کسی ملک میں ایک سوداگر رہتا تھا، جس کی تین بیٹیاں تھیں۔ ایک دفعہ سوداگر کو دوسرے ملک میں مال خریدنے کے لیے جانا پڑتا تو اس نے اپنی لڑکیوں سے پوچھا، ’’ میں تمہارے لیے کیا تحفہ لاؤں‘‘
بڑی لڑکی نے ایک نئے کوٹ کے لیے فرمائش کی، منجھلی نے بھی کوٹ ہی کو پسند کیا مگر چھوٹی نے کاغذ کا ٹکڑا اٹھا کر اس پر ایک پھول بنا دیا اور کہا،’’ ابا میرے لیے اس طرح کا پھول لانا۔‘‘
چنانچہ سوداگر اپنے سفر پر چلا گیا اور بہت عرصے تک مختلف ممالک میں گھومتا رہا مگر اسے اس قسم کا پھول نظر نہ آیا۔ جب وہ گھر کی طرف لوٹا تو اسے راستے میں ایک باغ نظر آیا جس کے اندر ایک بڑی عالیشان عمارت بنی ہوئی تھی۔ وہ باغ کے اندر چہل قدمی کی خاطر چلا گیا۔ باغ مختلف قسم کے پھولوں اور درختوں سے بھرا ہوا تھا۔ جا بجا غنچے چٹک رہے تھے۔ ہر پھول خوبصورتی اور حسن میں دوسرے سے بڑھا ہوا تھا۔ اچانک اسے ایک ٹہنی پر وہی پھول نظر آیا جس کی اسے تلاش تھی اس نے دل میں خیال کیا’’ یہاں باغ میں کوئی رکھوالا تو ہے نہیں اس لیے میں بے خوف و خطر پھول توڑ کر اپنی پیاری لڑکی کے لیے لے جاسکتا ہوں۔‘‘
چنانچہ وہ ٹہنی کی طرف بڑھا اور پھول توڑ لیا۔ پھول کا توڑنا تھا کہ یک لخت آندھی چلنا شروع ہوگئی، رعد گرجنے لگا، طوفان سا برپا ہوگیا اور چند لمحے بعد تین سروں والا سانپ نمودار ہوا اور بلند آواز میں کہنے لگا۔
’’تم نے میرے باغ میں ایسی حرکت کی کیونکر جرات کی؟۔۔۔۔۔۔ تم نے اس پھول کو کیوں توڑا ہے؟‘‘
سوداگر تھرتھر کانپنے لگا اور سانپ کے پیروں پر گر کر معافی مانگنے لگا۔
اس پر سانپ کو رحم آگیا اور بولا’’ بہت اچھا۔ میں تمہیں معافی دے سکتا ہوں، مگر صرف ایک شرط پر، وہ یہ کہ گھر جاتے ہی جو شخص تمہیں پہلے ملے اسے میرے حوالے کردینا اور اگر تم نے دھوکا دیا تو خیال رہے کہ میرے انتقام سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ میں تمہیں دنیا کے ہر کونے میں ڈھونڈ لوں گا۔‘‘
سوداگر نے یہ شرط منظور کرلی اور گھر کی طرف چل پڑا۔
سب سے پہلے اس نے اپنی چھوٹی لڑکی کو کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے دیکھا، جو اسے دیکھ کر دوڑتی ہوئی آئی اور اس سے لپٹ گئی۔ مگر سوداگر بجائے خوش ہونے کے رونے لگا۔
یہ دیکھ کر اس کی لڑکی نے دریافت کیا۔’’ابا! کیا سبب ہے جو تم رورہے ہو؟‘‘
جواب میں سوداگر نے وہ پھول پیش کرتے ہوئے تمام واقعہ بیان کردیا۔
یہ سن کر لڑکی نے اپنے باپ کو تسلی دی’’ ابا کسی قسم کی فکر نہ کرو، شاید خدا کو اسی میں بہتری منظور ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے اس سانپ کے پاس لے چلو۔‘‘
چنانچہ سوداگر اپنی لڑکی کو اس باغ میں چھوڑ کر واپس چلا آیا۔ لڑکی اس باغ والے عالیشان محل میں داخل ہوئی اور دیر تک اس کے مختلف کمروں میں گھومتی رہی۔ کمرے زر و جواہر سے بھرے ہوئے تھے مگر کوئی متنفس موجود نہ تھا۔
وقت گزرتا گیا۔
اب جو اس حسین دوشیزہ کو بھوک محسوس ہوئی تووہ سوچنے لگی۔’’کاش مجھے کچھ بھی کھانے کے لیے مل جائے!‘‘
یہ خیال کرنا ہی تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے ایک میز نمودار ہوئی جس پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے چُنے ہوئے تھے۔ سب لوازم موجود تھے اگر کمی تھی تو صرف چڑیا کے دودھ کی۔
لڑکی نے جی بھر کے کھانا کھایا اور جب ہاتھ اٹھایا تو میز مع طشتریوں کے غائب تھی۔
جب تاریکی چا گئی تو سوداگر کی لڑکی سونے کے لیے خواب گاہ میں چلی گئی۔ وہ بستر پرلیٹا ہی چاہتی تھی کہ ایک آندھی کے ساتھ تین سروں والا سانپ ظاہر ہوا اور اس سے کہنے لگا۔
’’پیاری حسینہ میرا بستر اس دروازے سے باہر لگا دو!‘‘
لڑکی نے سانپ کا پلنگ دروازے کے باہر بچھا دیا اور خود دوسرے بستر پر لیٹ گئی۔
جب صبح کو بیدار ہوئی تو حسبِ سابق گھر میں کوئی ذی روح موجود نہ تھا مگر جو چیز بھی اس نے طلب کی ایک پر اسرار طریق پر حاضر ہوگئی۔
شام کے وقت وہی سانپ اس کے پاس پرواز کرتا ہوا آیا اور اس سے کہنے لگا۔
’’پیاری حسینہ میرا بستر اپنے پلنگ کے ساتھ بچھا دو!‘‘
لڑکی نے سانپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنا پلنگ اس کے بستر کے ساتھ بچھا دیا۔ رات گزر گئی اور صبح ہوئی تو نو حسبِ معمول گھر ویسا ہی سنسان تھا۔
شام ہوتے ہی سانپ پھر تیسری بار نمودار ہوا اور اس سے کہنے لگا:
’’پیاری حسینہ۔ اب میں تمہارے ساتھ لیٹوں گا۔‘‘
لڑکی پہلے پہل تو ایک سانپ کے ساتھ لیٹنے سے بہت خوف زدہ ہوئی مگر قہر درویش برجان درویش، جی کڑا کرکے اس کے ساتھ سو ہی گئی۔
صبح بیدار ہوتے وقت سانپ نے لڑکی سے کہا’’ اگر تم یہاں سے اکتا گئی ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ ایک دن کے لئے اپنے باپ سے مل آؤ مگر خیال رہے دیر نہ کرنا۔ اگر تم نے ایک منٹ بھی زیادہ لگا دیا تو میں غم کے مارے مر جاؤں گا۔‘‘
’’نہیں آپ متفکر نہ ہوں! میں دیر نہ لگاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر سوداگر کی لڑکی وہاں سے رخصت ہوئی۔
محل کے دروازے پر ایک گاڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔ وہ اس میں سوار ہوئی اور چشم زون میں اپنے گھر کے صحن میں پہنچ گئی۔
جب باپ نے اپنی لڑکی کو صحیح و سلامت واپس آتے دیکھا۔ تو بہت خوش ہوا اور اس کی پیشانی کا بوسہ لے کر پوچھنے لگا۔’’میری بچی! تم بچ کرکس طرح آگئی ہو؟۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے خدا تم پر مہربان ہے!‘‘
’’ہاں ابا‘‘ یہ کہتے ہوئے لڑکی نے اپنے باپ کو محل کے کمروں میں بکھری ہوئی دولت اور سانپ کی محبت کا تمام حال سنا دیا۔
جب اس کی بہنوں نے یہ واقعہ سناتو حسد کی آگ میں جل بھن کر رہ گئیں۔ دن لحظہ بہ لحظہ ڈھل رہا تھا۔ سوداگر کی لڑکی نے سانپ کے پاس واپس جانے کی تیاری شروع کردی اور اپنی بہنوں سے کہا’’ اب مجھے جانا چاہیے۔ کیونکہ مجھے دیر کرنے کا حکم نہیں ہے۔‘‘
یہ سن کر حاسد بہنوں نے آنکھوں پر پیاز مل مل کر آنسو بہانے شروع کر دیئے اور کہنے لگیں’’عزیز بہن ابھی نہ جاؤ۔ کل چلی جانا۔‘‘
یہ دیکھ کر چھوٹیی لڑکی بہت متاثر ہوئی اور ایک دن کے لئے اور ٹھہر گئی۔دوسرے روز وہ صبح ہی سب کو الوداع کہہ کر وہاں سے روانہ ہوگئی۔
محل پہلے کی طرح بالکل خالی تھا مگر جب وہ باغ کے تالاب کے پاس پہنچی تو اسے سانپ پانی پر تیرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے فرقت کی تاب نہ لا کر خود کشی کرلی تھی!
سوداگر کی لڑکی چلائی۔’’ آہ میرے اللہ! یہ میں نے کیا کردیا!!‘‘ وہ بہت دیر تک روتی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے سانپ کو تالاب سے باہر نکالا اور اس کا سر چُوم لیا۔
سر کا چُومنا تھا کہ سانپ کے مردہ جسم میں حرکت ہوئی اور لمحہ بھر میں اس نے خوبصورت جوان کی صورت اختیار کرلی۔
نوجوان نے کہا،’’شکریہ۔ پیاری حسینہ۔ تم نے مجھے بچا لیا۔ میں سانپ نہیں ہوں بلکہ ایک مسحور شاہزادہ۔‘‘
وہ دونوں وہاں سے سوداگر کے پاس چلے گئے۔ ان کی شادی ہوگئی اور دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے۔
*****
کہانی:رشین فوک لور
- کتاب : منٹو کے غیر مدون تراجم (Pg. Manto Ke Ghair Mudavvan Tarajim)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.