شرافت غیر فطری ہے اگر یہ خود رَو ہوتی تو اس کی شجر کاری اور آبیاری کے لیے اتنی بے ثمر کو ششیں ہرگز نہ کی جاتیں۔ ویسے بھی، ’’بقائے بہترین‘‘ کا نظریہ شرافت کی برتری کو نہیں زور آور کی شرارت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ ممکن ہے آپ کہیں کہ زور آور، بااختیار اور صاحبِ ثروت شخص بھی تو شریف آدمی ہو سکتا ہے۔ آپ کا کہا سر آنکھوں پر مگر یہ مت بھولیں کہ اس کی شرافت پر بالعموم کلا شنکوف، کرنسی نوٹوں اور ووٹ خریدنے کی اہلیت کا دست ِشفقت ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ ماننا پڑے گا کہ شرافت کی دو بڑی قسمیں ہیں اوّلاً خاندانی شرافت، ثانیاً خود ساختہ شرافت۔ اوّل الذکر نہ چاہتے ہوئے بھی ہر دَم گلے پڑی رہتی ہے۔ ویسے بھی جو بندۂ خدا قرض داروں، ٹھیکیداروں اور رشتے داروں کا ستایا ہوا ہوگا وہ شرافت کی ڈگر پر چلنے کے سِوا اور کر بھی کیا سکتا ہے! ثانی الذکر کی شرافت، مرضی اور پسند کے تابع ہوتی ہے۔ وہ آپ کے ہر اشارے پر حکم بجا لاتی ہے آپ جب چاہیں اسے ٹھوکر مار کر خود سے دور پھینک دیں۔ یہ دونوں ٹانگوں میں دُم دبائے کونے میں جا بیٹھے گی اور جب آپ اس کو پُچکاریں گے تو یہ دُم ہلاتے آپ کے پاس آجائے گی اور آپ کے تلوے چاٹنے لگے گی۔
فلموں میں ہیرو کو ایک شریف آدمی اور وِلن کو ایک بد معاش آدمی کے روپ میںپیش کیا جاتا رہا ہے مگر گزشتہ کئی سال سے ہیرو نے وِلن کا چلن اختیار کر لیا ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بد معاشی اور غنڈہ گردی کے ذریعے اپنا ہیرو پن دِکھاتا ہے۔ یہ تبدیلی سماجی حوالے سے ہماری اجتماعی نفسیات کی غمازّی کرتی ہے، لیکن جب کوئی شخص آپ کا گریبان پکڑ لے اور آپ اس نازک موقع پر غلطی سے صِرف اتنا کہہ دیں کہ میرا گریبان چھوڑ دے تو جانتا نہیں کہ میں ایک شریف آدمی ہوں۔‘‘ تو اس کے بعد گریبان پکڑنے والے کے چہرے پر تمسخر اور حقارت کا ایک ایسا گنگا جمنی منظر نظر آئے گا جو شاید اس سے پہلے آپ نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ یوں بھی بے چارہ شریف آدمی، مارے شرمندگی کے اپنے گریبان تک میں منہ نہیں ڈال سکتا کیوںکہ اکثر دوسروں نے اس میں ہاتھ ڈال رکھا ہوتا ہے۔
دیکھاگیا ہے کہ شریف آدمی شادی یا ولیمے میں شرکت کے لیے جانے سے قبل کھانا گھر سے کھا کر جاتا ہے بصورتِ دیگر بھوکا ہی واپس آتا ہے، کیونکہ شادی یا ولیمے کی دعوت میں اس کی ساری ہمت ایک عدد پلیٹ اور چمچ کے حصول میں ہی ختم ہو جاتی ہے باقی کا کام انجام دینے کے لیے فرہاد کی ہمت چاہیے ۔ اسی طرح ایک شریف آدمی سوائے اپنی بیوی کے اورکسی سے لڑ جھگڑ نہیں سکتا، بلکہ یہ کام بھی وہ حالات کا محتاط جائزہ لینے کے بعد ہی کرتاہے، کیونکہ جلد بازی کی صورت میں، بیوی بِپھر کر میکے سدھار جائے گی اور بچوں کی نفری کو انتقاماً شریف شوہر کے پاس چھوڑ جائے گی۔ آگے کاحال بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ شریف آدمی کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اکثر اس کی شرافت کا امتحان لیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں وہ جلنے کڑھنے، پریشان رہنے، بڑ بڑانے، برّانے اور ہاضمے کی خرابی میں مبتلا رہتا ہے۔ اس کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ اس کی نظر بڑھاپے سے پہلے ہی کمزور ہو جاتی ہے، اسی طرح اس کے سَر کے بال اور منہ کے دانت بھی بُرا وقت آنے سے پہلے ہی اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ افرادِ خانہ کی عاقبت نااند یشیوں کا خمیازہ بھگتنے کے لئے ہمہ وقت سرِ تسلیم خَم رہتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرنے کے سوا زندگی بھر کوئی اچھی نوکری حاصل نہیں کر سکتا تاہم شریف آدمی کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی سُبکیوں اور ناانصافیوں کو برداشت کرنے کا ماہر ہوتا ہے۔ حقیقت میں شریف آدمی کا دل سے کوئی احترام نہیں کرتا، احترام صرف بد معاش کا کِیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ہاتھ کچھ دینے کے لیے بھی ہو تے ہیں اور چھین لینے کے لیے بھی۔ دوسرے یہ کہ شریف آدمی کو شریف آدمی کہنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے جبکہ بد معاش کے سامنے اس کو بدمعاش کہنے کی جرأت آپ نہیں کر سکتے۔
دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ شریف آدمی بالعموم معاشی مسائل میں گھِرا رہتا ہے۔ اس کے برعکس بد معاش آدمی کو کم از کم کوئی معاشی مسئلہ لاحق نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں شریف آدمی کی سیدھی اُنگلیوں سے گھی کبھی نہیں نِکلتا مگر بد معاش آدمی کی اُنگلیوں سے گھی فی الفور نکل آتا ہے، بلکہ اس گھی کے ساتھ شکر بھی مفت مل جاتی ہے۔ دونوں میں ایک اہم فرق یہ ہے کہ شریف آدمی کے لیے دُنیا ایک نہایت غیر محفوظ جگہ ہے، اس کے بر عکس بد معاش آدمی کے لیے یہ عشرت کدہ ہے۔ سچ پو چھیں تو اس دنیا میں شریف آدمی کے ساتھ لوگ ویسا سلوک ہی کرتے ہیں جیسا کھیل کے میدان میں کھلاڑی فٹ بال کے ساتھ کرتے ہیں، مگر دوسری طرف بد معاش آدمی محض ابرو کے اشارے سے دُنیا کا ہر کھیل روک سکتا ہے۔ آخری فرق بھی قابلِ تو جہ ہے وہ یہ کہ شریف آدمی کی ماں بہن کو لوگ اپنی ماں نہیں سمجھتے ۔ جبکہ ایک منجھے ہوئے بد معاش کی ماں بہن کو لوگ فوراً اپنی ماں بہن کہنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
روایت کے مطابق حاتم طائی کی شرافت اور سخاوت ضرب المثل ہے لیکن حاتم طائی کے پاس مال و زر نہ ہوتا توکیا واقعی اس کا اتنا ہی احترام کیا جاتا؟ اس سوال کا جواب دینے کی ذمے داری آپ کو سونپ کر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہمارے ہاں آج کل شریف آدمی صرف اسے کہا جاتا ہے جو دوسروں کے کسی کام نہیں آسکتا۔ یا پھر کسی کام کا نہیں ہوتا۔ لہٰذا آپ اسے کوئی غیر شریفانہ لقب عنایت کرنے کے بجائے شریف آدمی کہہ کر اس کا قصہ پاک کر دیتے ہیں۔ تاہم جب کبھی کسی جان پہچان والے سے بے عزتی کرانے کے بعد بڑے کرب سے یہ کہا جاتا ہے۔ ’’میں آپ کو شریف آدمی سمجھتا ہوں۔‘‘ تو دراصل یہ بیان معترض ہے’’عذر شرافت‘‘ ہی کو آشکار کرتا ہے جو ایک طرح سے اس کا اعترافِ شکست بھی ہے، لیکن اگر اس موقع پر یہ کہہ دیا جائے، ’’تیری بد معاشی کی ایسی تیسی، تونے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے‘‘ تو تڑی دینے والا ایک دم کرائے کے کوارٹر سے باہر نکل کر شاہی ایوان میں داخل ہو جائے گا اور دربان اس کے لئے سارے دروازے ایک جھٹکے سے واکرتاچلاجائے گا۔
خدانخواستہ میرا مقصود دُنیا سے، ’’شرافت‘‘ کی بیخ کنی کرنا ہر گز نہیں آپ جی جان سے اس کے گن گائیے۔ اس کو کندھوں پر اٹھا کر نعرے لگائیے۔ اس پر پھول نچھاور فرمائیے۔ نصاب میں بطور درسِ اوّل شامل کیجئے۔ اس کو پھیلانےکےلئے ٹی وی ڈرامے پیش کیجئے، فلمیں بنائیے، کالم اور کہانیاں لکھیے، تقریری مقابلے کرائیے، تنظیمیں بنائیے، گیت اور نغمے نشر کروائیے، مَیں کب روکتا ہوں مگر ان سب کے باوجود یہ یاد رہے کہ ’شرافت دکھانے کی حد تک بڑے کام کی چیز ہے مگر جو شخص اسے آزمانے پر اتر آئے اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے اور کھانے کے ذکر سے مجھے خیال آیا کہ پھلوں میں خوبانی کو خوبصورت خواتین شوق سے کھاتی ہیں، سیب صاحب لوگوں کے کھانے کی چیز ہوتا ہے۔ آم عام طور پر سبھی کھاتے رہتے ہیں۔ انناس مہنگا ہونے کی وجہ سے عوام الناس کے کھانے کی چیز نہیں لے دے کے پھلوں میں صرف ایک پھل شریفہ باقی رہ بچتا ہے جو شریفوں کو راس آسکتا تھا مگر وہ بھی اب ان کی پہنچ سے باہرہوتا جارہا ہے۔
ہر چندکہ شریف آدمی کی حالت زار کا نقشہ کھینچنےکے لیے صفحات کے صفحات سیاہ کیے جاسکتے ہیں مگر اس سے اس کی کارکردگی میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوسکتے۔ شریف آدمی تو سواریوں سے بھری زندگی کی تیز رفتارٹرین کی آخری بوگی کے باہر ہینڈل پکڑے جھولتا ہوا ایک ایسا شخص ہے جو نہ تو بوگی کے اندر اپنا پائوں رکھ سکتا ہے اور نہ ریل گاڑی سے کود کر جان دینے کا حوصلہ ہی رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ، ’’ہونے اور نہ ہونے‘‘ کے عین درمیان جھولتا رہتا ہے تاآنکہ اس کا وقتِ رخصت آجاتا ہے اور وہ ریٹائرمنٹ سے ہمکنار ہو کر باقی ماندہ زندگی گھر والوں کی، ’’خدمت‘‘ کرنے میں گزا رنے لگتا ہے۔
یوں بھی ایک بھرے پُرے گھر میں ایک عدد سبکدوش شریف النفس دادا بزرگ کو پوتوں پوتیوں کی دیکھ بھال کا فریضہ سونپنے کے سلسلے میں ایک نہایت مو زوں ہستی خیال کیا جاتا ہے۔ نیز اسے فون، بجلی، گیس، پانی کے بِل ادا کرنے اور سودا سلف لانے کے لیے اکثر بازار بھیج دیا جاتا ہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اسے بس کا کرایہ بھی نہیں دیا جاتا، یہ کہتے ہوئے کہ پیدل چلنا اس کی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ دفتروں میں اسے اپنی شرافت کی وجہ سے دن بھر دھکے کھانے پڑتے ہیں اور، ’’بابا جی آپ کی مَت ماری گئی ہے۔‘‘ کا جُملہ اتنی بار اس کے کانوں میں پڑتا ہے کہ رہی سہی مَت بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔
تاہم شریف آدمی کو جیتے جی کوئی نہیں چھوڑتا۔ بفرضِ محال اگر دُنیا والے اسے چھوڑ بھی دیں توکم ازکم گھر والے اسے کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے، البتہ شریف آدمی کی وفات پاجانے کی صورت میں ہر تعزیت کرنے والے کی آمد پر اس کے سامنے مرحوم کے لواحقین گلوگیر آواز میں یہ بات دُہراتے نہیںتھکتے کہ’’مرحوم و مغفور مرتے دَم تک سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے، کھانا صرف ایک وقت کا کھاتے تھے۔ دوسرے وقت کا کوئی پوچھ لے تو انکار نہیں کرتے تھے۔غسل ہمیشہ میونسپلٹی کے نلکے کے نیچے بیٹھ کر کرتے تھے۔ساری زندگی میلے کپڑوں میں گزاردی مگر شرافت کا دامن کبھی میلا نہیں ہونے دیا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.