Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خادمہ

آنتون چخوف

خادمہ

آنتون چخوف

MORE BYآنتون چخوف

    رات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    سیزدہ سالہ آیا’’وارؔ کا‘‘ جُھولے کو آہستہ آہستہ ہلا رہی ہے۔ جسمیں ننھا سا بچہ لیٹا ہوا ہے اور ادبی زبان میں لوری گنگنا رہی ہے۔

    ’’سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں لوری دے رہی ہوں‘‘۔

    جھولے کے سامنے ایک سبز رنگ کا لیمپ جل رہا ہے۔ کمرے میں ایک رسی پر سیاہ پتلون اور ننھے کے کپڑے لٹک رے ہیں۔ جن کے لمبے لمبے سائے وارکا اور بچے کے جُھوٹے پر پڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    لیمپ کی بتی کے شعلے کے ساتھ سائے بھی رقص کرنا شروع کردیتے ہیں۔ جیسے تیز ہوا میں پتیاّں کانپ رہی ہوں۔

    کمرے میں سخت حبس ہورہا ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے گوبھی کا بدبو دار شوربہ پاس ہی رکھا ہو۔ یا یہ جگہ کسی بوٹ بنانے والے کی دُکان ہو۔

    بچہ چلا رہا ہے۔ گو اسے چلاتے چلاتے یہ وقت آگیا ہے اور وہ اس چیخ پکار سے تھکا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی روئے جارہا ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کب چپ ہو۔

    بیچاری وارکاؔ کو نیند آرہی ہے۔ نیند کے غلبہ سے آنکھیں بند ہورہی ہیں۔ سر آگے کو جھکا جارہا ہے۔ گردن میں شدت کا درد ہورہا ہے۔ اس میں اتنی طاقت نہیں۔ کہ لبوں یا آنکھوں کوہلا سکے۔ اسے ایسا معلوم ہورہا ہے کہ اس کا کاأہ سر خشک چوب سے تراشا ہوا ہے۔ اور سکڑ کر سوئی کے سِرے برابر رہ گیا ہے۔

    ’’سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ برابر گنگنا رہی ہے۔

    جھینگر درد ناک راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ ملحقہ کمرے سے آقا اور اس کے شاگرد افانسی کے خراٹوں کی آواز آرہی ہے۔

    بچے کا جھولا غمناک آواز پیدا کررہا ہے ۔ یہ تمام آوازیں مل کر ایک تسکین بخش راگ پیدا کررہی ہیں۔ان اشخاص کے لئے جو بستر میں آرام سے لیٹے ہوں۔ مگر اس وقت یہ راگ تکلیف دہ اور گرانبار معلوم ہورہا ہے اس لئے کہ اسکی موجودگی میں وارکا کا سوجانا یقینی ہے۔

    اور اگر وارکا خدا نہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا نہ کرے سو جائے تو اس کا آقا اور مالکہ اسے خوب مار پیٹ کرے۔

    لیمپ کی بتی کانپنے لگتی ہے۔ سبز روشنی کے دھبے اور لانبے لانبے سائے حرکت کرنے لگ جاتے ہیں۔ جو وارکاؔ کی نیم وا، خواب آلود آنکھوں اور تھکے ہوئے دماغ کے سامنے دھند میں لپٹی ہوئی تصویریں معلوم ہوتی ہیں۔

    اب اس کی نظروں میں یہ دھندلی تصویریں سیاہ بادلوں کی صورت اختیار کرلیتی ہیں۔ جو آسمان میں ایک دوسرے کا تعاقب کررہے ہوں۔

    یکایک ہوا چلتی ہے جو بادلوں کو منتشر کردیتی ہے۔اب وارکا پتلے کیچڑ سے بھری ہوئی ایک وسیع سڑک کو دیکھتی ہے جس کے دائیں بائیں چھکڑے قطار در قطار کھڑے ہیں۔ اور درمیان میں لوگ کندھوں پر تھیلے اٹھائے تکان سے چور چل رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ دفعتاً یہ لوگ معہ اپنے تھیلوں کے کیچڑ میں گر پڑتے ہیں۔

    ’’تم کیوں گرے ہو؟‘‘ وارکا ان سے سوال کرتی ہے۔

    وہ جواب دیتے ہیں۔’’سونے کے لئے‘‘۔

    یہ کہہ کروہ گہری اور میٹھی نیند سو جاتے ہیں۔ جب کہ کوّے اور نیل کنٹھ بجلی کی تاروں پر بیٹھے ان کو جگانے کیلئے بچوں کی طرح چیخ رہے ہوتے ہیں۔

    ’’سو جاؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ۔۔۔۔۔۔ وارکا گنگناتی اور اپنے آپ کو ایک تنگ و تار جھونپڑی میں پاتی ہے۔ جہاں اسکا مرحوم باپ درد کی وجہ سے زمین پر لیٹ رہا ہے۔ درد کی شدت کا یہ عالم ہے کہ وہ منہ سے سوائے اُف۔۔۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔۔۔ اُف اور کچھ نہیں بول سکتا۔

    اس کی ماں پلیوگیویا گھر میں موجود نہیں کیونکہ وہ آقا کوخبردینے گئی ہوئی ہے کہ یافین مررہا ہے۔ اس کو گئے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ حالانکہ اس وقت تک اسے واپس آجانا چاہئے تھا۔ وارکا انگیٹھی کے قریب خاموش بیٹھی ہوئی اپنی والدہ کو کراہتا سُن رہی ہے۔دفعتاً وہ جھونپڑی کے باہر کسی گاڑی کی آواز سنتی ہے۔۔۔۔۔۔ اتنے میں ایک جوان ڈاکٹر اندر داخل ہوتا ہے۔ جسکا چہرہ تاریکی کی وجہ سے بخوبی نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وارکا اسے اتنا کہتا ہوا سنتی ہے۔

    ’’روشنی کرو‘‘!

    جواب میں یافین اُف اُف کے سوا کچھ اور نہیں کہہ سکتا۔

    پلیوگیویا دیا سلائی ڈھونڈنے کی خاطر انگیٹھی کی طرف دوڑتی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ مکمل خاموشی میں گزر جاتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر اپنی جیب سے دیا سلائی نکال کر روشن کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ’’ جناب! ذرا اسے روشن ہی رکھئے۔۔۔۔۔۔ میں ابھی آئی۔ یہ کہتی ہوئی پلیوگیویا جھونپڑی کے باہر دوڑ کرموم بتی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لاتی ہے۔

    یافین کے رخسار سرخ ہورہے ہیں اور اس کی آنکھیں غیر معمولی طور پر چمک رہی ہیں ۔جیسے وہ جھونپڑی اور ڈاکٹر کو چیرتی ہوئی کسی موہوم چیز کا مطالعہ کررہی ہو۔

    ’’ میاں کیا سوچ رہے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کب سے یہ تکلیف ہے تمہیں؟‘‘

    ڈاکٹر اس کی طرف جھکتے ہوئے کہتا ہے۔

    ’’ جناب! مر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا وقت قریب آگیا ہے حضور!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑے عرصے کے بعد میں اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں۔‘‘

    ’’بیہودہ باتیں مت کرو! ہم تمہیں صحت یاب کردیں گے۔

    ’’اس عنایت کیلئے ہم غریب شکر گزار ہیں جناب!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب موت آتی ہے۔ تو پھر اس سے بچنا؟؟‘‘

    ڈاکٹر یافین نصف گھنٹہ معائنہ کرنے کے بعد کہتا ہے۔’’معاملہ میری مدد سے باہر ہے۔ تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم کسی ہسپتال چلے جاؤ۔ وہیں پر تمہارا علاج ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ بس جلدی جاؤ۔۔۔۔۔۔ بہت دیر ہو چکی ہے اور ہسپتال والے سو رہے ہونگے۔۔۔۔۔۔’’ مگر اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ میں تمہیں ایک رقعہ لکھ دیتا ہوں۔

    سنتے ہو یا نہیں؟‘‘

    ’’مہربان جناب! وہ اتنی دور پیدل کس طرح جائے۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس کوئی گھوڑا نہیں‘‘۔ پلیوگیویا نوجوان ڈاکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے۔

    ’’فکر مت کرو۔ میں تمہارے آقا سے کہہ دیتا ہوں۔ وہ تمہیں گھوڑا مہیا کردیگا ۔ڈاکٹر رخصت ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موم بتی بھی رخصت ہو جاتی ہے۔

    اب پھر وہی’’اُف۔اُف‘‘ کی آواز شروع ہو جاتی ہے۔

    کوئی نصف گھنٹہ کے قریب جھونپڑی کے باہر کوئی گاڑی ٹھہرتی ہے۔ یہ گاڑی چھکڑا تھا۔ جو یافین کو ہسپتال لے جانے کے لئے اس کے آقا نے بھیجا تھا۔ یافتن تیار ہو کرچلا جاتا ہے۔ اب دن چڑھ آیا۔ پلیو گیویا گھر پر نہیں۔ کیونکہ وہ یافتن کی خبر لینے کیلئے ہسپتال گئی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ کسی جگہ بچے کے چلاّنے کی آواز آرہی ہے۔ اور وارکا کسی کو اپنی آواز میں ہی گنگناتا ہوا سنتی ہے۔

    ’’سو جا ؤ میرے ننھے چاند سو جاؤ۔۔۔۔۔۔‘‘

    اتنے میں پلیوگیویا واپس آتی ہے۔ اور اپنی چھاتی پر صلیب کا نشان بناتے ہوئے دبی زبان میں کہتی ہے۔’’ ڈاکٹروں نے اسے رات تک کے لئے تو اچھا کردیا۔ مگر صبح کے وقت اس نے اپنی روح خدا کے حوالہ کردی۔۔۔۔۔۔ خدا اس کی روح کو چین بخشے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے بہت دیر بعد ہسپتال لایا گیا۔ اس لئے چاہیے تھا کہ وہ پہلے ہی وہاں چلا جاتا‘‘۔

    وارکاؔ یہ سنتے ہی دیوانہ وار سڑک پر چلاّنا شروع کردیتی ہے۔مگر دفعتاً کوئی شخص اس کے سرپر ایسی ضرب لگاتا ہے کہ اس کی پیشانی ایک درخت کے تنے سے ٹکراتی ہے۔۔۔۔۔۔ آنکھ اٹھا کر دیکھتی ہے۔ تو سامنے اسے اپنا آقا۔۔۔۔۔۔ یعنی پاپوش ساز نظر آتا ہے۔

    ’’نابکار!۔۔۔۔۔۔ بچہ چلاّ رہا ہے اور تم گہری نیند سو رہی ہو‘‘۔ پاپوش ساز وارکا کو سرپر تھپڑ مارتا ہوا کہتا ہے۔

    وارکاؔ سر کو جنبش دے کر جھولا اور ہلانا اور لوری دینا شروع کردیتی ہے۔

    کمرے میں روشنی کے دھبے اور کپڑوں کے سائے کانپتے ہیں۔ اور وارکا کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلاتے معلوم ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد سب چیزیں پھر وارکا کے دماغ پر قابو پالیتی ہیں۔ اب پھر وہ کیچڑ سے بھری ہوئی سڑک دیکھتی ہے۔ جس میں تھیلوں والے شخص گہری نیند سورہے ہیں۔ انہیں سوتے دیکھ کر وارکا کے دل میں بھی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ کہ وہ تھوڑی دیر کیلئے سو جائے۔ مگر اسکی ماں پلیوگیویا اس کے ساتھ ہے جو اسے آگے دھکیل رہی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں نوکری ڈھونڈنے کی خاطر شہر کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

    ’’ خدارا ہمیں کچھ بھیک دیجئے۔۔۔۔۔۔ خدارا ہم پر رحم فرمائیے۔ اس کی ماں راہ گزروں سے مانگتی ہے۔

    ’’ بچے کو یہاں بھیج دو‘‘ ایک مانوس آواز جواب دیتی ہے۔

    وہی آواز دوبارہ پکارتی ہے۔’’ یہ سنتے ہی وار کا اچھل پڑتی ہے۔ اور اپنے اردگرد دیکھتی ہے کہ معلوم کرے معاملہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔ اب نہ وہ بڑی سڑک ہے۔ اور نہ اس کی ماں پلیوگیویا اور نہ ہی وہ شخص جن سے وہ بھیک مانگ رہی تھی۔ اگر کوئی اس وقت کمرہ میں موجود ہے ۔تو اس کی مالکہ جو بچے کو دودھ پلانے کے لیے آئی ہوئی ہے۔

    وارکا کھڑی انتظار کررہی ہے کہ وہ مالکہ کے دودھ پلانے کے بعد بچہ کو پھر لے لے۔ کھڑکیوں سے باہر دھندلی سی روشنی نظر آرہی ہے۔ کمرے میں کپڑوں کے سائے اورر وشنی کے دھبے آہستہ آہستہ زرد ہورہے ہیں۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سورج طلوع ہوگا۔

    ’’اسے لے جاؤ۔۔۔۔۔۔ عرصہ سے چلاّ رہا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس پر جادو کیا گیا ہے‘‘۔ مالکہ اپنے کوٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے کہتی ہے۔

    وارکا بچہ کو لے کر جھولے میں لٹا دیتی ہے اور اسے ہلانا شروع کردیتی ہے۔ روشنی کے دھبے اور سائے قریباً قریباً غائب ہو چکے ہیں۔ اب کمرہ میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں جو اس کے دماغ اور آنکھوں پر اثر پذیر ہوسکے مگر وہ پھر بھی پہلے کی طرح سونا چاہتی ہے۔

    وارکا اپنا سر جھولے کے کنارے رکھ کر کوشش کرتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح نیند پر غلبہ پالے۔ مگر بے سود۔ اس کی آنکھیں ملی جارہی ہیں اور سر بدستور بھاری ہورہا ہے۔

    ’’وارکا انگیٹھی میں کوئلے ڈالو‘‘ وہ دروازہ سے اپنے آقا کی آواز سنتی ہے۔ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ وارکا اٹھ کر گھر کا کام کاج شروع کردے۔۔۔۔۔۔ جھولے کو چھوڑ کرکوئلہ لانے کیلئے بھاگی ہوئی گودام میں جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اب خوش ہے۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ جب بدن حرکت میں ہو تو نیند بہت کم ستاتی ہے۔

    کوئلہ لا کر وہ انگیٹھی گرم کرتی ہے۔ اب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا چوبی چہرہ پھر زندگی اختیار کررہا ہے اور خیالات آہستہ آہستہ صاف ہورہے ہیں۔

    ’’وارکا سماوار گرم کرو‘‘ اس کی مالکہ چلاتی ہے۔

    اس پروارکا لکڑی کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹتی ہے۔ اور ابھی انھیں جلانے نہیں پائی ہوتی کہ ایک تازہ حکم سنتی ہے۔

    ’’وار کا اپنے آقا کے بڑے بوٹ صاف کرو‘‘

    وہ بڑے بوٹوں کو لے کر فرش پر بیٹھ جاتی ہے۔ اور سوچتی ہے کہ کیا ہی اچھا ہو۔ اگر وہ اس بڑے بوٹ میں سر ڈال کر تھوڑا سا آرام کرے۔۔۔۔۔۔ یک لخت وہ بوٹ بڑھنا شروع ہوتا ہے اور سارے کمرہ میں پھیل جاتا ہے۔ وارکا کے ہاتھ سے برش گر پڑتا ہے مگر وہ اسی وقت سر کو جنبش دیکر آنکھیں کھول دیتی ہے۔ اور اپنے گردونواح کی چیزوں کو اس انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ وہ بڑی ہو کر آنکھوں کے سامنے حرکت نہ کریں۔

    ’’وارکا!سیڑھیوں کو دھو ڈالو۔۔۔۔۔۔ اتنی میلی سیڑھیاں دیکھ کر گاہک کیا خیال کریں گے۔ مجھے تو شرم محسوس ہوتی ہے۔

    وارکا سیڑھیوں کے دھونے کے علاوہ کمروں کو بھی صاف کرتی ہے اور پھر دوسرے سماوار کو گرم کرنے کے بعد دکان کی طرف بھاگی جاتی ہے۔

    اسے وہاں بہت کام کرنے ہیں۔اس لئے وہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرسکتی۔

    اس سے بڑھ کر کوئی اور تکلیف دہ کام نہیں ہوسکتا کہ باورچی خانہ میں میز کے قریب بیٹھ کر آلو تراشے جائیں۔ وارکا کا سر میز پر جھکا جارہا ہے۔ آلو اس کی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ چاقو اس کے ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔ اور اس کے کانوں میں مالکہ کی آواز گونج رہی ہوتی ہے ۔جو اس کے قریب قمیض کو کہنیوں تک چڑھائے بلند آواز میں باتیں کررہی ہوتی ہے۔

    سارا دن کپڑے دھونے، برتن صاف کرنے، کھانا چننے اور سینے پرونے میں بسر کرنا بھی آلو تراشنے کی طرح تکلیف دہ ہے۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی ان کاموں سے تنگ آکر وارکا اتنی بیتاب ہو جاتی ہے کہ ننگے فرش پر سو جائے۔

    دن گزر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ کھڑکیوں کو تاریک ہوتے دیکھ کر وارکا کنپٹیوں کو زور سے دباتی ہے۔ جو چوبِ خشک سے تراشی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ سنتی ہے۔ گو اسے خود معلوم نہیں کیوں؟

    شام کی بڑھتی ہوئی تاریکی اس کی نیم وا آنکھوں کیلئے وعدہ خواب لے کر آتی ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد مہمان آجاتے ہیں۔

    ’’وارکا سماوار گرم کرو۔‘‘اس کی مالکہ بلند آوار میں حکم دیتی ہے۔

    چونکہ سماوار چھوٹا ہے۔ اس لئے اسے تمام مہمانوں کو چائے پلانے کیلئے اسے پانچ چھ مرتبہ گرم کرنا پڑتا ہے۔ چائے تقسیم کرنے کے بعد وار کا دوسرے احکام کی منتظر ایک گھنٹہ تک وہاں کھڑی رہتی ہے۔

    ’’وار کا بھاگ کر تین بوتلیں بیر کی خرید لاؤ۔‘‘

    وارکا اس خیال سے کہ تیز دوڑنے سے نیند کا غلبہ دور ہو جائے گا۔ بیر خریدنے کیلئے بھاگی ہوئی جاتی ہے۔

    ’’وارکا تھوڑی سی دود کا ؂ایک قسم کی شراب لاؤ!۔۔۔۔۔۔ وارکا بوتل کھولنے کا اوزار لاؤ!۔۔۔۔۔۔ وارہ اس گلاس کو صاف کرو!‘‘

    آخرش مہما ن رخصت ہو جاتے ہیں۔کمرے کی روشنی گل کر دی جا تی ہے اورآقا و مالکہ دونوں سونے کے لیے چلے جا ہیں۔

    ’’بچے کا جھولا ہلاتی رہو‘‘۔وارکا آخری حکم سنتی ہے۔

    انگیٹھی میں جھینگر دردناک راگ الاپتے ہیں۔ روشنی کے دھبے اور کپڑوں کے سائے کا رقص وارکا کی آنکھوں پر پھر قابض ہو کر اسکے دماغ کودھندلا بنا دیتا ہے۔

    ’’سوجاؤ میرے ننھے سو جاؤ‘‘۔۔۔۔۔۔ وہ گنگنانا شروع کردیتی ہے۔ بچہ چلاتا ہے۔ اور چلاتے چلاّتے تھک جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اب وارکا وہی کیچڑ سے لت پت سڑک، تھیلوں والے مزدور، اپنی ماں پلیوگیویا اور باپ کو دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ان دھندلی تصویروں کو اچھی طرح سجھتی ہے اور سب کو پہچانتی ہے۔مگر نیم خوابی کی حالت میں وہ اس طاقت کو جس نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ جو اس کی چھاتی پر بوجھ ڈال رہا ہے اور اسے زندہ رہنے دیتا، نہیں سمجھ سکتی۔ اس طاقت کی جستجو کیلئے وہ اپنے اردگرد نظر دوڑاتی ہے تاکہ اس کے پنجوں سے بھاگ نکلے۔ مگر بے سود۔ آخر کار اس تلاش سے تنگ آکر وہ اس وقت کو ڈھونڈنے کیلئے آخری کوشش کرتی ہے۔ وہ اپنی تمام قوتیں صرف کردیتی ہے۔

    روشنی کے رقصاں دھبوں اور کپڑوں کے متحرک سائے پر نظر دوڑانے کے بعد وہ اس دشمن کو پالیتی ہے۔ جو اس کی زندگی میںّ سدِراہ ہورہا ہے۔

    وہ دشمن بچہ تھا۔

    وہ ہنستی ہے۔ اس خیال سے کہ ایسے آسان معمہ کا حل وہ اس سے پہلے نہ کرسکی ۔روشنی کے دھبے، کپڑوں کے سائے اور جھینگر بھی مسکراتے اور متحیر معلوم ہوتے ہیں۔

    یہ خیال وارکا کے دماغ پر پوری مسلط ہوجاتا ہے۔چوکی سے اٹھ کر مسکراتی ہوئی،بغیر جھپکنے والی آنکھوں سے کسی موہوم چیز کو دیکھتی ہوئی وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ خوش ہے اور یہ خیال اسکی خوشی کو دوبالا کررہا ہے کہ تھوڑے عرصے کے بعد وہ جس نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں موجود نہ ہوگا، بچے کی موت کے بعد نیند۔۔۔۔۔۔نیند۔۔۔۔۔۔نیند۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    روشنی کے دھبوں کو دیکھ کر ہنستی، آنکھیں جھپکاتی اور انگلیوں کو حرکت دیتی ہوئی وارکا بچے کے جھولے کی طرف بڑھتی ہے۔

    بچے کوہلاک کرکے وہ فوراً زمین پر لیٹ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ خوشی کی وجہ سے ہنستی ہے کہ وہ اب آرام سے سوئے گی۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد وہ گہری نیند سو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ موت کی گہری نیند۔

    *****

    کہانی:چیخوف

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے