شوٹنگ سے پہلے ہیروئن!
کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے ادب بالخصوص اردو ادب میں عورت کے ساتھ ادیب اور شاعر بڑا ظلم کرتے ہیں۔ اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ عورت کے سوائے دنیا میں کوئی مخلوق مظلوم نہیں آتی۔ میں جیسے جیسے دنیا کے ہر ادب بالخصوص اردو ادب کا گہرا مطالعہ کرتا گیا اس کہاوت پر ایمان لاتا گیا لیکن جس دن میں نے پہلی بار فلمی دنیا میں قدم رکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ادب کی اس مظلوم عورت سے بھی زیادہ مظلوم ایک مخلوق اس دنیا میں موجود ہے اور وہ ہے فلمی مخلوق یعنی فلم کے ہیرو ہیروئن ولن اور دوسرے فلمی کردار اور ان میں بھی ادب کی طرح ہیروئن ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔
پاکستان ہندوستان یا دنیا کی کسی فلم کو دیکھئے آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ فلم ایک نہ ایک عورت کی داستان ہوتی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسی فلم بنی ہو جس کا مرکزی کردار عورت نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں مرد کے لئے سب سے زیادہ بہترین تفریح عورت ہی ہے، چنانچہ مرد جب کبھی کوئی فلم دیکھنے جاتے ہیں تو در اصل وہ فلم کے بہانے ایک خوبصورت عورت چاہے اس کا نام ریٹا ہیورتھ (امریکی) جین سنمیتر (برطانوی)، سلوانا منگاتو (اطالوی) نرگس (ہندوستانی) اور صبیحہ (پاکستانی) کیوں نہ ہو، اپنی آنکھوں کے آگے ناچتے گاتے اور لچکتے مٹکتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
دنیا بھر کے فلم سازچونکہ خود مرد ہیں اور ساری فلمیں چونکہ مردوں کی تفریح طبع کے لئے بنائی جاتی ہیں اس لئے سب سے پہلے عورت کی تلاش کی جاتی ہے اور جب عورت مل جاتی ہے تو مغربی فلم ساز اس کو زیادہ سے زیادہ ننگی اور شہوانی اور مشرقی فلم ساز زیادہ سے زیادہ خوبصورت بناکر پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر میں یہ کہوں کہ فلموں میں ہم کہانی کم اور عورت زیادہ دیکھتے ہیں تو یقینا میری بات غلط یا تصحیح کی محتاج نہیں ہوگی اور یوں بھی موجودہ دور کے ایک مرد کو کیا چاہیے، ایک ننگی عورت کا نظارہ یا پھر کوئی ایسی کہانی جو ایک عورت کے گرد گھومتی ہو۔
آپ اور ہم تو فلمی عورت کو دیکھ کر صرف آنکھیں سینک لیتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اسی پردۂ سیمیں کے پیچھے ایسی فلمی عورت کے ساتھ فلمی کہانی نویس مکالمہ نگار، فوٹو گرافر، میک اپ ماسٹر، میوزک ڈائریکٹر، ڈانس انسٹرکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کہانی کے آغاز سے کہانی کے اختتام تک کیسا برا سلوک کرتے ہیں اور اس بے چاری کو ان کے کیسے کیسے مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں میرا پہلا تجربہ بڑا دلچسپ ہے۔
بمبئی میں ایک فلم کمپنی نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس کی فلمی کہانی بھی کسی منشی سے لکھوالی لیکن ایک دن مجھے اس فلم کمپنی کے پروڈیوسر کا خط ملا کہ میں ان سے دفتر کے اوقات میں فلاں تاریخ کو ملوں۔
چنانچہ میں فلاں تاریخ کو اس دفتر میں پہونچ گیا۔ تعارف کے بعد فلم پروڈیوسر نے کہا،
’’ابی سالا ابرام بھائی! ہم آپ کو اس لئے تکلیپھ دیا کہ سالا ہمارا ہیروئین پانچویں سین میں پھنسیلا ہے اس کو بھار نکالنا ہے۔‘‘
میں نے دل ہی دل میں کہا، واہ میاں ابراہیم جلیس، خدا نے بھی کیا دن دکھایا ہے، کیا خدا نے اسی لئے پیدا کیا ہے کہ پھنسی ہوئی ہیروئنوں کو باہر نکالا کرو۔
میں نے پروڈیوسر سے کہا، ’’مجھے ذرا کہانی دکھائیے۔ دیکھئے میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘
میں نے کہانی پڑھی جہاں ہیروئن پھنسی ہوئی تھی، وہ منظر یہ تھا۔
مالدار ولن (یعنی رقیب) نے ہیروئن کے غریب باپ کو کبھی پانچ سو روپے قرض دیئے تھے، مدّت گذرگئی، ہیروئن کے باپ نے قرض ادا نہیں کیا تھا اصل اور سود ملاکر پانچ سو روپے دوہزار بن گئے تھے۔ ہیروئن بڑی خوبصورت تھی اور مالدار ولن اس کے باپ کا قرض اس شرط پر معاف کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا بیاہ ولن سے کردے، لیکن ہیروئن اپنے جیسے غریب خوبصورت نوجوان لڑکے سے پیار کرتی تھی، اس کے علاوہ مالدار ولن ۵۰۔۵۵ برس کا بوڑھا نہایت بدشکل اور کانا تھا اس لئے نہ صرف ہیروئن بلکہ اس کے غریب اور خوددار باپ نے بھی یہ رشتہ ٹھکرادیا تھا۔ اس لئے مال دار ولن نے ہیروئن کو قرض کے عوض زبردستی حاصل کرکے اپنے گھر میں قید رکھا تھا۔ اب اسی ہیروئن کو دولتمند ولن کی قید سے آزاد کرانا تھا۔
میں نے فلم پروڈیوسر کورائے دی۔
اس موقع پر آپ فلم کے ہیرو سے کام لے سکتے ہیں، وہی اس کو اس قید سے آزاد کراسکتا ہے۔ پروڈیوسر نے کہا،
’’ہم سالا بھی یہی منگتا تھا لیکن مُصیبت یہ ہوگئی ہے کہ پچھلے کن میں ولن نے ہیرو کو اپنے نوکروں سے خوب پٹوایا ہے اور وہ سالا اسپتال میں پڑا ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں ولن کے گھر میں کوئی بوڑھی عورت نوکر رکھواؤ، اس سے آپ کا کچھ نہیں خرچ ہوگا۔ یہ فلمی کہانی ہے اس لئے تنخواہ کا کوئی سوال نہیں۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’اپن سالا ایسا بھی کیا لیکن ولن کو کچھ سک (شک) ہوا تو اُس نے نوکرانی کو بھی گھر سے نکال دیا۔‘‘
میں نے سوچتے ہوئے کہا، ’’پھر تو بڑی مصیبت ہے۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’مصیفت تو ہے پر اُس کو نکالنا ضرور ہے ورنہ سالا اسٹوری آگے نہیں بڑھیں گا۔‘‘
میں نے جل کر پوچھا، ’’لیکن تم نے اسے گرفتار کیوں نہیں کرایا، ولن کے ہتھے چڑھنے سے پہلے ہی ہیرو کے ساتھ کہیں بھگا کیوں نہیں دیا؟ یہ کوئی سچ مچ کی زندگی تو نہیں، فلمی کہانی ہے۔ اس میں سب کچھ کیا جاسکتاہے۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’جو ہوگیا سو ہوگیا، اب بولو ہیروئن کو کس طراں آجاد (آزاد) کیا جائے؟‘‘
مجھے غصّہ آیا، ’’تو پھر فلم ختم ہونے تک پڑی رہنے دوسالی کو اس قید میں۔‘‘
پروڈیوسر بولا، ’’واہ منسی ابرام بھائی۔ یہ کیا بات کرتا ہے سالا تم۔ ۔ ۔ پبلک سالا اکھاوکت ہیروئین کو دیکھنا منگتا ہے اور تم بولتا ہے کہ اس کو اکھی فلم میں قید رکھو۔ یہ نہیں ہوسکتا اور ترکیب بتاؤ۔‘‘
میں نے کہا، ’’اچھا تو سنو۔ اس کی رہائی کی صرف ایک ترکیب ہے۔ کہانی میں یہ ہے کہ ولن ہر روز ایک بار ہیروئن سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ اگر شادی کے لئے تیار ہے تو وہ اس کو ابھی قید سے نکال لے گا۔ ہیروئن کو اب یہ چاہیئے کہ وہ اس سے شادی کا بہانہ کرلے اور آزاد ہوکر اس کے مکان میں رہے اورکسی دن موقع پاکر بھاگ نکلے۔‘‘
پروڈیوسر نے اُچھل کر کہا، ’’ہاں یہ ترکیب ٹھیک ہے، چلو فر جلدی اُس کو آجاد کراؤ۔‘‘
میں نے فونٹن پن نکالا اور ہیروئن کو آجاد کرا دیا اس کے بعد پروڈیوسر نے پوچھا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘
میں نے بتایا، اب ولن شادی کی تیاریاں کرے گا اور عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگادو۔ پروڈیوسر نے پوچھا،
’’بھگاکر کہاں لے جائیں؟‘‘
میں نے جی کڑاکر کے جواب دیا، ’’اپنے گھر میں ڈال لو۔‘‘
پروڈیوسر زور سے قہقہہ لگاکر ہنس پڑا اور بولا، ’’اجی اس سے تو ہمیں پیسہ کمانا ہے اگر اپنے گھر میں ڈال لوں تو کمانے کے بجائے اُلٹا خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘
میں نے کہا، ’’سیٹھ جی اس کی فکر کیا کرتے ہو کہ وہ کہاں جائے گی؟ پہلے اسے ولن کے گھر سے بھگاؤ تو سہی ۔‘‘
چنانچہ عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگادیا گیا اور ہیروئن سیدھا اسپتال پہنچی جہاں ہیرو زخمی پڑا ہے۔
پروڈیوسر نے پوچھا، ’’لیکن اس کے رہنے ٹھہرنے کھانے پینے کا کیا بند وبست ہوگا کیونکہ اسپتال میں ٹھہرنے کی تو اجازت نہیں ہوتی۔‘‘
میں نے کہا، ’’سیٹھ جی! فلمی کردار کے بارے میں کچھ یہ نہ سوچو کہ اس کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہوگا۔ فلمی کردار کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور اگر لگتی ہے تو صرف محبت کی بھوک پیاس۔ رہا ٹھہرنے کا بند وبست تو سیٹھ جی فلمی ہیروئن اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ اگر وہ پردۂ سیمیں سے اس طرح اکیلی باہر نکل آئے تو اس کو اپنے گھر ٹھہرانے کے لئے ساری بمبئی کے لوگ ایک دوسرے سے لڑپڑیں۔ اب فی الحال تم اس کو اسپتال کے کنوارے ڈاکٹر کے گھر ٹھہراؤ۔‘‘
پروڈیوسر نے کہا، ’’کیوں نہ کسی شادی شدہ ڈاکٹر کے گھر ٹھہرایا جائے؟ یہ کنوارا ڈاکٹر تو اس کو اکیلی دیکھ کر کہیں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر بیٹھے۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’سیٹھ صاحب! آپ بھول رہے ہیں کہ کوئی شادہ شدہ مرد ایک اجنبی اکیلی عورت کو اپنے گھر نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کی بیوی یا تو طلاق لے لے گی یا پھر اس کی وہ مرمت کرے گی کہ وہ زندگی بھر یاد کرے گا۔ صرف کنوارا ہی اکیلی عورت کو سہارا دے سکتاہے اور وہ چھیڑے گا کس طرح میں بیٹھا ہوں آپ بیٹھے ہیں، ڈائرکٹر صاحب بیٹھے ہیں۔ ہاں اگر ہم تینوں یہ فیصلہ کرلیں کہ ہیروئن کو چھِڑوایا جائے تب کہیں وہ چھڑنے کی جُرأت کرسکتا ہے۔‘‘
خیر صاحب! ہیروئن کو کنوارے ڈاکٹر کے پاس ٹھہرایا گیا۔ کنوارے ڈاکٹر نے اپنے گھر ہیروئن کو پناہ دینے کے بعد اس کا حسن وجمال دیکھا تو فوراً عاشق ہوگیا۔ اس وقت میری پروڈیوسر اور ڈائرکٹر کی خواہش بھی یہی تھی کہ کنوارے ڈاکٹر کو ہیروئن پر عاشق کرایا جائے۔ اس سے کہانی میں ذرا لطف پیدا ہوسکتا تھا، چنانچہ کنوارا ڈاکٹر ہیروئن سے کہتا ہے،
’’تم جس کے عشق میں مبتلا ہو فضول مبتلا ہو، اس مریض کی نہ صرف دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں بلکہ اب وہ محبت کے بعد والے معاملے کے قابل بھی نہیں رہا۔‘‘
یہ خبر سنتے ہی ہیروئن بے ہوش ہوکر گر پڑی، حالانکہ ڈائرکٹر یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردے، لیکن میں اور پروڈیوسر اس معاملے میں متفق الرائے تھے کہ ہیروئن کو بے ہوش کرایا جائے۔ اسے جب ہوش آتا ہے تو پھر وہ ڈاکٹر سے شادی کرلیتی ہے۔ اس کے اصلی عاشق کو جب یہ خبر ملتی ہے تو وہ اپنی محبوبہ کو بلاکر اصلی حقیقتِ حال سے واقف کراتا ہے یعنی اُسے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اسے غلط باور کرایا ہے، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہیروئن دھاڑیں مارمار کر روتی ہے اور پچھتاتی ہے۔ ہیرو اس پر ایک درد بھرا گیت گاتا ہے جس کے بول ہیں؛
اب پچھتائے کیا ہووت ہے جب چڑا چُگ گیا کھیت،
اور اس کے بعد وہ خودکشی کرلیتا ہے لیکن ہیروئن بڑی غمگین ہے، وِلن کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتی۔
اس کے بعد ہیروئن ہر روز شام کے ساڑھے پانچ بجے رات کے ساڑھے آٹھ بجے اور ساڑھے گیارہ بجے تک غمگین رہتی ہے اور چھ سات ہفتوں بعد وہ ازسرِ نو کنواری بن کر دلیپ کمار سے پینگیں بڑھانے لگتی ہے اور جب دوبارہ وہ ولن کے چنگل میں پھنس جاتی ہے تو پروڈیوسر لوگ سالا منسی ابرام بھائی کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ اب سالا منسی ابرام بھائی یہ سوچ رہا ہے کہ فلموں کا دی اینڈ ہو یا نہ ہو اس کا اپنا دی اینڈ ہوجائے تو اچھا ہے کیونکہ اس طرح ہیروئنوں کو رقیبوں کے پنجوں سے چھڑاتے چھڑاتے وہ تنگ آگیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.