں نہ جانے کس کس موضوع پر بحث کرتے رہے۔
اس صبح چائے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ روفی کی شکل بالکل شیطان سے ملتی تھی۔ شکل کیا حرکتیں بھی وہیں تھیں۔ ویسا ہی قد، وہی چھوٹا سا چہرہ، لمبی گردن، ویسی ہی عینک، وہی مکار سی مسکراہٹ۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ چپکے سے رضیہ کے کان میں کہہ دیا کہ روفی شیطان سے ملتے ہیں۔ وہ بولی۔ آپ کو کیا پتہ؟ کہا کہ ابھی ابھی تو میں نے اصلی شیطان کو خواب میں دیکھا ہے۔ حکومت آپا رضیہ کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ انہوں نے جو ہمیں سرگوشی کرتے دیکھا تو بس بے قابو ہوگئیں۔ فوراً پوچھا۔۔۔ کیا ہے۔۔۔؟ رضیہ نے بتا دیا۔ حکومت آپا کو تو ایسا موقع خدا دے۔ بس میز کے گرد جو بیٹھا تھا اسے معلوم ہوگیا کہ روفی کانیا نام رکھا جا رہا ہے۔ لیکن محض خواب دیکھنے پر تو نام نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ ویسے روفی نے ہمیں تنگ بہت کر رکھا تھا۔ بچوں تک کی خواہش تھی کہ ان کا نام رکھا جائے۔
ہم چاء ختم کرنے والے تھے۔ مجھے دوسرے آملیٹ کا انتظار تھا اور رضیہ کو پتہ نہیں کس چیز کا۔۔۔ کالج میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا، اس لیے مزے مزے سے ناشتہ کر رہے تھے۔ اتنے میں ننھا حامد بھاگا بھاگا آیا۔ اس کے سکول کا وقت ہوگیا تھا اس لیے جلدی میں تھا۔ وہ روفی کے برابر بیٹھ گیا۔ حامد کو بخار ہو گیا تھا۔ تبھی اس کی حجامت ذرا باریک کروائی گئی تھی۔ روفی نے بڑی للچائی ہوئی نگاہوں سے حامد کے سر کو دیکھا۔ جونہی حامد نے ٹوسٹ کھانا شروع کیا روفی نے ایک ہلکا سا تھپڑ حامد کے سر پر جما دیا، اور میں نے فوراً رضیہ سے کہہ دیا کہ سچ مچ روفی شیطان ہی ہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی ننگے سر کھائے تو شیطان دھول مارتا ہے۔ حکومت آپا چونک کر ہماری جانب متوجہ ہوئیں۔ ان کو پتہ چلنا تھا کہ سارے کنبے کو معلوم ہوگیا کہ آج سے روفی شیطان کہلائے جائیں گے۔
یہ تھا وہ واقعہ جس کے بعد روفی شیطان مشہور ہوگئے۔ چند ہی دنوں میں ہر ایک کی زبان پر یہ نام چڑھ گیا۔ یہاں تک کہ خود روفی نے اس نام کو بہت پسند کیا۔ روفی اور میں بچپن کے دوست تھے اور مجھے ان کی سب کہانیاں یاد تھیں۔ جب ہم بالکل چھوٹے چھوٹے تھے تو ایک دن روفی کو ان کی نانی جان تاریخ پڑھا رہی تھیں۔ جب پتھر اور دھات کے زمانے کا ذکر آیا تو روفی پوچھنے لگے، ’’نانی جان آپ پتھر کے زمانے میں کتنی بڑی تھیں؟‘‘ پھر کہیں سقراط اور بقراط کا ذکر ہوا۔ یہ بولے، ’’نانی جان سقراط اور بقراط کیسے تھے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’آپ نے تو دیکھے ہوں گے۔‘‘ جواب ملا۔
ہر وقت روفی کو کچھ نہ کچھ سوجھتی رہتی تھی۔ ہمارے سکول کے سامنے جو سڑک تھی اس پر بے شمار گھوڑے گزرا کرتے تھے (مع سواروں کے۔) کوئی سوار مزے سے جا رہا ہے۔ یکایک روفی چلاتے، ’’جناب! سنیے ذرا۔۔۔ گھوڑے کی دم گر گئی ہے۔ اٹھا لیجیے۔۔۔ ورنہ گھوڑا لنڈورا رہ جائے گا۔‘‘ اور سوار فوراً چونک کر ٹھہر جاتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھتا۔ خاص طور پر گھوڑے کی دم کو تو ضرور چیک کرتا۔ ایک دن روفی کلاس میں طوطا لے آئے۔ پوچھا، یہ کیا؟ بولے، ’’ابھی پچھلے مہینے میں نے پڑھا ہے کہ طوطا سوسال تک زندہ رہتا ہے۔ میں نے سوچا، سنی سنائی کا کیا اعتبار؟ خود تجربہ کر کے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
استاد صاحبان سے تو ہمیشہ نوک جھونک رہتی تھی۔ ایک رز ماسٹر صاحب نے چہل قدمی کے معنی پوچھے۔ کسی کو بھی نہ آئے۔ روفی اٹھ کر بولے، ’’دو مرتبہ بیس قدمی۔‘‘ انہوں نے وضاحت چاہی۔ روفی بولے، ’’جناب! چہل کے معنی ہیں چالیس اور چالیس قدمی سے دو مرتبہ بیس قدمی کہیں تو بہتر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ٹہلتے ہوئے انسان آگے جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے۔‘‘
جغرافیے کے ماسٹر صاحب نے ایک دن روفی سے پوچھا، ’’اگر تم مشرق کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلا دو، تو تمہارے بائیں ہاتھ پر کیا ہوگا؟‘‘ روفی نے بری مسمی شکل بنا کر کہا، ’’انگلیاں۔‘‘
حساب میں تو بالکل پھسڈی تھے۔ سوال پوچھا جا رہا ہے روپوں کے متعلق اور جواب نکلتا ہے مہینوں میں۔ اسی طرح مہینوں کا جواب سیروں چھٹانکوں میں نکل رہا ہے۔ حساب کے ماسٹر ڈانٹتے تو روفی کہتے، ’’جناب میں کیا کروں؟ یہ کمبخت جواب اسی طرح آیا ہے۔‘‘ اور جب مزدوری اور وقت کے سوال نکالتے تو جواب آتا ۳۵/۳ لڑکے یا ۱۹ ۵۳/۶۷ عورتیں۔ اس پر ماسٹر صاحب بہت خفا ہوتے۔ ایک روز روفی نے جواب نکالا، ۲/۳عورت۔ ماسٹر صاحب چنگھاڑ کر بولے، ’’نالائق! ۲/۳ عورت بھی کبھی دیکھی ہے آج تک؟‘‘ یہ سر کھجا کر بولے، ’’جناب کوئی لڑکی ہوگی۔‘‘
لیکن جب ہماری جماعت میں انسپکٹر صاحب معائنہ کرنے آئے تو وہ روفی سے بہت خوش ہوئے اور انعام دے کر گئے۔ انہوں نے پوچھا، ’’اگر پانی کو ٹھنڈا کیا جائے تو کیا بن جائے گا؟‘‘ ہم نے سوچا کہ روفی کہہ دیں گے کہ برف بن جائے گا۔ روفی نے پوچھا، ’’کتنا ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘ وہ بولے، ’’بہت ٹھنڈا کیا جائے۔‘‘ روفی سوچ کر بولے، ’’تو وہ بہت ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ (بہت پر زور دے کر)
’’اگر اور بھی ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘
’’تو پھر وہ اور بھی ٹھنڈا ہو جائے گا۔‘‘ روفی بولے۔
’’اور اگر اسے بے حد ٹھنڈا کیا جائے؟‘‘
’’تو وہ بے حد ٹھنڈا ہوجائے گا۔‘‘
انسپکٹر صاحب مسکرانے لگے اور پوچھا، ’’اچھا اگر پانی کو گرم کیا جائے تب؟‘‘
’’تب وہ گرم ہو جائے گا۔‘‘
’’نہیں، اگر ہم اسے بہت گرم کریں اور دیر تک گرم کرتے رہیں پھر؟‘‘
روفی کچھ دیر سوچتے رہے، یکایک اچھل کر بولے، ’’پھر۔۔۔ چاء بن جائے گی۔‘‘ اور انسپکٹر صاحب نے ایک عظیم الشان قہقہہ لگایا۔ ماسٹر صاحبان نے کوشش کی کہ انہیں کہیں ادھر ادھر لے جائیں، لیکن وہ وہیں کھڑے رہے اور روفی سے بولے، ’’بلی کی کتنی ٹانگیں ہوتیں ہیں؟‘‘
’’تقریباً چار!‘‘
’’اور آنکھیں؟‘‘
’’کم از کم دو۔۔۔!‘‘
’’اور دمیں؟‘‘
’’زیادہ سے زیادہ ایک!‘‘
’’اور کان؟‘‘ انہوں نے پوچھا
’’تو کیا سچ مچ آپ نے اب تک بلی نہیں دیکھی؟‘‘ روفی منہ بناکر بولے اور انسپکٹر صاحب ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے۔
ان دنوں سے میں اور روفی دوست تھے۔
میں جج صاحب کے ہاں رہتا تھا۔ پہلے ہمارا کنبہ بھی وہیں تھا پھر ابا کا تبادلہ ہوگیا اور وہ ایسی جگہ تبدیل ہو کر گئے جہاں کالج تو ایک طرف کوئی سکول تک نہ تھا۔ جج صاحب نے ہوسٹل نہ جانے دیا، چنانچہ میں ان کے ہاں رہنے لگا۔ روفی بھی وہیں رہتے تھے اور جج صاحب سے ان کا کوئی دور دراز کا رشتہ تھا۔ غالباً وہ جج صاحب کے بھتیجے تھے۔ جہاں کنبے کے تمام افراد مجھے اچھے لگتے تھے وہاں ایک ہستی تو بہت عزیز تھی۔ وہ تھی رضیہ۔۔۔ اور جن سے میں ڈرتا تھا وہ تھیں رضیہ کی بڑی بہن جن کا اصلی نام تو اچھا بھلا سا تھا، لیکن سب بچے انہیں حکومت آپا کہتے تھے۔ میری ہی عمر کی ہوں گی، یا شاید کچھ بڑی ہوں۔ اگر وہ وہاں نہ ہوتیں تو میں اور رضیہ کبھی کے بڑے گہرے دوست بن گئے ہوتے، لیکن ان کو میں ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔
سارا دن کالج میں گزرتا۔ شام کو کھیلنے چلاجاتا اور رات کو سینما۔ رضیہ سے باتیں کرنے کا وقت ہی نہ ملتا۔ ہفتے بھر میں ایک آدھ مرتبہ موقع ملتا اور وہی حکومت آپا کی نذر ہو جاتا۔ بنتی تو ان کی کسی سے بھی نہ تھی، البتہ مجھ سے اور روفی سے خاص لگاوٹ تھی۔ میں تو چپ ہو جاتا، لیکن روفی ایسا جواب دیتے کہ حکومت آپا کھسیانی ہوکر رہ جاتیں۔ سارا دن لڑتی جھگڑتیں اور دوسروں پر خواہ مخواہ تنقید کرتی رہتیں۔ کسی بات کاشہر میں ڈھنڈورا پٹوانا ہوتا تو جاکر حکومت آپا کو بتا دو، فوراً ہر ایک کو پتہ چل جائے گا۔ میں بالکل نہ سمجھ سکا کہ آخر ا ن کی پالیسی کیا ہے؟ ان کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ روفی کی رائے یہ تھی کہ یہ اپنا وقت بھی ضائع کر رہی ہیں اور دوسروں کا بھی۔ اور مجھے یہ رائے حرف بحرف صحیح معلوم ہوتی تھیں۔
ادھرمیں اور روفی نہایت عزیز دوست تھے۔ میں ان سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا۔ یہاں تک کہ رضیہ کے متعلق بھی سب کچھ انہیں بتا رکھا تھا اور جو جو باتیں رضیہ اور میں آپس میں کرتے وہ میں روفی سے فوراً کہہ دیتا اور ہمیشہ ان کے مشوروں پر عمل کرتا۔ وہ بڑے خلوص سے مجھے بتاتے کہ آج رضیہ سے یہ کہنا، آج یہ پوچھ کر دیکھنا، آج یہ کرنا، آج وہ کرنا۔ اور میں اسی طرح کرتا۔ غرضیکہ وہ میرے بے حد عزیز دوست تھے۔
ہمیں ایک صاحب نے سہ پہر کو پکچر پر مدعو کیا۔ چند ماہ پہلے ان سے واقفیت ہوئی تھی، وہ بھی کس طرح؟ وہ ایک دن اپنے ابا کے ساتھ جج صاحب سے ملنے آئے۔ وہاں میں اور روفی بیٹھے تھے۔ ان کے ابا روفی کی باتوں سے پھڑک اٹھے اور پوچھا، ’’کیوں برخوردار! آج کل کیا کرتے ہو؟‘‘ یہ بولے، ’’جی آج کل بی اے کا امتحان دیا کرتا ہوں۔‘‘ اور حقیقت یہی تھی۔ روفی نہ جانے کتنے سال سے بی، اے کا امتحان دے رہے تھے۔ پھر وہ بزرگ جج صاحب سے بولے، ’’کیا بتاؤں کتنا جی چاہتا ہے کہ آپ کو فون کروں، لیکن ہمیشہ بھول جاتا ہوں۔ آج کل تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔۔۔ پہلے پہل یادداشت کے طور پر ایک نوٹ بک میں ایسی باتیں لکھ لیا کرتا تھا، لیکن اب وہ نوٹ بک ہی کہیں بھول جاتا ہوں۔‘‘
روفی نے کہا، ’’جی فون کا نمبر یاد کرنے کے طریقے میں نے ایک کتاب میں پڑھے ہیں۔ اجازت ہو تو عرض کروں؟‘‘ وہ بولے، ’’ضرور!‘‘ روفی نے بتایا، ’’وہاں لکھا تھا کہ اول تو فقط ایسے حضرات سے راہ و رسم بڑھانی چائیے جن کے فون نمبر بالکل آسان ہوں۔ مثلاً پانچ ہزار، دو ہزار یا چار سو بیس۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو نمبر کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مثلاً ۶۴۵ کو یاد کرنا نہایت آسان ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس میں پچپن جمع کر دیے تو سات سو بن جائیں گے اور اگر سات سو میں تین اور جمع کر دیے جائیں تو ہزار بن جائیں گے، اسی طرح اگر ۶۴۵ کو ۶۴۵ سے ضرب دیا جائے تو فقط ۴۱۶۰۲۵ بن جائے گا۔ اور اگر ہم یاد رکھیں کہ ۶۴۵ محض چھ روپے چار آنے اور پانچ پائی ہے تو اسے کبھی نہیں بھول سکتے۔‘‘
وہ بزرگ بڑے غور سے سن رہے تھے۔ روفی بولے، ’’اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو پھر یہی بہتر ہوگا کہ تاریخ کی کتاب کھول لی جائے، اور اس نمبر کا سنہ تلاش کیا جائے۔ مثلاً ۶۴۵ میں سے اگر چھ کا ہندسہ ہٹادیں تو ۴۵رہ جاتا ہے اور ۴۵ قبل از مسیح میں سیزر کو ہمیشہ کے لیے ڈکٹیٹر تسلیم کرلیا گیا تھا۔ ادھر اگر اس میں ایک ہزار جمع کر دیں تو ۱۶۴۵ء میں نیزبی کی لڑائی ہوئی تھی۔‘‘ اس دن سے وہ بزرگ اور ان کے صاحب زادے ہمارے دوست بن گئے۔
پکچر میں دیر تھی۔ میں روفی کے کمرے میں گیا، دیکھا کہ بیٹھے حامد کو پڑھا رہے ہیں۔۔۔ بولے بیگم کہہ گئی ہیں کہ اسے پڑھانا۔ میں بھی پاس بیٹھ گیا۔ روفی نے سوال کیا، ’’کیوں ننھے، دنیا میں کل کتنے اونٹ ہوں گے؟‘‘ وہ چپ رہا۔
’’اچھا! کیا رومن لوگ گاجریں کھاتے تھے؟‘‘
’’پتہ نہیں!‘‘
’’ایک سال میں کتنے انچ ہوتے ہیں؟‘‘
ننھے نے حساب لگا کر کچھ عجب الٹا سیدھا سا جواب نکال دیا۔ اب روفی خفگی سے بولے، ’’کیا تمہیں سچ مچ پتہ نہیں کہ رومن گاجریں کھاتے تھے یا نہیں؟‘‘
’’جی نہیں!‘‘ ننھا ڈر کر بولا۔
’’اور یہ بھی پتہ نہیں کہ دنیا میں اونٹ کتنے ہیں؟‘‘
’’جی نہیں!‘‘
’’جہالت کی انتہا ہے! کیا تمہیں سچ مچ علم نہیں؟‘‘ روفی چنگھاڑے۔
’’جی نہیں!‘‘ ننھا سہم گیا۔
’’مجھے خود پتہ نہیں۔ ’’روفی بولے اور ننھے کو چھٹی مل گئی۔
اتنے میں روفی کے نام ایک خط آیا، جسے پڑھ کر انہوں نے بہت برا منہ بنایا، ناک بھوں چڑھائی۔ کچھ دیر ٹہلتے رہے، پھر بولے، ’’کچھ اور بھی سنا؟ چھوٹے بھائی صاحب نے مونچھیں رکھ لی ہیں۔ کس قدر منع کیا تھا اسے؟ یہی نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی داڑھی بھی اگا لی ہے!‘‘ فوراً نوکر کو بلایا اور ایک تار لکھ کردیا کہ بھیج دے۔ میں نے تار کی عبارت پڑھی۔ لکھا تھا SHAVE ATONCE۔ وہ تار اسی وقت بھیج دیا گیا۔ ہم پکچر کے لیے تیار ہوگئے لیکن ہمارے نئے دوست نہیں پہنچے تھے۔ روفی نے فون کرنا چاہا، لیکن نمبر نہ ملا۔ آخر چڑ کر بولے، ’’تو کسی اور کو فون کردیں؟‘‘
’’کسی اور کو؟‘‘
’’ہاں! کیا حرج ہے۔۔۔؟ کیے دیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے نہ جانے کون سے نمبر کو بلا لیا، میں سرک کر ریسیور کے نزدیک ہوگیا۔
’’کون صاحب بول رہے ہیں؟‘‘ روفی نے پوچھا۔
’’خاکسار کو عبد المجید مجبور کہتے ہیں۔‘‘
’’اوہ! عبد المجید تربوز۔۔۔؟ تو گویا آپ شاعر بھی ہیں!‘‘ حالانکہ انہوں نے صاف مجبور کہا تھا۔
’’جی نہیں، مجبور!‘‘ وہ بولے
’’معاف کیجیے، میں تو ایسی بے ادبی نہیں کر سکتا۔ آپ کس قدر کسرِ نفسی کر رہے ہیں؟ یعنی عبد المجید لنگور۔۔۔!‘‘
’’افوہ!۔۔۔ مجبور۔۔۔ مج۔۔ بور۔۔۔!‘‘ وہ بولے۔
’’اچھا! مجبور صاحب ہیں۔ آپ کل کتنے بھائی ہیں؟‘‘
’’چار ہیں ہم!‘‘ وہ بولے۔
’’اگر آپ پانچ ہوتے تو ہمارا کیا بگاڑ لیتے۔‘‘ روفی بولے اور جلدی سے ریسیور رکھ دیا۔
اتنے میں وہ صاحب آگئے اور ہم سینما روانہ ہوئے۔ پوچھا پکچر کون سی ہے؟ بولے، ’’انصاف کی توپ۔‘‘ میں نے صدائے احتجاج بلند کی کہ کرکٹ وغیرہ جیسی دلچسپ چیزیں چھوڑ کر اس قسم کی پکچر دیکھنا سراسر بدمذاقی ہے، لیکن روفی نے کہا، ’’چلو اب تیار ہوگئے ہیں تو فلم کا نام خواہ مفلس عاشق۔ یا خونخوار بھیڑیا ہی کیوں نہ ہو، ضرور دیکھیں گے۔‘‘ راستے میں ان صاحب نے اپنے والد بزرگوار کے متعلق جو باتیں شروع کی ہیں تو ہم تنگ آگئے۔۔۔ ان کی تعریفیں ختم ہونے میں نہ آتی تھیں۔ ان کے والد مصنف تھے اور اچھے خاصے بھاری بھرکم انسان تھے۔ یہ ان کی بڑائیاں کر رہے تھے کہ کس طرح انہوں نے خطرناک عادی مجرموں کو بری کرا دیا اور بظاہر اچھے بھلے معصوم لوگوں کو قیدخانے میں بھیج دیا تھا۔ (سکور تو برابر ہی رہا) اب سارے ملک میں ان کے حیرت انگیز انصاف کا ڈنکا بج رہا تھا۔ آخر تنگ آکر روفی بولے، ’’تو وہ بہت اچھا انصاف کرتے ہیں؟‘‘
’’یقیناً!‘‘ جواب ملا۔
’’یعنی نہایت ہی بلند پائے کا انصاف کرتے ہیں وہ؟‘‘
’’جی!‘‘
’’پھر تو وہ انصاف کی توپ ہوئے۔‘‘
کئی مرتبہ جی چاہا کہ حکومت آپا سے پوچھوں کہ آخر آپ چاہتی کیا ہیں؟ ہم کیا کریں جو آپ کے اس عجیب و غریب عتاب سے بچ سکیں، جو ہر وقت ہم پر نازل ہوتا ہے۔ چوبیس گھنٹے ہاتھ دھوکر (بلکہ ہاتھ منہ دھوکر) میرے پیچھے پڑی رہتی تھیں۔ رضیہ کی طرف میں نے ذرا آنکھ اٹھائی اور آفت آگئی۔ اس میں میرا کیا قصور تھا؟ گھر میں ایک اچھی لڑکی ہے جو اتنی پیاری لگتی ہے تو اسے کیوں نہ دیکھیں۔ اگر یہی ہے تو حکومت آپا رضیہ کو کسی صندوق میں مقفل کیوں نہیں کر دیتیں تاکہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ جب دیکھو تنقید کر رہی ہیں۔ جس پر پہلے پہل تو میں اداس ہوجایا کرتا، لیکن بعد میں عادی ہوگیا۔ اور یہ تنقید کیسی ہوتی؟ شوقین لڑکا ہے۔ رنگین مزاج ہے۔ رنگ برنگے کپڑے پہنتا ہے۔ خوشبو کیوں لگاتا ہے۔ اس کا سینہ کافی چوڑا ہے، لیکن چہرہ کچھ دبلا ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں (نہ کیجیے اعتبار، کس مسخرے نے التجا کی ہے آپ سے۔) ہر وقت بازوؤں کے پٹھوں کو ٹٹولتا رہتا ہے (مضبوط پٹھے ہیں کیوں نہ ٹٹولیں۔) بیزاری کو بزاری کہتا ہے (یہ آپ کے کانوں کا قصور ہے۔ ) ہر وقت اکڑ کر چلتا ہے (تو کیا کبڑا ہو کر چلا کروں؟) رضیہ کے متعلق سوچتا رہتا ہے، اسے گھورتا رہتا ہے اور اسی کی باتیں کرتا ہے (رضیہ اچھی جو لگتی ہے۔) مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا (مجھے بھی آپ ذرا اچھی نہیں لگتیں۔)
’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔‘‘ حکومت آپا کا تکیہ کلام تھا (لفظ ’’پہلے ‘‘ پر خوب زور دے کر۔ ) ایک دن میں لائبریری سے مشہور ملکہ رضیہ سلطانہ پر تاریخی کتاب لے آیا۔ حکومت آپا نے دیکھ لی، بولیں، ’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔‘‘ ایک دن ایک ڈرامے میں لگاتار دو گھنٹے رضیہ کو دیکھتا رہا اور اپنا پارٹ غلط سلط کر گیا۔ حکومت آپا دیکھ کر چلائیں، ’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔‘‘ اور روفی بولے، ’’جب آپ کو ہمیشہ پہلے ہی سے پتہ ہوتا ہے تو آپ ہمیں پہلے سے ٹوک کیوں نہیں دیتیں۔‘‘
روفی اکثر انہیں آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ ایک روز بیگم کا کوئی قیمتی زیور کھو گیا۔ ہم سب ڈھونڈ رہے تھے۔ یکایک روفی بولے، ’’حکومت آپا تمہیں تو پتہ ہوگا کہ زیور کہاں ہے۔‘‘
’’مجھے کیا پتہ؟‘‘ وہ بولیں۔
’’تمہیں پہلے ہی سے پتہ ہوا کرتا ہے۔‘‘
پھر ایک دن سب پریشان بیٹھے تھے۔ کوئی کہتا تھا حامد پاس ہوگیا، کوئی کہتا تھا بالکل فیل ہے۔ ٹیلی فون کیا کوئی جواب نہ آیا۔ جج صاحب بھی پورا زور لگا چکے تھے۔ آخر روفی کہنے لگے، ’’لوحکومت اب بتاہی دو۔‘‘ سب حکومت آپا کے پیچھے پڑگئے کہ بتاؤ کون سی خبر صحیح ہے۔ روفی بولے، ’’خواتین و حضرات! ایسے موقعوں پر آپ ہمیشہ حکومت سے مشورہ لیا کیجیے۔ یہ ولی اللہ ہیں اور انہیں ہرچیز کا پہلے سے پتہ ہوتا ہے۔‘‘ اس کے باوجود حکومت آپا کا تکیہ کلام اسی طرح رہا۔
روفی مجھے رضیہ کے متعلق طرح طرح کے مشورے تو دیا کرتے لیکن ہمیشہ پریشان رکھتے تھے۔ سب سے پہلے تو یہ سوال پوچھتے کہ آخر میرے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں رضیہ کو اچھا لگتا ہوں؟ یقیناً کوئی ثبوت نہ تھا۔ اس لیے یہ فقط یکطرفہ کارروائی قرار دی جاتی۔۔۔ یعنی کسی کو پسند کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک کہ وہ بھی جواباً پسند نہ کرے۔ لہٰذا ان کے فارمولے کے مطابق میں اور رضیہ بالکل اجنبی تھے۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے کہ، ’’دنیا بہت بڑی ہے، کہیں اور جا کے کوشش کرو۔ رضیہ سے بھی بہتر لڑکیاں ملیں گی۔‘‘ اور مجھے ان کا یہ مشورہ بالکل پسند نہ آتا۔ ایک روز کہنے لگے، ’’رضیہ کی نظر کمزور ہے، اسے دور کی چیزیں دھندلی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘
’’تمہیں کیا پتہ؟‘‘
’’عید کا چاند اسے نظر نہ آسکا، چنانچہ اس نے جج صاحب کی عینک سے دیکھا تھا۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟ شادی تک تو وہ کیا عینک لگائے گی، البتہ شادی کے بعد فوراً لگا لے گی۔‘‘
اسی شام کو روفی اور حکومت آپا کی بحث ہوگئی۔ موضوع تھا۔۔۔ عینک۔۔۔ نہ جانے کون عینک کے خلاف بول رہاتھا اور کون طرفدار تھا۔ غدر سا مچا ہوا تھا۔ میں کچھ دیر باہر سے سنتا رہا۔ پھر اندر چلا گیا۔ روفی کہہ رہے تھے، ’’تو گویا خاکسار جیت ہی گیا۔‘‘ حکومت آپا بولیں، ’’تعجب ہے کہ تین گھنٹے کی بحث کے بعد بھی آپ قائل نہیں ہوئے۔‘‘
’’تین گھنٹے کی بحث کے بعد؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ہاں بھئی، تین گھنٹے تک بحث ہوئی۔ پونے تین گھنٹے حکومت بولیں۔ دس منٹ وقفہ رہا اور پانچ منٹ میں بولا۔‘‘ اور وہ جل ہی تو گئیں، کیونکہ وہ بولتی بہت تھیں۔ اتنے میں ٹن ٹن کرتا ہوا آگ بجھانے کا انجن سڑک سے گزرا۔ حکومت آپا بولیں، ’’کہیں آگ لگی ہے شاید اس طرف!‘‘ اتنے میں دوسرا انجن دوسری جانب ٹن ٹن کرتا ہوا چلا گیا۔ حکومت آپا بولیں، ’’اوہ! اُدھر بھی آگ لگی ہے!‘‘ روفی سر مٹکا کر بولے، ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی۔‘‘ اور وہ ناراض ہوکر چلی گئیں۔
روفی خوش ہوکر بولے، ’’امرود کھائے جائیں؟‘‘ میں نے سرہلا دیا۔ کہنے لگے، ’’کوئی نوکر آئے تو اسے باغ میں بھیجتے ہیں۔‘‘ اتنے میں جمن (دیو) گزرا۔ یہ جمن صاحب ایک نہایت ہی موٹے نوکر تھے، جنہیں بچے رات کو دیکھ کر ڈر جاتے۔ اس لیے ان کی ڈیوٹی دن کو لگا رکھی تھی۔ رات کو ان کی چھٹی ہوتی۔ روفی نے آوازدی، جمن! اس نے سناہی نہیں۔ روفی نے پھر آواز دی۔ اس نے پھر نہیں سنا۔ روفی بولے، ’’انگوٹھی گھسیں اس کے لیے؟‘‘ میں نہ سمجھ سکا۔ روفی نے سمجھایا، ’’بھئی دیو ہے، ایسے ویسے تھوڑا ہی آجائے گا۔ کم از کم انگوٹھی تو گھسنی پڑے گی۔‘‘ ذرا سی دیر میں جمن پھر گزرا۔ ہم نے بلایا، وہ آگیا، روفی بولے، ’’ہم نے انگوٹھی گھسی تھی۔ تم آئے ہی نہیں۔‘‘ ویسے وہ بڑا خوش مزاج تھا، لیکن اس وقت نہایت اداس دکھائی دے رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ اس کے گھر سے تار آیا ہے۔ اسے فوراً بلایا گیا ہے۔
’’گھر سے اول تو میں خود واپس آجاؤں گا، ورنہ آپ بلا لیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ہاں ہاں ضرور بلالیں گے۔‘‘ میں نے یقین دلایا۔
’’بھلا آپ کس پتے پر اطلاع دیں گے؟ کیونکہ میں نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا پھروں گا۔‘‘
روفی بولے، ’’اس کا تو یہی علاج ہے کہ تم اپنی مونچھ کا ایک بال ہمیں دے جاؤ۔ تاکہ جب ہم تمہیں بلانا چاہیں تو بال کو دھوپ میں رکھ دیں گے۔ پہلے آندھی آئے گی، پھر مینہ اور بعد میں تم اڑتے آجاؤگے۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ میں نے لا حول پڑھی۔
جمن گیا تو دیکھا کہ روفی بھی کمرے میں نہیں تھے۔ دوسرے روز پھر اسی طرح کا واقعہ ہوا۔ مجھے کچھ شبہ سا ہوگیا۔ میں نے رضیہ کو بتایا اور ایک پروگرام بنایا گیا۔ سہ پہر کو چاء پر رضیہ نے جان بوجھ کر لاحول پڑھ دی اور بجلی کی طرح روفی کمرے سے نکل گئے، حالانکہ ابھی چاء شروع بھی نہ ہوئی تھی۔ لہٰذا میں نے سب کو بتا دیا کہ چونکہ روفی لاحول سے بھاگتے ہیں اور ان کا حلیہ بھی شیطان سے ملتا ہے، اس لیے آج سے وہ مکمل شیطان ہیں۔ آئندہ کوئی انہیں روفی نہ کہے، شیطان کہے۔ یعنی اگر سامنے ہمت نہ پڑے تو کم از کم پیٹھ پیچھے ہی کہہ دے۔ بس اس دن روفی باقاعدہ طور پر شیطان قرار دیے گئے۔
نہایت دلفریب چاندنی رات تھی، پورا چاند درختوں کے جھنڈ سے طلوع ہوا تھا۔ ہوا کے خنک جھونکوں سے پودے جھوم رہے تھے۔ میں فوارے کے پاس بیٹھا تھا۔ خیالات کے سلسلے کو جہاں کہیں سے بھی شروع کرتا تھا، ختم رضیہ پر ہوتا تھا۔ یکایک جو دیکھتا ہوں تو پرے رضیہ پلاٹ میں بیٹھی چاند کو تک رہی تھی۔ ان دنوں اکثر میں اسے تنہا گوشوں میں خاموش بیٹھے دیکھا کرتا تھا۔ آخر کس کے متعلق سوچا کرتی ہے یہ؟ میں بے چین ہوگیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور پہنچا سیدھا شیطان کے کمرے میں۔ وہ سو رہے تھے، انہیں زبردستی جگایا۔
’’ارے!‘‘ میرے منہ سے نکل گیا، ’’تم عینک لگا کر سوتے ہو؟‘‘
’’کل عینک لگانی بھول گیا تھا، رات بھر خواب دھندلے نظر آئے۔ میں چاہتا ہوں کہ کم از کم خواب صاف دکھائی دیں۔‘‘
میں اتنا بے چین تھا کہ مجھ سے ہنسا بھی نہ گیا۔ جلدی سے سب کچھ انہیں بتا دیا اور کہا، ’’رضیہ کو کسی کا خیال ضرور ہے، لیکن یہ پتہ نہیں کہ وہ خوش قسمت ہے کون؟ ویسے وہ آج کل ہر وقت کسی کے متعلق سوچتی ضرور رہتی ہے۔‘‘ دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ سوال یہ تھا کہ کیسے یہ گتھی سلجھائی جائے؟ ویسے میں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھا کہ اسے میرا کس قدر خیال ہے۔ آخر بڑی سوچ بچار کے بعد شیطان بولے، ’’بھئی اس کے لیے تو تھوڑی سی جرأت کرنی پڑے گی۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’اگر میری مانو تو تم خود کشی کر لو۔‘‘
’’خودکشی کر لوں؟‘‘ میں چونک پڑا۔
’’اصلی نہیں نقلی خودکشی۔ ظاہر یہی کریں گے کہ تم سچ مچ خودکش ہوگئے ہو۔ پھر دیکھیں رضیہ کیا کرتی ہے؟‘‘
میں نے صاف انکار کردیا۔ بیگم کو ضرور پتہ چل جائے گا اور اگر انہوں نے امی کو لکھ دیا تو آفت آجائے گی۔ ویسے خودکشی کرنا ہے بھی فضول سی حرکت۔ شیطان بولے، ’’بیگم کو تو ہرگز پتہ نہیں چلنے دیں گے۔ اس اتوار کو سارا کنبہ ایک پارٹی پر جا رہا ہے۔ رضیہ کا امتحان اگلے ہفتے ہے، اس لیے وہ یہیں رہے گی۔ بس میدان صاف پا کر تم خودکشی کر لینا۔ سارا انتظام میں کردوں گا۔‘‘ ایک طویل بحث کے بعد شیطان نے مجھے ورغلا لیا۔ اگلے روز ہم نے خوب ریہرسل کیے۔ اتوار کا دن آیا۔ رضیہ کے سوا سب پارٹی پر چلے گئے۔ مجھے اور شیطان کو بہتیرا مجبور کیا گیا۔ لیکن ہم نے ایک کرکٹ میچ کا بہانہ کردیا۔
شیطان کی ہدایات کے مطابق تیاریاں کی گئیں اور پھر میں نے خودکشی کرلی۔ ایک صوفے پر لیٹ گیا۔ ایک ہاتھ نیچے لٹک رہا ہے اور فرش پر عین انگلیوں کے نیچے ایک خالی شیشی پڑی تھی، جس پر ’’زہر‘‘ لکھا تھا۔ شیطان نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’تیار؟‘‘ میں نے کہا، ’’ہاں۔‘‘ اور انہوں نے ایک عجیب بے ڈھنگی آواز میں شور مچانا شروع کر دیا جس پر مجھے ہنسی آگئی۔ رضیہ بھاگی بھاگی آئی۔ میں نے فوراً آنکھیں بند کرلیں، لیکن پلکوں میں سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ شیطان نے فوراً اسے بتایا کہ میں نے خودکشی کرلی ہے۔ رضیہ نے پہلے شیشی کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ پھر میری نبض دیکھی۔ بھلا میں نبض کس طرح بند کر سکتا تھا۔ بولی، ’’افوہ! ابھی تھوڑی سی جان باقی ہے۔‘‘ گھبرائی ہوئی ساتھ کے کمرے میں گئی۔ اس کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔ وہ ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون کر رہی تھی۔ انہیں فوراً آنے کے لیے کہا اور بولی، ’’خدا کے لیے جلدی کیجیے، زندگی اور موت کا سوال ہے۔‘‘ اور میرا دل مسرت سے لبریز ہوگیا۔ کس کی زندگی اور موت کا سوال ہے؟ میری زندگی کا یا رضیہ کی زندگی کا؟ میں نے شیطان کو اشارہ کیا، وہ مسکرائے۔ رضیہ گھبرائی ہوئی آئی اور میرا سر دبانے لگی۔ اب جو اس کی انگلیاں گردن تک پہنچی ہیں تو مجھے سخت گدگدی ہوئی۔ بے حد ضبط کیا۔ آخر کھلکھلا کر ہنس پڑا اور جلدی سے بیٹھ گیا۔
’’ہیں؟‘‘ رضیہ کے منہ سے نکلا۔
’’ہیں؟‘‘ شیطان نے چنگھاڑ کر کہا۔
’’دیکھا ڈرا دیا نا تمہیں؟‘‘ میں بولا۔
’’واقعی میں تو ڈر ہی گئی تھی۔‘‘ اس نے کہا اور خوشی کے مارے میرا برا حال ہوگیا۔ تو گویا رضیہ کو میرا بہت خیال تھا۔ اس نے خود جو کہا تھا کہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔
’’تو کیا تم سچ مچ بہت گھبرا گئی تھیں؟‘‘ میں نے تجاہل عارفانہ سے پوچھا۔
’’ہاں کچھ گھبراہی گئی تھی۔‘‘ وہ مسکرا رہی تھی۔
’’کچھ کیا۔۔۔؟ یوں کہو کہ مکمل طور پر گھبرا گئی تھیں، بہت بری طرح گھبرا گئی تھیں۔‘‘
’’خیر! اتنی تو نہیں گھبرائی۔۔۔ دراصل خودکشی اچھی طرح نہیں کی گئی۔ اس میں کچھ خامیاں رہ گئیں۔‘‘
’’اب تم خواہ کچھ ہی کہو۔ ایک مرتبہ تو نہایت پریشان ہو گئی تھیں۔‘‘
’’مثلاً اس زہری شیشی کو لیجیے۔‘‘ وہ بولی، ’’مانا کہ اس میں کبھی ٹنکچر آیوڈین آئی تھی۔ لیکن پورے دوسال سے اس میں بادم روغن تھا اور اگر واقعی بادام روغن سے خودکشی ہو سکتی ہے، تب بھی یہ عرصے سے خالی پڑی تھی۔‘‘
’’لیکن تم نے فون تو بڑی گھبراہٹ میں کیا تھا۔‘‘ میں کھسیانا ہو چلا تھا۔
’’اچھا بتائیے فون کس کمرے میں ہے؟‘‘
’’ڈرائنگ روم میں!‘‘ میں نے کہا۔
’’اور میں نے فون کس کمرے سے کیا تھا۔۔۔؟ ساتھ کے کمرے سے نا؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور ساتھ کا کمرہ ہے گودام۔۔۔ اب بتائیے وہاں ٹیلیفون کہاں سے آگیا؟‘‘
اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں رضیہ کو بالکل اچھا نہیں لگتا، بلکہ شاید برا ہی لگتا ہوں۔
اگلے روز ہم سب ایک کلاسیکل رقص کے ماہر کا ناچ دیکھنے گئے۔ بڑا مشہور رقاص تھا۔ بے شمار لوگ آئے تھے۔ شروع میں کچھ گانا بجانا ہوا۔ پھر اس کا ناچ شروع ہوا۔ آرکسٹرا بجنے لگا۔ پہلے تو دیر تک وہ چپ کھڑا رہا۔ پھر اس نے یکلخت ہوا میں ایک چھلانگ لگائی اور عجیب سی حرکتیں شروع کردیں۔ ننھی حیران ہوگئی، ’’بھیا یہ پتھر کا بت اب تو خوب ہل رہا ہے۔‘‘ اب جو اس اللہ کے بندے نے ہاتھ پیر مارنے شروع کیے ہیں تو ننھی بالکل گھبرا گئی، ’’بھیا یہ آدمی کیا کر رہا ہے؟‘‘ حکومت آپا بولیں، ’’ناچ رہا ہے۔‘‘ ننھی نے پوچھا، ’’اس طرح ناچا کرتے ہیں کیا؟‘‘ حکومت آپا بولیں، ’’چپ چاپ دیکھتی رہو، اسے کلاسیکل ناچ کہتے ہیں۔‘‘ ننھی مچل گئی، ’’نہیں تو! یہ آدمی تو کچھ اور تماشا کر رہا ہے۔‘‘ شیطان بولے، ’’ننھی! بات دراصل یہ ہے کہ اس نے علی الصبح فروٹ سالٹ پیا تھا اور اب اشتہاروں کے مطابق اسے فرحت بخش فروٹ سالٹ فیلنگ ہو رہی ہے۔‘‘
شیطان نے سرخ چھینٹ کا انگرکھا پہن رکھا تھا۔ سب لوگ انہیں دیکھ رہے تھے۔ انٹرول ہوا تومیں اور شیطان باہر آگئے۔ چھینٹ کا انگرکھا واقعی عجیب سی چیز تھی۔ جو دیکھتا تھا، ٹھہر جاتا تھا۔ چند حضرات نے تو سچ مچ ہنسنا شروع کردیا۔ شیطان رک گئے۔ اور پیچھے مڑ کربولے، ’’حضرات آپ کی ہنسی سر آنکھوں پر۔ لیکن آپ براہِ کرم جلدی سے ہنس لیجیے، کیونکہ مجھے ایک ضروری کام پر جانا ہے اور بغیر آپ کے شوق کی تکمیل کے میں یہاں سے نہیں جاسکتا۔‘‘ وہ کچھ شرما سے گئے۔
’’تو آپ ہنس چکے کیا؟‘‘ شیطان نے پوچھا۔ وہ چپ رہے۔
’’کیا بندہ جا سکتا ہے؟‘‘ ان میں سے ایک نے سرہلا دیا۔
ہم جب واپس آئے تو ابھی اچھا خاصا دن باقی تھا۔ باغ سے گزرتے ہوئے شیطان رک گئے، مالی کو بلایا اور مٹی کا ایک ڈھیر دکھا کر کہا، ’’یہ ڈھیر یہاں نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’جناب یہ بغیر کئی مزدوروں کے باہر نہیں پھینکا جا سکتا۔‘‘
’’واہ معمولی سا کام ہے۔ ایک بڑا سا گڑھا کھود لو اور اس میں یہ مٹی دبا دو۔‘‘
بات مالی کی سمجھ میں آگئی اور وہ کام میں مصروف ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پھر ہمارے پاس آیا اور بولا، ’’جناب وہ مٹی تو بھر دی گئی ہے، لیکن جو نئے گڑھے کی مٹی ہے اس کا کیا کیاجائے؟‘‘
’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ ایک اور گڑھا کھود کر اس میں داب دو۔‘‘ شیطان نے کہا۔ مالی پھر چلا گیا۔ کچھ دیر کے بعد ہانپتا ہوا آیا اور پوچھا، ’’وہ مٹی تو دبا دی گئی لیکن اب نئے گڑھے کی مٹی۔۔۔؟ وہ کہاں پھینکی جائے؟‘‘
’’ہمیں نہیں پتہ۔‘‘ شیطان جھلا کر بولے، ’’معمولی سی بات ہے، ایک اور گڑھا کھود لو۔‘‘ اور مالی بیچارہ سر کھجاتا ہوا چلا گیا۔ اتنے میں جج صاحب تشریف لے آئے اور وہیں بیٹھ گئے۔ ہم کھیلوں کے متعلق باتیں کرنے لگے۔
’’تمہیں کون سے کھیل پسند ہیں؟‘‘ جج صاحب نے پوچھا۔
’’کبڈی اور پولو۔‘‘ شیطان نے جواب دیا۔
’’کوئی خاص اچھے کھیل تو نہیں ہیں۔‘‘ وہ بولے۔
’’آپ کو کون سا کھیل مرغوب ہے؟‘‘ شیطان نے پوچھا۔
’’اسے کھیل تو نہیں کہا جاسکتا۔ مجھے گھڑ دوڑ بہت پسند ہے۔ جب میں یورپ میں تھا تو نہایت شوق سے گھڑدوڑ دیکھا کرتا تھا۔‘‘
’’معاف کیجیے مجھے گھڑدوڑ بالکل پسند نہیں۔‘‘ شیطان بولے۔
’’وہ کیوں؟‘‘
’’دیکھیے نا، یہ سب جانتے ہیں کہ کچھ گھوڑے کچھ گھوڑوں سے تیز دوڑتے ہیں۔ اور یہ بھی لازمی امر ہے کہ اگر بہت سے گھوڑے دوڑیں گے تو کچھ آگے نکل جائیں گے اور کچھ پیچھے رہ جائیں گے اور آخر میں یہ ایک گھوڑا سب سے آگے نکل جائے گا۔ بھلا یہ معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ کون سا گھوڑا آگے نکلتا ہے؟ یا تو یہ ہو کہ اپنا پالتو گھوڑا حصہ لے رہا ہو۔ یا کسی گھوڑے سے واقفیت ہو تو اسے دیکھنے آدمی چلابھی جائے۔ ورنہ سب گھوڑے ایک جیسے ہیں۔‘‘ جج صاحب سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ وہ کچھ دیر سوچتے رہے، پھر مسکرا کر بولے۔ لا حول و لا قوۃ۔ اور دفعتاً شیطان کمرے سے نکل گئے۔
مجھے اور شیطان کو ایک بہت بڑی دعوت پر بلایا گیا۔ بڑے مدبر قسم کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ جج صاحب اور بیگم صاحبہ وہاں نہیں تھے، چنانچہ ہمیں پوری آزادی مل گئی اور شیطان اتر آئے الٹی سیدھی حرکتوں پر۔ ایک خطرناک سے بزرگ ہماری طرف بہت بری طرح دیکھ رہے تھے۔ کچھ مولانا سے معلوم ہوتے تھے۔ نہ جانے کیوں اس طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں گھور رہے تھے۔ آخر جب ان سے رہا نہ گیا تو شیطان سے بولے، ’’صاحب زادے! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم پورے آدھ گھنٹہ سے ان لڑکیوں کو گھور رہے ہو۔ یہ نہایت بری بات ہے۔‘‘ شیطان نے جواب دیا، ’’قبلہ گھورنا دو قسم کا ہوتا ہے۔ گھورنا بالتحقیق اور گھورنا بالتفریح۔۔۔ یہ خاکسار اس وقت اول الذکر کر رہا ہے، کیونکہ مجھے ابھی کسی نے بتایا ہے کہ ان خاتون کی ناک ترچھی ہے اور ایک آنکھ بڑی ہے ایک چھوٹی۔‘‘
مولانا ابھی کچھ کہنے ہی لگے تھے کہ شیطان نے جلدی سے ٹوکا، ’’اور آپ ان کو کیوں نہیں منع کرتے ہو جو گھورنا بالتفریح کے مرتکب ہو رہے ہیں اور ایسے یہاں بے شمار حضرات ہیں۔ مثال کے طور پر ان صاحب کو (اشارہ کر کے ) ہی لیجیے جو زیر مونچھ مسکرا رہے ہیں۔‘‘
’’زیر مونچھ مسکرا رہے ہیں؟‘‘
’’لوگ زیر لب مسکرایا کرتے ہیں، لیکن ان کی مونچھیں اس قدر گھنی اور خونخوار ہیں کہ ہم اس مسکراہٹ کو محض زیر مونچھ مسکراہٹ ہی کہہ سکتے ہی۔ غالباً ان صاحب کا نعرہ یہ ہوگا کہ۔۔۔ مونچھوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔‘‘
بات شروع کہاں سے ہوئی تھی اور جا پہنچی کہاں۔ مولانا کھسیانے ہو کر کہنے لگے، ’’خیر! کچھ بھی ہو، ہر حال میں انسان کو پرہیزگار ہونا چاہے۔‘‘
’’میں پرہیزگار ہوں۔‘‘ شیطان بولے۔
’’تم اور پرہیزگار۔۔۔؟ نعوذ باللہ!‘‘
’’جی نہیں، الحمد للہ مجھے فخر ہے کہ ماشاء اللہ میں پرہیزگار ہوں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہوں گا۔ پرہیزگار وہ شخص ہے جو گڑ، کھٹائی، چکنی اور گرم چیزوں اور مرچ مسالے سے پرہیز کرے اور وہ میں کرتا ہوں۔‘‘
اتنے میں چند مہمان آگئے اور ہمارا تعارف ان سے کرایا گیا۔ وہ مولانا اِدھر اُدھر ہوگئے۔ جہاں چاروں طرف شوروغل مچا ہوا تھا، وہاں ایک صاحب کو دیکھا جو چپ چاپ بیٹھے تھے، جیسے مراقبے میں ہوں۔ شیطان نے ان سے باتیں شروع کردیں۔
’’جناب اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات پوچھوں؟‘‘
’’فرمائیے!‘‘
’’آپ چپ کیوں ہیں؟‘‘
’’بس یونہی!‘‘
’’تو صاحب اگر آپ عقل مند ہیں تو بے وقوفی کر رہے ہیں اور اگر بیوقوف ہیں تو عقل مندی کر رہے ہیں۔‘‘ اور وہ صاحب سوچنے بیٹھ گئے کہ اس کا مطلب کیا ہوا؟ادھر ادھر ڈھونڈنے پر وہ مولانا ہمیں پھر مل گئے اور بدستور بڑے غیض و غضب سے ہمیں گھورنے لگے۔ شیطان چاہتے تھے کہ ان سے باتیں ہوں، لیکن کوئی بہانہ نہیں ملتا تھا۔ اتنے میں چند چھوٹے قد کی خواتین داخل ہوئیں، بالکل چھوٹی چھوٹی تھیں۔۔۔ شیطان جلدی سے بولے، ’’دیکھیے قبلہ! یہ پینگوئن سیریز (PENGUIN SEREIS) کی خواتین ہیں۔‘‘ اور انہوں نے نہایت خطرناک انداز سے ہوں کی۔
اسی وقت ایک نہایت ہی دبلے صاحب ایک بہت زیادہ موٹے صاحب کے ساتھ داخل ہوئے۔ دونوں میں اس قدر فرق تھا کہ ایک دوسرے کو بری طرح نمایاں کر رہے تھے۔ شیطان بزرگ کے قریب سرک کر بولے، ’’وہ دیکھیے جناب، ان میں سے ایک۔۔۔ استعمال سے پہلے۔۔۔ ہیں، اور دوسرے۔ استعمال کے بعد!‘‘ بزرگ شاید سمجھ نہ سکے۔ شیطان نے وضاحت کی، ’’آپ نے مقوی دواؤں کے اشتہار تو دیکھے ہوں گے۔ وہاں استعمال سے پہلے اور استعمال کے بعد کے فوٹو بھی ملاحظہ فرمائے ہوں گے۔ بالکل وہی چیز آپ دیکھ لیجیے۔‘‘
دروازہ کھلا اور ایک نہایت ہی چھوٹے قد کے حضرت اور ایک بہت ہی دبلے لمبے حضرت داخل ہوئے۔ ان کے قد میں کوئی چار پانچ فٹ کا فرق ہوگا۔ مولانا جھلا کر بولے، ’’ان پر تم نے کچھ نہیں کہا؟ کہہ دو ان کے متعلق بھی۔۔۔!‘‘ شیطان بولے، ’’اجی کیا خاک کہوں؟ سب دیکھ رہے ہیں کہ گلی ڈنڈا آ رہا ہے۔‘‘
اتنے میں کھانا شروع ہوگیا۔ ہم دونوں جان بوجھ کر مولانا کے قریب بیٹھے۔ شاید انہیں مچھلی بہت مرغوب تھی، چنانچہ کئی مرتبہ مچھلی منگوائی۔ اب جو وہ مچھلی منگواتے ہیں تو ملازم ادھر ادھر کی چیزیں تو دے جاتا، لیکن مچھلی نہ لاتا۔ صاف ظاہر تھا کہ ختم ہوگئی ہے، لیکن ان کا اصرار یہی تھا کہ مچھلی لاؤ۔ بیچارہ ملازم صاف جو اب بھی نہیں دے سکتا تھا اور ہاں بھی کہہ جاتا۔ آخر ان سے نہ رہا گیا اور نعرہ لگایا، ’’یہ کم بخت مچھلی کیوں نہیں لاتا؟ اور اب تو غائب ہی ہو گیا ہے، نہ جانے کہاں؟‘‘
’’مچھلیاں پکڑنے گیا ہے!‘‘ شیطان بولے۔
باہر زور کی بارش شروع ہو چکی ہے، چنانچہ کھانے کے بعد یہ طے ہوا کہ بارش تھمنے کا انتظار کیا جائے اور اتنی دیر کافی کا دوسرا دور چلے۔ سب لوگ خاموش ہوگئے اور ایک بزرگ نے (جن کو ہر وقت ملول اور محزون باتیں کرنے پر فانی کہا جاتا تھا اور جو فوراً ہی صدر بنا دیے گئے تھے) ایک صاحب سے کہا، ’’جب تک بارش نہیں رکتی آپ بیتیاں بیان کی جائیں گی۔ پہلے آپ اپنی زندگی کا کوئی سچا غم ناک واقعہ سنائیے۔‘‘ انہوں نے سنا دیا۔ ساتواں نمبر شیطان کا آیا۔ چونکہ پہلے نہایت ہی دردناک کہانیاں سنائی گئی تھیں اس لیے لوگ سہمے بیٹھے تھے۔ شیطان نے شروع کیا، ’’خواتین و حضرات! یہ واقعہ میری حیاتِ فانی میں سنگ میل کا کام دیتا ہے۔ اس نے میری فانی زندگی پر سب سے لا فانی اثر ڈالا!‘‘ اور سب چپ ہوکر بڑی توجہ سے سننے لگے۔
’’یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں گتگا کھیلا کرتا تھا۔ آپ لوگوں میں سے جن کو یہ پتہ ہے کہ گتکا ہوتا کیا ہے انہیں معلوم ہو کہ میں اب بھی اپنے کالج کا بہترین گتکے باز ہوں، لیکن ان دنوں خوب مہارت تھی۔ ایک دن ہم سب کالج کے برآمدے میں کھڑے تھے۔ موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ ہم منتظر تھے کہ کب بارش ختم ہو اور باہر نکلیں۔ اتنے میں ہم نے دیکھا کہ ایک جگنو اڑا جا رہا ہے!‘‘
’’دن میں جگنو؟‘‘ انہی مولانا نے پوچھا۔
’’جی ہاں۔۔۔ یا پھر جگنو کی قسم کا کوئی اور پرندہ ہوگا۔‘‘
’’جگنو پرندہ ہے کیا؟‘‘ مولانا نے پھر پوچھا۔
’’اجی قبلہ! جو چیز اڑتی ہے وہ پروں سے اڑتی ہے، لہٰذا پرندہ ہے۔ ہاں تو سب لڑکوں کا جی للچایا کہ اسے پکڑیں، مگر بارش کی وجہ سے کسی کی ہمت نہ پڑی۔ آخر میں تیار ہوا۔ لڑکوں نے منع کیا کہ بھیگ جاؤگے۔ میں نے ایک نہ سنی اور باہر نکل آیا۔ گتکے کا ماہر تھا۔ ایک بوند آئی۔ اسے گردن کی ایک جنبش سے بچا گیا۔ دوسری آئی اسے ایک طرف ہٹ کر بچایا۔ تیسری آئی۔ اسے کمر کی حرکت سے بچایا۔ غرضیکہ اسی طرح بل کھاتا، طرح طرح کے پینترے بدلتا ہوا ایسی موسلادھار بارش میں جگنو کو صاف پکڑ لایا۔ اور جب واپس برآمدے میں پہنچا تو میرے لباس پر ایک بوند بھی نہیں تھی۔‘‘
اب جو قہقہے لگے ہیں تو فضا کی سنجیدگی یکلخت ختم ہوگئی۔ صدر صاحب نے اٹھ کر فرمایا، ’’روفی صاحب! ہم آپ سے ایک سنجیدہ واقعہ سننا چاہتے ہیں اور آپ کو دس منٹ دیتے ہیں۔ اتنے میں رنجوری صاحب اپنی رنجیدہ داستان سنائیں گے۔‘‘ اتفاق سے یہ وہی صاحب تھے جو اتنی دیر سے گم سم بیٹھے تھے۔ بیچارے گھبرا گئے، سوچا کہ یہ کیا آفت آئی۔ بہتیرا پیچھا چھڑانا چاہا، لیکن وہاں کون سنتا تھا۔ آخر تنگ آکر بولے، ’’مجھے اپنا کوئی واقعہ تو یاد نہیں فقط ایک لطیفہ ذہن میں آ رہا ہے جو میں نے دوسری یا تیسری جماعت میں پڑھا تھا۔ وہ یہ کہ ایک جگہ چار بیوقوف بیٹھے تھے۔ ایک نے پوچھا کہ اگر دریا میں آگ لگ جائے تو مچھلیاں کدھر جائیں گی؟ دوسرا بولا، درختوں پر چڑھ جائیں گی۔ تیسرے نے فوراً۔۔۔‘‘
’’اجی حضرت وہ تو تین تھے۔ یہ چوتھا بے وقوف آپ کہاں سے لے آئے؟‘‘ ایک طرف سے آواز آئی۔
’’چوتھے یہ خود تھے۔۔۔!‘‘ شیطان بولے۔ اور لوگ چیخیں مار مار کر ہنسنے لگے۔
اب صدر صاحب نے شیطان سے درخواست کی کہ وہ ایک سنجیدہ واقعہ سنائیں۔ شیطان نے کہا، ’’آج سے چند سال پہلے کا ذکر ہے۔ یہی کمرہ تھا اور میں یہاں ذاکر صاحب (میزبان کے صاحب زادے) کے ساتھ آیا تھا۔ کوئی رات کے دس بجے تھے۔ بالکل ایسی ہی بارش ہو رہی تھی۔ میں گھر نہ جاسکا اور اسی کمرے میں سونا پڑا۔ (اشارہ کرکے) میرا بستر یہاں بچھا ہوا تھا۔ میں لیٹ گیا۔ سگریٹ ختم ہوچکا تھا، میں نے اسے بے خبری کے عالم میں ایک طرف پھینک دیا۔ پھر اچانک خیال آیا کہ نیچے قالین بچھا ہوا ہے جلتا سگریٹ پھینکا تھا۔ جھانک کر جو دیکھتا ہوں، توپلنگ کے نیچے سے ایک سوکھا ہوا ہاتھ نکلا اور سگریٹ کو اٹھا کر پھر پلنگ کے نیچے غائب ہوگیا۔‘‘ سب کے سب سہم گئے۔
’’اورخواتین و حضرات! میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہاتھ کسی زندہ شخص کا نہیں تھا۔ بالکل سوکھا ہوا اور مریل ہاتھ تھا۔ خیر! میں نے آیت الکرسی پڑھی۔ سوچا کہ شاید وہم ہوا ہوگا اور کچھ گنگنانے لگا۔ پھر خیال آیا کہ اب سو جانا چاہیے، چنانچہ میں نے یونہی کہہ دیا، ’’ارے یہ بجلی جل رہی ہے اسے تو بجھانا بھول ہی گیا۔ یہ کہہ کر اٹھنے لگا تھا کہ ’ٹک‘ سے آواز آئی اور کسی نے بجلی بجھا دی۔ اب جو میں اس کمرے سے ہڑبڑا کر بھاگا ہوں تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔۔!‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک طرف سے آواز آئی۔
’’پھر ہم نے اس مکان کا کونا کونا تلاش کیا۔ پلنگ کے نیچے بھی دیکھا، لیکن کچھ نہ ملا۔ سو یہ کمرہ آسیب زدہ ہے۔۔۔ اور۔۔۔ ارے۔۔۔! یہ مرغی کہاں سے آگئی؟‘‘ شیطان نے ایک تاریک گوشے کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’افوہ!‘‘ شیطان نے اچھلتے کودتے ہوئے کہا، ’’غضب خدا کا! یہ مجھے گدگدیاں کون کر رہا ہے۔‘‘ اور بے تحاشا چھلانگیں لگانے لگے۔
’’اور یہ میرے کان میں چیخیں کون مار رہا ہے؟‘‘ شیطان چلا کر بولے، ’’اور یہ پردے کے پیچھے سے اونٹ کیوں جھانک رہا ہے؟‘‘
اور کمرے میں ہلچل مچ گئی۔ شیطان نے مجھے اشارہ کیا اور میں نے چپکے سے بجلی بجھادی۔ اب جو دھما چوکڑی مچی ہے تو الاماں! سب کے سب کمرے سے باہر نکل آئے اور برآمدے میں کھڑے ہوگئے۔ ذرا سی دیر میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ ہم پہلی منزل کے برآمدے میں کھڑے تھے۔ وہ مولانا بھی ساتھ تھے اور نیچے جھانک رہے تھے۔ غالباً انتظار تھا انہیں کسی کا۔ اتنے میں ایک ٹانگہ گزرا، مولینا چلا کر بولے، ’’بھئی ٹھہرنا تمہارا ٹانگی خالہ ہے کیا؟‘‘ ادھر ٹانگے والے نے سنا ہی نہیں۔ مجھے بڑی ہنسی آئی، لیکن شیطان نہایت سنجیدگی سے بولے، ’’قبلہ! اگر آپ یوں فرماتے تو بہتر تھا۔۔۔ کہ تمہاری خالہ ٹانگی ہے کیا؟‘‘
مولانا جھینپ گئے۔ انہوں نے جان بوجھ کر تھوڑا ہی کہا تھا، یونہی منہ سے نکل گیا۔ ویسے وہ ڈرے ہوئے تھے۔ ٹانگے کا انتظار ہوتا رہا۔ شیطان نے مولانا سے پوچھا، ’’کیوں صاحب آپ کی بجی میں کیا گھڑا ہے؟‘‘
’’بارہ بجنے والے ہیں۔‘‘ وہ بولے۔
’’میرے خیال میں اب چلنا چاہیے۔ سڑک پر ٹانگہ ضرور مل جائے گا۔‘‘ اور ہم تینوں نیچے اترنے لگے۔
’’قبلہ ان سیڑھیوں کے متعلق بھی ایک پر اسرار قصہ ہے، جسے میں اس اندھیرے میں سنانا نہیں چاہتا۔‘‘ اور مولانا اور بھی آہستہ آہستہ اترنے لگے۔
’’اجی آپ تو ہجے کر کر کے اتر رہے ہیں۔ ذراجلدی کیجیے۔‘‘ شیطان بولے۔
’’ویسے ہی ذرا۔۔۔ چکنی سیڑھیاں ہیں۔۔۔ کہیں۔۔۔‘‘ وہ کہنے لگے۔
’’جی ہاں! واقعی! سیڑھیاں اترتے چڑھتے وقت ضرور خیال رکھنا چاہیے، کیونکہ پرسوں ہی کا ذکر ہے کہ میں جلدی جلدی زینے سے اتر رہا تھا۔ یکلخت جو ایک پھسلی سے سیڑھا تو دور تک سیڑھتا ہوا چلا گیا۔‘‘
شیطان کو روپوں کی سخت ضرورت تھی۔ میرے پاس آئے، مہینے کی آخری تاریخیں تھیں۔ میں اپنا جیب خرچ اور سکالرشپ وغیرہ سب ختم کر چکا تھا۔ یہ طے ہوا کہ حکومت آپا ہمیشہ امیر رہتی ہیں، ان سے ادھار لیے جائیں۔ شیطان حکومت آپا کے پاس گئے اور بولے، ’’ذراباغ میں چلیے آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘ وہ متعجب ضرور ہوئیں۔ باغ میں پہنچے۔ وہاں شیطان نے چٹکی بجائی اور بولے، ’’ارے! وہ تو وہیں کمرے میں کہنا تھا۔‘‘ اب پھر کمرے میں پہنچے۔ وہاں جاکر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر کہنے لگے، ’’میں بھی کیسا خبطی ہوں! در اصل وہ بات صرف چھت پر کہی جا سکتی ہے۔‘‘ میں یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ مختصر سی بحث کے بعد دونوں چھت پر پہنچے۔ وہاں جاکر شیطان نے التجا کی کہ اگر وہ بات دالان میں سنائی گئی تو بہتر رہے گا۔ اور حکومت آپا مچل گئیں۔ خیر! دالان میں پہنچے۔
’’اب میں یہاں سے ہرگز نہ ہلوں گی۔‘‘ انہوں نے کہا۔ شیطان نے سرگوشی کی، ’’تم ان دنوں بہت اچھی معلوم ہو رہی ہو۔‘‘ اور حکومت آپا فوراً بولیں، ’’روپے در اصل میرے پاس بھی نہیں ہیں۔‘‘ شیطان بولے، ’’یقین کرو کہ تم بہت ہی اچھی معلوم ہو رہی ہو۔‘‘ وہ بولیں، ’’یقین کیجیے کہ میں اس وقت بالکل قرض نہیں دے سکتی۔‘‘
شیطان نے جلدی سے کہا، ’’قرض کون مسخرہ مانگتا ہے۔ میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم پرسوں سے بہت حسین لگ رہی ہو۔۔۔ فقط پرسوں سے۔۔۔!‘‘
اسی طرح دیر تک الٹی سیدھی ہانکنے کے بعد حکومت آپا کو یقین دلا دیا کہ واقعی یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ وہ شرما گئیں اور آہستہ سے بولیں، ’’کیا اچھا لگ رہا ہے آخر؟‘‘
’’خدا جانے کیا اچھا لگ رہا ہے، لیکن پرسوں سے میری حالت مخدوش ہے۔ محض پرسوں سے!‘‘
’’پرسوں کیا بات تھی ایسی؟‘‘ وہ اور بھی شرما گئیں۔
’’پرسوں جب تم اپنے کمرے میں بیٹھی بسور رہی تھیں تو بس اس وقت تم مجھے بہت ہی اچھی لگیں۔ میں اسی انتظار میں رہا کہ تم روتی کب ہو، لیکن جب ایک آنسو بھی نہ نکلا تو میری آرزوؤں کا خون ہو گیا۔ کاش کہ تم بھوں بھوں کر کے روتیں۔ خیر اگلی مرتبہ جب کبھی رونے کا پروگرام ہو مجھے ضرور بلانا۔‘‘
اب تک ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا کہ رضیہ ہر وقت کس کے متعلق سوچتی رہتی ہے۔ ویسے ہمیں یہ یقین تھاکہ اسے کسی نہ کسی کا خیال ضرور رہتا ہے۔ میری اور شیطان کی یہی بحث رہتی۔ وہ عجیب عجیب حرکتیں مجھ سے کرواتے۔ ایک روز بولے، ’’رضیہ کو مونچھیں پسند ہیں، مونچھیں رکھ لو۔‘‘ میں نے رکھ لیں۔ پھر بتایا، ’’اسے برابر کی مونچھیں پسند نہیں، ایک طرف کی بڑی ہو دوسری طرف کی چھوٹی ہو۔‘‘ میں نے کچھ روز اپنی ہنسی اڑوائی۔ پھر کہنے لگے۔ اسے مونچھیں پسند ہی نہیں۔ چنانچہ صاف کرا دی گئیں۔
ایک دن مجھے رضیہ کو اس کی کسی سہیلی کے ہاں چھوڑنے جانا تھا۔ شیطان نے مشورہ دیا، ’’خوب اچھے سے کپڑے پہن کر جانا، رضیہ کے ساتھ چلوگے۔ شان رہے گی۔‘‘ میں پوچھ بیٹھا کہ رضیہ کو کس قسم کا لباس پسند ہے؟ کہنے لگے، ’’تم اسی وقت جاکر سرخ رنگ کی پتلون پہن لو اور سبز رنگ کا کوٹ۔ زرد رنگ کی ٹائی، براؤن جوتے، نیلی قمیص اور فاختی رنگ کا رومال۔ جاؤ ابھی پہن کر آجاؤ۔‘‘ اور جب میں اور رضیہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے تو جو بھی راستے میں ملتا وہ نہ صرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے گھورتا، بلکہ دیر تک مڑ مڑ کر دیکھتا جاتا۔ آخر رضیہ سے نہ رہا گیا، ’’یہ آپ کو سوجھی کیا تھی؟‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’یہ لباس کیسا پہن آئے ہیں؟ بالکل ٹیکنی کلر TECHNI COLOUR میں رنگے ہوئے ہیں۔‘‘
ایک دن شیطان نے نہایت لا جواب تجویز سوچی کہ ایک ڈراما سٹیج کیا جائے جو میرے نام سے مشہور کیا جائے۔ انتظام سارا شیطان کریں گے۔ تجویز معقول تھی۔ رضیہ پر تھوڑا سا رعب جمایا جا سکتا تھا۔ پورے مہینے بھر کی تیاریوں کے بعد ہم نے ایک رومان انگیز ڈراما تیار کر لیا۔ اب ڈرامے کے نام کا سوال آیا تو شیطان بولے، ’’اس کا نام ’بے گناہ اونٹ‘ ٹھیک رہے گا۔‘‘
’’لیکن اس کا پلاٹ تو رومانی ہے اور اس میں اونٹ کہیں بھی نہیں آتا۔‘‘
’’آج کل لوگ ایسے اچھوتے خیالات پر تو جان چھڑکتے ہیں۔۔۔ یہ بہترین نام ہے۔ ویسے اور نام بھی ہیں مثلاً مفلس عاشق۔۔۔ یا پریم کا جادو۔۔۔ یا۔۔۔!‘‘ اور میں فوراً مان گیا۔
’’اچھا! اب اس کا عرف ضرور ہونا چاہئے۔ عرف کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ابھی میں نے ایک نہایت غم ناک اور درد انگیز رومانی افسانوں کی کتاب پڑھی ہے۔ جس کا نام تھا، ’آنسو اور ستارے ‘عرف’ لاش نے شرارت کی۔ ‘ اس عرف نے مجھ پر اس قدر اثر کیا کہ میرے آنسو نکل آئے۔
’’تو پھر رکھ لو عرف۔ کیا رکھوگے؟‘‘
’’میرے خیال میں تو یوں ٹھیک رہے گا، ’بے گناہ اونٹ‘ عرف ’آبیل مجھے مار‘۔‘‘
’’لیکن اس میں بیل بھی کہیں نہیں آتا۔‘‘
’’پھر وہی باتیں کیں تم نے۔‘‘ شیطان نے ڈانٹا، اور میں مان گیا۔
مجھے شہزادہ بنایا گیا۔ شیطان نے اپنا اصلی پارٹ کرنا قبول کرلیا، یعنی وہ شیطان بنے۔ ایک صاحب پریوں کی شہزادی بنائے گئے اور ان کی حجامت اس بری طرح کی گئی کہ چہرہ کھرچ دیا گیا۔ آس پاس کے بیشتر معزز حضرات مدعو کیے گئے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ ایک یار جنگ بہادر صاحب تشریف لا رہے تھے۔ ان کی آمد باعث فخر تھی۔ کلب میں ایک بہت بڑے ہجوم کے سامنے پردہ اٹھا۔ میں ایک اندھیرے باغ میں کودا۔ وہاں جلدی سے پریوں کی شہزادی پر عاشق ہوا۔ پھر چاند کو طلوع ہونا تھا، اور مجھے ایک درد انگیز تقریر کرنی تھی۔ اب میں عاشق ہوکر چاند کا انتظار کر رہا ہوں۔ ادھر چاند ہے کہ نکلتا ہی نہیں۔ آخر تنگ آکر میں نے بغیر چاند کے تقریر شروع کردی۔ اتنے میں یکلخت چاند طلوع ہوا اور بڑی تیزی سے آسمان (سٹیج) کو عبور کرتا ہوا دوسری طر ف چلا گیا۔ ایک قہقہہ پڑا۔ لیکن میں نے تقریر جاری رکھی۔ اب چپکے سے چاند پھر نکل آیا اور میں نے ایک گھٹنے کے بل جھک کر دہنا ہاتھ بڑھا کر کچھ کہنا شروع کیا ہی تھا کہ جو دیکھتا ہوں تو چاند دوسری طرف پہنچ چکا تھا۔ اب جو اس طرف منہ کرتا ہوں تو چاند ادھر آ گیا۔ غرضیکہ میری اور چاند کی خوب آنکھ مچولی ہوئی۔
اسی طرح ایک نہایت خوشنما سین پر یکلخت سارے قمقمے بجھ گئے اور جب دوبارہ جلے تو سارا مزا کرکرا ہوچکا تھا۔ اب جو پردے کی مصیبت شروع ہوئی تو میں جھنجھلا اٹھا۔ جب کہیں اچھا سا سین آیا، دھڑام سے پردہ گر گیا اور لوگوں نے تالیاں بجانی شروع کردیں۔ خیر بڑی مصیبتوں کے بعد انٹرول ہوا۔ اب شیطان سٹیج پر آکر فرماتے ہیں، ’’خواتین و حضرات! میں ڈرامے کے پروڈیوسر (میرا نام لے کر) کے متواتر اصرار پر ان کی طرف سے جناب ببریار جنگ بہادر صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ سٹیج پر تشریف لا کر حاضرین کو ایک ٹھمری یا دادرا سنائیں۔ نیز ہماری طبلچی بہت ہشیار ہے۔ خواہ کیسی ہی راگنی وہ چھیڑیں، ساتھ چل نکلے گا۔‘‘ حاضرین دم بخود رہ گئے اور وہ یارجنگ بہادر صاحب مع اپنے کنبے کے فوراً اٹھ کر چلے گئے۔ اتنی فرصت ہی نہ تھی کہ میں شیطان سے کچھ کہتا۔
پردہ اٹھا۔ ذرا سی دیر میں شیطان کا پارٹ شروع ہونا تھا۔ اب جو انہیں ڈھونڈتے ہیں تو وہ غائب ہوچکے تھے۔ بڑی پریشانی ہوئی۔ طے ہوا کہ جلدی سے ایک اور شیطان بنایا جائے۔ سین یوں تھا کہ پریوں کی شہزادی باغ میں ٹہل رہی ہے اور اسے ایک گستاخ قہقہہ سنائی دیتا ہے۔ وہ چونک کر کہتی ہے۔ میں خوب سمجھتی ہوں کہ تو شیطان ہے اور مجھے ڈرانا چاہتا ہے، لیکن میں تجھ سے ہرگز نہیں ڈروں گی۔ یہ کہہ کر وہ ایک گانا گاتی ہے۔ قہقہہ نقلی شیطان سے لگوایا گیا۔ ہیروئن نے اپنے فقرے کہہ دیے۔ یکلخت ایک دھماکا ہوا۔ سٹیج کی چھت سے ایک شعلہ سا تڑپا اور دھم سے کوئی عجیب الخلقت چیز کودی۔ جس کا رنگ سبز تھا۔ آنکھوں کی جگہ دو چنگاریاں دہک رہی تھیں۔ دو چمکیلے سینگ تھے۔ نکیلے کان اوپر کو اٹھے ہوئے تھے۔ نہایت ہیبت ناک شکل تھی۔ ہیروئن نے ایک دل دوز چیخ ماری اور بے ہوش ہوگئی۔ ہم سب حیران رہ گئے۔ اب جو غور سے دیکھتے ہیں تو یہ اصلی شیطان یعنی روفی تھے جو اپنا میک اپ خود کر کے آئے تھے۔
ہیروئن اس قدر ڈری ہوئی تھی کہ اس نے ایک عجیب بے ڈھنگی سر میں غلط گانا شروع کردیا، ’’رس کے بھرے تورے نین۔‘‘ اس کاترنم بالکل انگریزی موسیقی معلوم ہو رہا تھا۔ شیطان نے نہایت ہیبت ناک آواز میں ہنسنا شروع کردیا اور بے شمار بچے چلا چلاکر رونے لگے۔ جو بچہ روتا اسے گھر بھیج دیا جاتا۔ اب جو ڈراؤنی ایکٹنگ شیطان نے شروع کی ہے تو حاضرین پر سناٹا طاری ہوگیا۔ ایک ایک کرکے سب خواتین چلی گئیں۔ غرضیکہ شیطان نے دل کھول کر دھماچوکڑی مچائی۔ آخر میں تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ انہوں نے بلاوجہ خود ساختہ فقرے بولنے شروع کردیے اور ہر سین میں سٹیج پر آنا شروع کردیا، خواہ وہ ان کا پارٹ ہو یا نہ ہو۔ پھر وہ سین آیا جس میں شیطان کو جادو کے منتر سے ہلاک کرنا تھا۔ میں نے منتر کئی مرتبہ پڑھا لیکن شیطان ٹس سے مس نہ ہوئے۔
میں نے چپکے سے کہا، ’’اب مر بھی جاؤ۔‘‘ پرامپٹر نے بھی کہا، ’’مرجائیے روفی صاحب۔‘‘ سٹیج کے پیچھے سے آواز آئی، ’’مرجائیے قبلہ۔‘‘ لیکن وہ پھر بھی نہ مرے۔ آخر میں نے غصے سے کہا، ’’مرتے ہو یا نہیں؟‘‘ شیطان زور سے بولے، ’’نہیں مرتے۔‘‘ اور لوگ ہنسنے لگے۔
’’اچھا تو یہ بات ہے؟ اٹھوں پھر؟‘‘ میں سچ مچ اٹھنے لگا تھا۔ پھر خیال آیا کہ شہزادوں کی شان کے شایاں نہیں کہ معمولی سے شیطان پر ہاتھ اٹھائیں۔ چنانچہ میں نے تالی بجائی۔ چند سپاہی آگئے، ان سے کہا، ’’لے جاؤ اس شیطان کو گرفتار کر کے قتل کر دو۔‘‘
’’جہنم میں بھیج دو۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے نعرہ لگایا۔
’’ہاں قتل کرکے جہنم میں بھیج دو۔‘‘
’’نہیں جاتے ہم۔‘‘ شیطان نے اپنے لمبے لمبے نکیلے ناخن دکھاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو پھر۔۔۔ لا حول و لا قوۃ!‘‘ میں نے زور سے کہا۔ اور شیطان یکلخت اچھلے اور چھلانگ مار کرنہ جانے کہاں غائب ہوگئے۔
اس کے بعد مجھ پر چاروں طرف سے بوچھاڑ ہوئی۔ سب کچھ میرے ذمے منڈھ دیا گیا۔ شیطان صاف بچ گئے۔ حکومت آپا نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں کچھ خبطی سا لڑکا ہوں ورنہ اس قسم کی حرکتیں کبھی نہ کرتا۔ اور یہ بھی کہا کہ ڈرامے کے دوران میں رضیہ کو گھور رہا تھا۔ لیکن رضیہ کے متعلق پتہ نہ چل سکا کہ وہ کس قدر ناراض ہوئی۔ کچھ روز بہت پریشانی رہی۔ پھر حکومت آپا کی سالگرہ پر ایک دعوت ہوئی۔ ان کی سہیلیاں آئیں۔ بزرگوں نے شمولیت سے عمداً پرہیز کیا۔ میں اور شیطان بھی شریک تھے۔ سب کے سب حکومت آپا کی الل ٹپ باتیں سن رہے تھے اور برداشت کر رہے تھے۔ وہ اپنی کار کاذکر بار بار کر رہی تھیں۔ جج صاحب چاہتے تو اچھی خاصی کار لے سکتے تھے، لیکن نہ جانے انہیں اس فضول سی موٹر سے کیا دلچسپی تھی جو اس پر بری طرح فریفتہ تھے۔ ادھر ان کا سارا کنبہ اسی چیز پر لٹو تھا۔ لیکن ہمیں وہ زہر دکھائی دیتی تھی۔
آخر شیطان نے آہستہ سے کہا، ’’دیکھو حکومت آپا اگر اب تم نے اپنی کار کے متعلق ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔!‘‘ لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور اپنی کار کے قصیدے پڑھتی رہیں۔ اب شیطان اٹھ کھڑے ہوئے اور سب متوجہ ہوگئے۔ یہ گلاصاف کر کے بولے، ’’خواتین و حضرات! آج میں چند الفاظ اس چیز کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جسے غلطی سے کار کہا جاتا ہے۔ جو قطعی طور پر ’بے کار‘ ہے۔ اس میں جب تک چند سٹول، کرسیاں اور مونڈھے نہ رکھے جائیں یہ چلتی نہیں (وہ کار بہت ہی لمبی تھی۔) اور جب تک بیس پچیس آدمی نہ بیٹھیں، اپنی جگہ سے نہیں ہلتی۔ آپ اسے پٹرول سے ہرگز نہیں چلا سکتے۔ جب تک اس میں مٹی کے تیل، سرسوں کے تیل اور دیگر چیزوں کا ایک خاص مرکب نہ ڈالا جائے یہ نہیں چلے گی۔ آپ اسے پہاڑ پر چڑھائیں تو فوراً چڑھ جائے گی، لیکن نشیب پر رک جائے گی اور ہرگز نیچے نہیں اترے گی۔ لہٰذا کچھ پتہ نہیں کہ یہ چلتی کب ہے اور ٹھہرتی کب ہے۔ اپنی مرضی کی مالک ہے۔
اس میں ہارن کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کی مشین کا آرکسٹرا آدھ میل سے سنائی دے جاتا ہے۔ لوگ ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں۔ چوک کا سپاہی کانوں میں انگلیاں دے کر آنکھیں میچ لیتا ہے اور جل تو جلال تو پڑھتا ہوا ایک طرف ہوجاتا ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگا لیتی ہیں۔ راہگیر سہم جاتے ہیں اور دیر تک سہمے رہتے ہیں۔ ہمارے پڑوس میں اس چیز کا وہ رعب ہے کہ بچوں کو اس سے ڈرایا جاتا ہے کہ شرارت کروگے تو وہ موٹر آجائے گی۔ ایک دن اس میں دودھ سے بھرا ہوا برتن رکھا تھا۔ جب تین چار میل جانے کے بعد اٹھایا گیا تو دودھ پر مکھن تیر رہا تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ پک نک پر جاتے وقت ہم جلدی میں آئس کریم نہ بنا سکے، البتہ آئس کریم کی مشین میں دودھ برف وغیرہ بھر کر مشین کار میں رکھ لی۔ جب وہاں پہنچے تو نہایت ہی اعلیٰ درجے کی آئس کریم تیار ہو چکی تھی۔‘‘
اب جو معتبر ذرائع سے اطلاعات ملیں تو میں مست سے بے قابو ہو گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ رضیہ کو محض میرا خیال رہتا ہے۔ وہ کھنچی کھنچی ضرور لگتی ہے، لیکن اس کی وجہ حکومت آپا ہیں۔ میں سیدھا شیطان کے پاس گیا اور کہا کہ اب تو ہمیں یقین ہو جانا چاہیے۔ میری حالت ان دنوں عجیب سی تھی جو کچھ شیطان کہتے فوراً یقین کر بیٹھتا۔ پہلے تو انہوں نے حسب معمول رضیہ سے بیزار کرنے کی کوشش کی۔ اس کے خیال سے باز آ جانے کے لیے کہا۔ جب میں نہ مانا تو کہنے لگے کہ’’دنیا بہت وسیع ہے اور رضیہ کی نگاہ بھی کمزور ہے۔‘‘ میں پھر بھی نہ مانا تو انہوں نے ایک عجیب اوٹ پٹانگ سی تجویز بتائی۔۔۔ کہ میں رضیہ کو باغ میں ملوں۔ واپسی میں اناروں کے جھنڈ کی طرف آؤں اور وہاں جو گڑھا ہے اس میں گر پڑوں اور بے ہوش ہو جاؤں۔ رضیہ ضرور سردبائے گی۔ پھر غنودگی میں بڑبڑانے لگوں اور رضیہ سے اصل بات صاف صاف کہہ دوں۔ بس اس وقت جو جواب ملے گا وہ آخری ہوگا۔
میں ہچکچایا۔ شیطان کہنے لگے، ’’ یہ آخری آزمائش ہے۔ اس مرتبہ ضرور فیصلہ ہو جائے گا۔ اس لیے ہمت کر ہی ڈالو۔‘‘ اور میں تیار ہوگیا۔ میں نے ننھی کو جاسوس بنایا کہ جونہی رضیہ باغ کی طرف جائے مجھے فوراً اشارہ کردے۔ اشارہ پاتے ہی میں بھاگا اور رضیہ کو باغ میں جالیا۔ پہلے تو اپنے ڈرامے کے متعلق پوچھا۔ بولی، ’’کچھ ایسا برا نہیں تھا۔‘‘ پھر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ جب واپس آنے لگے تو میں اسے اناروں کے جھنڈ کی طرف لے گیا۔ اب وہ چھوٹا سا گڑھا آیا جہاں مجھے گرنا تھا۔ پگڈنڈی سے گڑھا دور تھا۔ اس لیے میں گھاس پر چلنے لگا اور یکلخت خواہ مخواہ ٹھوکر کھاکر گڑھے میں کچھ اس طرح گرا کہ سچ مچ چوٹ لگی۔ در اصل گرنے کی ریہرسل نہیں کی گئی تھی۔
رضیہ گھبراگئی۔ اس نے مجھے ہوش میں لانے کی ترکیبیں کیں۔ بے چاری فوارے سے پانی بھی لائی۔ بھلا میں کہاں ہوش میں آنے لگا تھا۔ میں نے ہدایت نمبر تین کے مطابق سرگوشی میں کہا، ’’رضیہ!‘‘ اور آنکھ جھپکا کر اسے دیکھا بھی۔ پھر آہستہ سے کہا، ’’رضیہ!‘‘ اور وہ میرے پاس بیٹھ گئی۔ اب میرا سر دبایا جا رہا تھا۔ کہنے کو تو میں کہہ گیا تھا، لیکن مارے ڈر کے برا حال تھا۔ پورے ایک منٹ کے وقفے کے بعد پھر کہا، ’’رضیہ!‘‘ اور رضیہ چپکے سے بولی، ’’ہاں!‘
اور میں جیسے آسمانوں میں اڑنے لگا۔ اب اس نے میرا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ لیا اور میرے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔ فیصلہ کن جواب مل چکا تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ناچنے لگوں۔ رضیہ کی انگلیاں بالوں سے کھیلتی کھیلتی گردن تک پہنچیں اور جو بے تحاشا گدگدی ہوئی ہے تو سارے جتن کر ڈالے۔ ہونٹ چبائے، چٹکیاں لیں، بہتیرا ضبط کیا، لیکن وہ کم بخت، گدگدی قابو میں نہ آئی۔ اور میں کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اب جو رضیہ ناراض ہوئی ہے تو بس! چلتے ہوئے بولی، ’’مجھے یقین تھا کہ ڈراما ہو رہا ہے۔ بھلا اس تماشے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ اور میں نے سوچا کہ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ گدگدی سب کو ہوتی ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ۔ بس رنج تھا تو یہ کہ اب رضیہ کبھی مجھ سے بات نہ کرے گی۔۔۔ سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا۔
اگلی شام کو انتہائی اداسی میں شیطان کو سارا قصہ سنایا۔ وہ بولے، ’’پہلے تو مجھے شبہ تھا، لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ رضیہ تمہیں پسند نہیں کرتی۔ اس میں رنجیدہ ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اپنی اپنی پسند ہے۔ کوئی اچھا لگا کوئی نہ لگا۔۔۔! اور جب محبت کاجواب محبت میں نہ ملے تو وہاں سے چلے جانا چاہیے۔ ایسے موقعوں پر آب و ہوا کی تبدیلی حیرت انگیز اثر رکھتی ہے۔ اب تمہیں یہاں رہ کر افسردگی کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ اس لیے بہتریہی ہے کہ بھئی تم یہاں سے روانہ ہوجاؤ اور سمجھ لو کہ رضیہ کو کبھی دیکھا بھی نہ تھا۔‘‘ میں اور بھی اداس ہوگیا۔ میں نے دھیمی آواز میں کہا، ’’جہاں بھی جاؤں گا بہت ہی غمگین رہا کروں گا، کیونکہ مجھے رضیہ اچھی لگتی ہے۔ اسے ہرگز نہیں بھلا سکتا۔‘‘ ہم اسی طرح کی باتیں کرتے رہے۔ آخرشیطان نے منواکر چھوڑا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ میں چپکے سے چلا جاؤں، بغیر جج صاحب کو اطلاع دیے۔
’’اور کالج کے سرٹیفکیٹ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ سب میں بھیج دوں گا۔‘‘ شیطان نے وعدہ کیا۔ اور ذرا سی دیر میں میں سامان باندھ رہا تھا۔ شیطان میری مدد کر رہے تھے۔ اتنے میں حکومت آپا آ گئیں۔ پیچھے پیچھے ننھی تھی جسے وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھیں۔ میں نے جلدی سے صندوق بند کردیے۔ میری اور شیطان کی یہی خواہش تھی کہ یہ کسی طرح یہاں سے چلی جائیں۔ شیطان بولے، ’’ننھی! دیکھ تو سہی ساتھ کے کمرے میں جو کلاک ہے وہ چل رہا ہے یا نہیں؟‘‘ ننھی نے واپس آکر بتایا، ’’کلاک چل تو نہیں رہا، کھڑا ہے۔ بس اپنی دم ہلا رہا ہے۔‘‘ شیطان نے پھر پوچھا، ’’تو گویا چل رہا ہے نا؟‘‘
’’چل کہاں رہا ہے؟ چل کس طرح سکتا ہے بیچارہ؟ میخوں سے تو گاڑ رکھا ہے۔ بس اپنی دم ہلا رہا ہے۔‘‘ ننھی نے وضاحت کی۔ حکومت آپا ہنس دیں۔ شیطان چڑگئے، ’’یہ بڑی ہوکر ہو بہو حکومت بنے گی۔ شاباش ہے حکومت! کیا لا جواب ٹریننگ دی ہے اس بچی کو۔ ستیاناس کردیا۔‘‘ وہ ابھی کچھ کہنے ہی لگی تھیں کہ شیطان بولے، ’’تمہیں چاہیے کہ اسے سارے سبق پڑھا کر ایک سرٹیفکیٹ دے دو۔۔۔ اس طرح۔۔۔ کہ میں نے پورے چار سال تک اس بچی کو اپنے ساتھ رکھا اور اسے اچھی طرح بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ اب میں بڑے فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ یہ ایک گستاخ، چھچھوری، چٹوری اور ضدی لڑکی بن گئی ہے۔ لوگوں پر خواہ مخواہ فقرے کسنے میں تو اس نے مجھے بھی مات کردیا ہے۔ ہر ایک سے چھیڑ، بزرگوں کا حکم نہ ماننا، اپنا وقت ضائع کرنا۔۔۔ ان میں یہ ایسی ماہر ہوگئی ہے کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں بھی یہ جائے گی میرا نام روشن کرے گی۔ میری بدترین دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔‘‘ اس پر حکومت آپا نے ایک تیز سا جواب دیا اور باہر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ننھی بولیں، ’’بھیا! اب تو آپ حکومت آپا کو ڈانٹ لیتے ہیں۔ ذرا ان کی شادی ہوجانے دو، پھر دیکھیں گے انہیں کون دھمکاتا ہے۔‘‘
’’اچھا تو حکومت کی شادی بھی ہوگی؟ کون کہتا ہے؟‘‘ شیطان نے حیران ہو کر پوچھا۔ اب حکومت آپا ابل پڑیں، ’’اور تمہاری بڑی ہوگی؟ دیکھ لینا جو کوئی لڑکی تمہارے نزدیک بھی کھڑی ہو جائے تو! خواہ مخواہ رضیہ کو بھی پریشان کر رکھا ہے اور (میری طرف اشارہ کرکے) اس بے چارے کو بھی۔‘‘
اس پر میرے کان کھڑے ہوگئے۔
’’حکومت تم جاکر کوئی مفرح شربت پیو۔ تمہاری صحت۔۔۔!‘‘
’’مجھے پہلے ہی پتہ تھاکہ تم۔۔۔!‘‘
’’خاک تھا تمہیں پتہ۔‘‘
’’اچھا تو کہہ دوں سب کچھ، کہ تم نے بچارے کو۔۔۔!‘‘
’’تم اپنا وقت بھی ضائع کر رہی ہو اور دوسروں کا بھی۔‘‘
اور شیطان اور حکومت آپا کی خوب لڑائی ہوئی۔ حکومت آپا نے سب کچھ بتادیا۔ مجھے تن بدن کا ہوش نہ رہا۔ میں نے شیطان کو کالر سے پکڑ لیا اور پوچھا، ’’کیا سچ مچ تم رضیہ کو میرے خلاف ورغلاتے رہے ہو؟‘‘ وہ بولے، ’’ہاں۔‘‘
’’ڈرامے میں تم نے ہی گڑبڑ کی تھی؟ اور خودکشی تم نے ہی خراب کرائی تھی؟‘‘
’’ہاں! ہاں!‘‘
’’اور وہ۔۔۔!‘‘
’’ہاں! ہاں! ہاں! میں نے سب کچھ کیا تھا اور ابھی بہت کچھ کروں گا۔ لیکن یہ سمجھ لو کہ رضیہ تمہیں بالکل پسند نہیں کرتی اور اس کی نظر بھی کمزور ہے۔‘‘
میں نے شیطان کو اپنی طرف کھینچا اور اپنا مکا۔۔۔ اتنے میں جج صاحب آگئے، وہ مسکرا رہے تھے۔ کہنے لگے، ’’میں نے سب کچھ سن لیا ہے، بیٹھ جاؤ۔ جب میں یورپ میں تھا تو وہاں ایک لڑکے سے میری کھٹ پٹ ہوگئی۔ ہمارے پروفیسر نے ہمیں جھگڑتے دیکھ لیا اور کہا کہ تم دونوں کے دلوں میں غبار ہے جسے نکال دینا نہایت مفید ہوگا۔ تم کسی نہ کسی دن آپس میں لڑوگے ضرور۔ چنانچہ وہ ہمیں کھیل کے میدان میں لے گئے اور وہاں GLOVES پہنا کر مکہ بازی کرائی۔ ہم خوب لڑے یہاں تک کہ دونوں تھک کر گرپڑے۔ اور ہم جب واپس آئے تو بڑے اچھے دوست بن گئے تھے۔ اب تم دونوں ضرور آپس میں لڑوگے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ ہم سب باغ میں چلیں، تمہارا فیصلہ وہاں ہو جائے گا۔‘‘ انہو ں نے گلوز منگا لیے اور ہم سب کمرے سے باہر نکل آئے۔ نہایت ہی دلفریب چاندنی رات تھی۔ میں بے حد اداس تھا۔ ہر دفعہ قصور میرا ہی نکلتا ہے۔ جہاں جاتا ہوں کوئی نہ کوئی گل کھلاتا ہوں۔
مجھے چاہیے تھا کہ چپ چاپ یہاں سے چلا جاتا۔ جب رضیہ کو مجھ سے نفرت ہے تو پھر باقی کیا رہ گیا۔ اب یہ بات سب میں پھیل جائے گی، اور تو اورجج صاحب نے بھی سب کچھ سن لیا۔ توبہ! توبہ! ایک تماشا اور باقی رہ گیا تھا، سو وہ اب ہو رہاہے۔ بس میں رات کی ٹرین سے گھر چلا جاؤں گا اور پھر کبھی منہ نہ دکھاؤں گا۔ پلاٹ میں بجلی کے قمقے جل رہے تھے۔ طے ہوا کہ وہاں مقابلہ ہو۔ ہمیں گلوز پہنائے گئے۔ جج صاحب نے گھڑی ہاتھ میں لی۔ ہمارے چاروں طرف سارا کنبہ کھڑا تھا۔ جج صاحب نے پوچھا، ’’کتنے راؤنڈ؟‘‘ میں نے کہا، ’’جتنے آپ چاہیں!‘‘ شیطان بولے، ’’تین۔‘‘ جج صاحب نے کہا، ’’تین میں تو فیصلہ نہیں ہوگا، پانچ سہی۔‘‘
پہلا راؤنڈ شروع ہوا۔ نہ جانے میرے ہاتھ پاؤں کیوں شل ہو رہے تھے؟ بغیر کسی مدافعت کے شیطان سے پٹ رہا تھا۔ سب بچے میری طرف تھے اور ہمت بندھا رہے تھے۔ رضیہ ایک طرف اکیلی کھڑی تھی۔۔۔ بالکل چپ چاپ۔ پہلا راؤنڈ شیطان کا رہا۔ دوسرے میں پھر انہوں نے پیٹنا شروع کیا اور میں بت بنا کھڑا تھا۔ یہاں تک کہ میرا ایک مکا بھی ان کو نہ لگ سکا۔ بچے چلا چلا کر میرا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کر رہے تھے اور میں نہ جانے کیا سوچ رہا تھا۔ شاید یہی کہ مقابلہ ختم ہوتے ہی فوراً یہاں سے چلاجاؤں گا۔ ایک ٹرین رات کے گیارہ بجے جاتی ہے۔ تیسرے راؤنڈ میں بھی یہی ہوا۔ شیطان اچھل اچھل کر حملہ کرتے اور میری جانب سے مدافعت نہ ہوتی۔ تیسرا راؤنڈ ختم ہوا۔ میں بیٹھا ہی تھا کہ رضیہ نے میرے کان میں کچھ کہہ دیا۔ میں نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا، ’’سچ؟‘‘
بولی، ’’ہاں!‘‘ اور میری آنکھوں کے سامنے تتلیاں ناچنے لگیں۔ میں اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ چوتھا راؤنڈ شروع ہوا۔ میرے گلوز نے حرکت کی۔ دھڑام۔۔۔ دھڑام۔۔۔ دھڑام۔ چند آوازیں آئیں اور شیطان بے ہوش پڑے تھے۔ وہ ناک آؤٹ ہوگئے تھے۔ جج صاحب نے میرا بازو ہوا میں بلند کرکے ہلادیا اور رضیہ میرے گلوز اتارنے لگی۔ حکومت آپا بولیں، ’’مجھے پہلے ہی پتہ تھا۔۔۔!‘‘
میں اور رضیہ فوارے کے پاس سے گزر رہے تھے۔ راستے میں ہم نے وہ گڑھا بھی دیکھا جہاں میں گر کر بے ہوش ہوگیا تھا۔ ہم دونوں مسکرانے لگے۔ نہایت ہی دلفریب چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ ایسی چاندنی میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ میں نے سوچا کہ رضیہ نہایت ہی خوبصورت لڑکی ہے اور ایسی لڑکی بھی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اور جب ہم معطر پھولوں کے تختوں میں سے گزرے تو فضا میں ایک سناٹا تھا۔۔۔ خوشگوار سناٹا! تب مجھے پتہ چلا کہ شیطان تو میرے رقیب تھے اور حکومت آپا اپنا وقت بھی ضائع کر رہی تھیں اور دوسروں کا بھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.