Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزدور کی شکست

میکسم گورکی

مزدور کی شکست

میکسم گورکی

MORE BYمیکسم گورکی

    ہم تعداد میں چھبیس تھے۔ چھبیس متحرک مشینیں ایک مکان میں مقید۔ جہاں ہم صبح سے لے کر شام تک بسکٹوں کے لیے میدہ تیارکرتے۔

    ہماری زندان نما کوٹھڑی کی کھڑکیاں اینٹوں اور کوڑا کرکٹ سے بھری ہوئی کھائی کیطرف کھلتیں۔ جن کا نصف حصہ آہنی چادر سے ڈھکا ہوا اور شیشے گرد و غبار سے اٹے ہوتے تھے۔اس لیے سورج کی شعاعیں ہم تک نہ پہنچ سکتیں۔

    ہمارے آقا نے کھڑکی کا نصف حصہ اس لئے بند کروادیا تھا کہ ہمارے ہاتھ اس کی روٹی میں سے ایک لقمہ بھی غریبوں کو دینے کے لیے باہر نہ نکل سکیں یا ہم ان بھائیوں کی مدد نہ کرسکیں۔ جو کام کی قلت کی وجہ سے فاقہ کشی کررہے تھے۔

    ہمارا مالک’’ جیل کے غلاموں‘‘ کے نام سے پکارتا اور کھانے کے لیے گوشت کی بجائے انتڑیاں دیتا۔

    اس سنگین زندان کی چھت تلے جو دھوئیں کی سیاہی اور لکڑیوں کے جالے سے بھری پڑی تھی ہم نہایت نکلیف میں زندگی بسر کررہے تھے۔

    اس چار دیواری میں جو کیچڑ اور میدہ کے خمیر سے اٹی ہوئی تھی۔ ہماری زندگی غم وفکر کی زندگی تھی۔۔۔۔۔۔ پوری نیند اور آرام کئے بغیر ہم روز صبح پانچ بجے بیدار ہو کر نیم خوابی کی حالت میں ہی اس میدہ سے بسکٹ تیار کرنے لگ جاتے جو ہمارے سوتے وقت تیار کیا ہوتا۔ اس طرح صبح سے لے کررات کے دس بجے تک ہم میں سے کچھ تو بسکٹوں کے لیے خمیر تیار کرتے اورکچھ میدہ گوندھتے۔ اتنا عرصہ ہی ابلتے ہوئے پانی کی آواز بھٹی میں نانبائی کی سلاخ ڈالنے کا شورہمارے کانوں میں گونجتا رہتا۔

    صبح سے لے کر شام تک بھٹی آتش کدہ کی طرح دہکتی رہتی۔ جس کی سرخ شعاؤں کا عکس دیوارپر اس طرح رقص کرتا معلوم ہوتا جیسے وہ ہم بد نصیبوں کو دیکھ کرخاموش ہنسی ہنس رہا ہو۔

    وہ بڑی بھٹی کسی دیوکے بدوضع سر کے مشابہ تھی۔ جو اپنے بڑے حلق سے آگ اگل رہا ہو۔ ہمارے سامنے جہنم کی جھلسا دینے والی گرمی ایسے سانس لے رہا ہو اور ہماری غیر مختم کام کو اپنی پیشانی کے سیاہ و تاریک سوراخوں سے مطالعہ کررہا ہو۔ یہ دو عمیق سوراخ آنکھوں کے مشابہ تھے۔۔۔۔۔۔ آنکھیں جو کسی دیو کی آنکھوں کی طرح ہمدردی اور رحمدلی کے جذبہ سے عاری ہوں۔ یہ آنکھیں ہمیشہ تاریک نظر سے دیکھتیں۔ جیسے وہ اپنے غلاموں کو دیکھتے دیکھتے تنگ آگئی ہوں اور اس بات کی توقع چھوڑ دی ہو کہ جنس آدم میں سے ہیں۔

    ہم ہر روز ناقابل برداشت گردوغبار اور جھلسا دینے والی بھاپ کے درمیان اپنی عرق آلود پیشانیوں سے میدہ گوندھتے اور بسکٹ تیار کرتے۔ ہمیں اس کام سے سخت نفرت تھی اور یہی وجہ تھی کہ ہم تیار کردہ بسکٹوں پر سیاہ اور ریگ آلود روٹی کو ترجیح دیتے تھے۔

    روز مرہ کے کام سے ہمارے اعصاب مشینوں کی طرح خود بخود کام کرنے کے عادی ہوگئے تھے اور بسا اوقات ان کی حرکت دل و دماغ سے محوہو جاتی تھی۔

    کام کے دوران میں ہم ایک دوسرے سے بالکل ہم کلام نہ ہوتے کیونکہ ہمارے پاس گفتگو کیلئے کوئی موضوع ہی نہ تھا۔ اس لئے ہمارا تمام وقت خاموشی میں گزرتا۔بشرطیکہ ہم میں سے کوئی کسی سے لڑ نہ پڑے مگر جھگڑے کا بہت کم موقع آتا۔۔۔۔۔۔ اور آتا بھی کیسے؟۔۔۔۔۔۔ جبکہ انسان نیم مردہ ہو۔۔۔۔۔۔ ایک بُت جس کی حسیات شب و روز کی متواتر محنت سے کند اور مردہ کردی گئی ہوں۔ خاموشی ان اشخاص کیلئے جو سب کچھ کہہ چکے ہوں اور کچھ کہنے کے لیے باقی نہ رکھتے ہوں۔خوف اور اذیت ہے۔ مگر ان کیلئے جو ابھی تک اپنی آواز سے ہی ناآشنا ہوں۔ خاموشی بجائے تکلیف دہ ہونے کے آسان و راحت رساں ہے۔

    اس خاموشی کو کبھی کبھا ر ہمارا راگ توڑ دیتا۔۔۔۔۔۔ وہ راگ اس طرح ظہور میں آتا۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے ایک کبھی تھکے ہوئے گھوڑے کے ہنہنانے کی طرح کوئی ایسا راگ الاپنا شروع کردیتا جوعموماً ایسے موقعوں پر روح کے بوجھ کوہلکا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ پہلے پہل تو اس اداس راگ میں کوئی شامل نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔ اور وہ راگ ہماری زندان نما کوٹھڑی کی چھت کے نیچے شمع کی لو کی طرح لرزتا رہتا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد اس گانے والے کے ساتھ ہم میں سے ایک اور شامل ہو جاتا۔۔۔۔۔۔ اب وہ غمگین وہم آہنگ آوازیں ہماری قبر نما کوٹھڑی کی کثیف فضا میں تیرتی نظر آتیں۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم سب اس راگ میں شامل ہو جاتے۔۔۔۔۔۔ اب بہت سی آوازیں جمع ہو کر سمندر کی موجوں کی طرح سنگین قفس کی سیاہ دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر گونجنا شروع کردیتیں۔ اس طرح ہم سب اپنے آپ کو راگ الاپنے میں مصروف پاتے۔

    ہمارے بلند راگ کے سرُ جو کوٹھڑی میں آزادانہ طور پر سما نہ سکتے تھے پتھر کی سیاہ دیواروں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا آہ و زاری، نالہ فریاد کرتے۔ اورہمارے بے حس دلوں میں ایک بے جان ایک میٹھا سا درد پیدا کردیتے۔ جو اس کے مندمل زخموں کو پھر ہرا کردیتا اور اسے ایک نئے الم کے لئے بیدار کردیتا۔

    عام طور پر گانے والا سرد آہ بھرتے ہوئے اپنا گانا بند کردیتا۔ اور آٰنکھیں بند کئے اپنے رفیقوں کے راگ کو خاموشی سے سنتا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر ان کے ساتھ شامل ہو جاتا۔

    اس کی نگاہوں میں راگ کی بڑھتی ہوئی لہر ایک دور افتادہ سڑک تھی۔۔۔ دور بہت دور۔۔۔۔۔۔ ایک کشادہ سڑک سورج کی جاں پرور روشنی سے منور جس پر وہ گامزن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اِسی دوران میں آگ کے شعلے بھٹی میں سرخ زبانیں نکال رہے ہوتے۔ نانبائی کی آہنی سلاخ بھٹی کی زرد اینٹوں پرتیز آواز میں کھیل رہی ہوتی۔ ابلتے ہوئے پانی کا شور بدستور جاری رہتا اور شعلوں کا عکس دیوار پر رقصاں خاموش ہنسی ہنس رہا ہوتا۔

    اورہم کسی غیر کے لفظوں میں اُن انسانوں کے دکھ درد بیان کرنے میں مصروف ہوتے۔ جن سے سورج کی روشنی چھین لی گئی ہو۔

    جو غلام ہوں۔

    یہ تھی ہماری زندگی۔۔۔۔۔۔ چھبیس غلاموں کی زندگی اس قفس میں جس میں زندگی کے ایام اس قدر تلخ گزر رہے تھے کہ معلوم ہورہا تھا کہ سنگین مکان کی تینوں منزلیں ہمارے کندھوں پر تعمیر کی گئی ہیں۔

    گانے کے علاوہ ہمارے پاس ایک اور شغل تھا۔ جس کی ہماری نظروں میں ویسے ہی قدر و قیمت تھی۔ جیسے سورج کی دلفریب شعاؤں کی۔

    ہمارے مکان کی دوسری منزل میں زری کا کارخانہ تھا۔ جس میں بہت لڑکیاں ملازم تھیں۔ ان لڑکیوں میں سولہ برس کی دوشیزہ ٹینیا نامی تھی جو ہمارے سامنے والی دیوار کی چھوٹی کھڑکی کے پاس ہر روز آتی۔ اور سلاخوں کے ساتھ اپنا گلاب جیسا چہرہ لگا کر سریلی آواز میں پکارتی۔

    ’’مظلوم قیدیو! مجھے تھوڑے سے بسکٹ دو‘‘

    اس آواز کو سنتے ہی ہم سب کھڑکی کے پاس دوڑے چلے جاتے۔ اور اس خوبصورت اور معصوم چہرہ کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھتے۔ اس کی آمد ہمارے لئے خوشگوار ہوتی۔

    اسے کھڑکی کے پاس دیکھ کر ہم سب دروازہ کی جانب بڑھتے اور ایک دوسرے کوریلتے ہوئے دروازہ کھول دیتے۔ دروازہ کھلنے پر وہ اندر آجاتی۔

    ہمیشہ ایک ہی انداز کے ساتھ مسکراتی ہوئی، اپنے خوبصورت سر کو ایک طرف لٹکائے ہوئے جس سے بھورے بالوں کے خوبصورت گیسو عجب دلکش انداز میں اس کے شانوں پر لٹک رہے ہوتے۔

    ہم غلیظ، زشت رو اور بدوضع حسرت زدہ بھکاریوں کی طرح کھڑے اس کی شکل کی طرف دیکھا کرتے۔ جو دروازے کی دہلیز پر کھڑی محسو تبسم ہوتی۔ہم سب اس کی خدمت میں صبح کا سلام عرض کرتے اور اس کے گفتگوکرتے وقت خاص الفاظ استعمال میں لاتے۔

    وہ الفاظ ہماری زبان سے خاص اسی کے لئے نکلتے۔۔۔۔۔۔ خاص اسی کیلئے۔

    جب ہم اس سے ہمکلام ہوتے تو ہماری آواز خلاف معمول ملائم اور نرم ہوتی اور ہماری بدذوقی اس وقت بالکل غائب ہو جاتی۔۔۔۔۔۔ یہ آداب صرف اسی کیلئے مخصوص تھے۔ نانبائی سرخ اور خستہ بسکٹ نکال کر اس کی جھولی میں عجب چابک دستی سے پھینک دیا کرتا۔

    ’’دیکھو! خیال رہے۔ کہیں آقا کے دام میں گرفتار نہ ہو جانا۔‘‘ ہم ہمیشہ اسے اس خطرہ سے آگاہ کرتے ر ہتے۔

    اس پر وہ دلکش ہنسی ہنستی ہوئی یہ جواب دیتی۔’’ خدا حافظ میرے ننھے قیدیو!‘‘۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہتے ہی وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوجایا کرتی۔

    اس کی روانگی کے بعد ہم دیر تک اس کے متعلق گفتگو کرتے۔۔۔۔۔۔ ہمارے خیالات ہمیشہ ایک ہی ہوتے۔ کیونکہ وہ، ہم اور ہمارے گردوپیش کی اشیا ہمیشہ وہی ہوتیں۔۔۔ غیرمتبدل اس انسان کیلئے زندگی ایک عذاب ہے۔ جس کا ماحول ثباتی ہو۔ جتنا عرصہ وہ اس ماحول میں بسر کرے گااسی قدر اس فضا کا سکون اس کیلئے ناقابل برداشت ہوتا جائیگا۔

    ہم صنفِ نازک کے متعلق ایسے الفاظ میں گفتگو کیا کرتے۔ کہ بعض اوقات وہ گفتگو نا گوار خاطر ہو جایا کرتی۔۔۔۔۔۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرلیا جائے کہ ہمارے خیالات عورتوں کے متعلق اس قدر بُرے تھے وہ صنف جسکے متعلق ہم اظہار خیالات کیا کرتے عورت کہلائے جانے کی مستحق نہیں۔

    ٹائنا کی شان میں ہمارے منہ سے کوئی گستاخ کلمہ نکلنے نہ پاتا۔۔۔۔۔۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ ہمارے پاس بہت کم عرصہ ٹھہرتی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ ہماری نظروں کے سامنے آسمان سے ٹوٹے ہوئے ستارے کی طرح روشنی دکھلا کر پھر اوجھل ہو جاتی۔

    اور یا اس کی وجہ اُس کا حُسن ہو کیونکہ ہر حسین چیز انسان کے دل میں اپنی وقعت اور عزت پیدا کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔ خواہ وہ انسان غیر تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔

    اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی تھی۔ گو زندان ایسی مشقت نے ہم سب کو وحشی درندوں سے بدتر بنا دیا تھا مگر ہم پھر بھی انسان تھے۔

    اور بنی نوع انسان کی طرح ہم بھی بغیر کسی کی پرستش کئے زندہ نہ رہ سکتے تھے ہمارے لئے اس کی ذات سے بڑھ کر دنیا میں کوئی اور شے نہ تھی۔ اس لئے کہ بیسیوں انسانوں میں سے جو اس عمارت میں رہتے۔ ایک صرف وہی تھی۔ جو ہماری پرواہ کیا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب سے بڑی وجہ یہی تھی۔ہر روز اس کیلئے بسکٹ مہیا کرنا ہم اپنا فرض سمجھتے تھے۔

    یہ نذرانہ ہوتا۔ جو ہم ہر روز اپنے دیوتا کی قربان گاہ پر پیش کیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ رسم ایک مقدس فرض میں تبدیل ہوگئی۔ ہمارا اور اسکا رشتہ باہم مضبوط ہوگیا۔

    بسکٹوں کے علاوہ ہم ٹائینا کو نصیحتیں بھی کیا کرتے۔ یہی کہ وہ اس سردی میں گرم کپڑے استعمال کیا کرے اور سیڑھیوں پر آرام سے اترا کرے۔

    ہماری ان نصیحتوں کو وہ مسکراتی ہوئی سنا کرتی۔ اور ان پر کبھی عمل نہ کرتی اس کا یہ طرز عمل ہمیں کبھی ناگوار معلوم نہ ہوتا۔ کیونکہ نصیحتوں کے پس پردہ ہماری طرف یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس بات سے باخبرہو جائے کہ ہم اس کی حفاظت کررہے ہیں۔

    بعض اوقات وہ ہمیں کچھ کام کرنے کیلئے کہتی۔ جسے ہم بصد خوشی نہیں بلکہ فخر کے ساتھ کیا کرتے۔ لیکن جب ایک دفعہ ہمارے رفیق نے اسے اپنی قمیض دے کر پیوند لگانے کو کہا۔ تو اس نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے جواب دیا۔’’ کیا نگوڑا یہی کام رہ گیا ہے میرے لئے مجھے اور بہت سے کام کرنے ہیں۔‘‘

    ہم اپنے بیوقوف ساتھی کی اس حرکت پر خوب ہنسے اور پھر اسے کسی کام کے کرنے کو نہ کہا۔

    ہمیں اس سے محبت تھی اگر محبت کہا جائے تو سمجھ لیجئے کہ تمام جذبات اسی لفظ میں نہاں ہیں۔

    انسان کی ہمیشہ یہی خواہش رہی ہے کہ وہ کسی کو اپنی محبت کا مرکز بنائے۔ خواہ اس کا محبوب اس کی محبت کے بوجھ تلے پِس ہی کیوں نہ جائے۔ اس کی تمام تر وجہ یہ ہے کہ محبت کرتے وقت وہ اپنے محبوب کا احترؔ ام نہیں کرتا۔ ہم اگر ٹینیاؔ کو محبت کرتے تھے۔ تو مجبوری سے اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی اور شے موجود نہ تھی جس سے ہم محبت کرسکیں۔

    کبھی کبھی ہم میں سے ایک یہ سوچنے لگا جاتا کہ ہم سب اس لڑکی کے متعلق بے فائدہ سرگردانی کیوں کررہے ہیں؟ اس چھوکری کی محبت میں آخر ہمیں کیا ملے گا؟ اس شخص کی جوٹینیا کی شان میں ایسے گستاخانہ کلمات کہنے کی جرأت کرتا بہت بڑی حالت کی جاتی۔

    ہم چاہتے تھے کہ کسی سے محبت کریں اور اب چونکہ ہمیں وہ چیز جس کے ہم متلاشی تھے مل گئی تھی اس لئے ہم اس سے الفت کرتے اور وہ چیز جسے ہم چھبیس اشخاص محبت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ امر لازم تھا کہ دوسرے اس کا احترام کریں۔ اس لئے کہ وہ ہماری مقدس عبادت گاہ تھی اور اگر کوئی شخص ہمارے نظریہ کے خلاف چلتا تووہ ہمارا دشمن تھا۔

    اس میں کوئی شک نہیں۔ لوگ اکثر اس چیز کو محبت کرتے ہیں جو حقیقت میں محبت کئے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ مگر یہاں ہم چھبیس شخص ایک ہی کشتی میں سوار تھے۔ اس لئے ہم چاہتے تھے کہ اس چیز کو جسے ہم پیارکرتے ہیں دوسرے مقدس خیال کریں۔ بسکٹ کے کارخانہ کے علاوہ ہمارا آقا ایک کیک بنانے والی فیکٹری کا مالک تھا جو اسی مکان میں واقع تھی۔ ہماری قبر نما کوٹھڑی اور اس فیکٹری کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی۔ اس فیکٹری کے ملازم اپنے کام کو ہمارے کام سے اعلیٰ و مصفا خیال کرتے ہمیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہمارے ساتھ بہت کم ملنے کی زحمت گوارا کرتے بلکہ جب کبھی انہیں صحن میں ہمارے ساتھ دوچار ہونے کا اتفاق ہوتا تو وہ ہمیں دیکھ کر ہنسا کرتے تھے۔

    ہمیں ان کے کارخانہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ صرف اس لئے کہ ہمارے آقا کو شبہ تھا کہ ہم وہاں سے مکھن کے کیک چرالینگے۔

    ہمیں بھی ان سے نفرت تھی۔ رشک تھا۔ اس لئے کہ ان کا کام نسبتاً کم اور مزدوری کہیں زیادہ تھی۔ ان کیلئے خوردونوش کا سامان ہم سے نہایت اچھا تھا۔ ان کے کام کرنے کی جگہ روشن و صاف اور وہ ہمارے برعکس تندرست اور مصفا تھے۔ ان کے مقابلہ میں ہم سب زرد اور نحیف تھے۔ ہم سے تین دائم المریض اور باقی تپ دق ایسی لرزہ خیز مرض میں مبتلا تھے۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے ایک بیچارہ تو گنٹھیا کی وجہ سے قریب قریب اپاہج ہورہا تھا۔

    تعطیل کے دنوں میں وہ خوبصورت لباس اور نئے روغن شدہ بوٹ پہن کر باغ میں چہل قدمی کیلئے نکلتے اور ہم چیتھڑوں میں پھٹے ہوئے بوٹ پہنے ہوئے باغ کی جانب جاتے مگر پولیس ہمیں اندر داخل ہونے کی اجازت نہ دیتی۔ ان حالات کی موجودگی میں یہ کب ممکن ہو سکتا تھا کہ ہم ان کیک بنانے والوں کو محبت کی نظروں سے دیکھتے؟

    چند روز ہوئے ہم نے یہ افواہ سنی کہ انکا منتظم شراب نوشی کی وجہ سے نکال دیا گیاہے۔ اور اس کی جگہ ایک اور شخص کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو کسی زمانے میں سپاہی تھا۔

    اس سپاہی کے متعلق روایت تھی کہ وہ شوخ رنگ کی واسکٹ پہنے ایک بڑی سی سنہری زنجیر لٹکائے صحن میں گھوما کرتا ہے۔

    ہم اس نئے منتظم کو دیکھنے کے بہت شائق تھے اس کی ملاقات کی امید میں ہم سب نے باری باری صحن میں چکر کاٹے مگر بے سود۔

    ایک روز وہ خود ہی ہمارے کارخانے میں چلا آیا۔

    بوٹ کی ٹھوکر سے دروازے کو کھول کر وہ دہلیز پر کھڑا ہوگیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔’’خدا تمہارے ساتھ ہو! میرے بچو آداب عرض ہے۔‘‘

    بھٹی کا دھواں سیاہ بادلوں کی طرح چکر لگاتا ہوا دروازے سے گزر رہا تھا۔ جہاں سپاہی عجب پررعب انداز میں کھڑا ہماری طرف دیکھ رہا تھا۔

    اس نے اپنی موچھوں کو کمال صفائی سے تاؤ دے رکھا تھا۔ جس میں سے زرد دانتوں کی لڑیاں ظاہر ہورہی تھیں۔

    وہ آج نیلے رنگ کی ایک بھڑکیلی کامدار واسکٹ پہنے ہوئے تھا جس پر سنہری بٹن جابجا چمک رہے تھے۔۔۔۔۔۔ سونے کی وہ زنجیر جس کے متعلق ہم نے سنا تھا۔ بلا شک و شبہ اپنی جگہ پر موجود تھی۔

    یہ سپاہی مضبوط، درازقدر اور خوبصورت تھا۔۔۔۔۔۔ اس کی بڑی اور روشن آنکھوں میں دوستی کی جھلک نمایاں طور پر دکھائی دے رہی تھی۔

    ایک کلف شدہ ٹوپی اس کے سر کی زینت ہورہی تھی اور اس کے پاجامہ کے پائنچوں سے تازہ روغن شدہ بوٹ چمک رہے تھے۔

    ہمارے نانبائی نے اس کی خدمت میں مودبانہ التجا کی کہ وہ دروازہ بند کردے۔ دروازہ بند کرنے کے بعد اس نے آقا کے متعلق ہم سے طرح طرح کے سوالات کئے۔ ہم نے ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے اسے بتلایا کہ ہمارے آقا خون چوسنے والا پسو، غلاموں کا تاجر، انسانی اجناس فروخت کرنے والا گماشتہ اور ضرر رساں ہے۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان خیالات کا اظہار بھی کیا جو ہمیں اپنے آقا کے متعلق تھے مگر ان کا صفحہ قرطاس پر لانا ناممکن ہے۔

    سپاہی اپنے سوالات جواب بڑے غور سے سنتا رہا مگر یک لخت جیسے وہ کسی گہری خواب سے چونک پڑا ہوکہنے لگا۔’’ تم لوگوں کے پاس چھوکریاں تو بہت ہونگی؟‘‘

    اس پر ہم میں سے بعض تو ہنس پڑے اور بعض نے افسردہ منہ بنا لئے آخر کار ہم میں سے ایک نے سپاہی پر واضح کردیا کہ ہمارے گردونواح میں چھوکریاں ضرور موجود تھیں۔۔۔۔۔۔ کوئی درجن ایک کے قریب۔ اس پر سپاہی نے آنکھیں جھپکتے ہوئے پوچھا۔’’ کیا ان سے تفریح بھی ہوا کرتی ہے؟‘‘

    ہم پھر ہنس پڑے۔۔۔۔۔۔ ہم میں سے اکثر اس امر کے خواہشمند تھے کہ سپاہی پر واضح کردیں کہ وہ چھوکریاں جن کے متعلق وہ اس قسم کی گفتگو کررہا ہے۔ بعینہ اسی کی مانند تیز و طرّار ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر یہ بات کہنے کی ہم سے کسی کو جرأت نہ تھی۔ پھر بھی ہم میں سے ایک نے دبی زبان میں یہ کہہ ہی دیا۔

    ’’ اس حالت میں جس میں ہم ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

    ’’درست ہے!! اس حالت میں اس قسم کی تفریح تمہارے لئے ناممکن دراصل تمہیں اپنی موجودہ حالت میں نہیں رہنا چاہئے۔ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ تمہاری قسمت بُری ہے۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب سمجھتے ہونا؟۔۔۔۔۔۔ اور عورتیں! تم جانتے ہو۔ اس مرد کو پسند کرتی ہیں جو وضعدار ہو۔ جوان اور خوبصورت ہو۔ اس کے علاوہ وہ مرد میں طاقت اور قوت کی بھی عزت کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔’’ اس بازو کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘

    سپاہی نے آستین چڑھا کر بازو کو کہنی تک ننگے کرتے ہوئے کہا۔’’ بازو مضبوط اور سپید رنگ کا تھا جس پر سنہری بال چمک رہے تھے۔‘‘

    ’’ ٹانگیں اور چھاتی بھی اسی طرح مضبوط ہے۔۔۔۔۔۔ گوشت سے بھری ہوئی۔۔۔۔۔۔ اب طاقت کے علاوہ مرد کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ بہترین لباس زیب تن کرے۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھو۔ تمام عورتیں مجھے محبت کرتی ہیں حالانکہ میں نے ان کے باے میں کبھی کوشش کی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ ایسی درجنوں ہیں۔‘‘

    یہ کہہ کروہ ایک ٹوکری پر بیٹھ گیا اور ہمیں یہ سنانا شروع کیا’’ کہ عورتیں اس کی محبت میں کس طرح گرفتار ہوتی ہیں اور وہ ان کے ساتھ کس قسم کا سلوک کرتا ہے۔

    اسکی روانگی کے بعد ہم عرصہ تک خاموش رہے اور اس عرصہ میں اس کے عشق کے افسانوں کی بابت سوچتے رہے۔

    اس خاموشی کے بعد دفعتاً ہم گفتگو میں مشغول ہوگئے جس میں اتفاق آرا سے سپاہی کو خوش خلق اور ملنسار قرار دیا گیا۔

    وہ بہت حلیم اور خوش طبع تھا جبکہ اس نے ہمارے ساتھ اس طرح گفتگو کی جیسے وہ ہم ایسا ہو۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس آج تک کوئی ایسا شخص نہ آیا تھا جس نے ہمارے ساتھ اس قسم کی دوستانہ گفتگو کی ہو۔

    ہم عرصہ تک اس کی مستقبل قریب میں ان کامیابیوں کے متعلق اظہار خیالات کرتے رہے۔ جو اسے فیکٹری میں لڑکیوں کی محبت جیتنے میں حاصل ہونی تھیں۔۔۔۔۔۔ ان لڑکیوں کی محبت جو ہماری طرف دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتیں جیسے انہیں ہم سے کوئی غرض ہی نہیں اوریا جن کو ہم للچائی للچائی نظروں سے دیکھتے جبکہ وہ صحن میں مختلف قسم کے خوبصورت لباس پہن کر گزر رہی ہوتیں۔

    ’’ٹائنیا کی نسبت تمہارا کیا خیال ہے ۔کہیں ۔وہ سپاہی کی گرفت میں نہ آجائے‘‘۔ نانبائی نے دفعتاً دلگیر آواز میں کہا۔

    ان الفاظ نے ہم پر بہت اثر کیا۔ اس لئے ہم خاموش رہے۔

    ٹائنیا کا خیال ہمارے دماغوں سے تقریباً تقریباً محو ہوچکا تھا۔۔۔۔۔۔ سپاہی کے خوبصورت اور مضبوط جسم نے اسے ہماری نظروں سے اوجھل کردیا تھا۔ تھوڑے وقفہ کے بعد بحث شروع ہوگئی۔ ہم میں سے بعض کو یقین تھا کہ ٹائنیا ایک معمولی سپاہی کی خاطر اپنی عصمت کو ہرگز ہاتھ سے جانے نہ دیگی مگر بعض کا یہ خیال تھا کہ وہ سپاہی کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ نہ کرسکے گی۔

    ہم میں سے چند ایک نے رائے دی کہ اگر سپاہی اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرے تو اس کی پسلیاں کچل ڈالی جائیں۔

    اس بحث کے اختتام پر یہ فیصلہ ہوا کہ ہم سب ٹائنیا کی حفاظت کریں اور اسے آنے والے خطرہ سے آگاہ کردیں۔

    ایک ماہ گزر گیا۔

    سپاہی حسب معمول اپنے کام میں مشغول رہا۔ اس دوران میں وہ ہمارے کارخانہ میں کئی دفعہ آیا۔ مگر چھوکریوں پر فتح پانے کے قصوں کی بابت ایک حرف تک زبان پر نہ لایا۔

    ٹائنیا بھی ہر روز صبح کو اپنے بسکٹوں کی خاطر آتی۔ اس کا رویہ حسب دستور ویسا ہی دوستانہ تھا۔ ہم نے اسے سپاہی کے متعلق آگاہ کرنا چاہا مگر ان ناموں سے جس سے وہ اسے پکارتی ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ اس کے ہتھے نہیں چڑھ سکتی۔

    ہمیں اپنی ننھی لڑکی ٹائنیا پر ناز تھا۔ جبکہ ہم ہر روز سپاہی کے ساتھ کوئی نہ کوئی لڑکی دیکھتے تھے۔ ٹائنیا کے اس باوقار رویہ نے ہمارے حوصلوں کو بڑھا دیا۔ اب ہم۔۔۔۔۔۔ اس کی عصمت کے نگہبان، سپاہی کو حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ اس کے برعکس اس کی عظمت ہمارے دلوں میں دن بدن بڑھتی گئی۔

    ایک روز سپاہی شراب سے مخمور، ہنستا ہوا ہمارے کمرہ میں داخل ہوا۔ جب ہم نے اس کے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔’’ دوچھوکریاں مجھ پر آپس میں لڑ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کس طرح ایک دوسرے کو ذلیل کیا۔۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کے بال پکڑ کر وہ زمین پر گر پڑیں۔۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔ اور دیوانی بلیوں کی طرح نوچنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ اور میرا ہنسی کے مارے برا حال ہوا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے تعجب ہے کہ عورتیں صاف لڑائی کیوں نہیں لڑتیں۔۔۔۔۔۔ نوچنے کا فائدہ؟‘‘

    وہ بنچ پر بیٹھا ہوا کس قدر تندرست اور مصفا نظر آرہا تھا ۔ہم خاموش تھے اس لئے کہ اس کی آمد ہمیں ناگوار گزر رہی تھی۔

    ’’ میں اس معمہ کو حل کرنے سے قاصر ہوں۔۔۔۔۔۔ خدا جانے عورتیں مجھ پر کیوں فریفتہ ہیں۔۔۔۔۔۔ بس آنکھ جھپکنے کی دیرہے اور۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سپاہی اپنے سپید بازوؤں کو ہوا میں حرکت دے رہا تھا اور ہماری طرف دوستانہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

    ’’ننھے پودوں کو اکھاڑ لینا کوئی جوانمردی نہیں۔ مزا تو جب ہے کہ کسی مضبوط درخت کو گرایا جائے‘‘ ہمارے نانبائی نے غصہ کی وجہ سے آہنی سلاخ کو بھٹی میں تیزی سے حرکت دیتے ہوئے کہا۔

    ’’ تو مجھ سے مخاطب ہوگیا؟‘‘ سپاہی نے دریافت کیا۔

    ’’ ہاں! تمہیں سے مخاطب ہوں۔‘‘

    ’’ اس سے تمہارا مطلب؟‘‘

    ’’ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں‘‘

    ’’ ٹھہرہ! ٹھہرو! وہ کونسا مضبوط درخت ہے۔ جس کا تم ذکر کررہے ہو۔‘‘

    نانبائی نے اس کا جواب نہ دیا۔ اور بھٹی سے پکے ہوئے بسکٹ نکالنے میں مشغول رہا۔ اس سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ سپاہی اور اس کی گفتگو کو بالکل بھول چکا ہے۔ مگر سپاہی بہت بے چین ہوا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر بھٹی کے قریب آیا اور کہا-:

    ’’ کہو تو!۔۔۔۔۔۔ کس عورت کا ذکر کررہے تھے؟۔۔۔۔۔۔ تم نے میری ہتک کی ہے۔ کوئی عورت مجھ پر غالب نہیں آسکتی۔‘‘

    اس کی گفتگو سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ نانبائی کی گفتگو سے سخت ناراض ہوگیا ہے۔ غالباً اُس کو اِس بات پر فخر تھا کہ اس میں عورتوں کو مسخر کرنے کا وصف موجود ہے۔ ورنہ درحقیقت سوائے اس وصف کے اس شخص میں زندگی کے متعلق کوئی چیز بھی موجود نہ تھی۔ اسی ایک رہے سہے وصف کی رو سے وہ اپنے آپ کو زندہ انسان کہلانے کا مستحق ہو سکتا تھا۔

    دنیا میں ایسے افراد موجود ہیں۔ جو بیماری کو خواہ وہ روحانی ہو یا جسمانی، زندگی کا ایک بیش قیمت جزو سمجھتے ہوئے اس کی تمام زندگی بھر پر ورش کرتے رہتے ہیں۔ اور اسی میں اپنی زندگی کا راز سجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسی زندگی عموماً تکلیف دہ ہوتی ہے مگر وہ اس پر از مصائب زندگی کے متعلق دوسروں سے شکایت ضرور کرتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ اپنے ہمسایہ انسانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراسکیں۔ اور اس طرح وہ انہیں ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھیں اگر افراد سے یہ بے چینی، کرب اور تکلیف چھین لی جائے۔ ان کے درد کی دوا کردی جائے تو وہ پہلے کی طرح شادمان نہ ہوں گے۔ اس لئے کہ ان کی زندگی کا آخری سہارا اُن سے علیحدہ کردیا گیا ہے۔

    اب وہ کھوکھلے برتن کی مانند ہونگے۔ بعض اوقات ایک انسان کی زندگی اس قدر تنگ اور غربت زدہ ہوتی ہے کہ وہ بے قصد کسی معیوب چیز کو ہی محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اسی پر زندہ رہنا چاہتا ہے۔ صاف لفظوں میں اکثر لوگ صرف دماغی بیکاری کی وجہ سے گناہ کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔

    سپاہی سخت ناراض ہوگیا تھا۔ نانبائی کی طرف لپکا اور درشت لہجہ میں بولا۔’’ میں جو بار بار کہہ رہا ہوں کہ بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس لڑکی کی بابت ذکر کررہے ہو۔‘‘

    ’’ کہوں پھر ‘‘ نانبائی نے سپاہی کی طرف اچانک مڑتے ہوئے کہا۔

    ’’ ہاں! ہاں‘‘

    ’’ کیا تم ٹائنیا کو جانتے ہو۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ بس وہی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔ قابو میں لانے کی کوشش کرو۔‘‘

    ’’میں ؟‘‘

    ’’ ہاں! ہاں! تم!‘‘

    ’’یہ تو بالکل معمولی بات ہے۔‘‘

    ’’ ہم بھی دیکھیں کیسے؟‘‘

    ’’ تو پھر دیکھ لو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا!‘‘

    ’’ وہ تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے گی۔‘‘

    ’’صرف ایک ماہ کی مہلت چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’شیخ چلی مت بنو۔۔۔۔۔۔ میاں سپاہی۔‘‘

    ’’ اچھا چودہ روز سہی۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد تم دیکھ لینا۔۔۔۔۔۔ کیا نام لیا تھا تم نے؟۔۔۔۔۔۔ ٹائنیا؟‘‘

    ’’اب جاؤ۔۔۔۔۔۔ تم کام میں حارج ہورہے ہو۔‘‘

    ’’ بس چودہ روز۔۔۔۔۔۔ اور وہ میرے قابو میں ہوگی۔۔۔۔۔۔ تمہاری قسمت!!‘‘

    ’’ میں کہتا ہوں یہاں سے دور ہو جاؤ۔‘‘

    یہ کہہ کر نانبائی وحشیوں کی طرح غضبناک ہوگیا۔یہ دیکھ کر سپاہی سخت حیران ہوا اور خاموشی سے یہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔’’بہت اچھا‘‘۔

    اس بحث کے دوران میں ہم سب خاموش رہے۔ اس لئے کہ ہم انکی باہم گفتگو کو بہت غور سے سن رہے تھے۔ لیکن جونہی سپاہی رخصت ہوا ہمارے درمیان گفتگو کا ایک ہنگامہ سا برپا ہوگیا۔ ہم میں سے ایک نے نانبائی کو چلاتے ہوئے کہا ۔تمہیں کیا شرارت سوجھی ہے۔ کام کئے جاؤ اپنا۔۔۔۔۔۔ سنا ہے یا نہیں‘‘۔ نانبائی نے تندی سے جواب دیا۔

    ہمیں دراصل اس امر کی فکر لاحق ہورہی تھی کہ چونکہ سپاہی اپنے الفاظ کو پورا کرنے کی کوشش ضرور کریگا۔ اس لئے ٹائنیا کی عصمت خطرے میں ہے۔

    مگر باوجود اس کے ہم اس بحث کا نتیجہ دیکھنے کیلئے سخت بیقرار تھے۔۔۔۔۔۔ اس بحث کا نتیجہ جو کسی حالت میں بھی خوشگوار نہ تھا۔

    ’’ کیا ٹائنیا سپاہی کے مقابلہ کی تاب لاسکے گی؟‘‘ اس سوال پر ہم بیک زبان چلا اٹھے۔ جیسے ہمیں ٹائینا پر پوری طرح بھروسہ ہو۔

    ’’ننھی ٹائینا ضرور ثابت قدم رہے گی‘‘۔

    ہمیں اپنے ننھے دیوتا کی ثابت قدمی و استقلال کے امتحان لینے کی عرصہ سے خواہش تھی ۔ لیکن اب ہم نے آپس میں یہ ثابت کردیا کہ ٹائینا اس امتحان میں ضرور سرخرو ہوگی۔ اس دن سے ہماری زندگی ایک عجب قسم کی زندگی ہوگئی جس سے ہم بالکل ناآشنا تھے۔ ہم آپس میں پہروں بحث کرتے رہتے تھے۔ جیسے ہم پہلے کی نسبت زیادہ عقلمند و ذی فہم بن گئے ہوں۔ اور ہماری گفتگو کچھ معنے رکھتی ہو۔

    اب ہمیں ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ہم شیطان سے بازی لگا رہے ہیں اور اس ٹائینا کی عصمت ہماری طرف سے د اؤ ہو۔

    جب ہم نے کیک بنانے والے نانبائی سے یہ خبر سنی کہ سپاہی نے ٹائینا کا پیچھا کرنا شروع کردیا ہے تو ہمیں سخت رنج پہنچا اور ہم اس رنج کو مٹانے کیلئے اس قدر منہمک تھے کہ ہم کو یہ معلوم تک نہ ہوا کہ آقا نے ہماری بے چینی و اضطراب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میدہ میں تین سیر کا اضافہ کردیا۔

    اس اضطراب کے دوران میں کام کرتے ہوئے ٹائینا کا نام ہر وقت ہماری ورد زبان ہوتا اور ہم ہر روز صبح کو اسکا انتظار کیا کرتے۔۔۔۔۔۔ غیر معمولی بے صبری کے ساتھ۔

    وہ ہر روز ہمارے پاس آتی۔ مگر ہم نے سپاہی والی تکرار کا اس کیساتھ ذکر تک نہ کیا۔ اور نہ ہی اس سے کسی قسم کے سوالات کئے۔ بلکہ حسب معمول جذبہ الفت سے ملتے ر ہے۔ مگر اس جذبہ الفت میں کسی نئی چیز کی جھلک تھی۔۔۔۔۔۔ تیز تجسس کی جھلک۔۔۔۔۔۔ خنجر کے پھل کی مانند تیز اور سرد۔

    ’’دوستو! میعاد کا وقت آج کے روز پورا ہو جائیگا‘‘۔ نانبائی نے صبح کے وقت کام شروع کرتے ہوئے کہا۔

    ہمیں مطلع کرنے سے پیشتر ہی اس امر کا علم تھا۔ مگر پھر بھی یہ سن کر ہم سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔

    ’’ وہ ابھی ابھی آئیگی۔۔۔۔۔۔ ذرا غور سے دیکھنا اسے‘‘ نانبائی نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ جیسے۔۔۔۔۔۔ آنکھیں کچھ بتا سکیں گی‘‘۔ ہم میں سے ایک نے پُر سوز لہجہ میں کہا۔ اس پر بحث چھڑ پڑی۔ آج کے روز ہمیں معلوم ہو جانے والا تھا کہ وہ برتن جس میں ہم سب نے اپنے دل رکھے ہوئے ہیں۔ کتنا صاف و بے لوث ہے۔ صرف آج کی صبح ہم کو ایسا معلوم ہونے لگا۔ جیسے ہم کوئی بڑی کھیل کھیل رہے ہوں۔ جس میں ہمیں اپنے معبود کے کھو جانے کا اندیشہ ہو۔ گزشتہ چند دنوں سے ہم سن رہے تھے کہ سپاہی حصول مقصد کیلئے ٹائینا کے پیچھے سایہ کی طرح لگا ہوا ہے۔ ٹائینا حسب معمول بسکٹوں کیلئے ہر روز آتی۔ مگر ہم اس سے سپاہی کے متعلق کسی قسم کا استفسار نہ کرتے۔

    ہم خود متعجب تھے کہ کیوں؟ آج کے روز بھی ہم نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا-:

    ’’ننھے قیدیو‘‘۔۔۔۔۔۔ میں آگئی ہوں۔۔۔۔۔۔ اس پر ہم سب آگئے اور جب وہ اندر آگئی ۔ تو ہم خلاف معمول اسے خاموشی سے ملے۔ گو ہماری آنکھیں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ مگر ہمیں معلوم نہ تھا کہ سلسلہ کلام کیونکر شروع کریں۔۔۔۔۔۔ ہم خاموشی اور حیرت کی تصویر بنے اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اس انوکھے اور خلافِ معمول استقبال کو دیکھ کر وہ سخت حیران ہوگئی۔۔۔ اچانک اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔

    بے چین و مضطرب دھیمی آواز میں کہنے لگی۔

    ’’ تمہیں آج کیا ہوگیا ہے؟‘‘

    ’’ تم اپنی سناؤ‘‘۔ نانبائی نے درد انگیز لہجہ میں کہا۔

    ’’ اپنی؟۔۔۔۔۔۔ کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘

    ’’ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں‘‘۔

    ’’ تو چلو مجھے بسکٹ دو۔۔۔۔۔۔ ذرا جلدی کرو‘‘۔

    اس سے قبل اس نے آج تک اتنی پُھرتی نہ دکھائی تھی۔

    ’’ تم جلدی کررہی ہو‘‘۔ نانبائی نے ٹائینا سے آنکھیں جدا نہ کرتے ہوئے کہا۔ اس پر وہ دفعتاً مڑی اور دروازہ سے باہر بھاگ گئی۔

    نانبائی نے اپنی سلاخ پکڑی اور بھٹی کی طرف جاتے ہوئے دبی زبان میں کہنے لگا-:

    اس کا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔ کہ وہ اب اُسکی ہے۔۔۔۔۔۔ آہ! یہ سپاہی۔۔۔۔۔۔ حرامزادہ۔۔۔۔۔۔ بدمعاش۔‘‘

    اس پر ہم بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح اپنے شانوں کو ہلاتے ہوئے میز کی طرف بڑھے اور خاموشی سے کام کرنا شروع کردیا۔

    ’’ لیکن کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔؟‘‘ ہم میں سے کسی نے اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔

    ’’بس!بس۔۔۔۔۔۔ بولنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔ نانبائی نے چیختے ہوئے جواب دیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ نانبائی عقلمند ہے۔

    ہم سے کہیں زیادہ عقلمند۔ اس لئے اس کے چلانے سے ہم نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سپاہی کی فتح و کامیابی کا اعتراف کررہا ہے۔

    یہ خیال کرتے ہوئے ہم اپنے آپ کو مصیبت زدہ اور بے چین پاتے۔

    بار ہ بجے یعنی دوپہر کے کھانے کے وقت سپاہی آیا۔ اور حسب معمول خوش وخرم ہماری نظروں سے نظریں ملا کر دیکھنے لگا۔’’ معزز دوستو! اگر چاہتے ہو کہ میں تمہیں آج اپنی کامیابی کا نمونہ دکھلاؤں۔۔۔۔۔۔ تو صحن کے ساتھ والے کمرہ میں جا کر کھڑکیوں میں سے جھانک کر دیکھو۔

    سمجھ گئے؟‘‘ سپاہی نے پُر فخر لہجہ میں ہنستے ہوئے کہا۔

    سپاہی کے کہنے پر ہم صحن کے ملحقہ کمرہ میں چلے گئے اور اپنے چہرے کھڑکیوں کے روزنوں کے ساتھ جما دیئے۔

    ہمیں بہت عرصہ تک انتظار نہ کرنا پڑا کیونکہ جلد ٹائینا تیز قدم اٹھاتی ہوئی صحن کے چھپروں کے پاس سے جو کہ کیچڑ اور برف سے بھرے ہوئے تھے۔گزری۔۔۔۔۔۔ اس کے چند منٹ بعد سپاہی نمودار ہوا۔ جس کا رخ ٹائینا کی طرف تھا۔ بڑے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈ الے،سیٹی بجاتا ہوا وہ بھی ٹائینا کی طرح ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔۔۔۔ اسی اثناء میں بارش شروع ہوگئی اور ہم بارش کے قطروں کو جو چھپڑوں میں گر کر عجب شور پیدا کررہے تھے۔ خاموشی سے دیکھنے لگے۔

    بارش کی وجہ سے آج کا دن بہت اداس اور مرطوب تھا۔ مکانوں کی چھتوں پر برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ اور زمین کیچڑ سے لت پت ہورہی تھی۔بارش سسکیاں بھرتی ہوئی زمین پر گر رہی تھی۔

    گو ہمیں اس سردی میں اس طرح کھڑے رہنا ناگوار گزر رہا تھا۔ مگر چونکہ ہم ٹائینا کی بیوفائی پر سخت برانگیختہ تھے۔ کہ اس نے ایک معمولی سپاہی کی خاطر ہم سب کو چھوڑ دیا۔ اس لئے ہم جلادوں کی سی ہولناک خوشی سے اس کا انتظار کرنے لگے۔

    تھوڑے عرصہ بعد ٹائینا واپس آئی۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ ہاں اس کی آنکھیں کسی نامعلوم خوشی و انبساط سے چمک رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ اس کے ہونٹ مسکرا رہے تھے۔ وہ جھومتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ جیسے خواب ہو۔

    ہم اس منظر کو خاموشی سے نہ دیکھ سکے۔ اس لئے دروازہ سے نکل کر صحن کی طرف دیوانہ وار بھاگے ہوئے گئے اور اس پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ کردی۔ ہم کو اس حالت میں دیکھ کر وہ کانپی اور ٹھہر گئی۔ جیسے وہ کیچڑ میں گر پڑی ہو۔ ہم سب اس کے گرد جمع ہوگئے اور بغیر کچھ کہے سنے جی بھر کے لعن طعن کی اور شرمناک سے شرمناک گالیاں سنائیں ۔ہم نے ایسا کرتے وقت اپنی آوازوں کو شور میں نہ پڑنے دیا بلکہ اس موقع سے اچھی طرح فائدہ اٹھائے رہے کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ درمیان گھری ہوئی وہ کہیں نہیں جاسکتی اور ہم جتنا عرصہ چاہیں اپنے دل کا بخار نکال سکتے ہیں۔ اگر حیرانی ہے تو اس بات کی کہ ہم نے اسے مار پیٹ کیوں نہ کی۔

    وہ ہمارے درمیان گھری ہوئی گالیوں کو خاموشی سے سن رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اور ہم گالیوں اور طعنوں کے ذریعہ اپنی آگ اگل رہے تھے۔

    تھوڑی دیر بعد اس کے چہرہ کا رنگ اتر گیا۔۔۔۔۔۔ اس کی نیلگوں آنکھیں جوکچھ عرصہ پہلے فرطِ مسرت سے چمک رہی تھیں۔ اب پھٹی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔ اس کی چھاتی بڑے زور سے متلاطم تھی۔ اور اس کے ہونٹ تھرتھرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ اور ہم اس کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنی انتقام کی آگ بجھا رہے تھے۔ اس لئے کہ اس نے ہمیں دھوکہ دیا تھا۔

    وہ ہماری تھی۔ چنانچہ ہم نے اس کی خدمت میں اپنے اپنے دل پیش کئے۔

    گو وہ بھکاری کے ٹکڑے سے زیادہ قیمتی نہ تھے۔ مگر اس نے چھبیس دلوں کو ایک سپاہی کی خاطر ٹھکرا دیا۔ ہم اسے برُا بھلا کہہ رہے تھے اور وہ خاموشی سے۔۔۔۔۔۔ ایک تعاقب زدہ شکار کی پھٹی ہوئی آنکھوں سے سرتاپا ارتعاش ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔

    اس موقع پر اور لوگ بھی جمع ہوگئے۔

    ہم میں سے ایک نے ٹائینا کی آستین پکڑ کر کھینچ لی۔ جس پر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی پیدا ہوگئی اور اپنے سر کو ذرا اوپر اٹھا کر بالوں کو سنوارتے اور ہماری طرف گھورتے ہوئے دفعتاً بولی۔’’اونہہ۔۔۔۔۔۔ جیل کے ذلیل پرندے‘‘ یہ کہتی ہوئی وہ ہمارے پاس سے بغیر کسی جھجھک کے گزر گئی۔ جیسے ہم اس کے راستہ میں حائل ہی نہ تھے۔۔۔۔۔۔ اس کی اس دلیری نے ہمیں اس بات کی جرأت نہ دی کہ ہم اسے روک لیں۔

    ہمارے پاس سے گزرتی ہوئی وہ حقارت آمیز لہجہ میں بولی’’ کمینے اور ناپاک انسان۔‘‘

    یہ کہتے ہوئے وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئی اور ہم صحن میں کیچڑ اور برف کے تودوں کے درمیان گرتی ہوئی بارش، سورج سے محروم آسمان تلے کھڑے رہے۔

    تھوڑی دیر کے بعد ہم خاموشی سے اپنے سنگین قفس میں چلے آئے۔ جہاں سورج کی جاں بخش شعاعیں حسب معمول ہم تک کبھی نہ پہنچیں۔۔۔۔۔۔ ٹائینا پھر کبھی نہ آئی۔

    کہانی:گورکی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے