میدانوں میں
ہم نے پیریؔ کیپ کو طبیعت کے انتہائی چڑچڑے پن اور بدترین صورت حال کے تحت یعنی جنگلی بھیڑیوں کی طرح گرسنہ اور تمام دنیا سے متنفر خیر باد کہا تھا مکمل بارہ گھنٹے ہم نے اس کوشش میں صرف کردیئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح۔۔۔ جائز یا ناجائز طریقے، چوری کے ذریعے یا خود کما کر پیٹ پوجا کا سامان کریں، مگر جب ہمیں اس امر کا پورا یقین ہوگا کہ اپنے مقصد میں کسی طرح کامیاب نہیں ہوسکتے، تو ہم نے آگے بڑھنے کا قصد کیا۔۔۔۔۔۔ کدھر؟۔۔۔۔۔۔ بس ذرا آگے!
یہ فیصلہ اتفاق آراء سے منظور ہوگیا۔ اب ہم زندگی کی اس شاہراہ پر جس پر ہم ایک مدت سے گامزن تھے سفر کرنے کو تیار تھے۔ اس امر کا فیصلہ بالکل خاموشی میں ہوا۔ اگر اس فیصلے کو کوئی چیز نمایاں طور پور ظاہر کرنے والی تھی تووہ ہماری گرسنہ آنکھوں کی خشمناک چمک تھی۔
ہماری جماعت تین افراد پر مشتمل تھی۔ جن کی شناسائی کو ابھی بہت مدت نہ گزری تھی۔ ہماری دوستی دریائے نیپئر کے کنارے خرسون کی ایک سرائے میں واقع ہوئی تھی۔ ہم میں سے ایک ریلوے پولیس میں سپاہی رہا تھا اور اس کے بعد پولستان میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا رہا تھا یہ شخص بہت تنومند اور جسیم تھا۔ بال سرخ۔۔۔ جرمن زبان بول سکتا تھا اور قید خانوں کی اندرونی زندگی سے بہت اچھی طرح واقف تھا۔
ہماری قسم کے لوگ اپنی زندگی کے گزشتہ حالات پر روشنی ڈ النے کے خیال کو بہت بُرا تصور کرتے ہیں، بعص ناگزیر وجوہ کے باعث ہمیشہ خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں اس کا کامل یقین تھا کہ ہمارے ہر ساتھی کے ساتھ ایک نہ ایک تلخ حکایت ضرور وابستہ ہے مگر ہم نے ان سے اس داستان کے بارے میں کبھی استفسار نہ کیا تھا۔
جب ہمارے ایک ساتھی نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ ماسکو یونیورسٹی کا طالب علم رہ چکا ہے تو ہمیں اس کی بات کا یقین ہوگا۔ دراصل ہمارے لئے یہ چیز کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی کہ وہ گزشتہ ایام میں چور یا تھا یا سپاہی۔ قابل ذکر بات تو یہ تھی کہ وہ جب ہم سے ملا، بالکل ہم جیسا تھا۔ اور ہماری طرح پولیس اور دیہات والوں میں مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا، اور وہ جواب میں ان سب کو ایک تعاقب زدہ بھوکے درندے کی طرح افسردہ اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ قصہ کوتاہ ان خیالات اور موجودہ حالات کی رو سے وہ ہم میں سے ایک تھا۔
مشترکہ مصائب، متضاد طبائع میں اتحاد پیداکرنے کا بہترین ذریعہ ہےٗں اور ہمیں اس کا پورا یقین تھا کہ ہم مصیبت زدہ ہیں، تیسرا میں تھا۔۔۔۔۔۔ اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے جو بچپن سے میری خصوصیت رہی ہے میں اپنی صفات کا تذکرہ بے سود سمجھتا ہوں۔ میری عادات و خصائل پر روشنی ڈالنے کے لیے بس اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں اپنے آپ کو اوروں سے ہمیشہ اچھا اور اعلیٰ سمجھتا رہا ہوں۔۔۔ اور آج بھی میرا یہی عقیدہ ہے۔
ان حالات کے تحت ہم پیری کوپ کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ رہے تھے ہمارا اولیں مقصد کسی گڈریئے کا دروازہ کھٹکھٹا کر روٹی مانگنا تھا۔ یہ لوگ عموماً کسی جہاں گرد سائل کو مایوس لوٹنے نہیں دیتے۔
میں اور سپاہی پہلو بہ پہلو چل رہے تھے۔ طالب علم ہمارے پیچھے آرہا تھا جس کے کاندھوں پر کوئی کپڑا سا لٹک رہا تھا جس نے کبھی جیکٹ کا کام دیا ہوگا۔ ایک بوسیدہ اور چوڑے کنارے والی ٹوپی اس کے بدوضع سر کی زینت ہورہی تھی، پتلی ٹانگوں کو ایک پرانی پیوند زدہ پتلون چھپا رہی تھی اور پاؤں میں کسی ٹوٹے ہوئے بوٹ کے تلوے، جو اس نے غالباً کسی سڑک پر سے اٹھائے تھے۔ ایک رسی سے بندھے ہوئے۔۔۔ اس اختراع کو وہ چپلیوں کے نام سے پکارتا تھا۔ وہ سڑک پر گرد اڑاتا اور اپنی چھوٹی چھوٹی سبزی مائل آنکھیں جھپکاتا، خاموشی کے ساتھ چلا آرہا تھا۔
سپاہی ایک سرخ قمیص پہنے ہوئے تھا جو بقول اس کے اس نے خود اپنی محنت کے پیسوں سے فرسون میں خریدی تھی۔ اس قمیص پر ایک گرم اور نرم سی واسکٹ نظر آرہی تھی۔ ٹانگوں پر ایک کھلا پاجامہ لپٹا ہوا تھا۔ سر پر اس نے ایک فوجی ٹوپی ترچھے انداز میں پہن رکھی تھی۔ پاؤں میں بوٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں تھے۔
میں نے کپڑے توپہنے ہوئے تھے مگر ننگے پاؤں تھا۔
ہم چلتے رہے۔۔۔ ہمارے چاروں طرف میدان تھا، جس میں گھاس اگ رہی تھی۔ ہم موسم گرما کے نیلگوں آسمان کے نیچے بڑھتے گئے۔۔۔ کہیں کہیں کٹی ہوئی فصل کے نشانات بھی دکھائی دے رے تھے، جو بعنیہہ سپاہی کے نہ منڈے ہوئے گالوں کے مانند تھے۔
وہ بھدی اور کن سڑی آواز میں ایک مذہبی گیت گانے میں مصروف تھا دورانِ ملازمت میں وہ کسی گرجے میں نوکر بھی رہ چکا تھا۔ اس لئے لازمی طور پر اسے بے شمار مذہبی گیت زبانی یاد تھے۔اور ہم سے دوران گفتگو میں اکثر اس قسم کی معلومات کا بے جا تذکرہ بھی کیا کرتا تھا۔
اب ہمارے سامنے افق پر دھندلی سی لکیریں نمودار ہورہی تھیں جن کا رنگ بنفشی سے ہلکا زرد ہوتا چلا جارہا تھا۔
’’ ۔یہ کریمیا ؔ کی پہاڑیاں ہیں‘‘ طالب علم نے اپنی پھٹی آواز میں کہا’’ پہاڑیاں معلوم ہوتی ہیں‘‘۔
سپاہی نے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا’’ بہت تیز نظر ہے تمہاری، یہ تو بادل ہیں، محض بادل! اور بادل بھی کیسے، جیسے انناس کا مربہ دودھ میں بھیگ رہا ہے!‘‘
’’آہ، کاش یہ واقعی مربہ ہوتے!! اس تشبیہہ نے میری بھوک پر تازیانے کا کام کیا۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ سپاہی نے جھلا کر کہا’’ کاش ہمیں کوئی انسان مل جائے!۔۔۔ مگر یہاں تو کسی کا نام و نشان تک بھی نہیں۔ معلوم ہوتان ہے کہ ہمیں بھی موسم سرما کے ریچھ کی طرح اپنے پنجے چُوس کر گزارہ کرنا ہوگا!‘‘
’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ہمیں آبادی کا رخ کرنا چاہئے‘‘ طالب علم نے افسردہ لہجے میں کہا۔
’’تم نے کہا تھا!۔۔۔ یہ تمہارا ہی حصہ تھا، تعلیم یافتہ جو ٹھہرے تم!۔۔۔ مگر کہاں ہیں وہ آباد مقامات جن کا تم ذکر کررہے ہو‘‘ سپاہی طالب علم پر برس پڑا۔
طالب علم نے جواب میں اپنے ہونٹ چبانے شروع کردیئے اور خاموش ہوگیا۔
سورج غروب ہورہا تھا۔ بادل رنگا رنگ کے لباس بدل رے تھے۔ شورے اور مٹی کی خوشبو نے ہماری بھوک کو اور بھی مشتعل کردیا۔ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں ۔اور ایک ناخوشگوار سی لہر بدن میں دوڑ رہی تھی۔ منہ اور حلق خشک ہوگیا تھا دماغ سخت پریشانی میں گرفتار تھا۔ سر چکرانے لگا اور عجیب قسم کے سیاہ دھبے آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔ یہ دھبے کبھی گوشت کے بھنے ہوئے ٹکڑوں کی اور کبھی روٹیوں کی شکل اختیار کرلیتے۔۔۔ ذہن نے ان کی یاد تازہ کردی اور یہ اصل معلوم ہونے لگے حتیٰ کہ ان کی خوشبو بھی آنے لگی۔ اور ایسامحسوس ہونے لگا کہ کوئی پیٹ میں نوکیلا خنجرگھونپ رہا ہے لیکن اب اس اذیت کے باوصف ہم بھیڑوں کے نشانات دیکھنے اور کسی پھلوں سے لدے ہوئے چھکڑے کے پہیوں کی آواز سننے کے لیے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے اور کان کھولے چلتے رہے۔۔۔ مگر میدان خاموش اور سنسان تھا۔
اس پر تکان سے پیشتر شام کو ہم سب نے صرف دو سیر کچی روٹی اور پانچ تربوز کھائے تھے،ہمیں کوئی چالیس میل کے قریب چلنا پڑا تھا۔ خرچ آمدن کی نسبت زیادہ تھا۔ ہم مارکیٹ میں سورہے تھے کہ ہمیں بھوک نے آجگایا۔
طالب علم نے ہم سے کہا تھا کہ رات کوسونے کے بجائے کام کرنا چاہیے اور رہی دوسری بات کہ کسی کی ملکیت پر ڈاکہ ڈالنا، سووہ معاشرہ کے اصولوں کے خلاف ہے، اس لئے میں اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتا۔ میری خواہش انصاف کرنے کی ہے۔ میں یاوہ گوئی نہیں کرسکتا۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے اس مہذب زمانے میں لوگ بہت شائستہ اور نرم دل ہوتے جارہے ہیں حتیٰ کہ اگر کسی پڑوسی کا گلا بھی کاٹنا ہو تو موقع کی مصلحت دیکھ کر یہ کام بھی نہایت سلیقے سے کیا جاتا ہے۔ میرے اپنے گلے کے تجربے نے اخلاق اور تہذیب کے اس ارتقا کو میرے سامنے واضح طور پر ظاہر کردیا ہے۔ اور میں قطعی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کے ہر شے روبہ ترقی ہے۔ شراب خانوں، عصمت فروشی کی دکانوں اور زندانوں کی تعداد میں سالانہ اضافے اس ترقی کو بخوبی ظاہر کرتے ہیں۔
چنانچہ اس طرح ہم اپنا لعابِ دہن نگلتے اور آپس میں دوستانہ گفتگو کرتے ہوئے، تاکہ کسی حیلے ہمارے پیٹ کا درد کم ہو جائے اس سنسان میدان میں بڑھتے گئے۔ دل میں ایک موہوم امید لئے ہوئے سرخ شفق کی طرف چلتے گئے!
ہمارے سامنے سورج ان بادلوں کے پیچھے جن پر اس کی شعاعیں زرنگا ری کا کام کررہی تھیں، غروب ہورہا تھا، اب ہمارے سامنے چاروں طرف رات کی سیاہی افق کی وسعت کوتنگ کرتی ہوئی پھیل رہی تھی۔
آگ جلانے کے لیے کچھ ایندھن تو اکٹھا کرو’’ سپاہی نے دفعتہً زمین پر سے لکڑی کا ایک ٹکڑہ اٹھاتے ہوئے کہا‘‘ ہمیں آج کی رات میدان ہی میں کاٹنا پڑے گی۔ اوس خوب پڑے گی، خشک گوبر اور درختوں کی ٹہنیاں الاؤ کیلئے ٹھیک رہیں گی؟‘‘
ہم سڑک کے دونوں طرف بکھر گئے اور سوکھی گھاس اور ہر وہ چیز جو مل سکتی تھی اکٹھا کرنی شروع کردی۔ ہر مرتبہ جب ہمیں زمین پر جھکنا پڑتا ہمارے بدن میں ایک عجیب خواہش پیدا ہوتی کہ زمین پر گر پڑیں اور مٹی کھانے کے لیے خاموش لیٹ جائیں۔۔۔ سیاہ اور چکنی مٹی کھاتے رہیں۔ حتیٰ کہ اور کچھ نہ کھا سکیں اور پھر اسی حالت میں سو جائیں خواہ یہ نیند ابدی ہی نہ ہو۔ لیکن اس سے بیشتر کچھ کھائیں ضرور۔۔۔ کوئی سی غذاء کوئی گرم گرم کھانا حلق سے اتر کر تلملاتے ہوئے اور بھوکے پیٹ میں پہنچ جائے۔ اس معدے میں جو کسی چیز کو ہضم کرنے کی خواہش میں بیتیاب ہوا جارہا تھا۔
’’کاش ہمیں کوئی جڑ ہی مل جاتی‘‘ سپاہی نے آہ بھر کر کہا’’ ایسی جزیں بھی توہوتی ہیں جو غذا کا کام دے سکتی ہیں۔۔۔ جن کو ہم کھا سکتے ہیں!‘‘
مگر اس سیاہ اور ہل کی ہوئی زمین میں جڑوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔۔۔ اب جنوبی ممالک کی رات تیزی سے شفق پر غلبہ حاصل کررہی تھی۔ سورج کی آخری شعاعیں ابھی غائب ہی ہوئی تھیں کہ تاریک اور نیلگوں آسمان میں تارے چمکنے لگے۔ آہستہ آہستہ کی سیاہی میدان کی وسعت کو تنگ بتاتی ہوئی بڑھتی گئی۔
’’بھائی، ہمارے بائیں طرف ایک آدمی لیٹا ہوا ہے!‘‘ طالب علم نے سپاہی سے آہستگی کے لہجے میں کہا
آدمی!’’ سپاہی نے حیرت زدہ ہو کر دریافت کیا۔‘‘ آخر وہ یہاں کیوں لیٹ رہا ہے؟
’’ جاؤ، اس سے خود ریافت کرلو۔۔۔ اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا جبھی تو اس طرح میدان میں پڑا ہے۔‘‘ طالب علم نے جواب دیا۔
سپاہی تھوکنے کے بعد ایک عزم سے بولا’’ تو چلو آؤ اس کے پاس چلیں صرف طالب علم کی تیز نگاہیں ہی تاریکی میں سڑک کی دوسری طرف کوئی سو گز کے فاصلے پر ایک آدمی کو جو سیاہ ڈھیر کی صورت میں پڑا تھا پہچان سکتی تھیں۔ ہم ہل کی ہوئی زمین میں مٹی کے ڈھیلوں پر تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کی طرف بڑھے۔ کھانا حاصل کرنے کی اس نئی امید نے ہماری بھوک کواور بھی زیادہ تیز کردیا تھا۔ ہم اس کے بالکل قریب پہنچ گئے مگر وہ بے حرکت پڑا رہا۔
’’شاید یہ انسان نہیں ہے‘‘ سپاہی نے ہم سب کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے مایوسانہ انداز میں کہا۔ مگر فوراً ہمارے اندیشے غلط ثابت ہوگئے کیونکہ اس ڈھیر میں جو زمین پر پڑا تھا ایک جنبش ہوئی اور اس نے اٹھنا چاہا۔ اب ہم نے دیکھا کہ وہ واقعی انسان ہے جو گھٹنوں کے بل بیٹھا ہے اور ہماری طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے۔
’’ میرے نزدیک نہ آنا ورنہ میں گولی چلا دوں گا‘‘ ہم نے اسے بھدی اور لرزاں آواز میں یہ کہتے سنا۔ اس کے ساتھ ہی فضا میں لبلبی اٹھنے کی تیز آواز گونجی۔
ہم یکایک ٹھہر گئے جیسے کسی نے حکم دیا ہے۔ کچھ عرصے تک ہم اس خوشگوار خیر مقدم سے حیرت زدہ ہوکر خاموش کھڑے رہے۔
’’بدمعاش!‘‘ سپاہی نے معنی خیز انداز میں زیر لب کہا۔
’’ ہوں، پستول لئے سفر کرتاہے۔ یہ تو منہ کا نوالہ معلوم نہیں ہوتا‘‘ طالب علم نے دانشمندانہ لہجے میں کہا۔
’’ او میاں!‘‘۔۔۔ ظاہر تھا کہ ہمارے رفیق سپاہی نے ضرور کوئی تدبیر سوچ لی ہے۔
اس شخص نے کروٹ نہ بدلی اور پہلے کی طرح خاموش رہا۔
’’ اے میاں، دیکھو ہم تم کو بالکل نقصان نہ پہنچائیں گے، بس ہمیں کچھ کھانے کے لیے دیدو تمہارے پاس روٹی وغیرہ ضرور ہوگی، بھائی ہمیں کچھ کھانے کے لیے دیدو۔ تمہیں مسیح کا واسطہ ہے۔۔۔ لعنت ہو تم پر۔۔۔ شیطان!‘‘ آخری الفاظ سپاہی نے اپنی داڑھی کے اندر منہ ڈال کر آہستگی سے کہے۔۔۔ وہ شخص خاموش رہا۔
’’ کیا سن بھی رہے ہو کہ نہیں؟‘‘ سپاہی نے بیچارگی اور غصے میں کانپتے ہوئے پھر التجا کی’’ ہمیں کچھ دو۔۔۔ پھینک ہی دو، ہم تمہارے نزدیک نہ آئیں گے!‘‘
’’ اچھا‘‘ اس شخص نے بالآخر جواب دیا۔
اگر اس نے ہمیں دلی خلوص سے’’ میرے عزیز بھائیو‘‘ کہہ کر پکارا ہوتا اور تین لفظوں میں جذبات کا تمام تقدس بھر دیا ہوتا تو وہ ہم پر اس قدر اثر انداز نہ ہونے جتنا یہ غیر مہذبانہ، درشت اور خشک’’اچھا‘ اثر انداز ہوا۔
’’ نیک آدمی، ہم سے خوف زدہ مت ہو‘‘ سپاہی نے اپنے چہرے کو مُتبسم کرتے ہوئے کہا۔ حالانکہ وہ شخص تاریکی میں پچاس قدم کے فاصلے پر بیٹھا ہوا اس کے اس تبسم کو نہ دیکھا جا سکتا تھا۔’’ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ روس سے کیوبن جارہے ہیں۔ ہمارا سب روپیہ راستے میں خرچ ہوگیا ہے۔ ہم سب کھاپی بیٹھے ہیں۔ اب ہمیں فاقے سے دوسرا دن گزر رہا ہے!‘‘
’’ لو،پکڑو‘‘ ہمارے محسن نے ہوا میں اپنا ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی ایک سیاہ سی چیز ہل کی ہوئی زمین پر ہمارے نزدیک ہی آگری طالب علم اس کو پکڑنے کے لیے لپکا۔
’’لو اورپکڑو۔۔۔ یہ رہی۔۔۔ بس اب میرے پاس ختم ہو چکی ہے۔‘‘
جب طالب علم نے ان عجیب و غریب تحائف کو اکٹھا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ سیاہ روٹی کے چند خشک ٹکڑے تھے جن کا مجموعی وزن کوئی دو سیر کے قریب ہوگا۔ یہ مٹی سے لت پت ہورہے تھے۔ مگر یہ بات ہمارے لئے کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ خشک روٹی عموماً زیادہ تسکین دہ ہوا کرتی ہے۔ اس لئے اس میں تازہ روٹی کی نسبت نمی کم ہوتی ہے۔
’’ یہ لو تم اور یہ لو تم اوریہ میرے لئے‘‘ سپاہی نے بڑی احتیاط سے سب کو روٹی کا حصہ دیتے ہوئے کہا’’۔۔۔ مگر ابھی حصے برابر نہیں ہوئے، اس لئے پروفیسر صاحب مجھے آپ کے ٹکڑے سے کچھ حصہ کاٹنا پڑے گا ورنہ یہ دوسرے کے حق میں سراسر ناانصافی ہوگی!‘‘
طالب علم کو مجبوراً اپنے حصے سے ایک ٹکڑا دینا پڑا۔ جووزن میں ایک اونس کے دسویں حصے کے برابر تھا۔
میں نے اپنا ٹکڑہ منہ میں ڈال لیا اور اسے آہستہ آہستہ چبانا شروع کیا ساتھ ہی میں اپنے جبڑوں کی قدرتی حرکت روکنے کی بے سود سعی کررہا تھا جو اس وقت پتھروں کو چبانے کے لیے تیار تھے، مجھے اپنے نرخرے میں ایک تشنجی حرکت کے احساس اور ایسے چھوٹے چھوٹے لقموں سے آہستہ آہستہ رفع کرنے کی کوشش میں ایک عجیب قسم کی مسرت حاصل ہورہی تھی گرم اور ناقابل بیان طور پر ذائقہ دار اور شیریں، اس روٹی کے ٹکڑے لقمہ بہ لمقہ حل سے اتر کر جلتے ہوئے پیٹ میں پہنچتے ہی خون اور گوشت میں تبدیل ہوتے معلوم ہوتے تھے۔میرا دل ایک ایسی ناقابل بیان اور حیات بخش مسرت سے معمور تھا جو اس روٹی کی نسبت کے لحاظ سے کہیں زیادہ تھی۔ جو میرے پیٹ کے اندر پہنچ رہی تھی میرے تمام جسم پر ایک خمار کی سی حالت طاری تھی۔ میں فاقہ کشی کے تکلیف دہ ایام کو بالکل بھول گیا۔ اس کے علاوہ میرے ذہن سے اپنے دوستوں کی یاد بھی محو ہوگئی اس لئے کہ میں ان مسرت افزا خیالات میں غرق تھا جو اس وقت میرے دل میں پیدا ہورہے تھے۔
لیکن جب میں نے اپنی ہتھیلی سے روٹی کا آخری ٹکڑا منہ میں ڈالا تو میں نے محسوس کیا کہ میری بھوک اور بھی تیز ہوگئی ہے۔
’’ اس آدمی کے پاس کچھ اور بھی ضرور ہوگا۔۔۔ لعنت ہو اس پر!‘‘ سپاہی نے جو زمین پر بیٹھا اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیررہا تھا۔ کہا
’’ ضرور ہوگا۔۔۔ روٹی میں سے گوشت کی بو آرہی تھی‘‘ طالب علم نے جواب دیا اور پھر ساتھ ہی دبی زبان میں کہا’’ کاش اس کے پاس پستول نہ ہوتی ورنہ۔۔۔‘‘
’’مگر یہ ہے کون؟‘‘
’’ظاہر ہے کہ ہم ایسا ہی کوئی بھلا مانس ہوگا۔‘‘
’’ناپاک کتا!‘‘ سپاہی نے فیصلہ کردیا۔
ہم سب ایک دوسرے کے بالکل قریب بیٹھے اپنے محسن کی طرف ترچھی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے، جو پستول ہاتھ میں لئے خاموش بیٹھا تھا۔ اس کی طرف سے کسی قسم کی آواز ہمیں سنائی نہ دے رہی تھی۔
رات کی تاریک قوتیں رہی سہی روشنی پر غالب آگئیں۔ میدان پر قبرکی خاموشی طاری تھی۔ اس سکوت میں ہم ایک دوسرے کے سانس کی آواز بخوبی سن سکتے تھے کبھی کبھی بجو کی درد میں ڈوبی ہوئی چیخ سنائی دیتی تھی، ستارے آسمان کے چمن کے زندر ہ پھول، ہمارے سروں کے اوپر چمک رہے تھے۔۔۔ ہماری اس وقت صرف ایک خواہش تھی کہ کچھ کھائیں!
میں فخر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس شب میری حالت میرے اتفاقیہ رفیقوں سے نہ تو بری تھی اور نہ اچھی۔ آخر کار میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہمیں اٹھ کر اس شخص کے پاس جانا چاہئے مگر بغیر کسی نقصان پہنچائے اس سے کھانے کا سامان لے لینا چاہئے۔اگر وہ فائر کرتا ہے توکرے! وہ زیادہ سے زیادہ ہم میں سے صرف ایک کو نشانہ بنالیگا۔ جو چنداں ممکن نہیں اور اگر بفرضِ محال اس کی گولی کسی ایک کو لگ بھی گئی تو عموماً پستول کا چھرہ مہلک زخم نہیں کرتا۔
’’تو چلو پھر‘‘ سپاہی نے کود کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ طالب علم کوشش کے باوجود بڑی آہستگی سے اٹھا۔ ہم دوڑ کر اس شخص کی جانب بڑھے۔ طالب علم ہمارے پیچھے آرہا تھا۔
’’ محترم رفیق‘‘ سپاہی نے ظنزاً چلاکے پکارا
ہمارا استقبال ایک زیر لب گنگناہٹ سے ہوا۔ پھر ساتھ ہی۔لبلبی دینے کی آواز گونجی اور شعلہ بلند ہوا۔ اور گولی ہمارے کانوں کے قریب سے سنسناتی ہوئی گزر گئی۔
’’نشانہ خطا گیا‘‘ سپاہی فرطِ مسرت سے چلا اٹھا اور ایک ہی جست میں اسے جالیا۔’’ٹھہر، بے شیطان، اب چکھائے دیتا ہوں تجھے مزا۔۔۔۔۔۔
طالب علم اس کے تھیلے کی طرف لپکا مگر وہ شیطان ایک دم پیٹھ کے بل زمین پر لوٹ گیا اور ہاتھ پھیلا کر ہانپنا شروع کردیا۔
’’ابے کیا ہوگیا تجھے؟ سپاہی نے حیران ہوتے ہوئے کہا‘‘ او۔۔۔ ایے۔۔۔ کچھ سن رہا کہ نہیں؟۔۔۔ کیا تو نے اپنے آپ کو گولی تو نہیں مارلی؟‘‘
’’یہ رہا گوشت،ٹکیاں اور روٹی۔ کافی مقدار ہے بھائیو‘‘ طالب علم نے خوش ہو کر بلند آواز میں کہا۔
’’ تو جاؤ مرو، جہنم میں جاؤ، آؤ دوستو، ہم کھانا کھائیں‘‘ سپاہی چلایا۔
میں نے اس شخص کے ہاتھ سے پستول لے لی۔ اب اس نے کراہنا بند کردیا اور خاموش پڑا تھا۔ پستول میں صرف ایک کارتوس اور باقی تھا۔
ہم اب پھر خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے اور وہ شخص بے حس و حرکت پڑا تھا۔ اس وقت ہم اس کی موجودگی سے بالکل غافل تھے۔
’’بھائیو، کیا تم نے یہ سب کچھ واقعی اس روٹی کے لیے کیا ہے؟‘‘ ایک لرزاں اور پھٹی ہوئی بھدی آواز نے یک لخت ہم سے کہا۔ ہم چونک پڑے۔ طالب علم کھانستا ہوا زمین کی طرف جھک گیا۔ سپاہی نے اپنے منہ کا لقمہ نگلتے ہوئے اس شخص کو بیطرح سنانی شروع کردیں۔
’’او کتے کی روح۔۔۔ خدا کرے تیرا بدن خشک لکڑی کے چھلکے کی طرح پھوٹ پھوٹ پڑے۔ کیا تو یہ خیال کرتا تھا کہ ہم تیری کھال ادھیڑنا چاہتے ہیں؟ تیری چمڑی ہمارے کس کام کی۔۔۔ ملعون، پاجی، کمینے!۔۔۔ پستول لئے لوگوں پر گولیاں چلاتا ہے۔۔۔شیطان کہیں کا!‘‘
سپاہی اس دوران میں ساتھ ساتھ کھاتا بھی جارہا تھا جس کی وجہ سے اس کی گالیوں کا پورا روز شور بہت حد تک دب گیا تھا۔
’’ٹھہر جا، ہم کھانا کھانے کے بعد تجھ سے نپٹ لیں گے!‘‘ طالب علم نے اسے دھمکایا۔
اس پر سسکیوں اور آہ و زاری کی آواز رات کے سکوت میں پھیل گئی۔ ہم ڈر گئے۔
’’ بھائیو، مجھے معلوم نہ تھا۔ میں ڈر گیا تھا۔ چنانچہ میں نے فائر کردیا۔ میں نیو ایتھوس سے سمانسک جارہا ہوں۔۔۔۔۔۔ آہ میرے خدا! جونہی آفتاب غروب ہونے لگتا ہے، مجھے بخار چڑھ جاتا ہے۔۔۔ میریتیرہ بحتی! اس بخار کے علاج کرانے کی خاطر ہی میں نے ایتھوّس کو خیرباد کہا تھا۔۔۔۔۔۔ میں وہاں بڑھئی کا کام کیا کرتا تھا۔۔۔ میں بڑھئی ہوں۔۔۔۔۔۔ میری ایک بیوی اور دو چھوٹی چھوٹی بچیاں ہیں جن سے جدا ہوئے مجھے۔۔۔۔۔۔ قریب قریب چار سال گزر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ بھائیو، تم سب کچھ کھا لو۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کوئی فکر نہ کرو، ہم تیرے کہنے کے بغیر ہی سب کچھ کھالیں گے‘‘ طالب علم نے اس سے کہا۔
’’ آہ، میرے پروردگار! اگرمجھے معلوم ہوتا کہ تم لوگ امن پسند اور رحمدل ہو تو میں کبھی گولی نہ چلاتا۔۔۔۔۔۔ جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار یہ دشت نما میدان ہے اور پھر تاریکی میں سوجھ کیا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف کردو، بھائیو، میری خطا معاف کردو!‘‘ وہ بول رہاتھا اور ساتھ رو بھی رہا تھا۔ اس کی رونی آواز لرزاں اور دہشت آفریں تھی۔
’’ بس بس اب چلاّؤ نہیں‘‘ سپاہی نے حقارت سے کہا۔
’’ اس کے پاس کچھ نقدی بھی ضرور ہوگی!‘‘ طالب علم نے قیافہ لگایا۔
سپاہی نے اپنی آنکھیں نیم بند کرلیں۔ طالب علم کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔’’ تم تو نجومی ہو۔۔۔ چلو، اب آگ جلا کر سورہیں!‘‘
’’ اور اس کو یہیں پڑا رہنے دیں؟ طالب نے سپاہی سے دریافت کیا
’’جہنم میں جائے یہ۔۔۔۔۔۔ کیا ہم اسے بُھون کھائیں؟‘‘
’’ ہے تو اسی کا مستحق! طالب علم نے اپنا نوکیلا سر ہلایا
ہم اپنا اکٹھا کیا ہوا ایندھن جو بڑھئی کی دھمکی سے ہمارے ہاتھوں سے گر پڑا تھا۔ اٹھانے کے لیے روانہ ہوئے۔ منتشر لکڑیوں کو جمع کرنے کے فوراً بعد ہم آگ جلا کر اس کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے۔ آگ خاموش اور پرسکون رات میں ہمارے آس پاس کی کچھ جگہ کو روشن کرتی ہوئی آہستہ آہستہ سلگ رہی تھی۔ ہم پر غنودگی طاری ہورہی تھی۔ مگر اس کے باوجود ہم ایک دفعہ اور کچھ کھانے کے لیے تیار تھے۔
’’بھائیو‘‘بڑھئی نے کہا وہ ہم سے کوئی تین قدم کے فاصلے پر لیٹا تھا کبھی کبھی اس گنگناہٹ سے معلوم تھا کہ وہ اپنے آپ سے باتیں کررہا ہے۔
’’ کیوں، کیا ہے؟‘‘ سپاہی نے درشت لہجے میں اس سے دریافت کیا۔
’’کیا میں تمہارے پاس آگ تاپنے کے لیے آسکتا ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنی موت آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہے۔۔۔ میری جوڑ جوڑ میں شدت کا درد ہے۔۔۔۔۔۔ آہ، خدا! میں کبھی گھر نہ پہنچ سکوں گا!‘‘
’’ادھر سرک آؤ‘‘ طالب علم نے اسے جازت دے دی۔
بڑھئی آہستہ آہستہ رینگتا ہوا آگ کے پاس آگیا۔ وہ اس انداز سے اپنے بدن کو حرکت دے رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا۔ اسے اپنے اعضا کے ٹوٹنے کا خدشہ ہے وہ دراز قد مگر بہت نحیف تھا۔ اس کا ہر عضو ارتعاش پذیر تھا اور اسکی دھندلی آنکھوں سے درد و کرب کے آثار مترشح تھے جو اسے اندر ہی اندر ہلکان کررہا تھا اس کا افلاس زدہ چہرہ ہمارے الاؤ کی روشنی میں لاش کا سا زرد۔ مٹیالا اور ہیبت ناک نظر آتا تھا۔ اس کا تمام جسم کانپ رہا تھا۔ یہ ارتعاش ہمارے دل میں نفرت آمیز ہمدردی کے جذبات پیدا کررہا تھا۔ استخوانی ہاتھوں کو آگ کی جانب بڑھا کر ان کو آپس میں رگڑتے وقت اس کی انگلیوں کے جوڑ چٹخ رہے تھے۔ قصہ مختصر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا جاسکتا تھا۔
’’تم نے ایسی حالت میں پیدل سفر کیوں اختیار کیا۔۔۔۔۔۔ ہائے، کنجوسی‘‘ سپاہی نے اس سے دریافت کیا۔
’’انہوں نے مجھے منع کیا تھا۔۔۔۔۔۔ کے سمندر کے راستے نہ جاؤ، صلاح دی تھی کہ خشکی کے راستے کریمیا ہوتا ہوا جاؤں۔۔۔۔۔۔ مگر بھائیو، میں اپنا سفر اب جاری نہیں رکھ سکتا۔۔۔ میں مررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں اس میدان میں تن تنہا مرجاؤں گا۔۔۔۔۔۔ پرندے میری نعش کو نوچ لیں گے۔۔۔۔۔۔ کسی کو خبر تک نہ ہوگی۔۔۔۔۔۔ میری بیوی اور میری لڑکیاں میری منتظر ہونگی۔۔۔ میں انہیں خط لکھ چکا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس میدان میں بارش میری ہڈیاں بہا کر لے جائے گی۔۔۔۔۔۔ آہ میرے پروردگار!۔۔۔۔۔۔ میرے پروردگار!!‘‘
اس کی آواز کسی زخمی بھیڑیئے کی دردناک چیخ و پکار کے مانند تھی
’’آہ ،شیطان‘‘ سپاہی نے جست کرکے کھڑے ہوتے ہوئے کہا‘‘۔ یہ بک بک کس لئے رکھی ہے تم نے۔ کیا تم ہمیں ایک لمحہ چین بھی لینے دو گے یا نہیں۔۔۔ مرنا چاہتے ہو تو مرجاؤ مگر خدا کے لیے ذرا خاموش رہو۔۔۔ تمہاری ضرورت بھی کس کو ہے؟۔۔۔ اب خاموش ہی رہنا۔‘‘
’’سرپر ایک دُھول نہیں جما دیتے!‘‘ طالب علم نے سپاہی کو صلاح دیتے ہوئے کہا۔
’’چلو اب سو جائیں‘‘ میں نے کہا ’’اور رہے تم، اگر آگ تاپنا چاہتے ہو تو خدا کے لیے زبان منہ میں ہی رکھنا‘‘
’’سن رہے ہو؟‘‘ سپاہی نے بڑھئی سے غصے میں دریافت کیا’’ یہ خیال دماغ سے نکال دو کہ ہم تم پر ترس کھا کر تمہاری تیمار داری کریں گے۔ اس لئے کہ تم نے ہمیں روٹی کا ٹکڑا دیا تھا اور ہم پر فائر کیا تھا۔ تم مکمل شیطان ہو۔ یہ کام کوئی اور ہی کرے گا۔
سپاہی نے اور کچھ نہ کہا اور اپنے آپ کو زمین پر دراز کردیا۔ طالب علم پہلے ہی سے لیٹا ہوا تھا۔ میں بھی لیٹ گیا ۔خوفزدہ بڑھئی جسم کو سکیڑتے ہوئے الاؤ کی طرف بڑھا اور آگ کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ میں اس کے داہنے پہلو میں لیٹا اس کے دانتوں کی رگڑ کی آواز کو سن رہا تھا۔ طالب علم اس کے بائیں طرف سکڑا ہوا تھا اور غالباً لیٹتے ہی سوگیا تھا۔ سپاہی اپنے سر کو ہاتھوں کا سہارا دیئے آسمان کو تک رہا تھا۔
’’کیسی سہانی رات ہے، کس قدر ستارے چمک رہے ہیں‘‘ تھوڑے عرصے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہو کرکہنے لگا’’ دیکھو ایک لحاف کی طرح معلوم ہوتا ہے۔۔۔ جہاں نوردی کی اس زندگی میں واقعی پسند کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ گو ایسی زندگی میں سردی کی شدت اور فاقہ کشی برداشت کرنا پڑتی ہے مگر آزادی تو ہے۔۔۔ تمہارا کوئی آقا نہیں اپنے کارو کردار کے تم خود مالک۔۔۔۔۔۔ اگر اپنا سر بھی چاٹنا چاہو تو تمہیں کوئی روکنے والا نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ زندگی خوشگوار ہے!۔۔۔ ایامِ فاقہ کشی نے میری طبیعت کو بگاڑ دیا تھا۔۔۔ مگر اب میں یہاں پر لیٹا آسمان کی طرف دیکھ رہا ہوں، ستارے جھلملا رہے ہیں جیسا کہ وہ مجھ سے کہنا چاہتے ہیں،’لیکوتن‘ کچھ پروا نہ کرو، جاؤ، سیاحت کرتے رہو مگر خیال رہے کسی کی غلامی قبول نہ کرنا۔۔۔ دل کس قدر مسرورہے!۔۔۔ میاں بڑھئی کہو ، تمہارا کیا حال ہے؟۔۔۔ بھئی خفا مت ہونا ہم سے۔ اگر ہم نے تمہاری روٹی کھالی ہے تو کیا مضائقہ ہے ؟ تمہارے پاس کچھ کھانے کو تھا اور ہم بھوکے تھے چنانچہ ہم نے اسے کھا لیا۔۔۔۔۔۔ مگر تم بہت خطرناک آدمی ہو۔ تم نے ہم پر گولی چلائی تھی۔۔۔۔۔۔ تمہاری اس حرکت نے مجھے سخت برانگیختہ کردیا تھا، اور اگر تم خود بخود زمین پر نہ گر پڑتے تو میں تمہیں اس گستاخی کا مزا چکھا دیتا۔۔۔۔۔۔ روٹی کا افسوس نہ کرو۔ پیری کوپ پہنچ کر تم کھانا خرید سکتے ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے پاس نقدی ضرور موجود ہے۔۔۔۔۔۔ کب سے بخار آرہا ہے تمہیں؟‘‘
ایک عرصے تک سپاہی کی بھدی اور کرخت آواز اور بڑھئی کی لرزاں گنگناہٹ میرے کانوں میں گونجتی رہی۔ رات۔۔۔ جو اب کاجل کی طرح سیاہ تھی، زمین پر اپنی پوری تاریکیوں کے ساتھ نیچے اتر رہی تھی۔ میرے سینے کو فضا کی بھینی بھینی خوشبو فرحت بخش رہی تھی۔ آگ کی ہلکی روشنی اور اس کی گرمی جاں بخش تھی۔۔۔ میری آنکھیں بند ہوگئیں۔اٹھو‘جلدی کرو۔۔۔چلو چلیں!‘‘
میں گھبرا کراٹھا اور سپاہی کی مدد سے جو مجھے آستین پکڑ کر زور زور سے جھنجھوڑرہا تھا فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ چلو اب تیزی سے قدم بڑھاؤ!‘‘
اس کے چہرے سے گھبراہٹ ہویدا تھی۔ میں نے اپنے گردوپیش نگاہ دوڑائی سورج طلوع ہورہا تھا اور اس کی ایک گلابی کرن بڑھئی کے ساکت اور مردہ چہرے پر پڑ رہی تھی۔۔۔ اس کا منہ کھلا تھا، اس کی آنکھیں جو باہر کو بھری ہوئی تھیں ایک بے نور اور دہشت زدہ صورت میں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں اس کا کرتہ چھاتی کے مقام سے پھٹا ہوا تھا۔ اور وہ ایک غیر فطری انداز میں زمین پر اینٹھا پڑا تھا۔
’’ بہت دیکھ چکے، چلو اب میں جو کہتا ہوں اب چلو!‘‘ سپاہی نے میرا بازو کھینچ کر چلنے کو کہا۔
’’ کیا یہ مرچکا ہے؟‘‘ میں نے صبح کی ناخوشگوار تازگی اور سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’ہاں، مرچکا ہے، اگر تمہارا گلا گھونٹ دیا جاتا تو یقیناً تم بھی مر جاتے‘‘
تو کیا، یہ۔۔۔۔۔۔ یہ طالب علم نے تو نہیں کیا؟‘‘ میں چلا اٹھا۔
اس کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ کیا تم نے یا میں نے اسکو مارا ہے پھر؟۔۔۔۔۔۔ یہ ہے پڑھے لکھوں کا حال۔۔۔ اس نے اس کو بڑی چالاکی سے ہلاک کردیا ہے اور اپنے دوستوں کو آفت میں پھنسا کر چلتا بنا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ ایسا غدار ثابت ہوگا تو کل ہی میں نے ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کردیا ہوتا۔۔۔ کنپٹی پر ایک گھونسہ جماتا اور دنیا سے ایک رزیل اور بدکردار شخص ہمیشہ کے لیے کم ہو جاتا۔۔۔ کیوں اب سمجھے کچھ کہ اس نے کیا کردیا ہے؟ اب بہتر یہی ہے کہ یہاں سے بھاگ چلیں، پیشتر اس کے کہ ہمیں کوئی اس میدان میں دیکھ لے۔۔۔ سمجھے کچھ؟ بہت جلد انہیں بڑھئی کی لاش مل جائے گی اور وہ قاتل کے سراغ میں مصروف ہو جائیں گے اور ہم ایسے آوارہ گردوں کو پکڑ کر طرح طرح کے سوالات پوچھیں گے، گو میں اور تم بالکل بے گناہ ہی ہیں۔۔۔ یہ اور مصیبت ہے کہ اس کی پستول میری جیب میں پڑی ہے۔‘‘
’’پھینک دواسے، پھینک دو!‘‘ میں نے اسے صلاح دی۔
’’پھینک دوں؟‘‘ سپاہی نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا ’’ وہ کیوں؟ یہ تو قیمتی چیز ہے۔ شاید ہم بچ نکلیں! نہیں میں تو اسے ہرگز نہ پھینکوں گا۔۔۔۔۔۔ اس کی قیمت تین روبل کے قریب ہوگی۔۔۔ یہ کون معلوم کرسکتا ہے کہ اس بے چارہ کے پاس کوئی ہتھیار بھی تھا یا نہ نہیں۔۔۔ اس میں ایک گولی بھی ہے۔۔۔ آہ! میں یہ گولی اپنے اس دغا باز دوست کے دماغ میں اتارنے کے لیے کس قدر بے قرار ہوں!۔۔۔ خدا معلوم وہ اس بے چارے کا کتنا روپیہ لے بھاگا ہے؟۔۔۔ لعنت ہو اس پر!!‘‘
اور بیچارے بڑھئی کی لڑکیوں کا کیا حشرہوگا؟ میں نے سپاہی سے کہا۔
’’لڑکیاں؟۔۔۔ کس کی لڑکیاں؟ہاں، بڑھئی کی۔۔۔ کیوں، وہ جوان ہو جائیں گی اور ہم سے تووہ شادی کرنے سے رہیں۔۔۔ ہم ان کے متعلق کیوں فکر کریں، چلو بھائی اب چلیں۔۔۔ مگر جائیں کس طرف؟‘‘
میں نے مڑکردیکھا بہت دور ایک سیاہ اور بلند پہاڑی کے اوپر سورج چمک رہا تھا۔
کیا دیکھ رہے ہو۔ وہ زندہ تو نہیں ہوگیا؟ بے خوف رہو، اب وہ اٹھ کر ہمارا پیچھا نہ کرے گا۔۔۔۔۔۔ یہ اپنے کام کا پورا ماہر معلوم ہوتا ہے۔ دیکھو تو اس نے اس غریب کو کس طرح سرد کیا ہے۔۔۔ کیسا شاندار رفیق تھا! اس نے ہمارے ساتھ بڑا اچھا سلوک کیاہے۔۔۔ آہ! اب اخلاق روز بروز روبہ تنزل ہے لوگ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ سپاہی نے غمگین لہجے میں کہا۔
خاموش اور سنسنان میدان سورج کی روشنی سے معمور تھا جو ہمارے گردوپیش، افق پر آسمان کی نیلاہٹ کے ساتھ اس دلنواز انداز میں تحلیل ہورہی تھی کہ اس وقت تمام سیاہ کاریاں اور غیر منصفانہ کام میدان کی اس عظیم الشان سادگی اور وسعت میں آسمان کے نیلے گنبد کے نیچے بالکل ناممکن معلوم ہوتے تھے۔
’’بھائی مجھے تو سخت بھوک لگ رہی ہے!‘‘ میرے ساتھی نے ہاتھ سے سیگرٹ بناتے ہوئے کہا۔
’’مگر سوال ہے کہ ہم کھائیں گے کیا اور کہاں اور اب کھائیں گے!‘‘
یہی حل طلب چیز تھی۔۔۔ ایک معما!
xxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxxx
یہاں تک پہنچ کر ہسپتال میں اس شخص نے میرے ساتھ والے جو بستر پر لیٹا ہوا تھا اپنا قصہ یوں ختم کردیا۔ یہ داستان کا خاتمہ ہے۔ میں اور سپاہی گہرے دوست بن گئے۔ ہم دونوں نے کارسؔ کے علاقے تک ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ وہ ایک رحمدل اور تجربہ کار آدمی تھا۔ میری نظروں میں اس کی بڑی عزت تھی۔ ایشیائے کو پہنچ کرہم ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
’’کیا تمہیں وہ بڑھئی اب بھی یاد آتا ہے؟ میں نے اس سے دریافت کیا۔
’’ جی ہاں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے آپ نے دیکھا ہے بلکہ جیسا آپ نے سنا ہے!
اور کچھ نہیں۔ کسی قسم کا احساس بھی نہیں؟
اس پروہ ہنسنے لگا۔
’’مجھے اس واقعے کے متعلق کس طرح احساس ہو؟ بڑھئی پر جوکچھ گزرا، اس کا میں ذمہ دار نہیں اور مجھ پر جو کچھ گذرا اس کے آپ ذمہ دار نہیں اور سچ تو یہ ہے کسی چیزکا کوئی بھی ذمہ دار نہیں۔۔۔۔۔۔ اس لئے کہ ہم سب یکساں ہیں، یعنی درندے!‘‘
*****
کہانی:گورکی
- کتاب : Gorky Ke Afsane
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.