Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

چکر

MORE BYفیودور سلوگب

    ایک روز علی الصبح شہر کے مضافات میں ایک سنسان سڑک پر ایک خاتون اورچہار سالہ لڑکا جارہے تھے ۔ لڑکا جو گلاب کے مانند تھا بہت خوش خوش تھا اور خاتون نہایت عمدہ لباس میں ملبوس تھی۔ مسرت کی وجہ سے اس کے ہونٹ متبسم تھے اور وہ اپنے لڑکے کو بیقراری سے دیکھ رہی تھی۔ لڑکا ایک بڑے سے زردرنگ کے چکر کو گھما رہا تھا۔ وہ اس کے پیچھے بڑی عجیب طفلانہ حرکات کرتا۔ خوشی سے ہنستا۔ اپنے گراز پیر کو زمین پر مارتا۔ چھڑی کو ہوا میں گھماتا اور اپنے ننگے گھٹنوں کی نمائش کرتا بھاگ رہا تھا۔ گو چھڑی کو ہوا میں اس قدر بلند اٹھانا بالکل غیر ضروری تھا مگر ہمیں اس میں کیا دخل!

    وہ کس قدر مسرور تھا! اس سے تھوڑا عرصہ قبل اس کے پاس چکر نہ تھا اور اب وہ اس زرد رنگ کے چکر کا نہ صرف مالک ہے بلکہ اس کے ساتھ بڑے انہماک سے کھیل رہا ہے!

    اب ہر ایک چیز پر از مسرت تھی!

    اس سے تھوڑا عرصہ پیشتر لڑکے کی نگاہوں میں کچھ چیز وقعت نہ رکھتی تھی۔ مگر اب اسے ہر ایک چیز نئی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ درخشاں سورج، شہر کی مدھم شورش اور صبح کی روشنی سے منور بازار۔ لڑکے کے لئے اب سب چیزیں جدت، مسرت اور پاکیزگی کا پہلو لیے ہوئے تھیں۔

    ہاں سب کچھ پاکیز ہ ہے۔ بچے تصویر کا غیر پاکیزہ اور تاریک پہلو اس وقت نہیں دیکھتے جب تک ان کے بڑے اس کی وضاحت نہ کریں۔

    (۲)

    چوک میں ایک کھردردے ہاتھوں والا آدمی پھٹے پرانے کپڑے پہنے کھڑا تھا۔ یہ جنگلے کے ایک طرف ہوگیا کہ بچہ اور خاتون گزر جائیں۔ بوڑھے نے اپنی دھندلی نگاہوں سے بچے کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے گنجے سر میں مبہم خیالات رینگنے لگے۔

    ’’کوئی صاحبزادہ ہے۔‘‘ اس نے خیال کیا۔’’ اچھا خوبصورت بچہ ہے۔ یہ کس قدر مسرور ہے۔بچہ۔۔۔۔۔۔ مگر خیال رہے یہ کسی بڑے آدمی کا لڑکا ہے!‘‘

    ایک چیز وہ اچھی طرح نہ سمجھ سکا، جواس کے نزدیک بہت عجیب تھی۔ بچہ۔۔۔۔۔۔ مگر بچوں کو تو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا ہے۔ تھپکیاں انہیں خراب کردیتی ہیں۔ نرمی ان کو ہمیشہ بدچلن بنا دیتی ہے۔

    اس کی ماں اس کو بالکل دبا نہ رہی تھیں وہ اس کو ڈرانے یا دھمکانے کے لیے بالکل چیخ نہ رہی تھی اس کی ماں کس قدر اچھے کپڑوں میں ملبوس اور کس قدر خوبصورت تھی۔ اسے اور کس چیز کی خواہش ہو سکتی تھی؟ بظاہر وہ نہایت آرام و سکون میں تھی۔

    بوڑھے نے اپنا بچپن کتوں کی سی زندگی بسر کرکے گزارا تھا۔ اب بھی اس کی زندگی کوئی خاص اچھی نہ تھی۔ جب کہ وہ بھوک اور مار پیٹ سے ایک حد تک بچا ہوا تھا۔ وہ گزشتہ ایام سردی، زدوکوب اور فاقوں سے معمور تھے۔اسے امراء کے بچوں ایسی تفریحیں، کھولنے اور چکر نصیب نہ ہوئے۔ اس طرح اس کی تمام زندگی غربت میں گزری تھی۔ اس کے گزشتہ عہد زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہ تھا جو یاد کیے جانے کے قابل ہو۔

    اپنے پوپلے اور بغیر دانتوں کے منہ پر مسکراہٹ لاتے ہوئے اس نے بچے کی طرف دیکھا اور رشک محسوس کیا۔ اس نے خیال کیا۔’’کیا بیہودہ کھیل ہے‘‘۔۔۔۔۔۔ حسد کے اس احساس نے اسے ماندہ کردیا۔ وہ کارخانے میں اپنے کام پر گیا۔ جہاں اس نے بچپن سے لے کر اس عمر تک اپنی زندگی گزاری تھی۔ سارا دن وہ اس بچے کے متعلق سوچتا رہا۔

    خیالات اس کے دماغ میں خود بخود چلے آرے تھے۔ بچے کے ہنسنے، بھاگنے اور چکر کا تعاقب کرنے کا تصور بہت آسان تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی ٹانگیں کس قدر گوشت سے بھری ہوئی تھیں اور گھٹنے کتنے سپید تھے!

    مشینوں کی گڑگڑاہٹ میں وہ سارا دن اس بچے اور اس کے چکر کے متعلق سوچتا رہا۔ رات کے وقت بھی وہ اس بچے کو خواب میں دیکھتا رہا۔

    (۳)

    دوسرے روزخواب پھرسے اس کے دماغ پر قابض ہوگئے۔ مشینیں بھی ایک شور سے چل رہی تھیں۔ چونکہ کام خود بخود ہورہا تھا اس لیے توجہ کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ بوڑھے کے ہاتھ اپنے روزانہ کام میں مشغول تھے لیکن اس کا پوپلا منہ جاذب توجہ خوابوں پر مسکرا رہا تھا۔ کارخانے کی فضا گردو غبار سے دھندلی ہوگئی۔ چھت کے قریب مشینوں کے پٹے پھسل کر شور پیدا کرتے ہوئے گھوم رہے تھے۔ دور کونوں میں ایک شور آفریں تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔

    لوگ بھوتوں کی طرح ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ انسان آوازیں مشینوں کے گونجتے ہوئے شور میں غرق ہو جاتی تھیں۔

    بوڑھا ایسا محسوس کررہا تھا کہ وہ بچہ ہے اور اس کی ماں ایک امیر خاتون ہے اور یہ کہ وہ چھڑی ہاتھ میں پکڑے چکر کو گھما رہا ہے۔ وہ سپید لباس پہنے ہوئے تھا اس کی ٹانگیں موٹی تھیں اور گھٹنے ننگے تھے۔

    دن گزرتے گئے مگر یہ خواب اور کارخانے کا کام ویسے کا ویسا ہی رہا۔

    (۴)

    ایک روز شام کے وقت گھر واپس آتے ہوئے بوڑھے نے کسی پرانے پیپے سے اترا ہوا پہیہ نما چکر پایا۔ یہ بہت بھدا اور زنگ آلود تھا مگر بوڑھے کا جسم فرط مسرت سے کانپنے لگا اور آنسو اس کی دھندلی آنکھوں میں مچلنے لگے۔ اس نے اپنا اطمینان کرنے کے لیے چاروں طرف دیکھا۔ جھکا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں اس آہنی چکر کو اٹھا لیا۔ پھر وہ اسے ایک شرمائے ہوئے تبسم کے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔

    بوڑھے کو چکر اٹھاتے وقت کسی نے نہ دیکھا اور نہ کسی نے اس سے کوئی سوال کیا۔ مگر کسی کو کیا پڑی تھی کہ بوڑھے سے استفسار کرتا؟ ایک چتھڑے لٹکائے ہوئے بوڑھے کا کسی فضول اور ناکارہ چکر کو اٹھانا جو کسی کے کام کا نہ ہو ایسا واقعہ نہ تھا کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں!

    مگر بوڑھا اس کو چھپا کر اپنے گھر لے گیا۔ گو اسے پکڑے جانے کا خوف دامن گیر تھا مگر پھر بھی اس کے لبوں پر تبسم کھیل رہا تھا اور وہ اس کو اپنے گھر کس غرض کے لیے لے جارہا تھا، یہ بوڑھے کو خود معلوم نہ تھا۔

    دیکھنا اور ہاتھوں سے چھونا اس خواب سے زیادہ حقیقت رکھتا ہے جو فیکٹری کی گڑگڑاہٹ سے بھی زیادہ مدھم اور وہاں کی شور آفریں تاریکی سے زیادہ ہیبت ناک تھا۔

    کئی دنوں تک لوہے کا چکر بوڑھے کے بستر میں پڑا رہا۔کبھی کبھی وہ اسے بستر میں سے نکالتا اور اس کو دیکھتا رہتا۔ یہ بھدی چیز اسے بڑی تسکین بخشتی تھی۔ اس طرح وہ خواب جو ہر وقت اس کے دماغ پر مسلط رہتا، زیادہ حقیقت نما ہو جاتا تھا۔

    (۵)

    ایک روز شام کے وقت جب پرندے اپنے اپنے آشیانوں میں غیر معمولی خوشی سے چہک رہے تھے۔ بوڑھا اٹھا اور اس چکر کو لے کے باہر ٹہلنے کے لیے نکلا۔

    کھانستے ہوئے وہ درختوں کے جھنڈ میں سے جنگل کو طے کررہا تھا۔ سنجیدہ صورتحال اور سیاہ چھال والے درختوں کی خاموشی اس کے لئے بالکل ناقابل فہم تھی۔ جنگل کی خوشبویں کچھ عجیب سی تھیں۔ زمین پررینگتے ہوئے کیڑے مکوڑے اسے بہت عجیب و غریب معلوم ہورہے تھے۔ گھاس پر پڑے ہوئے شبنم کے قطرے اسے ایسے معلوم ہوتے تھے، گویا وہ پریوں کی د استانوں سے متعلق ہیں۔ فضا میں نہ کارخانے کا شور تھا اور نہ مشینوں کی گڑگڑاہٹ بلکہ درختوں کے پیچھے ایک نہایت عجیب و غریب اور لطیف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ بوڑھے کی سال خوردہ ٹانگیں پتوں کے دبیز قالین پر چل رہی تھیں اور زمین میں گڑی ہوئی پرانی جڑوں سے ٹھوکریں کھا رہی تھیں۔

    اس نے ایک خشک ٹہنی اٹھائی اور اسے چکر میں پھنسا لیا۔

    ایک پرسکون اور منور مرغزار اس کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس کی تازہ کٹی ہوئی گھاس کی پتیوں پر شبنم نے رنگارنگ کے بے شمار نگینے جڑے ہوئے تھے۔

    دفعتاً بوڑھے نے ٹہنی سے چکر کو گھمایا اور اس کے پیچھے دوڑنا شروع کردیا۔ چکر مرغزار کی سبز زمین پر بڑی آہستگی سے گھوم رہا تھا۔ خوشی سے بوڑھا بے اختیار مسکرا رہا تھا۔ وہ اس بچے کی طرح اپنے چکر کے تعاقب میں مصروف تھا۔ پھر اس نے اپنی ٹانگیں پھیلائیں چکر کو روکا اور چھڑی کو اس بچے کی طرح اوپر اٹھایا۔

    اب اس نے محسوس کیا کہ وہ کم سن بچہ ہے۔ مسرور، نہایت مسرور! اور یہ کہ اس کی ماں اس کی طرف پر اشتیاق نظروں سے دیکھ کر مسکراتی ہوئی آرہی ہے۔ ایک بچے کی طرح اس نے پہلے پہل تاریک جنگل میں نرم اور گیلی گھاس پر دوڑتے ہوئے سردی محسوس کی۔

    اس کے جھریاں والے چہرے پر داڑھی کے بال ہلے اور پوپلے منہ سے قہقہے کھانسی کے ساتھ مل کر بلند ہوئے۔

    (۶)

    اب علی الصبح جنگل میں جا کر چکر سے کھیلنا بوڑھے کا دستور ہوگیا۔ اس کھیل میں وہ اپنی واحد مسرت پاتا تھا۔

    بعض اوقات اسے اندیشہ ہوتا کہ شاید کوئی راہ گزر اس کو دیکھ لے گا اور اس کی احمقانہ حرکت پر ہنسے گا۔ اس خیال کے آتے ہی وہ شرم کا ناقابل برداشت احساس خود پر غالب پاتا۔ یہ احساس شرم اس کے لئے خوف کے مانند تھا۔ اس کی ٹانگیں کمزور اور بے حس سی ہو کرلڑکھڑانے لگیں۔وہ بڑی احتیاط سے اپنا اطمینان کرنے کے لئے چاروں طرف دیکھتا کہ آیا کوئی اس کو دیکھ تو نہیں رہا۔

    لیکن کوئی شخص بھی اس کو نہ دیکھ رہا ہوتا اور نہ کوئی اس کے قہقہے سن رہا ہوتا۔۔۔۔۔۔ وہ جی بھر کر کھیل چکنے کے بعد اپنے گھر کی راہ لیتا۔ واپسی پر اس کے ہونٹ متبسم ہوتے۔

    (۷)

    بوڑھے کی حرکات کو کسی شخص نے بھی نہ دیکھا۔ چنانچہ کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا۔ وہ بڑے آرام و سکون میں کئی روز اپنا کھیل کھیلتا رہا۔ مگر ایک صبح جب کہ بہت اوس گری ہوئی تھی۔ بوڑھے کو سردی لگی اور مر گیا۔ کارخانے کے ہسپتال میں اجنبیوں کے درمیان مرتے وقت اس کے لبوں پر ایک پرسکون تبسم کھیل رہا تھا۔

    اسے اب اس خیال سے تسکین حاصل ہوگئی تھی کہ وہ بھی بچہ رہ کر اپنی پیاری ماں کے ہمراہ تازہ گھاس پر بڑی مسرت سے کھیل چکا ہے۔

    *****

    کہانی:سلوگب

    مأخذ :
    • کتاب : منٹو کے غیر مدون تراجم (Pg. Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے