(اس کہانی کا مصنف الفیم ذوذولیا روس کا پہلا طنزیہ نگار(Satirist) ہے الفیم ۱۸۹۱ ء میں پیدا ہوا۔ اس نے اپنی تعلیم کا زمانہ اوڈز نامی تجارتی گاؤں میں بسر کیا۔ اس کی تیز قوتِ مشاہدہ کی وجہ سے اس کی دیہاتی زندگی کا اس کے کردار اور اس کی تخلیقی تحریروں پر بہت اثر پڑا۔ چونکہ الفیم انقلابی سرگرمیوں میں بڑی گرم جوشی سے حصہ لیا کرتا تھا اس لئے وہ کئی بار جیل کی اندرونی ہوا کھا چکا ہے۔
الفیم کچھ عرصہ بورڈ نویسوں کا کام بھی کرتا رہا ہے۔ اسے شروع ہی سے فلسفے اور جمالیات کے مطالعے کا بہت شوق رہا ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں اس نے افسانے قلم بند کرنے شروع کیے مگر کچھ عرصے کے بعد اس پیشے کو صرف اس خیال سے چھوڑ دیا کہ ایک ادیب کے لیے سنجیدہ ہونا از بس ضروری ہے۔ مگر اس کے بعد اس نے پھر ادب کی طرف توجہ دی اور اب کی دفعہ چھوڑنے کا خیال نہ کیا۔ اس کے ابتدائی مضامین اخباروں میں چھپا کرتے تھے۔ الفیم دنیائے ادب سے متعارف ہو کر اچھا نام پیدا کرچکا ہے۔ اس کی تمام تحریریں ان دنوں کتابی صورت میں شائع ہورہی ہیں۔ اس کی کہانیوں کو دو حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے۔ پہلی وہ جو حقیقت پر مبنی ہیں اور دوسری وہ جن میں طنز کی چاشنی ہے۔’’ماں‘‘ دوسری قسم میں سے ہے۔ الفیم کی طرز تحریر فرانسیسی انشا پرداز اناطول فرانس سے کسی حد تک ملتی جلتی ہے۔) سعادت
وہ ٹھنگنی،نحیف اور ایک بچے کی طرح چڑچڑی تھی۔ اس کی بیٹی نسیٹیا کے متعلق صرف اس قدر کہا جا سکتا ہے کہ وہ مضبوط، چوڑی چکلی کمر والی لڑکی، نوجوان کہلانے کی مستحق نہ تھی۔
شام کا وقت تھا۔ بیٹی گھر کو، جو ایک کمرے اور ایک باورچی خانے پر مشتمل تھا، جلدی جلدی صاف کرنے میں مصروف تھی۔ ماں کمرے کے درمیان کھڑی اپنے بدنما چہرے کو ہاتھ کی ہتھیلیوں میں چھپائے بڑبڑا رہی تھی۔
’’کسے معلوم تھا کہ میں اس کوڑے کو جنم دوں گی۔۔۔۔۔۔ تو مجھے ابھی سے قبر میں دھکیل رہی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر کیا ہوا تیر ابھی وقت آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ تجھے اس وقت معلوم ہوگا جب وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔‘‘
وہ نفرت سے بڑبڑائے جاتی ہے مگر نسیٹیا اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتی۔ وہ بڑی بے تابی سے کبھی کھڑکیوں کے پردے درست کرتی ہے، کبھی میز کی بھوری درازوں کو صاف کرتی ہے، اور کبھی مکھیوں سے اٹی ہوئی چند تصویروں کی گرد جھاڑتی ہے۔
یہ تصاویر چند خوبصورت نوجوانوں کی ہیں جن کے چہرے خوفزدہ معلوم ہوتے ہیں۔ یہ خوف کیمرے کے سامنے بیٹھنے کے احساس کا نتیجہ ہے۔
جب نسیٹیا ان پر سے گرد، اور وہ ننھے ننھے دھبے جو انہیں مکھیوں کی طرف سے تحائف کی صورت میں ملے ہیں، صاف کرتی ہے تو وہ بے اختیار ان کی طرف دیکھنا شروع کردیتی ہے۔ وہ ہاتھ جن میں جھاڑن ہے خود بخود لٹک جاتا ہے اور وہ کسی خیال میں غرق ہو جاتی ہے۔
بوڑھی عورت اس کو دیکھ کر پھر بڑبڑانے لگتی ہے۔’’ ہاں اپنے بدمعاش دوستوں کی طرف دیکھ، ناہنجارخوب غور سے دیکھ!۔۔۔۔۔۔ اگر تیرا باپ زندہ ہوتا تو شاید وہ تجھے انسان بنا لیتا۔ مگر اب تو جو کچھ کرے کم ہے۔‘‘
اس موقع پر بیٹی خاموش نہیں رہتی۔
’’تم کیا بکے جارہی ہو۔ تم سے خاموش نہیں رہا جاتا۔‘‘ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہے مگر دروازے پر دستک کی آواز سنائی دیتی ہے اور ایک شائستہ آواز کہتی ہے’’ کیا میں اندر آسکتا ہوں‘‘۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ایکاف گریگری وخ اپنا تیل سے چپڑا ہوا سر چمکائے اور ہاتھ میں گول ٹوپی پکڑے کمرے میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ نسیٹیا سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہی ایسا واحد شخص نہیں جس کا یہ مقصد ہے۔
’’ہا! ہا! ہا!‘‘ نسیٹیا ہنستے ہوئے اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔’’ تم عین وقت پر امی کا تماشا دیکھنے آگئے ہو۔۔۔۔۔۔ ہا! ہا! ہا! ذرا خیال تو کرو، وہ تم پر رشک کرتی ہے! ہا! ہا! ہا!‘‘
وہ تالیاں بجاتی ہے اور اسی مذاق کو پانچ مرتبہ دہراتی ہے۔
ایکاف گریگری وخ کلرک ہے۔ اس کے لب اس کی چھوٹی مگر خوبصورت مونچھوں کے نیچے مسکراتے ہیں اور وہ جھک کر بوڑھی عورت سے یوں مخاطب ہوتا ہے۔
’’ہاں، ایسا ہو جایا کرتا ہے۔‘‘
بوڑھی عورت خاموشی سے باورچی خانے میں جا کر ایک صندق پر بیٹھ جاتی ہے۔ پانچ منٹ تک مکمل خاموشی طاری رہتی ہے۔ نسیٹیا، ایکاف سے ٹوپی لے کر اس پر اپنا ہاتھ بڑے پیار سے پھیرتی ہے۔ اور بیٹھ کر بتانا شروع کرتی ہے کہ کس طرح بازار میں لوگوں نے اس پرزندگی حرام کر رکھی ہے۔ ایک طالب علم جو اس کی بیوہ بہن کے مکان میں فروکش ہے، اس سے دوستانہ مراسم بڑھانے کی فکر میں ہے مگر اس کی بہن اس پر حسد کرتی ہے کیونکہ وہ اس کا کرایہ دار ہے۔
اس کے علاوہ وہ گزشتہ واقعات کا تذکرہ کرتی ہے کہ کس طرح اس کے ایک دوست نے صرف اس کی وجہ سے اپنے آپ کو گولی سے ہلاک کرلیا تھا۔ کس طرح دوسرے نے اپنی منسوبہ کو چھوڑ دیا تھا اور کس طرح تیسرے نے اپنی بیاہتا عورت کو طلاق دے دی تھی۔ صرف اس کی خاطر۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ابھی کچھ روز گزرے ایک آدمی نے اسے سینما جانے کے لیے لکھا اور دوسرے نے۔۔۔۔۔۔
مگر گفتگو کے دلچسپ ترین موقع پر اُس کی ماں کی غضب آلود آواز باورچی خانے سے سنائی دیتی ہے۔
’’بیوقوف،اتنا جھوٹ نہ بول، یہ سخت تکلیف دہ ہے‘‘
یہ سنتے ہی نسیٹیا اچھل پڑتی ہے اور اپنے گردوپیش ناامیدی میں نظر دوڑاتی ہے۔ وہ شرمندگی اور بے چینی محسوس کرتی ہے، مگر ایکاف پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ وہ صرف مسکرا دیتاہے۔ماں باورچی خانے میں بدستور بڑبڑاتی ہے۔
’’طالب علم! طالب علم! سینما!دوستانہ مراسم بڑھاتا ہے!‘‘ یوں وہ اپنی لڑکی کی نقل اتار کر اس کا مذاق اڑاتی ہے۔’’سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ یہ سب ایک معصوم لڑکی کو تباہ کرنے میں کافی مشّاق ہوتے ہیں۔ پھر تو کون اور میں کون۔‘‘ بوڑھی عورت عرصے تک بڑبڑاتی رہتی ہے۔ مگر نہ ایکاف اور نہ نسیٹیا کسی قسم کا اضطراب ظاہر کرتے ہیں۔ وہ اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ نصف گھنٹے کے بعد وہ باورچی خانے سے پھر اس کو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے سنتے ہیں۔ بوڑھی عورت اپنے لیے ٹرنک پر بستر تیار کررہی ہے۔
نسیٹیا ایکاف کے قریب ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور اس کی ٹوپی پر پہلے سے زیادہ محبت سے ہاتھ پھیرنے لگتی ہے۔ پھر وہ دبی زبان میں بہت آہستہ آہستہ ان طلبہ کا ذکر کرتی ہے جو اس کی طرف خاص توجہ دیا کرتے ہیں۔ ایکاف اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کا منہ چومنا شروع کردیتا ہے۔ وہ بہت عرصے تک ایک دوسرے کو چومتے اور سرگوشیوں میں گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار بوڑھی عورت کی غیر مطمئن آواز سننے کے لیے ٹھہر جاتے ہیں اور تھوڑے عرصے کے لیے دروازے کی طرف غور سے دیکھ کر پھر اپنی گفتگو میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
بوڑھی عورت پھر بڑبڑانے لگتی ہے۔’’ایک ہی مکان میں رہ کر یہ نظارہ دیکھنا! بے حیا! بے حیا! شرم نام کو نہیں۔ ضمیر تو ہے ہی نہیں۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں نے تجھے جنم نہ دیا ہوتا! پیر کے روز میں یہاں سے کسی محنت خانے میں چلی جاؤں گی۔ وہاں مجھے نرس کا کام مل جائے گی۔ گو پانچ روبل مہینے کے ملیں گے مگر کم از کم اپنے ہاتھ کی کمائی تو میسر ہوگی۔ میں ایسی اولاد سے لنڈوری ہی بھلی!‘‘
بوڑھی عورت کی لعنت ملامت ختم نہیں ہوتی لیکن وہ اس کی طرف مطلق توجہ نہیں کرتے۔نسیٹیا مسرور ہے اور اب اپنی رضا مندی سے اپنے عاشق کے ساتھ بغلگیر ہوتی ہے۔
بوڑھی عورت اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ اچھل پڑتی ہے اور اپنا لباس پہن کر شال کاندھوں پر لیتی ہوئی وہاں سے اپنی دوسری لڑکی کے ہاں جو بیوہ ہے رات کاٹنے کے لیے روانہ ہو جاتی ہے۔
بیوہ کا مکان دو کمروں اور ایک باورچی خانے پر مشتمل تھا۔ ان میں سے ایک کمرہ ایک ایسے شخص نے لے رکھا تھا جس کے چال چلن کے متعلق کوئی خاص رائے وثوق سے قائم نہیں کی جاسکتی تھی۔ دوسرے کمرے میں بیوہ رہتی تھی۔ باورچی خانے میں ایک زائد بستر خادمہ کے لیے بھی تھا مگر خادمہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ خالی تھا۔
لکڑی کی پیچ دار سیڑھیاں چڑھتے وقت وہ اسی قسم کی ہنسی کی آواز سنتی ہے جو اس نے نسیٹیا کے ہاں سنی تھی۔ اس ہنسی کے ساتھ اس کی بیوہ لڑکی بولتی ہے۔
’’سو تم مجھے عجیب خیال ہو؟ ہا! ہا! ہا!۔۔۔۔۔۔بتاؤ تو میں عجیب کس طرح ہوئی۔؟
’’تم دونوں عجیب مگر دل فریب عورتیں ہو‘‘، ایک مردانہ آواز جواب دیتی ہے۔’’ تم میں اتنی۔۔۔۔۔۔ تم زندگی سے معمور ہو!‘‘
’’ہا! ہا! ہا!‘‘ بیوہ ہنستی ہے۔ اس موقع پر جب کہ گفتگو گرم ہونے والی تھی اس کی ماں نمودار ہوتی ہے۔
ہنسی فوراً گم ہو جاتی ہے۔
کرایہ دار، ایک ماندہ شخص، جوانی کی حدود سے گزرا ہوا۔ اپنے کمرے کی دہلیز پر کھڑا سگرٹ پی رہا ہے۔ بیوہ اس کے سامنے بیٹھی بڑی ادا سے اپنے سینے پر ہار کے دانوں کو انگلیوں سے چھیڑ رہی ہے۔ ماں کو دیکھتے ہی بول اٹھتی ہے۔
’’امی! اس وقت اتنی رات گئے بعد؟ باہر اس قدر ہوا چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ اتنا کہر ہے مگر تم صرف ایک شال اوڑھے چلی آئی ہو۔‘‘
بوڑھی عورت کوئی جواب نہیں دیتی۔ وہ باورچی خانے کے چراغ کو گل کرنے کے بعد خاموشی سے بستر پر لیٹ جاتی ہے۔ بیوہ جو اپنی ماں کی طرح چڑچڑی ہے۔، اس دفعہ غصے کے لہجے میں بولتی ہے،’’تم جواب کیوں نہیں دیتی ہو۔ شاید تم پھر نسیٹیا سے جھگڑ کر آئی ہو؟‘‘ پھر وہ اپنے کرایہ دار کی طرف مخاطب ہوتی ہے’’ کیا تم ایشان کو جانتے ہو؟ اگر تم واقعی کسی عجیب عورت کی تلاش میں ہو تو میری مکرم والدہ موجود ہے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میری امی کا یہی دستور ہے کہ مجھ سے بھاگ کر نسیٹیا کے ہاں چلی جائے اور وہاں سے بھاگ کر میرے ہاں چلی آئے۔ کیا تماشا ہے۔ آج مجھ سے لڑائی ہے اور کل نسیٹیا سے۔ واقعی ایسی عجیب عورت تمہیں بمشکل مل سکے گی!‘‘
’’عجیب عورت‘‘ یہ الفاظ بڑھیا کو بہت بُرے معلوم ہوتے ہیں اور وہ سمجھ جاتی ہے کہ اس کی آمد اس کی لڑکی کو بہت ناگوار گزری ہے۔ یہ خیال اسے اور بھی بے چین کردیتا ہے۔ وہ بڑبڑا کر کہتی ہے:
’’اگر تمہیں میرا اس صاف بستر پر سونا ناگوار ہے تو میں یہاں سے اٹھ کر زمین پر لیٹ جاتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کروہ فوراً ہی بسر میں سے نکل کر زمین پر چند چیھتڑے بچھا دیتی ہے اور ان پر لیٹ جاتی ہے۔
بیوہ اپنی جگہ غصے میں بھری ہوئی ہے۔وہ نسیٹیا ایسی صابر نہیں۔’’ کیا تم یہاں فساد مول لینے آئی ہو؟ میں نے تمہیں کیا گزند پہنچایا ہے؟ یہ حرکت تم کیوں کررہی ہو؟۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں معلوم ہے‘‘۔ وہ مڑ کر اپنے کرایہ دار سے مخاطب ہو کر کہتی ہے۔’’یہ بہت حاسد ہے ہر وقت تکلیف دینے پر تلی رہتی ہے۔ کاش تمہیں صرف یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ میں اپنے آپ میں نہیں رہتی۔‘‘
بوڑھی عورت زمین پر لیٹے لیٹے جواب دیتی ہے’’ تم مجھے قبر میں دھکیل رہی ہو۔ کسے معلوم تھا کہ ایسی بے حیا لڑکی کو جنم دوں گی۔۔۔۔۔۔ خدا تمہیں برباد کرے۔۔۔۔۔۔ میں کل کسی محنت خانے میں جاکر نرس کا کام تلاش کروں گی۔گو پانچ روبل مہینے کے ملیں گے مگر اپنی کمائی کی روزی تو میسر ہوگی۔ مجھے اولاد درکار نہیں ہے! اللہ کرے انہیں آگ جلا کرخاک سیاہ کردے‘‘
بیوہ اپنی ماں کی لعنت ملامت سن کر تنگ آجاتی ہے اور چاہتی ہے کہ اپنے ہمسائے کرایہ دار کے ساتھ اپنی پہلی گفتگو جاری رکھے جو اس سے کہتا ہے۔
’’لو نٹدملا! تم خواہ مخواہ کیوں دق ہوتی ہو! معمولی بات ہے۔ بوڑھوں کا مزاج اسی طرح چڑچڑا ہویا کرتا ہے۔ آؤ ہم اپنی باتیں کریں۔ ہم کیا کہہ رہے تھے؟ مگر تم میرے کمرے میں کیوں نہیں آجاتی۔ آجاؤنا۔یہاں نسبتاً خاموش فضا ہے۔‘‘
نصف گھنٹے کے بعد بوڑھی عورت جو ابھی تک سو نہیں سکی، بلند قہقے، سرگوشیاں اور بوسوں کی آواز سنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔بغیر ایک لفظ کہے وہ زمین پر سے اٹھتی ہے اور کاندھوں پر اپنی شال ڈال کر دروازے کے عقب سے غائب ہو جاتی ہے۔
بازار میں ہوا دکانوں پر لگے ہوئے بورڈوں کو الٹ پلٹ رہی ہے۔ برف کے گالے چھتوں سے لڑ ھکتے ہوئے بازارمیں گر رہے ہیں۔
بے پناہ سردی سے ٹھٹھرتی، کانپتی، بچتی اور شال کو اپنے گرد لپیٹتی، بوڑھی عورت بازار کو طے کرکے چوک کی طرف رخ کرتی ہے اور اچانک ٹھہر جاتی ہے۔ بازار بالکل سنسان ہے چوک میں پہرے پر کھڑے ہوئے سپاہی کے علاوہ کوئی اور متنفس دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ صرف بوڑھی عورت کا نیلا لانبا سایہ برف پر پڑ رہا ہے۔
*****
کہانی:الفیم ذو ذولیا
- کتاب : Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim (Pg. منٹو کے غیر مدون تراجم)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.