خزاں کی ایک رات
موسم خزاں کی ایک رات کا ذکرہے، میں عجیب بے اطمینانی اور بے چینی کی حالت میں تھا۔ جس قصبے میں مَیں ابھی ابھی وارد ہوا تھا اور جہاں میں کسی متنفس سے بھی واقف نہ تھا، میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ میری جیب میں ایک پائی نہ تھی اور رات بھر کا بسیرا میسّر نہ تھا۔
پہلے چند روز میں میں نے اپنے لباس کا ہر وُہ حصہّ بیچ کھایا جس کے بغیر میں ادھر اُدھر جا آسکتا تھا۔ پھر شہر کو چھوڑ کر اس حصے میں چلا آیا جہاں دفانی جہازوں کے گھاٹ بنے ہوئے ہیں وہ حصہ جو جہاز رانی کے زمانے میں زندگی کی جدوجہد کا مرکز بنا رہتا ہے۔ لیکن جو اب خاموش اور سنسنان تھا۔ کیونکہ یہ ماہ اکتوبر کے آخری دن تھے۔
گیلی گیلی ریت پر اپنے پاؤں کو گھسیٹتے ہوئے کہ شاید اس میں کسی قسم کی خوراک کا کوئی ٹکڑا دبا ہوا ہو، میں تن تنہا خالی مکانوں اور گوداموں میں گھوم رہا تھا اور دل ہی دل میں یہ خیال کررہا تھا کہ کیا اچھا ہو اگر پیٹ بھر کر کھانے کو مل جائے۔
موجودہ تہذیب و تمدن کو دیکھ کرہمارا دل سیر ہو جاتا ہے لیکن ہمارا جسم بھوکا ہی رہتا ہے۔ بازاروں میں جاؤ، وہاں عالی شان عمارتوں میں گھر جاؤ گے۔اور ان کا نظارہ فنِ تعمیر، ترقی معاشرت اور ایسے ہی بلند پروازی کے دوسرے موضوعات پر تمہارے خیالات کے لئے تقویت بخش ثابت ہوگا۔ تم کو عمدہ عمدہ گرم لباسوں لپٹے ہوئے لوگ ملیں گے بڑے نرمی سے بات کرنے والے بڑی حکمت سے کنی کتر کے نکل جانے والے، تمہارے ننگِ زمانہ وجود سے نامعلوم طریقے پر نظریں پھیر لینے والے ہاں، ہاں ایک بھوکے آدمی کا دل ہمیشہ اس شخص سے زیادہ تندرست اور توانا ہوتا ہے جسے پیٹ بھر کر کھانے کو ملتا ہو اور عسرت ہی وہ صورت حال ہے، جس میں ہمیں ان لوگوں کی بہبود کا خیال آتا ہے جن کا وقت فاقہ مستی میں کٹتا ہے۔
شام کا سایہ بڑھتا چلا آتا تھا۔ مینہ برس رہا تھا اور شمال کی تیز و تند ہوا چل رہی تھی۔ خالی بیٹھکوں اور دوکانوں میں اس کے گزرنے سے چیخوں کی سی آواز پیدا ہوتی تھی اور دریا کی لہریں جو شور مچاتی ہوتی ریتلے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں اس کے طمانچوں سے کف آلود ہو جاتی تھیں۔ اُچھل اُچھل کر گرتی پڑتی، ایک کے پیچھے ایک ہو کر دھندلی دُوریوں کی طرف بھاگی جاتی تھیں، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دریا جاڑے کی شکل دیکھتے ہی بے تحاشا بھاگ ہے کہ کہیں شمال کی برفانی ہوا اپنی بیڑیاں آج ہی رات اس کے پاؤں میں نہ ڈال دے۔ آسمان بوجھل اور تاریک ہورہا تھا اور اس پر سے مینہ کے باریک باریک قطرے لگاتار گررہے تھے۔ نیچر کا غم انگیز ماتمی گیت بیدِ مجنوں کے دوبدشکل درختوں اور ایک اوندھی پڑی ہوئی اور ان درختوں سے بندھی ہوئی کشتی کی موجودگی سے اور بھی مؤثر ہوگیا تھا۔
الٹی ہوئی کشتی کا پیندا ٹوٹا ہوا تھا اور خراب و خستہ بوڑھے درخت جنکے برگ و ساز سرد ہوا لوٹ لے گئی تھی بلکہ ہر وہ چیز جو میرے اردگرد پھیلی تھی مفلوک الحال، ابتر اور بے جان نظر آتی تھی اور اس نظارے کو دیکھ دیکھ کر آسمان کے آنسو نہ تھمتے تھے۔۔۔۔۔۔ ہر چیز تیر وتار ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر چیز مرچکی ہے اور صرف میں اکیلا زندہ رہ گیا ہوں اور میرے لئے بھی موت کا یہ زہر یر انتظار کررہا ہے۔
اس وقت میری عمر اٹھارہ برس کی تھی۔۔۔۔۔۔ کیا ہی زمانہ تھا؟
میں سرد گیلی ریت پر بہت دور تک چلا گیا۔ سردی اور بھوک کے اعزاز میں میرے دانت ایک ساز کی طرح بج رہے تھے۔ایک جگہ خالی الماریوں کے پیچھے میں کوئی کھانے کی چیز تلاش کررہا تھا کہ یکایک میری نظر ایک انسانی صورت پرپڑی۔ اس کا نسوانی لباس بارش کی وجہ سے تربہ تر ہوکر اس کے جھکے ہوئے کندھوں سے پیوست ہوگیا تھا۔ میں چپ چاپ کھڑا دیکھتا رہا کہ وہ کیا کرتی ہے، معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے ریت میں کوئی خندق سی کھود رہی ہے۔
’’تم یہ کیا کررہی ہو؟‘‘ میں نے اس کے قریب جا کرکہا۔
ایک ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی اور وہ کھڑی ہوگئی۔ اب کہ وہ خوف سے بھری ہوئی بڑی بڑی نیلی آنکھیں کھولے میرے سامنے کھڑی تھی میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی ہے، میری ہی عمر کی، جس کے روشن چہرے کو تین بڑے بڑے نیلے داغوں نے گہنا رکھاہے۔ گو ان داغوں کی تقسیم اُس کے چہرے پر نہایت موزونیت اور تناسب کے ساتھ ہوئی تھی پھر بھی انہوں نے اس کے حسن کو چھپا دیا تھا۔ تینوں اپنی اپنی جگہ اکیلے اکیلے نمایاں تھے۔ سب جسامت میں تقریباً برابر تھے دو آنکھوں کے نیچے اور ایک جو بڑا تھا پیشانی پر ناک کے عین اوپر بلاشبہ یہ کام تھا کسی اس حسن کار کا جو انسانی صورتوں کو بگاڑنے کا خُوگر ہو۔
وہ میری طرف دیکھتی رہی اور اس کی آنکھوں میں سے وحشت آہستہ آہستہ مفقود ہوتی گئی۔۔۔ اس نے ہاتھوں پر سے ریت جھاڑی سر کے سُوتی رومال کو ترتیب سے باندھا، پھر ذرا جھکی اور کہا-:
’’میں سمجھتی ہوں کہ تمہیں بھی کھانے کیلئے کچھ چاہئے، تو پھر اس جگہ کو کھودو، میرے ہاتھ تھک گئے ہیں یہاں!‘‘ اس نے اپنے سر کی جنبش سے ایک دوکان کی طرف اشارہ کیا ’’ یہاں روٹی کا مل جانا یقینی ہے۔۔۔ اور سالن کا بھی۔۔۔ یہ دوکان ان دنوں بھی کھلی ہے‘‘
میں زمین کھودنے لگا۔ کچھ دیر ٹھہر کر وہ میری طرف دیکھنے کے بعد وہ میرے قریب بیٹھ گئی اور مجھے مدد دینے لگی۔
ہم خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے، میں اب نہیں کہہ سکتا کہ اُس وقت جُرم، قانون، ملکیت اور ایسی ہی وہ تمام باتیں جن کے متعلق تجربہ کاروں کی رائے ہے کہ زندگی کے ہر لمحے میں ملحوظ رہنی چاہئیں میرے خیال میں تھیں یا نہیں صداقت کے انتہائی قریب رہتے ہوئے میں اقرار کرتا ہوں کہ میں کھودنے میں اتنا منہمک تھا کہ اس ایک بات کے سوا کوئی دوسری بات میرے وہم و خیال میں بھی نہ آتی تھی کہ اس الماری کے اندر کیا ہوگا۔
شام کا سایہ پھیلتا گیا، چاروں طرف کہر کی تاریکی چڑھتی گئی، موجوں کا شور بھاری ہوتا گیا اور مینہ کے چھینٹے الماری کے تختوں پر پہلے سے بلند آواز کے ساتھ گرنے لگے کبھی ادھر کبھی اُدھر سے پہرہ داروں کی آوازیں آنے لگیں۔
’’اس کا کوئی پتہ بھی ہے؟‘‘ اُس نے آہستہ سے پُوچھا۔ میں نہ سمجھ سکا کہ اس نے کیا کہا۔ اس لئے میں خاموش رہا۔
’’میں کہتی ہوں، اس الماری کی کوئی تہہ بھی ہے؟ کہیں یہ نہ ہوکہ ہم کھودتے کھودتے ایک خندق بنا دیں اور یہ نتیجہ ہو کہ الماری کے نیچے بھی لکڑی کے مضبوط تختے لگے ہوں۔ ایسی صورت میں ہم کیوں کر انہیں اکھاڑ سکیں گے؟ بہتر ہو کہ تالے توڑ ڈالیں اس ناکارہ تالے کو‘‘
عورتوں کو عمدہ خیالات شاذونادر ہی سوجھتے ہیں لیکن کبھی کبھی سُوجھ ضرور جاتے ہیں۔ میں نے عمدہ خیالات کی ہمیشہ قدر کی ہے اور ہمیشہ جہاں تک ممکن ہوسکا اس سے مستفید ہونے کی کوشش کی ہے۔
میں نے تالے کو پکڑ کر اس زور سے مڑوڑا کہ وہ کنڈی سمیت اُکھڑ آیا وہ جھپٹ کر آگے بڑھی اور الماری کا جائزہ لیتی ہوئی مجھ سے یوں کہنے لگی۔
تم تو لوہار ہو، لوہا!‘‘
آج کسی عورت کا ایک چھوٹا سا تعریفی فقرہ ہیرے لئے اس مرد کے بڑے سے بڑے قصیدے سے زیادہ قدرو قیمت رکھتا ہے، جس میں تمام قدیم اور جدید لسانیات جمع ہوں، لیکن اس وقت میرے مزاج میں اکھڑ پن تھا اور اب اس کی اصلاح ہو چکی ہے، چنانچہ اس کی تحسین و تعریف پر کان نہ دھرتے ہوئے، میں نے بے تابانہ اس سے سوال کیا۔
’’اس میں کچھ ہے بھی؟‘‘
وہ ایک بے کیف آواز کے ساتھ سب چیزوں کو گننے لگی
’’ٹوکری بھر بوتلیں۔۔۔۔۔۔ پوستینیں۔۔۔۔۔۔ ایک چھتری۔۔۔۔۔۔ لوہے کی ایک گڑوی‘‘
ان میں کھانے کی کوئی چیز نہ تھی، میری تمام امیدیں مٹ گئیں لیکن یکا یک وہ شگفتہ خاطر ہوکربولیں
’’آہا، یہ لو!‘‘
’’کیا؟‘‘
’’روٹی۔۔۔۔۔۔ ایک روٹی۔۔۔۔۔۔ صرف بھیگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ لو!‘‘
اس نے اسے میری طرف پھینک دیا اور پھر خود بھی چلی آئی، اس کے آنے تک میں نے ایک بڑا سا لقمہ دانتوں سے توڑ کر اپنا منہ بھر لیا تھا اور اب اسے چبا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
’’آؤ، اس میں سے تھوڑی سی مجھے بھی دے دو۔۔۔ اور ہمیں یہاں ٹھہرنا نہیں چاہئے۔۔۔ لیکن ہم کہاں جائیں‘‘ وہ ہر طرف متفسرانہ نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔ فضا میں تاریکی، نمی اور شور تھا۔
’’دیکھو، وہ ایک الٹی ہوئی کشتی پڑی ہے۔۔۔۔۔۔ آو، وہاں چلیں‘‘
’’چلو‘‘
اور ہم چل پڑے۔۔۔۔۔۔ اپنے مالِ غنیمت کے حصے بخرے کرتے ہوئے اور اس کے بڑے ٹکڑوں سے اپنے کلّوں کو بھرتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ بارش اور تیزہوگئی، دریا رعد کی طرح گرجنے لگا۔ کہیں نہ کہیں ایک مسلسل مضحکہ اڑانے والی سیٹی بج رہی تھی۔۔۔ بالکل اس طرح جیسے کوئی بالا و برتر ہستی، جسے کائنات میں کسی کا خوف نہ ہو تمام زمینی سرگرمیوں کی، خزاں کی اس ہیبتناک رات کی، اور ہماری، جو اس طوفانی رات کے ہیرو ہیں، ہنسی اڑا رہی ہے۔ اس ہنسی کو سن کر میرا دل پارہ پارہ ہوگیا. مگر اس کے باوجود اپنی روٹی حریصانہ کھاتا رہا اور یہ لڑکی جو میرے بائیں جانب ساتھ ساتھ چل رہی تھی مگر اس معاملے میں بھی میرے قدم بہ قدم جارہی تھی۔
میں نے ابھی تک اس کا نام دریافت نہ کیا تھا۔ اب میں نے کہا’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’نتاشا‘‘ اس نے جھوٹ جواب دیا۔
میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔، میرے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھی اور پھر میں نے اپنی نظریں رات کی تاریکی کی طرف پھیر لیں اور مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میری قسمت کی بد اندیش صورت میری طرف دیکھ دیکھ کر عجیب پُر اسرار اور بے رحمانہ انداز سے مسکرا رہی ہے۔
مینہ کشتی کے تختوں پر تازیانوں کی طرح مسلسل پڑ رہا تھا۔ اُس کی ہلکی ٹپ ٹپ غم والم کے خیالات برانگیختہ کررہی تھی، اور ہوا جب کشتی کی ایک درز میں سے اس کے ٹوٹے ہوئے پیندے میں داخل ہوتی تھی تو اس میں سے ایک عجیب اضطراب انگیز اور اداس آواز اٹھتی تھی۔ دریا کی لہریں آکر ساحل سے ٹکراتی تھیں تو ان میں سے ایک بھیانک اور مایوس کن صدا پیدا ہوتی تھی، اس طرح جیسے وہ کوئی رنج وہ ناقابل برداشت کہانی سنا رہی ہیں، جو خود ان کی ہمتوں کو توڑ توڑ کررکھ دیتی ہے۔ ایسی کہانی جس کو سُنائے بغیر وہ بھاگ جانا چاہتی ہیں لیکن جس کو سنانے پر مجبور ہیں۔ بارش کی آواز دریا کی آواز سے مل کر ایک آہِ مسلسل بن جاتی تھی جو اوندھی کشتی کے اوپر تیرتی ہوئی معلوم ہوتی تھی جفا کش، زخمی دل اور خستہ و ماندہ زمین کی وہ بے اختتام آہ جو تاباں و درخشاں بہار میں سے نکل کر سرد، کُہر آلود اور تاریک خزاں کی منزل سے گزرتے وقت اس کے سینے سے نکلتی تھی۔ ہوا سنسنان اور کف انگیز دریا پر چل رہی تھی چل رہی تھی اور اپنے المناک راگ گائے چلی تھی تھی۔
کشتی کی اوٹ میں ہم بالکل بے آرامی کی حالت میں پڑے تھے۔ یہ تنگ تھی اور بھیگ رہی تھی، ٹوٹے ہوئے پیندے میں سے بارش کے چھوٹے چھوٹے سرد قطرے ٹپکتے تھے اور ہوا کے سرد جھونکے اندر داخل ہوتے تھے۔ ہم خاموش بیٹھے اور سردی سے کانپ رہے تھے۔ پھر مجھے نیند کا خیال آیا۔ نتاشا کشتی سے سہارا لگائے گچھم گچھا ہواہو کر ایک چھوٹی سی گنپد بنی بیٹھی تھی۔ بانہوں کو گھٹنے کے گرد لپیٹے اور ٹھوڑی کو گھٹنوں پر ٹکائے وہ اپنی کشادہ آنکھوں سے دریا کی طرف گھُور رہی تھی، اس کی آنکھیں اُس کے زرد چہرے پر نیلے داغوں کی وجہ سے اور بھی بڑی معلوم ہورہی تھیں۔ وہ بالکل بے حرکت ہورہی تھی اور میں محسوس کرنے لگا کہ یہ سکون و سکوت میرے اندر رفتہ رفتہ اسکی طرف سے خوف پیدا کررہا ہے۔ میں اس سے گفتگو کرنا چاہتا مگر کیوں کرشروع کروں۔
’’زندگی کیسا دکھ ہے!‘‘ اس نے نہایت صفائی، محویت اور یقین کے لہجے میں کہا۔
لیکن یہ شکایت نہ تھی، ان الفاظ کو کچھ ایسی بے اعتنائی سے ادا کیا گیا تھا کہ ان میں شکایت کا شائبہ بھی معلوم نہ ہوتا تھا۔ اس سادہ اور بے لوث روح نے زندگی پر اپنی سمجھ کے مطابق غور کیا تھا غور کیا تھا اور ایک نتیجے یر پہنچ کر اسے بلند آہنگی سے بیان کردیا تھا، میں اس کی تردید نہ کرسکتا تھا۔ کیونکہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ میری اپنی تردید ہوتی۔ اس لئے میں خاموش رہا اور وہ اسی طرح بے حرکت بیٹھی رہی۔
’’کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ اگر ہم زندگی کو بُرا بھی کہدیں؟‘‘ نتاشا نے پھر کہا۔
اس دفعہ بھی اس کے لہجے میں شکایت کا کوئی پہلو نہ تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ زندگی کے متعلق ان خیالات کے اظہار کے وقت اس کے پیش نظر اسکی اپنی ذات تھی اور اسے یقین ہو چکا تھا کہ اپنے آپ کو زندگی کی تضحیک داستہزا سے بچانے کیلئے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتی کہ اس کی تحقیر کرے۔
یہ سلسلہ خیالات میرے لئے ناقابلِ بیان طور پر غم انگیز اور پُر درد تھا اور میں نے محسوس کیا کہ اگر میں اب بھی خاموش رہا تو عجب نہیں کہ میں ظاہر اطور پررونے لگوں اور ایک عورت کے سامنے یہ حرکت کیسی شرمناک معلوم ہوتی، خصوصاً ایسی صورت میں کہ وہ خود رونہ رہی تھی، میں اس سے باتیں کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔
’’ اور وہ کون تھا جس نے تمہیں پیٹا تھا؟‘‘ میں نے جھٹ کہہ دیا، کیوں کہ میں اس سے کسی زیادہ دقیق اور لطیف بات کے سوچنے کا انتظار کرنا تھا۔
’’یہ سب پاشکا کی مہربانی تھی!‘‘ اس نے سادہ لوحی سے کہا
’’وہ کون ہے؟‘‘
’’اسے مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔۔۔ وہ نانبائی کا کام کرتا ہے۔‘‘
’’کیا وہ اکثر تمہیں مارتا ہے؟‘‘
’’جب کبھی وہ شراب کے نشے میں ہوتا ہے، وہ مجھے مارتا ہے۔۔۔۔۔۔ اکثر!‘‘
اب یکایک اس نے میری طرف مڑ کر اپنے متعلق/ پاشکا کے متعلق اور اپنے باہمی تعلقات کی نسبت باتیں شروع کردیں کہ وہ ایک نانبائی تھا اسکی مونچھیں سرخ تھیں اور وہ ستار بہت اچھی بجاتا تھا۔ وہ اکثر اُس سے ملنے آتا تھا اور اسے اس سے ملکر بڑی خوشی ہوتی تھی. کیونکہ یہ خوش طبع چھوکرا عمدہ اور نفیس لباس پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک واسکٹ تھی، جس پر اس کے پندرہ رویل خرچ آئے تھے اور ایک بہت خوبصورت مخملی بوٹ بھی تھا۔۔۔ یہ تھیں وہ تمام باتیں جنہوں نے اس سیدھی سادھی لڑکی کا دل موہ لیا تھا اور اس کی نظروں میں اعتبار پیدا کرلیا تھا۔ اسی اعتبار وہ اس سے وہ تمام نقدی اڑا لے جاتا تھا جو اسے گھر سے ملتی تھی، لیکن اس کی وہ ذرا برابر پروا نہ کرتی اگر وہ اس کی آنکھوں کے سامنے دوسری لڑکیوں کیے پیچھے نہ بھاگتا پھرتا۔
’’اب کیا یہ میری توہین نہ تھی؟ میں دوسری لڑکیوں میں صورت شکل میں تو کم نہیں، یقیناً اس کے یہی معنے تھے کہ وہ مجھ سے مذاق کرتا ہے، نابکار-:
کل کی بات ہے میں اپنی مالکہ سے تھوڑی دیر اجازت لے کر اس کے پاس گئی اور وہاں میں نے دیکھا کہ دمکا شراب پی کر بدمست ہورہی ہے اور پاشکا کی عقل بھی سمندر پار پہنچی ہے۔ میں نے کہا’’او ذلیل کمینے!‘‘ اس پر اس نے مجھے خوب سزا دی۔ وہ مجھے لاتوں اور مکوں سے مارتا رہا اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا رہا. لیکن یہ سب اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ جو بعد ہوا۔ اس نے میرا سارا لباس اتار لیا اور جب چھوڑا تو میں اس حالت میں بھی جو میری اب ہے! اب کیسے میں اپنی بیگم کے سامنے جاسکتی تھی؟ اس نے میری تمام چیزیں چھین لیں۔۔۔ میرا جاکٹ بھی لے لیا۔ یہ ابھی بالکل نیا تھا، ابھی چند روز ہوئے میں نے اس پر ایک پنجہ خرچ کیا تھا۔۔۔ اس نے میرے سر سے رومال بھی اتار لیا۔۔۔’’ او میرے خدامیرا اب کیا انجام ہوگا۔‘‘وہ یکا یک ایک آزردہ اور درد مند آواز میں چلا اٹھی۔
ہوا چیخیں مارتے ہوئے چلنے لگی۔ اور زیادہ سرد اور نم آلود ہوگئی۔۔۔۔۔۔ میرے دانت پھر اُچھل اُچھل کررقص کرنے لگے۔ وہ سردی سے بچنے کیلئے میری جانب چلی آئی اور میرے جسم سے لگ کر مجھ سے اتنی قریب ہوگئی کہ اندھیرے میں مجھے اس کی آنکھوں کی چمک نظر آنے لگی۔
’’کیسے کم بخت ہو تم تمام مرد! میرا بس چلے تو تم سب کو بھٹی میں ڈال کرجلا دوں، تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں، اگر تم میں سے کوئی مرررہا ہو تو اس کے منہ میں تھوک دوں اور اس کی پشتہ بھر بھی پروا نہ کروں۔۔۔ کمینے کتے! تم تو خوشامدیں اور چاپلوسیاں کرتے ہو، کتوں کی طرح دُمیں ہلا ہلا کر ہماری طرف آتے ہو اور ہم نادان اپنے آپ کو تمہارے حوالے کردیتے ہیں۔۔۔ اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنی ہستی کو کھو بیٹھی ہیں، پھر ذرا سی دیر بھی نہیں گزرتی کہ تم ہمیں اپنے پیروں تلے روندنا شروع کردیتے ہو بدنصیبو، بدبختو!!‘‘
وہ ہمیں بُھرا بھلا کہہ رہی تھی لیکن اس کے بُرا بھلا کہنے میں کوئی طاقت، کوئی دشمنی، کوئی نفرت نہ تھی، اس کی گفتگو کا لہجہ کسی طرح بھی اس کے موضوع کا ہم آہنگ نہ تھا، کیونکہ اس میں کامل سکون تھا اور اسکی آواز خطرناک حد تک دھیمی تھی۔
مگر ان سب باتوں نے مجھ پر اتنا اثر کیا کہ قنوطیتّ کی وہ فصیح تریں کتابیں اور تقریریں بھی نہ کرسکیں. جن کا متعدبہ حصہ میں پڑھ چکا تھا اور جنہیں آج تک میں پڑھ رہا تھا. اور یہ اس لئے کہ ایک مرتے ہوئے انسان کا درد و کرب اپنے اندر بہت زیادہ حقیقت اور قوت رکھتا ہے. بہ نسبت موت کی اُس تصویر کے جسے کسی نے اپنے الفاظ کے باریک قلم سے کھینچ کر رکھ دیا ہو۔
میں اپنی حالت کو حقیقت میں ابتر محسوس کرنے لگا۔ نتاشا کی گفتگو سے متاثر ہوکر نہیں، بلکہ سردی کی شدت کی وجہ سے میں کراہنے لگا اور دانت پیسنے لگا۔
اسی وقت دو چھوٹے چھوٹے ہاتھ میری طرف بڑھے ایک میری گردن کے گرد حمائل ہوگیا اور دوسرا میرے چہرے پر آلگا۔۔۔ اور ساتھ ہی کسی نے فکر مند نرم اور شیریں اور دوستانہ آواز میں پُوچھا۔
’’تمہیں کیا چیز دُکھ دے رہی ہے؟‘‘
میں یہ یقین کرلینے پر تیار تھا کہ مجھ سے یہ سوال کرنے والا اُس نتاشا کے سوا کوئی دوسرا بھی ہے، جس نے ابھی ابھی تمام مردوں کو بے حمیتّ ظاہر کیا تھا اور ان کو تباہ و برباد کردینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ لیکن یہ وہی تھی اور اب وہ جلد جلد اور تیزی سے بولنے لگی تھی-:
’’تمہیں کون سی چیز دکھ دے رہی ہے؟ کیا تمہیں سردی لگ رہی ہے؟ کیا تم ٹھٹھررہے ہو؟ آہ! تم یوں ایک ننھے اُلو کی طرح بیٹھے ہوئے کیسے عجیب معلوم ہورہے ہیں۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نے بتایا کہ تمہیں سردی ستا رہی ہے۔ آؤ۔۔۔ یہاں لیٹ جاؤ اور میں تمہارے ساتھ لیٹ جاؤ گی۔۔۔ ہاں یونہی، اب اپنی بانہیں میرے گرد لپیٹ لو۔۔۔ کَس کر! اب بتاؤ؟ اب تم بہت جلد گرم ہو جائے گا۔۔۔ پھر ہم ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کرکے سو جائیں گے۔۔۔ رات بہت جلد گزر جائے گی۔۔۔ تم دیکھنا یہ کتنی جلد گزر جائے گی، میں کہتی ہوں۔۔۔ کیا تم بھی شراب پیا کرتے تھے؟۔۔۔ کیا تم سے بھی کام چھین لیا گیا ہے؟۔۔۔ تُم قطعاً پروا نہ کرو؟‘‘
اس نے مجھے آرام پہنچایا۔۔۔ میری ہمت بڑھائی۔
لعنت ہو، میری اس زندگی پر! میری اس ایک مصیبت میں مصائب کی ایک دنیا بستی تھی! ذرا تصور کرو، میں، جو انسانیت کے انجام پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے میں مصروف رہتا تھا، نظامٍ تمدن کو از سر نو ترتیب دینے کی تجویزیں سوچا کرتا تھا، سیاسی انقلابات کے خیالات اپنے دماغ میں بسایا کرتا تھا۔ ان کتابوں کو پڑھا کرتا تھا، جنہیں شیطان صفت حکمت و فراست سے لکھا گیا تھا۔ اور جن کی اتھاہ گہرائی تک خود مصنفین کا دماغ بھی نہ پہنچ سکا ہوگا۔
میں، جو اپنی تمام قوت سے کوشش کررہا تھا کہ اپنے آپ کو ایک ذی اختیار عملی اشتراکی طاقت بناؤں، بلکہ یہ محسوس کررہا تھا کہ میں نے ایک حد تک اپنے مقصد کی تکمیل کرلی ہے، میں جو اپنے خیال میں اس مقام تک پہنچ چکا تھا جہاں میں نے سمجھ رکھا تھا کہ مجھے زندہ رہنے کا ایک امتیازی حق حاصل ہے اور مجھ میں وہ عظمت موجود ہے جو اس حق کو ثابت کرتی ہے۔ اور میں دنیا کے عظیم الشان تاریخی کارناموں میں ایک اور کارنامے کا اضافہ کرنے کے بالکل قابل ہوں، یہاں پڑا تھا اور ایک عورت مجھے اپنے جسم کی حرارت سے گرما رہی تھی، ایک مفلوک الحال، بے سروسامان، ستائی ہوئی ہستی جس کی عرصہ حیات میں کوئی قدر وقیمت نہ تھی اور جس کی مدد کرنے کا مجھے خیال تک نہ آیا تھا، یہاں تک کہ خود اُس نے خود میری مدد کی۔ اور اگر مجھے مدد کا خیال آ بھی جاتا تو یقیناً میں یہ نہ جان سکتا کہ وہ کیونکر ہوسکتی ہے۔
میں یہ مان لینے پر تیارتھا کہ یہ کوئی خواب ہے جو مجھ پر گزر رہا ہے ایک ناخوشگوار اور اندوہگین خواب۔
لیکن آہ! میرے لئے یہ خیال کرنا ناممکن تھا، کیونکہ بارش کے سرد سرد قطرے مجھ پر پڑ رہے تھے۔وہ مجھے سردی سے بچا رہی تھی اور اُس کی گرم گرم سانس میرے منہ سے چھو رہی تھی۔ بارش کے قطرے تیروں کی طرح کشتی پر پڑ رہے تھے لہریں ساحل سے ٹکرا رہی تھیں اور ہم دونوں سردی سے اکڑے ہوئے اور کانپتے ہوئے ایک دوسرے سے لپٹ رہے تھے۔ اس ساری کیفیت پر مجاز کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا اور مجھے یقین ہے کہ آج تک کسی نے ایسا گراں بار اور ہولناک خواب کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ جیسی یہ حقیقت تھی۔
مگر نتاشا لگاتار ادھر ادھر کی باتیں کررہی تھی ملاطفت اور ہمدردی کی باتیں، جیسی صرف عورتیں کرسکتی ہیں۔ اس کی آواز اور الفاظ کے تاثرات ایک ہلکی سی آگ کی طرح میرے سینے میں سلگنے لگے اور میرا دل پگھلنے لگا۔
پھر آنسو میری آنکھوں سے طوفانِ باراں کی طرح گزرنے لگے جنہوں نے بہت سی بدیوں، بہت سی حماقتوں اور بہت سے غموں کی گرد کو میرے دل سے دھو ڈالا۔ جو اس رات سے پہلے اس پر جم رہی تھی۔نتاشا مجھے تسلی دے رہی تھی۔
’’بس، بس ننھے میاں اب چپ ہوجاؤ، خدا تمہیں اور موقع دے گا۔۔۔ تم اپنی اصلاح کرلو گے اور اپنے حقیقی مقام پر پھر کھڑے ہوگے۔۔۔ اور سب کام اچھے ہو جائیں گے۔۔۔‘‘
اور وہ مجھے چومتی جاتی تھی جس طرح ماں اپنے بچے کو چومتی ہے۔۔۔ بے نفس اور بے غرض ہوکر۔
’’بس اپ چُپ ہو جاؤ مجھے تمہاری صورت دیکھ کر ہنسی آرہی ہے صُبح ہونے دو، میں تمہارے لئے آپ کوئی جگہ تلاش کروں گی، اگر تم نہیں کرسکے۔‘‘ اُس کی یہ پُر سکون اور ہمت افزا سرگوشیاں میرے کانوں میں اس طرح گونج رہی تھیں جسے یہ کوئی خواب ہو،
صبح ہونے تک ہم وہیں پڑے رہے۔۔۔
اور جب صبح ہوئی، ہم کشتی کے پیچھے سے نکلے اور شہر کو چلے گئے۔۔۔پھر ہم نے ایک دوسرے سے دوستانہ طریق پر رخصت حاصل کی اور اس کے بعد کبھی نہ مل سکے، گو پورے چھ ماہ تک میں نے اس ہمدرد نتاشا کیلئے شہر کا کونہ کونہ چھان مارا، جس کے ساتھ میں نے خزاں کی یہ رات گزاری تھی۔
اگر وہ مرچکی ہے اور اس کے لئے اچھا ہے اگر وہ مر چکی ہے تو وہ یہ ابدی نیند امن کے ساتھ سوئے. اور اگر وہ زندہ ہے تو پھر بھی میں یہی کہونگا۔
کہ اُس کی روح پر سلام ہو اور اس کی روح کو کبھی دنیا کی پستی کا احساس نہ ہو۔۔۔ کیونکہ اگر زندہ رہنا ہے تو یہ احساس زندگی کا ایک بے مصرف اور بے حاصل دُکھ ہے۔
*****
کہانی:گورکی
- کتاب : Gorky Ke Afsane
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.