ہم قارئین کرام کے اصرار پر خانہ داری کے کچھ چٹکلے درج کرتے ہیں۔ امیدہے قارئین انہیں مفید پائیں گی اور ہمیں دعائے خیر سے یاد کریں گی۔
سوئی میں دھاگا ڈالنا
یہ کام بہ ظاہر مشکل معلوم ہوگا لیکن اگر ذرا توجہ سے اس کی ترکیب کو ذہن نشین کرلیا جائے تو کوئی دقت پیش نہ آئے گی۔ سب سے پہلے ایک سوئی لیجیے۔ لے لی، اب دھاگا لیجیے، اور اب وہ دھاگا اس میں ڈال دیجیے۔ بس اتنی سی بات ہے۔ احتیاط صرف اتنی لازم ہے کہ سوئی کے دوسرے ہوتے ہیں ایک نوک دوسرا ناکا۔ بعض لوگ نوک کی طرف سے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کبھی اس میں کامیابی بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ غلط ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ناکے میں دھاگا ڈالا جائے۔
پرانی کتابوں میں آیا ہے کہ اونٹ کو سوئی کے ناکے میں سے گزارنا آسان ہے بہ نسبت اس کہ کہ کنجوس آدمی جنت میں جائے۔ اس آخرالذکر کی بات کی ہم نے کبھی کوشش نہیں کی، حالانکہ یہ لوگ کسی صورت جنت میں چلے جاتے تو وہاں جہاں لوگوں کے گمان کے مطابق ہمارا قیام ہوگا، قدرے امن رہتا۔ اب رہا اونٹ کو سوئی کے ناکے میں سے گزارنا جسے آسان بتایا جاتا ہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ ابھی تک ہمیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ سچ یہ ہے کہ ابھی تک ایسا اونٹ ہمیں کوئی نہیں ملا جو اس بات پر آمادہ ہو۔ جب کہ ایسے کنجوس بے شمار مل جائے گے جو جنت میں جانے کے لیے تیار بلکہ بے تاب ہوں گے۔ ہماری ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم مایوس ہوگئے۔ ایک طرف ہم اپنے مطلب کے اونٹ کی تلاش میں ہیں۔ دوسری طرف ایسی سوئی کی جستجو جاری ہے جس کا ناکا اتنا بڑا ہو جس میں سے یہ حیوان شریف ہنستا کھیلتا گزر سکے۔ ہمارے قارئین میں سے کسی صاحب یا صاحبہ کے پاس ایسی سوئی ہو تو عاریتاً دے کر ممنون فرمائیں۔ تجربے کے بعد واپس کردی جائے گی۔
بٹن ٹانکنا
بٹن کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلاً کرتے کا بٹن، پتلون کا بٹن، سیپ کا بٹن، ہاتھی دانت کا بٹن، بجلی کا بٹن وغیرہ۔ بعض خاص قسم کی آنکھوں کو بھی جن کے بنانے میں کارکنانِ قضا و قدرت نے فیاضی سے مسالا استعمال نہ کیا ہو، بٹن کا نام دے دیتے ہیں لیکن یہاں ہمیں اس قسم کے بٹنوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کا لگانا صرف قضا و قدرت کے درزیوں کو آتا ہے۔ بجلی کے بٹن لگانے کے لیے بھی الیکٹریشن کے لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہماری غرض عام قسم کے بٹنوں سے ہے جنہیں آپ بھی تھوڑی کوشش کر کے لگا سکتی ہیں۔ کوئی لائسنس وغیرہ کا جھنجٹ بھی اس میں نہیں۔
اس کے لیے سامان بھی معمولی درکار ہے۔ سوئی، دھاگا بٹن اور دانت۔ ان کے علاوہ کپڑا بھی، کیونکہ بٹن بالعموم کپڑے پر ٹانکے جاتے ہیں لکڑی یا لوہے پر یا خلا میں نہیں۔ سوئی میں دھاگا ڈالنے کی ترکیب ہم لکھ ہی چکے ہیں۔ اب سوئی کو بٹن کے سوراخ میں سے گزارنا رہ جاتا ہے جو آپ کسی سے بھی سیکھ سکتی ہیں۔ اب بٹن لگ گیا تو فالتو دھاگا دانتوں سے کاٹ ڈالیے۔ یاد رہے کہ اس کے لیے اصلی دانت درکار ہیں۔ مصنوعی دانتوں سے کوشش کرنے میں ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی کبھی دانت دھاگے کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔
بٹن لگانے سے زیادہ مشکل کام بٹن توڑنا ہے۔ اور یہ ایک طرح سے دھوبیوں کا کاروباری راز ہے۔ ہم نے گھر پر کپڑے دھلوا کر اور پٹخوا کر دیکھا لیکن کبھی اس میں کامیابی نہ ہوئی جب کہ ہمارا دھوبی انہی پیسوں میں جو ہم دھلائی کے دیتے ہیں، پورے بٹن بھی صاف کرلاتا ہے، اس کے لیے الگ کچھ چارج نہیں کرتا۔ ایک اور آسانی جو اس نے اپنے سرپرستوں کے لیے فراہم کی ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے چھوٹے بیٹے کو اپنی لانڈری کے ایک حصے میں بٹنوں کی دکان کھلوادی ہے جہاں ہر طرح کے بٹن بارعایت نرخوں پر دستیاب ہیں۔
داغ دھبے مٹانا
اس کے لیے پہلی ضروری شرط داغ دھبے ڈالنا ہے کیونکہ دھبے نہیں ہوں گے تو آپ مٹائیں گے کیا۔ پہلے فیصلہ کیجیے کہ آپ کس قسم کے دھبے مٹانا چاہتے ہیں۔ سیاہی کے؟ اس کے لیے فونٹن پین کو قمیص پر ایک دو بار چھڑکنا کافی ہے۔ آج کل آموں کا موسم ہے۔ ان کا رس بھی پتلون پر گرایا جا سکتا ہے۔ پان کے داغ زیادہ پائیدار ہوتے ہیں، ان کے لیے کسی اسپتال یا سینما کی سیڑھیوں میں چند منٹ کھڑے ہونا کافی ہے۔ تارکول کے داغ بھی آج کل مفت ہیں کیونکہ کے ڈی اے نے، جو رفاہ عامہ کا ایک محکمہ ہے، جابجا تارکول کے ڈرم کھڑے کر رکھے ہیں اور کڑھاؤ چڑھا رکھے ہیں۔
ان داغوں کے مٹانے پر زیادہ خرچ بھی نہیں اٹھتا فقط تین روپے۔ یہ ہماری تالیف کردہ کتاب ’’داغ ہائے معلیٰ‘‘ کی قیمت ہے، بلکہ اس کی پانچ جلدیں اکٹھی منگائی جائیں تو لنڈا بازار اور بوتل والی گلی کے دکاندار جو ہمارے سول ایجنٹ ہیں، تول کر بھی ڈیڑھ روپے فی سیر کے حساب سے دے دیتے ہیں۔ ’’داغ ہائے معلیٰ‘‘ عجیب سا نام ہوگا لیکن یہ تاریخی نام ہے جس سے ۱۳۸۹ھ برآمد ہو جاتے ہیں۔ آج کل ۱۳۸۶ھ چل رہا ہے۔ اس کو ہماری کتاب کا آئندہ ایڈیشن سمجھا جائے۔
خالی وقت کیسے گزارا جائے
ایک مشہور مثل ہے کہ اچھی بات جہاں سے بھی ملے اخذ کر لینی چاہیے۔ سو اس باب میں ہم اپنے ایک انگریزی ہفتہ وار معاصر کے صفحہ خواتین سے بھی مدد لے رہے ہیں۔ فاضل مصنف یا مصنفہ نے دفع الوقتی کے لیے کوئی بے کار قسم کا مشغلہ تجویز نہیں کیا جیسا کہ بعض لوگ قصہ خوانی، کشیدہ کاری یا بچوں کو آموختہ یاد کرانے وغیرہ کا مشورہ دیتے ہیں جس میں قطعاً کوئی فائدے یا یافت کا پہلو نہیں بلکہ لکھا ہے کہ برج، رمی یاماہجونگ وغیرہ کھیلنے کی عادت ڈالیے۔ پرانے خیال کے لوگ رشک و حسد کے مارے ان کھیلوں پر ناک بھوں چڑھائیں گے اور ممکن ہے اس کو جوا وغیرہ بھی قرار دیں۔ لیکن ان کی پروا نہ کرنی چاہیے۔
فاضل مصنف یا مصنفہ نے لکھا ہے کہ تاش کی بازی پر پیسے ضرور لگا کے کھیلئے لیکن زیادہ نہیں تھوڑے۔ اس سے واضح ہوگا کہ جوا صرف وہ ہوتا ہے جس میں زیادہ پیسے لگا کر کھیلا جائے۔ اس مضمون میں ایک اور احتیاط کی تلقین کی گئی ہے۔ لکھا ہے کہ ایسا بھی نہ ہو کہ ادھر میاں نے دفتر جانے کے لیے گھر سے باہر قدم رکھا اور ادھر بیگم صاحبہ رمی کھیلنے پڑوسن کے ہاں چلی گئیں اور پھر میاں کی واپسی کے بعد گھر تشریف لائیں۔ گویا صرف آٹھ سات گھنٹے کھیلنا کافی ہے۔ میاں کے دفتر سے آنے کے وقت کا اندازہ کر لیا جائے اور جو دس بیس روپے جیتے ہوں اس پر اکتفا کرکے اس وقت تک ضرور واپس آ جانا چاہیے۔ جو خواتین زیادہ بڑی بازی لگاتی ہیں یا میاں کی واپسی کے بعد گھر آتی ہیں ان کے متعلق بھی اس مضمون میں لکھا ہے کہ وہ نکتہ چینی سے زیادہ ہمدردی کی مستحق ہیں۔ کیا عجب ان کے جی کو کیا روگ لگا ہے جس کے فرار کے طور پر وہ شرطیں باندھ کے اور یوں جم کے رمی یا برج کھیلتی ہیں۔
ایک صاحبہ نے دفع الوقتی کے لیے ایک جانور پالنے کا شغل اختیار کیا ہے۔ انہوں نے دو خرگوش، پانچ چوہے، دو بلیا ں، ایک کتا، دس تیتر اور دو طوطے پالے تھے جن میں سے ایک بولتا بھی ہے۔ اب ان میں سے صرف چڑیاں اور دونوں طوطے رہ گئے ہیں کیونکہ چوہوں کو بلیاں پہلے ہی روز نوش جان کر گئی تھیں اور کتے کو ناشتا دینے میں دیر ہوئی تو اس نے پچھلے منگل کو خرگوش کا صفایا کردیا۔ یہ خیال بھی نہ کیا کہ اس روز گوشت کا ناغہ ہوتا ہے۔ بلی کو گھر سے بھگانے میں بھی اس ذات شریف کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ لیکن اب اس امر پر بحث فضول ہے کیونکہ کمیٹی والے اسے پکڑ کر لے جاچکے ہیں۔ ہم نے موصوفہ کو کئی بار تیتر کے گوشت کے فضائل پر لیکچر دیے ہیں کہ مزیدار ہوتا ہے اور خون صالح پیدا کرتا ہے۔ ان کے باورچی نے بھی ہماری بات کی بارہا تائید کی ہے لیکن وہ ابھی تک متامل ہیں۔ اس وقت ان کی توجہ طوطے کو پڑھانے پر ہے۔ وہ تو حیوان کاحیوان ہی رہا لیکن موصوفہ کو بولتا سنتے ہیں توکئی بار شبہ ہوتا ہے کہ میاں مٹھو بول رہاہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.