Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تیر و نشتر

خوشتر گرامی

تیر و نشتر

خوشتر گرامی

MORE BYخوشتر گرامی

    اپریل ۱۹۵۰ء

    ’’برطانوی نو آبادی نائیجیریا میں ہونے والے شوہر کو بیوی کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ تازہ ترین اطلاع ہے کہ وہاں بیویوں کی قیمت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ یعنی جو تعلیم یافتہ بیوی ۱۹۳۹ء میں صرف پچاس ڈالر ادا کرنے پر مل جاتی تھی اب اس کی قیمت ۳۵۰ ڈالر ہوگئی ہے اور پھر بھی بڑی مشکل سے دستیاب ہوتی ہے۔ ایک اخباری نمائندہ نے لکھا ہے کہ وہاں مزدوروں اور گورنمنٹ کے جھگڑے اور ایجی ٹیشن کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ غریب مزدوروں کو بیویاں حاصل کرنے کے لیے بھاری رقوم ادا کرنی پڑتی ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس سلسلے میں کوئی موثر کاروائی کرنی چاہیے۔‘‘ ہماری رائے میں قیمتوں کا کنٹرول تو کامیاب نہیں ہوسکے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ جس طرح ہندوستان میں کپڑے اور کھانڈ وغیرہ کی قیمتوں کے کنٹرول سے بلیک مارکیٹ کو ترقی نصیب ہوگئی ہے اسی طرح نائیجیریا میں بیویوں کی بلیک مارکیٹ شروع ہو جائے۔ راشننگ کا طریقہ البتہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ مگر یہ راشننگ ایک مکمل بیوی کا ہونا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ ہمارے کھانڈ کے راشن کی طرح ہر ہفتے ڈیڑھ چھٹانک بیوی ملاکرے اور پوری اہلیہ پچاس سال میں نصیب ہو۔

    مئی ۱۹۵۰ء

    ’’فرانس میں ایک شخص کے پیٹ کا آپریشن کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں کھجور کا درخت اگ رہا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا یہ شخص کھجور کی گٹھلی نگل گیا تھا۔ یہ اس کا نتیجہ ہے۔‘‘ کھجور کو مسلمانوں کا مذہبی میوہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان والوں کو کھجوریں اگانے کے اس نئے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہندوستان والے پیٹ میں پیپل دیوتا اگانے کا تجربہ کرسکتے ہیں۔ لیکن آج کل گندم کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے اس طرف توجہ کرنی چاہیے تاکہ دونوں ملکوں میں ’’زیادہ اگاؤ‘‘ کی مہم پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔

    اگست ۱۹۵۰ء

    ’’کانگو (افریقہ) میں ایک عورت نے بیک وقت ایک نہ دو اکٹھے چھ بچوں کا ڈھیر لگادیا۔ اِن میں سے چار لڑکے ہیں اور دو لڑکیاں۔‘‘ ہم اس محترم خاتون کی افادی حیثیت تسلیم کرتے ہیں اور اس کی ہمت اور قوتِ برداشت کی داد دیتے ہیں۔ لیکن لڑکے اور لڑکیوں کاتناسب ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر آدھے لڑکے اورآدھی لڑکیاں ہوتیں تو کیا ہرج تھا۔ لیکن عورت بیچاری پر اس عدمِ مساوات کی ساری ذمہ داری ڈالنا شاید مناسب نہ ہوگا۔ آج کل ہر چیز کی قلت ہے۔ ممکن ہے قدرت کے اس کارخانے میں بھی بعض چیزیں تھوڑی مقدار میں موجود ہوں اور بعض کی افراط ہو۔ اس لیے جو مصالحہ جس قدر موجود تھا لگادیا، اور نصف درجن بچے تھاپ کر ان مسماۃ کےحوالے کردیے۔

    نومبر۱۹۵۰ء

    ’’سیالکوٹ (پاکستانی پنجاب) میں ایک اسکول ماسٹر مولوی محمد صادق بی۔ اے نے ایک پریس کانفرنس بلائی اور اس میں اپنے نبی ہونے کااعلان کردیا۔ ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا کہ خدا نےمیری خدمت کے لیے چار ہزارفرشتے مقرر کردیے ہیں۔‘‘ عام طور پر دیکھا گیا ہےکہ جب کوئی ہندو پاگل ہوتا ہے تو روپے پیسے اور کرنسی نوٹوں کےسواکسی بات کا ذکر نہیں کرتا۔ جب سکھ پاگل ہوتا ہے تو کرپان سنبھال کر خالصہ راج کا نعرہ لگاتا ہےاور جب کوئی مسلمان پاگل ہوتا ہےتو نبوت کا دعویٰ کردیتا ہے۔ اس لیے مولوی محمد صادق کایہ اعلان حیرت و استعجاب کا باعث نہیں ہوسکتا۔ پاکستانی بھائیوں کو نیا نبی مبارک۔ لیکن ایک بات پوچھنے کے قابل ہے یعنی وہ جو چار ہزار فرشتدگانِ کرام اس تازہ ترین نبی کی خدمت پر ’’مامور من اللہ‘‘ ہیں ان کا راشن کہاں سے آتا ہے۔ مولوی صاحب کی تنخواہ تو ان کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے یا تو پاکستان کی حکومت نے ان کی خورد ونوش کی ذمہ داری لے لی ہوگی یا پھر فرشتہ صاحبان اپنا اپنا ٹفِن کیریر ساتھ لے کر آتے ہوں گے۔

    دسمبر ۱۹۵۰ء

    انگلستان کی ایک شہزادی کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے روٹی کی کمیابی کی شکایت سنی تو کہا کہ ’’جب روٹی نہیں ملتی تو لوگ کیک کھائیں۔‘‘ شہزادی کو کیا معلوم تھا کہ جو غریب روٹی ایسی سستی چیز نہیں خرید سکتے وہ کیک کس طرح کھاسکتے ہیں۔ یہ لطیفہ پرانا ہوگیا تھا۔ لیکن آل انڈیا وومنز فوڈ یونین کے ایک تازہ فیصلہ نے اس میں ازسرِ نو جان ڈال دی ہے۔ یونین نے فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں کو ایسی غذا کی عادت ڈالی جائے جس میں اناج کا استعمال نہ ہو۔ مثلاً لوگوں کو پھلوں، سبزیں، دودھ مکھن، بالائی اور خشک میوےکھانے کی ترغیب دی جائے۔ چنانچہ دہلی میں وومنز کونسل کی طرف سے اس قسم کی سستی اور آسانی سے حاصل ہونے والی غذاؤں کی نمائش کی جائے گی۔ لیکن بعض لوگ لکیر کے فقیر ہیں وہ گندم اور چاول کا پیچھا چھوڑنا نہیں چاہتے، اور وہ اس قسم کے بے سروپا اعتراص کرتے ہیں کہ سیب، سنگترہ، بادام، پستہ، دودھ اور مکھن وغیرہ راشن میں شامل نہیں ہیں۔ پہلے ان کی قیمتوں پر کنٹرول کیا جائے تاکہ کسی کو گندم اور چاول کھانے کی رغبت ہی نہ ہو۔

    جنوری ۱۹۵۱ء

    گاندھی جی کے اخبار’’ہریجن‘‘ میں مشہور بھگت مشرو والا نے لکھا ہے کہ ’’آج کانگریس میں ایک ایمان دار آدمی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘‘ اس کاحوالہ دیتے ہوئے ہوئے جناب رفیع احمد قدوائی نے فرمایا کہ ’’آج کانگریس اور قومی جھنڈے کی لوگوں میں وہ عزّت نہیں رہی جو چار سال پہلے تھی۔ اس لیے اگر ہم حالات کو بدل نہیں سکتے تو بہتر ہوگا کہ قومی جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں رکھنے کی بجائے ایسے ایک عجائب گھر میں رکھ دیں۔ جہاں اس کی بہتر تقدیس ہوسکے گی۔‘‘ قدوائی صاحب کی تجویز بہت معقول ہے بشرطیکہ اس عجائب گھر کا انتظام موجودہ کانگریسیوں کے سپُرد نہ ہو۔ ورنہ وہ عجائب گھر میں بھی قومی جھنڈے کی تقدیس برقرارنہ رہنے دیں گے۔

    مئی ۱۹۵۱ء

    پاکستان پارلیمنٹ میں سردار شوکت حیات خاں نے بجٹ پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا ’’پاکستانی عوام تین برس پہلے کی نسبت زیادہ غریب ہوگئے ہیں۔‘‘ شوکت صاحب! عوام کو چھوڑیے، ذرا یہ بتائیے کہ وزراء اور ان کے اعزّہ و اقارب پہلے سے امیر ہوگئے ہیں یا غریب؟ تصویر کاصرف ایک رخ کیوں دکھا رہے ہیں آپ؟

    جون ۱۹۵۱ء

    مدارس کے وزیر مال نے اسمبلی میں فرمایا کہ ’’سیکرٹریٹ میں زنانہ کلرکوں کے تقرر سے محکموں میں رنگینی آگئی ہے، اور یہ الزام بے بنیاد ہے کہ زنانہ کلرکوں کے تقرر سے ایڈمنسٹریشن میں نا اہلیت بڑھ گئی ہے۔‘‘ الزام غلط ہو یا درست! لیکن اس حقیقت سے وزیر مال کے فرشتے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ انگریز کے عہد میں جس کام کے لیے دس کلرک ہوتے تھے۔ اس کے لیے اب پچیس پچیس اور تیس تیس کلرک اور دوگنے تگنے افسر موجود ہیں، اور کام پھر بھی وقت پر نہیں ہوتا، اور جن دفتروں میں کانگریسی دیویاں بھی تشریف لے آئی ہیں وہاں تو بالکل گھر کا معاملہ ہوگیا ہے۔ آگے حدِّ ادب!

    اپریل ۱۹۵۲ء

    ’’پوربی پاکستان میں کلرکوں کی سات اسامیوں کے لیے ہزاروں درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے پانچ سو امیدوار گریجویٹ تھے۔‘‘ اللہ کے فضل و کرم سے یہاں ہندوستان شریف میں بھی بیکاری کا یہی حال ہے۔ دونوں ملکوں کی قومی حکومتوں کو مبارکباد۔ آخر ایک بات میں تو انھوں نے اتحاد عمل کا ثبوت دیا۔ آبادی نہیں تو بربادی ہی سہی۔

    مئی ۱۹۵۲ء

    ایک امریکی سائنس داں کا بیان ہے کہ ’’پانچ برس میں امریکہ کے پاس ایٹم بموں کا اتنا ذخیرہ ہوجائے گا جس سے ساری دنیا کو بیک وقت تباہ کیا جاسکے۔‘‘ زندہ باد! چرخ چہارم پر حضرت عیسیٰ کی روح کس قدر مسرور ہوگی۔ اپنی مہذب اور متمدن امّت کے اس شاندار کارنامے پر۔

    ایک سرکاری اعلان میں مہاراجہ نیپال کا پورا نام شائع ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، ’’سومتی شری گری راج چکر چوڑا منی نر نرائن ایتادی دوِدھ دُرداولی دراج مان منوج ناتھ اوجسوی راجینہ پرجابل نیپال تارا ادم رام پت اتل جیوتی لے تری شکنی آتی پَربَل گورکھا دکھشن باہو مہا ادھی پتی سَرد اچ کمانڈرانِ چیف شریمان مہاراج ادھیراج شری شری شری مہاراج تربھون ویر وکرم جنگ بہادر شمشیر جنگ دیو سدا سمر وجیسی۔‘‘ اب، اس کے بعد بھی آپ اگر کچھ کہنے کی ضرورت سمجھتے ہیں تو آپ سے خدا سمجھے۔ شکر کیجیے نام ختم ہوگیا۔ ورنہ یہ سلسلہ دو دن جاری رہ سکتا تھا۔ بادشاہوں کےنام ہیں کوئی مذاق نہیں ہے۔

    نومبر۱۹۵۲ء

    سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’دہلی میں دودھ کی بہم رسانی لوگوں کی ضروریات سے آدھی ہے۔‘‘ تو پھر کیا ہوا؟ کمی پانی ملاکر جوپوری ہوجاتی ہے۔

    دسمبر ۱۹۵۲ء

    ایک پاکستانی اخبار کا عنوان ہے ’’لایل پور کی منڈی سے گندم غائب۔‘‘ شور نہ مچاؤ بھائی! یہ گندم بڑی بدچلن اور آوارہ ہوگئی ہے۔ آئے دن ہندوستان یا پاکستان کی کسی نہ کسی منڈی سے غائب ہوجاتی ہے، اور پھر امریکہ یا کناڈا میں ملتی ہے۔ مگر وہاں سے ہندوستان آنے کے لیے ایک دو مرتبہ اس سے نکاح نامے میں ایسی ایسی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا کہ،

    یاراں فراموش کروند عشق

    فروری۱۹۵۳ء

    ہند پارلیمنٹ میں وزیر زراعت نے فرمایا کہ ’’بناسپتی گھی مضر صحت نہیں۔‘‘ ارے بھائی، جب آپ ایسے بنا سپتی وزیروں کے ہوتے ساتے یہ بے شرم قوم زندہ ہے تو بناسپتی گھی سے کب مر سکتی ہے؟ باقی رہا، بناسپتی گھی کا مضر صحت یا مفید صحت ہونا۔ تو جب تک سرمایہ داروں کا روپیہ ’’کارفرما‘‘ ہے، بنا سپتی گھی تو کجا، زہر بھی مضر صحت نہیں ہوسکتا۔

    اپریل ۱۹۵۳ء

    لندن میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کے پاس پچاس پچاس ہزار روپیہ کی بائیس موٹر کاریں ہیں۔ ہائی کمشنر کے پاس کاریں نہ ہوں گی تو کیا میرے اور آپ کے پاس ہوں گی؟ سردار پٹیل نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ ’’ہندوستان جیسے ملک کا پردھان سنیاسی نہیں ہوسکتا۔‘‘ تو پھر ہائی کمشنر کیوں نہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں۔ ارے بھائی، بڑی مشکل سے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ہے، عیش کرلینے دو بیچارے کو۔

    مئی ۱۹۵۳ء

    ’’انگلستان کے مشہور فلسفی لارڈ برٹرینڈ رسل نے ۸۰سال کی عمر میں شادی فرمائی ہے۔ دلہن کی عمر صرف ۶۰ سال ہے۔‘‘ دولہا میاں تو خیر پھر بھی ماشاء اللہ جوان جہاں ہی۔ لیکن دولہن بے چاری ابھی بالکل کم سن ہے۔ اس کے والدین کو چاہیے کہ رخصتی میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ بلکہ ابھی دس پندرہ سال تک ننھی منی کو اپنے ہی پاس رکھیں۔ اتنے میں دولہا میاں بھی اور ذرا صحت بنالیں گے۔

    ’’بنگال میں ایک چپراسی کو موازی دو آنے رشوت لینے پر گرفتار کرلیا گیا۔‘‘ صرف گرفتاری سے کام نہیں چلے گا۔ ایسے بدبخت کو تو گولی سے اڑادینا چاہیے۔ دو آنے رشوت لی، اور پکڑا بھی گیا۔ یہاں قومی حکومت کے دَور میں تو لوگ ہزاروں لاکھوں کی رشوت لیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان بھی خبر نہیں ہوتی۔

    راجستھان اسمبلی میں وزیر بحالیات نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’شیر اور چیتے جنگل کی شوبھا ہیں۔ اس لیے انھیں ہلاک نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ بالکل درست! جوئیں سر کی شوبھا ہیں بیماریاں جسم کی شوبھا ہیں۔ چور اور ڈاکو راتوں کی رونق بڑھاتے ہیں۔ رہزن سڑکوں کی شوبھا ہیں، اور آپ ایسے وزیر ’’راج گدّی‘‘ کی شوبھا ہیں۔

    جون ۱۹۵۳ء

    ’’پٹواری نے سرکار کا ڈیڑھ سو روپیہ ہضم کرلیا۔‘‘ وہ تو ایک غریب پٹواری تھا۔ یہاں بڑے بڑے وزیر پبلک کے لاکھوں روپے بے ڈکار ہضم کرجاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پٹواری کھائے تو غبن کہلاتا ہے، اور وزیر ڈکار جائیں تو الاؤنس بن جاتا ہے۔

    جولائی ۱۹۵۳ء

    ڈھاکہ کے اخبار ’’پاسبان‘‘ اور لاہور کے ’’امروز‘‘ نے لکھا ہے کہ ’’پاکستان میں ۹۰فیصدی لوگ بھوک، بیکاری اور گرانی کاشکار ہو رہے ہیں۔‘‘ لیکن باقی دس فیصدی سرمایہ دار اتنے ہی امیر بھی تو ہوگئے۔ پس اے پاکستان کے ہندو مسلمان بھائیو! ان دس فیصدی کے بال بچوں کا خیال کرو۔ کیونکہ یہ بے چارے اقلیت میں ہیں۔ جمہوریت کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ نوے فیصدی غریبوں کی اکثریت دس فیصدی سرمایہ داروں کی اقلیت پر قربان ہوجائے۔

    حکومتِ ہند کے ایک وزیر نے اعلان کیا کہ ’’حکومت مصنوعی چاول بنانے کی مشین منگوانے لگی ہے۔ جس سے روزانہ دس ٹن چاول تیار ہوسکیں گے۔‘‘ پہلے مصنوعی گھی، پھر ’’امریکی امداد‘‘ یعنی گھٹیا مصنوعی گندم، اب مصنوعی چاول۔

    اگست ۱۹۵۳ء

    لوگوں کو شکایت ہے کہ ’’مہاتما گاندھی کے نام لیواؤں کی حکومت اہلِ ملک پرانگریزوں سے بھی زیادہ تشدد کر رہی ہے اور آئے دن سخت بے رحمی سے لاٹھی چارج ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ حکومت مہاتما جی کے وراثت کے ایک حصہ کا بالکل جائز استعمال کر رہی ہے۔ ان کا سارا اثاثہ ایک لنگوٹی، ایک بکری، ایک گھڑ ی اور ایک لاٹھی تک محدود تھا۔ لنگوٹی مہاتما جی کے ساتھ ہی چلی گئی۔ بکری کاآمد چیز تھی، وہ کانگریسی لیڈروں نے اپنا اور اپنے عزیزوں کا پیٹ پالنے کے لیے رکھ لی۔ گھڑی سکریٹریٹ میں لگادی گئی تاکہ دفتری لوگ کام کاج کرنے کی بجائے اسے دیکھ دیکھ کر وقت ضائع کرتے رہیں۔ باقی صرف ڈنڈا رہ گیا تھا۔ وہ قوم کے سرپر برس رہا ہے۔ آخر قوم کو بھی تو کچھ نہ کچھ ملنا چاہیے تھا۔

    ستمبر ۱۹۵۳ء

    ’’لاہور کارپوریشن کے ایک وارڈ کے ووٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس امیدوار کو ووٹ دیں گے جو ہمیں قبرستان بنوادے۔‘‘ کتنے سادہ لوح ہیں یہ لوگ! ایک مدّت سے قبرستان اور شمشان گھاٹ ہی تو بنوارہے ہیں۔ ان کی انتھک کوششوں سے سیکڑوں فساد ہوئے۔ لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتر گئے۔ بہت سی آبادیاں برباد ہوگئیں۔ میاں وہ تو مدّت سے تمہارا مطالبہ پورا کرنے میں منہمک ہیں، تمھیں نظر نہ آئے تو،

    چشمۂ آفتاب راچہ گناہ

    اکتوبر ۱۹۵۳ء

    مشرقی پاکستان کے وزیر صنعت کا ارشاد ہے کہ ’’وہاں سوت کی قلت کے باعث دس لاکھ جولاہے بیکار ہوگئے۔‘‘ پاکستان میں سوت کی قلت، ہندوستان میں کپاس کی قلت، محاورہ ہے، ’’سُوت نہ کپاس، جُلاہے سے لٹھم لٹھاّ۔‘‘ لیکن یہاں دونوں ملک آپس میں لٹھم لٹھا ہو رہے ہیں، اور جولاہے بیکار ہوئے جارہے ہیں۔ یہ بڑی خلاف محاورہ حرکت ہے۔

    ’’دہلی میں عید بخیریت گزر گئی۔‘‘ جی ہاں! بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے ہوتے ساتے عید، دسہرہ یا کوئی اور تہوار بخیریت گزر جائے۔

    نومبر ۱۹۵۳ء

    ’’پنجاب کے اکثر پولیس اور ریونیو افسروں کو شراب نوشی کی لت پڑگئی ہے۔‘‘ رشوت کی اندھی آمدنی ہونےپر شراب نہیں تو کیا عرق گاؤ زبان پینے کی لت پڑے گی۔

    دسمبر ۱۹۵۳ء

    سیالکوٹ کے ایک رٹائرڈ اسکول ماسٹر نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سارے پاکستان کے لیے پیغمبر بناکر بھیجا ہے۔‘‘ خاکسار راقم الحروف کے خدا بننے میں ابھی ایک اِنچ کی کسر ہے۔ بس ذرا خدا بن لیں۔ پھر فائل دیکھ کر بتا سکیں گے کہ ہمارے پیش رو خدا نےاسے خود ہی پیغمبر نامزد کر دیا یا پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ امتحان کے بعد مقرر کیا۔ لیکن پیغمبر تو ساری دنیا کے لیے آتا ہے۔ پھر اس بیچارے کو صرف پاکستان کے لیے علاقائی یا اسسٹنٹ پیغمبر بناکر اس کی توہین کیوں کی گئی۔

    جنوری ۱۹۵۴ء

    ’’گوجرانوالہ پاکستان میں ایک میٹرک پاس نوجوان نے بیکاری سے تنگ آکر میونسپلٹی کے محکمۂ صفائی میں خاکروب کی حیثیت سے نوکری کرلی ہے۔‘‘ آزاد ملکوں میں یہی کچھ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے پاکستانی زندہ باد۔ ہندوستانی زندہ باد! اور دونوں ملکوں میں جتنے غریب اور بے روزگار ہیں، سب کے سب مردہ باد۔ تاکہ ہماری قومی انجمنیں اور ان کی قائم کردہ قومی حکومتیں ’’بلا وجہ‘‘ بدنام نہ ہوں۔

    یوپی کے وزیر انڈسٹریز نے ایک جلسہ میں کا نگریسیوں سے فرمایا کہ ’’کانگریس کا جنازہ نکل رہا ہے اور تم کھڑے دیکھ رہے ہو۔‘‘ کھڑے کیا دیکھتے ہو۔ کوئی تماشہ تو نہیں، جنازہ ہے، ذرا روؤ پیٹو تو سہی، اور یہ بھی نہیں تو کندھا ہی دو۔ یہ تو ثواب کاکام ہے۔ رام رام ست ہے!

    فروری۱۹۵۴ء

    ’’حکومت پاکستان نے سائیکل، گھڑیاں اور سرخی پاؤڈر درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔‘‘ سائیکل، گھڑیاں وغیرہ تو خیر۔ سرخی پاؤڈر کے بغیر تو قوم تباہ ہوئی جارہی تھی۔ بہت بہت شکریہ۔

    ’’ضلع امرتسر میں مسیحا پیدا ہوگیا ہے۔ ایک شخص حاجی صابر میں کوئی معجزنما طاقت بتائی جاتی ہے۔‘‘ اگر حاجی صاحب واقعی مسیحائی کادم بھرتے ہیں تو ہمارے یہاں کے اخبارنویسوں کو فرقہ پسندی اور رسالچیوں کو فحش نویسی کے امراض سے نجات دلا دیں۔ یا پھر ہمیں انسانیت و شرافت سے عاری کردیں۔ تاکہ ہم ان بزرگوں کی تحریروں اور ذلیل حرکات پر کڑھنے کی اذیت سے محفوظ ہوجائیں۔

    مارچ ۱۹۵۴ء

    ’’میونسپل کمیٹی اکال گڑھ کے لیے سکریٹری کی ضرورت ہے۔ تنخواہ اسّی روپیہ اور مہنگائی الاؤنس بیس روپیہ۔‘‘ یہ مہنگائی الاؤنس کاتکلف خواہ مخواہ فرمایا آپ نے، اسّی روپیہ میں ایک بال بچے والے آدمی کا بخوبی گزارا ہو سکتا ہے۔ بلکہ کفن کی سلائی کے لیے بھی کچھ پیسے بچ جاتے ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے