یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے
’’یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی ہے‘‘
جب تک یہ مصرع میری نظر سے نہیں گزرا تھا، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بے چاری نازک اندام عورت کی گدّی سے یہ سیر ڈھائی سیر وزنی بالوں کی چوٹی کیوں لٹکی ہوئی ہے؟
لیکن اب جب بھی کوئی چوٹی یا چوٹیوں والی عورت مجھے نظر آتی ہے تو یہ سوالیہ مصرع میرے ذہن میں ہڑبڑا کرجاگ اٹھتا ہے اور کہتا ہے۔ ’’جواب دو۔‘‘
اب بھلا اس کا کیا جواب ہوسکتا ہے؟
قدرت نے انسان کو پیدائش ہی سے ’’فارغ البال‘‘ نہیں بنایا ہے۔ بالخصوص سر کو تو ایسا ’’بال خیز‘‘ بنایا ہے کہ نہ ترشواؤ، نہ کٹواؤ تو یہ بال ایڑیوں تک جا پہنچیں۔
عورتوں اور سکھوں کو پیچھے سے دیکھیے تو اس گیسودرازی کا ثبوت مل جاتا ہے۔ ویسے بھی پرانی کتابوں کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جن دنوں دنیا میں کپڑا ایجاد نہیں ہوا تھا تو یہی بال ’’لباسِ آدم و حوا‘‘ تھے۔
پھر جب تہذیب نے ذرا اور ترقی کی اور کپڑا بھی ایجاد ہوا تہذیب نے ’’مقاماتِ ستر‘‘ دریافت کیے اور اس کے بعد سترپوشی کا مرحلہ آیا۔ مرد کی سترپوشی کے لیے ایک کپڑا کافی تھا تو عورت کی سترپوشی کے لیے دو کپڑے۔ ان دنوں اتنا کپڑا تو ایجاد نہیں ہوا تھا کہ سارے مرد اور عورتوں کی سترپوشی کرسکے اس لیے طے ہوا کہ عورتیں اور مرد ایک ایک کپڑا استعمال کریں اور عورتیں زائد ستر کے لیے کپڑے کے بجائے بالوں کو استعمال کریں۔
چنانچہ عورت کے لیے کمر تک بال چھوڑنا بعد میں فیشن بنا ہو تو بنا ہو پہلے ضرورت ہی تھا۔
وہ دن اور آج کا دن کم از کم مشرقی عورت ضرور کمر تک لمبے بال چھوڑتی ہے حالانکہ سترپوشی کے لیے دنیا میں اتنا کپڑا بننے لگا ہے کہ انگیا کے علاوہ بنیان، بنیان پر قمیض، قمیض پر سوئٹر جیکٹ، سوئٹر یا جیکٹ پر دوپٹہ تک بہ آسانی دستیاب ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ ضرورت نے رواج کی حیثیت اختیار کرلی ہے اس لیے مرد تو گدّی ہی سے ٹنڈ منڈ ہوگئے البتہ خوبصورت اسی عورت کو کہا جانے لگا جس کی زلفیں کمر تک یا کمر سے نیچے لہراتی ہوں۔
عورت کا بال کھول دینا یا تو نہانے کے بعد اچھا لگتا ہے یا پھر سوتے وقت۔ ورنہ ہمیشہ عورت بال کھولے تو اندیشہ یہ ہے کہ بچے ڈر نہ جائیں کیونکہ کتابوں میں ڈائن یا چڑیل کا جو حلیہ بتایا گیا ہے اس سے یہی پتہ چلا ہے کہ چڑیل چوٹی کبھی نہیں باندھتی۔
چنانچہ چڑیل کو عورت ممیز کرنے کے لیے عورت کی چوٹی باندھنے کا رواج چلا۔ یا پھر میرا یہ محض خیال ہی ہے کہ چوٹی کا آئیڈیا ’’خزانے کے سانپ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ جس طرح پرانے زمانے کے لوگ خزانے پر سانپ بٹھایا کرتے تھے۔ اسی طرح ’’عورت کے حسن کے خزانے کے لیے چوٹی کا سانپ‘‘ تجویز کیا گیا۔
بہرحال بات کچھ ہی ہو۔ عورت کی چوٹی ایک دلفریب چیز ہے۔
ممکن ہے کہ عورت کو خود بھی چوٹی پسند ہو۔ جب ہی تو کسی عورت نے اپنی ماں سے یہ خواہش ظاہر کی۔
ماں میرئیے نی مینوں بڑا چاہ، دوگُتاں کر میریاں
(ترجمہ، اے میری ماں، مجھے دو چوٹیوں کا بڑا شوق ہے اس لیے میری دو چوٹیاں گوندھ)
اور شاید اسی دن کے بعد سے عورت ایک کے بجائے دو چوٹیاں باندھنے لگی۔ اور عورت کی نقل پسند فطرت کے باعث دو چوٹیاں عام ہوگئیں۔ پھر فیشن بن گئیں۔ چنانچہ آج بھی آپ دیکھیں تو پرانے زمانے کی عورتیں ایک چوٹی رکھتی ہیں تو نئے زمانے کی عورتیں دو چوٹیاں۔
یہ مجھے تسلیم ہے کہ آج کل ایک چوٹی یا دو چوٹی بلکہ دو چوٹی کا رواج ہی کم ہوتا جارہا ہے۔ دنیا میں آزادیٔ نسواں کی تحریک کے ساتھ پہلے عورت کا سماجی درجہ ’’نصف بہتر‘‘ اور حلیہ ’’زلفِ مختصر‘‘ ہوا۔
اس کے بعد عورت نے دعویٰ کیا کہ عورت ہر لحاظ سے مرد کے برابر ہے۔ ثبوت کے لیے عورت نے بندوق چلادی۔ اور بندوق کا کندا زمین پر ٹیک اور دوسرا ہاتھ کمر پر رکھ کر مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا،
’’اے مرد! تم بندوق چلاتے ہو ہم بھی بندوق چلاتے ہیں۔ اب بولو!‘‘
مرد نے کہا،
’’اچھا! ذرا ہوائی جہاز اڑا کر دکھاؤ۔‘‘
عورت نے ’’بے پر کی اڑانے‘‘ میں شروع ہی سے بڑی ماہر ہوتی ہے اس کے لیے ہوائی جہاز اڑانا کیا مشکل تھا۔ اس نے ہوائی جہاز تو کیا۔ راکٹ اڑادیا۔ اپنے بالوں کی چوٹیاں کٹواکر ’’ہمالیہ کی چوٹیاں‘‘ سر کرنے پہاڑ پر چڑھ گئی۔
عورت کے آگے مرد کی کیا چلی ہے۔ دنیا کے سب سے عقلمند انسان حکیم ارسطو نے عورت اسیاشیا کے آگے ’’ہتھیار ڈال دیے تھے۔‘‘ تو عام مردوں کی کیا بات۔
ان سب نے بھی عورتوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور نئی تہذیب نے اعلان کردیا کہ،
’’عورت اور مرد دونوں کا سماجی قد برابر، برابر ہے۔‘‘
سماجی طور پر عورت اور مرد برابر ہوگئے لیکن حلیے میں پھر بھی بڑا فرق باقی رہ گیا تھا۔ عورتوں نے بتدریج حلیۂ مردانہ بنانا شروع کیا۔ یعنی ایک وقت یہ آیا کہ مردوں کو یہ اعتراف کرنا پڑا۔
چوٹیاں جتنی تھیں چھوٹی ہوگئیں
میری مونچھیں ان کی چوٹی ہوگئیں
پھر مردوں نے بھی تہذیباً ’’ادھار بیالق‘‘ کردیا۔ یعنی انہوں نے داڑھی مونچھیں منڈوادیں۔ اب صرف ’’بوبڈہیئر‘‘ یعنی گردن ترشے ہوئے بالوں کا فرق رہ گیا تھا اور شائد ’’بوبڈہیئر‘‘ کا آئیڈیا عورتوں نے کسی ایسے درویش قلندر سے لیا تھا جو گردن تک پٹھے چھوڑتا ہے۔
اب آگے سے تو عورتوں اور مردوں میں صرف ’’ایک ہی نمایاں‘‘ فرق رہ گیا تھا۔ البتہ پیچھے سے بوبڈ ہیئر کے باعث (بہ استثنیٰ درویش و قلندر) بہ آسانی یہ پہچانا جاسکتا تھا کہ عورت کون ہے اور مرد کون۔
لیکن دم کی کسر کی طرح عورتوں نے پھر یہ بوبڈ ہیئر کی کسر بھی نکال دی۔ یعنی اب بیشتر جوان عورتیں بالکل مردوں کی طرح بال کٹواتی ہیں۔ یعنی پیچھے سے دیکھیے تو ’’نجم خان‘‘ معلوم ہوتی ہیں اور سامنے سے دیکھیے تو وہی ’’نجمہ خانم‘‘ ہیں۔
عورتوں کے حلیہ مردانہ بنانے پر مجھے اس لیے کوئی اعتراض نہیں ہے کہ میں ہر صبح داڑھی، مونچھ دونوں صاف کردیتا ہوں اور اتنا رجعت پسند بھی نہیں ہوں کہ عورتیں (اور مرد بھی) لمبے گیسوؤں سے پریشان اور عاجز آچکے ہوں۔
گندھی ہوئی چوٹی کے باعث عورت بستر پر چت نہیں لیٹ سکتی تھی۔ بالوں میں تیل لگانا ہو تو ایک وقت میں تیل کے دو دو شیشے خالی ہوجاتے تھے اور آج کل اقتصادی بدحالی کے زمانے میں کون عورت ایک وقت میں تیل کے دو دو شیشیوں کا اصراف ’’افورڈ‘‘ کرسکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر ان بالوں میں ’’جوئیں‘‘ پڑجائیں تو پھر توبہ ہی بھلی۔
سب سے بڑی توجہ تو یہ تھی کہ مرد کو جب بھی غصہ آتا تھا تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ عورت کو چوٹی سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیتا تھا۔
یہاں ’’نہ رہے بانس نہ بجے بنسری‘‘ والی کہاوت موزوں نہیں ہے۔ لیکن عورت نے چوٹی اسی کہاوت کے پیش نظر کٹوادی۔ یعنی نہ رہے چوٹی اور نہ پکڑے مرد اسے اور نہ نکالے گھر سے باہر۔
ادھر مردوں کو بھی بڑی شکایت تھی کہ عورتیں زلفوں کی چوٹی سے ہمیشہ ڈراتی رہتی ہیں چنانچہ سب مردوں کی طرف سے ایک شاعر نے اسی شکایت کو یوں منظوم کیا تھا۔
ذرا ان کی شوخی تو دیکھئے لیے زلف خم شدہ ہاتھ میں
مرے پاس آکے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
مرد سانپوں سے اتنا نہیں ڈرنے لگے تھے جتنا چوٹیوں سے۔ اور ادھر عورتیں بھی چوٹیوں سے عاجز آچکی تھیں، حتی کہ چت نہیں لیٹ سکتی تھیں۔
چنانچہ چوٹی کٹ ہی گئی۔
بات زلف گرہ گیر کی طرح لمبی اور پیچیدہ ہوگئی ہے اس لیے میں بوبڈ ہیئر کی طرح تراش کر اسے اتنا مختصر کرنا چاہتا ہوں کہ کہنے والی جو بات میں کہہ چکا ہوں پھر ایک بار کہہ دوں کہ
یہ چوٹی اس لیے پیچھے پڑی تھی
کہ جاہل مرد بے چاری عورتوں کو یہی چوٹی پکڑ کر گھر سے نکال دیا کرتے تھے۔ اتنی سی بات لمبی اس لیے ہوگئی کہ ذکر زلف کا تھا اور زلف دراز کا ذکر بھی دراز ہوتا ہے۔
ویسے مجھے ذاتی طور پر نہ بوبڈ ہیئر پسند ہیں اور نہ ’’لمڈاکٹ‘‘ مجھے تو ایک چوٹی یا دو چوٹی والی خواتین ہی خوبصورت نظر آتی ہیں۔ یہ ہماری تہذیب اور کلچر کے حسن کی یادگار علامتیں ہیں۔ اپنے ملک کی ’’چوٹی کی خواتین‘‘ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں میں تو یہی چاہتا ہوں کہ ’’گردش شام و سحر‘‘ کا انداز پھر ایک بار بدلے اور ہماری صبح و صبح نہ ہو جو سورج کے طلوع ہونے سے پھیلتی ہے اور شام وہ شام نہ ہو جو سورج ڈوبنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ عورت کی زلفوں سے صبح و شام پیدا ہوں یعنی
ہوئی شام بکھرے جو چوٹی کے بال
ہٹی زلف رُخ سے سحر ہوگئی
ہائے ایسی صبحوں اور ایسی شاموں کی کیا بات ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.