نسبت
(ایک ایکٹ کا مزاحیہ ڈراما)
افرادِ تمثیل
سیٹپن سیٹپینوخ چبوکوف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زمیندار
نٹالیا سیٹپینیوفنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی لڑکی(۲۵ سال )
ایفان وسیلوی دخ لوموف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چبوکوف کا ہمسایہ زمیندار
(ضعفِ قلب میں مبتلا)
تعارف
انیسویں صدی کے آخری چند سالوں تک روس میں کوئی قابلِ ذکر تمثیل نگار موجود نہیں تھا۔ اگر اس زمانے میں چند ڈرامے لکھے بھی گئے تو وہ فنی حیثیت سے بہت کمزور ہیں۔ دراصل اس وقت کے ڈراما نویسوں نے صرف لوگوں کے تفنن طبع کے لئے انسانی زندگی کی کچھ نقلیں رقم کی ہیں جن میں ڈرامائی عناصر کو بالکل دخل نہیں ہے۔
سب سے پہلے لیمن ساف نامی ایک شخص نے چند المیہ ڈرامے لکھے۔ اس کے بعد سمرو کاف متعدد مزاحیہ و المیہ ڈرامے ضبط تحریر میں لایا مگروہ فنی اعتبار سے پر از اسقام ہیں۔ اس کے بعد روس کے مایہ ناز شاعر پشکن نے شیکسپیئر کے افکار سے متاثر ہو کر ایک تمثیل لکھی۔ گو قابل مصنف نے اپنے کرداروں کی نفسیات کا بیان کمال فن کاری سے کیا ہے مگر پھر بھی اس کی وہ تصنیف تمثیل نہیں کہلا سکتی۔ وہ ایک تمثیلی نظم ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پشکن ایک اعلیٰ درجے کا تمثیل نگار نہیں بلکہ ایک مستند غنائی شاعر تھا۔ پشکن کے بعد اوسٹروسکی نے ڈرامے میں حقیقت نگاری کا عنصر داخل کردیا۔ دراصل حقیقت نما ڈراموں کو روس میں مروج کرنے کا سہرا اسی کے سر ہے۔ مگر اس نے اپنے بعد کوئی قابل جانشین نہ چھوڑا جو اس کی متعارف صنف کو بامِ رفعت پر پہنچا سکتا۔ اوسٹروسکی کے بعد جو تمثیل نگار بھی پیدا ہوئے وہ بالکل نااہل تھے چنانچہ تمثیل نگاری روس کے مفکر اعظم طالسطائی کے ظہور تک دبی رہی۔
کاؤنٹ لیوطالسطائی نے متعدد کتابیں اور بے شمار مضامین لکھے جو ادبِ حاضرہ میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان تصانیف کے علاوہ اس نے چند بلند پایہ ڈرامے بھی سپرد قلم کیے جو حلقہ ادب میں بہت مقبول ہوئے۔
طالسطائی کے تین ڈرامے سٹیج ہو چکے ہیں۔ اس کا نصب العین کسانوں کی قابل رحم حالت کی عکاسی کرنا اور انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنا ہے۔
روسی ڈرامے میں پہلا انقلاب چیخوف کی پہلی تمثیل’’ سی گل‘‘ سے پیدا ہوا۔
چیخوف شاید تمثیل نگاری کی طرف کبھی توجہ نہ کرتا اگر وہ ایک پر از اسقام ڈرامے کو نہ دیکھتا۔ چیخوف اس ڈرامے کے عیوب کو برداشت نہ کرسکا۔ آخر اس تکدر نے اس کی عنانِ توجہ تمثیل نگاری کی طرف مبذول کردی اور اس نے کچھ عرصے کے بعد’’ آن دی ہائی روڈ‘‘ نامی ایک ڈراما سپرد قلم کیا مگر وہ چند وجوہ کی بناء پر سٹیج نہ ہوسکا۔چیخوف نے ہمت نہ ہاری اور جلد ہی ’’ایوانوف‘‘ کے عنوان سے ایک ڈراما سٹیج کے لئے پیش کیا۔
گو’’ ایوانوف‘‘ کو سٹیج پر کافی مقبولیت حاصل ہوئی مگر درحقیقت یہ تمثیل جملہ خوبیوں کی حامل نہ تھی۔ یہ صرف چیخوف کی ابتدا تھی۔
اپنے ڈرامے کی مقبولیت دیکھ کر چیخوف نے فوراً ہی ایک اور تمثیل لکھنا شروع کردی مگر اس کے متعلق حوصلہ شکن تبصرے دیکھ کر اس نے اسے وہیں کا وہیں رہنے دیا اور کچھ عرصے کے لئے متین و سنجیدہ تمثیل نگاری سے کنارہ کش ہو کر چند ایک ایکٹ کی کامیڈیاں لکھیں جن میں’’ریچھ‘‘ اور’’ نسبت‘‘ بہت مشہور ہیں۔
یہ ایک ایکٹ کے ڈرامے چیخوف کے مخصوص مزاحیہ رنگ اور ظرافت کا پہلو لیے ہوئے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک مختلف سٹیجوں پر کھیلے جارہے ہیں۔
۱۸۹۶ ء میں چیخوف نے ایک بار پھر سنجیدہ تمثیل نگاری کی طرف توجہ دی اور ایک ڈراما’’ سی گل‘‘ کے نام سے لکھا اس کے بعد’’انکل وینیا‘‘، ’’ چیری اور چرڈ‘‘ اور’’ تھری سسٹرز‘‘ شائع ہوئے اور سٹیج پر خوب چمکے۔
۴ جولائی ۱۹۰۴ ء کو اس باکمال انسان نے موضع بیڈن ویلر میں وفات پائی اور ماسکو میں سپرد خاک کیا گیا۔ (مترجم)
(منظر: چبوکوف کے مکان کا ملاقاتی کمرہ۔ چبوکوف اور لوموف، موخرالذکر شام کا لباس پہنے داخل ہوتا ہے)
چبوکوف:(استقبال کے لیے اٹھ کر) آنکھیں کسے دیکھ رہی ہیں؟ آہا! یہ تو لوموف صاحب ہیں۔ زہے نصیب(ہاتھ ملتا ہے) میری جان یہ ملاقات تو واقعی حیرت خیز ہے۔۔۔۔۔۔کہو کیسے ہو؟
لوموف: نوازش! فرمائیے آپ تو بخیریت ہیں؟
چبوکوف:شکر ہے! تمہاری دعا سے اچھی گزر رہی ہے۔بیٹھونا!۔۔۔۔۔۔ یہ کس قدر تاسف کا مقام ہے کہ تم اپنے ہمسایوں کو بھول جاتے ہو۔۔۔۔۔۔ مگر عزیز من اس تکلیف کے کیا معنی؟ نیا کوٹ، سفید دستانے اور علیٰ ہذاالقیاس! کیا کسی سے ملنے جارہے ہو میری جان؟
لوموف: نہیں، میں صرف آپ ہی سے ملنے آیا ہوں۔
چبوکوف: تو پھر اس نئے کوٹ کے کیا معنی میرے ساحر؟۔۔۔۔۔۔ عید کا دن تھوڑا ہی ہے آج!
لوموف:دیکھیے معاملہ یوں ہے۔ میں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں۔ اس سے قبل میں نے بارہا آپ سے مدد طلب کی ہے اور آپ نے ہمیشہ۔۔۔۔۔۔ معاف فرمائیے میں کچھ گھبرا سا گیا ہوں۔ تھوڑا سا پانی پلا دیجیے۔(پانی پیتا ہے)
چبوکوف:(اپنے آپ سے) ضرور قرض مانگنے آیا ہوگا مگر میں تو پھوٹی کوڑی بھی نہ دوں گا۔(لوموف سے مخاطب ہو کر) ہاں ہاں کہو؟
لوموف: بات یہ ہے معزز سیٹپنیووخ، نہیں! نہیں سٹیپن مغرزوخ۔۔۔۔۔۔ دیکھیے، میں کس قدر گھبرا گیا ہوں۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ آپ کے سوا میری اور کوئی مدد نہیں کرسکتا گو میں اس کا حقدار نہیں ہوں اور جرات نہیں کرسکتا کہ کہ آپ سے مدد طلب کروں۔
چبوکوف: اب بات کو بڑھاتے مت جاؤ پیارے، کہو اصل مطلب کیا ہے؟
لوموف: لیجیے ابھی کہتا ہوں۔ ابھی!۔۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ آپ کی لڑکی نٹالیا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
چبوکوف:(خوش ہو کر) تم شریر لڑکے! کہونا اسے پھر! میں اپنے کانوں پر اعتبار نہیں کرتا۔
لوموف: میں آپ کی لڑکی کے ساتھ عقد کرنے کا فخر۔۔۔۔۔۔
چبوکوف:(بات کاٹ کر) میرے عزیز! میں بہت خوش ہوا ہوں اور علیٰ ہذاالقیاس۔ ہاں بہت خوش اور علیٰ ہذاالقیاس!(بغلگیر ہوتا ہے اور اسے چومتا ہے) میں تو اس سعید ساعت کا ایک زمانے سے منتظر تھا۔ یہ میری دلی خواہش تھی( ایک آنسو بہاتا ہے) اور میں نے تمہیں ہمیشہ اپنے بچے کی طرح محبت کی نگاہوں سے دیکھا ہے۔ خدا تم دونوں کو خوش وخرم رکھے اور علیٰ ہذاالقیاس۔ میری یہ دلی تمنا رہی ہے۔۔۔۔۔۔ آخر میں یہاں بانس کی طرح کیوں گڑ گیا ہوں؟ خوشی نے مجھے دیوانہ سا بنا دیا ہے۔ میں نٹالیا کو بلاتا ہوں اور علیٰ ہذاالقیاس!
لوموف: معزز سٹیپن آپ کا کیا خیال ہے! کیا وہ مجھے قبول کرلے گی؟
چبوکوف: تم ایسا حسین ہو اور وہ انکار کردے! وہ تو پہلے ہی بلی کی مانند محبت میں گرفتار ہونا چاہتی ہے اور علیٰ ہذا القیاس۔۔۔۔۔۔ابھی آیا(چلا جاتا ہے)
لوموف:مجھے تو سردی لگ رہی ہے۔سر سے پیر تک کانپ رہا ہوں گویا کسی کڑے امتحان کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی بات دل کو مضبوط بنانا ہے۔ اگر کوئی شخص بہت عرصے تک جھجکتا رہے۔ معاملے کو طول دیتا جائے۔ حقیقی محبت کا منتظر رہے تو یقینی امر ہے کہ وہ عمر بھر کنوارا رہے گا۔۔۔۔۔۔ ارر! واقعی سردی محسوس ہورہی ہے۔ نٹالیا خانہ داری سے اچھی طرح واقف ہے۔ شکل بھی بری نہیں۔ تعلیم یافتہ ہے۔ اس سے زیادہ میں اور کیا چاہتا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ مگر دماغ میں یہ کھٹ کھٹ کیسی ہورہی ہے ۔ میں سخت گھبرا گیا ہوں( پانی پیتا ہے) شادی ضرور ہونی چاہیے۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ میری عمر پینتیس برس کی ہے۔ کافی عمر ہے! اس کے علاوہ مجھے منظم اور باقاعدہ زندگی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ میں ضعفِ قلب کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ طبیعت بہت جلد بگڑ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر لب اس وقت لرز رہے ہیں اور د ا ہنی آنکھ پھڑک رہی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر سب سے زیادہ تکلیف تو سوتے وقت ہوتی ہے۔ بس بستر پر لیٹو، ذرا آنکھ لگے تو سر،شانوں اور پسلیوں میں شدت کا درد شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ میں بستر پر دیوانوں کی طرح کروٹیں لیتا ہوں۔ تمام شب یہی سلسلہ جاری رہتا ہے!۔۔۔۔۔۔
(نٹالیا داخل ہوتی ہے)
نٹالیا: آہا! یہ تو تم ہو! ابا کہہ رہے تھے کہ کوئی شخص ہل خریدنے آیا ہے۔ کہو کیا حال ہے؟
لوموف:شکر ہے! فرمائیے آپ کی طبیعت تو اچھی ہے؟
نٹالیا: کیا وجہ ہے کہ تم اتنا عرصہ ہم سے ملنے نہیں آئے؟ بیٹھو نا!(بیٹھ جاتے ہیں) کھانا وانا تو کھاؤ گے؟
لوموف:نوازش! میں ابھی کھا کر ہی آرہا ہوں۔
نٹالیا:سگریٹ تو پیو؟۔۔۔۔۔۔ یہ رہی دیا سلائی۔۔۔۔۔۔ بہت پیارا دن ہے مگر کل بارش کی وجہ سے زمین پر کوئی آدمی کام نہیں کرسکا۔ تم لوگوں نے گھاس کے لئے گٹھے تیار کرلیے ہیں؟ ذرا خیال کرو ناکہ میں نے جلدی میں تمام کھیت سے گھاس کٹوا ڈالی اور اب کفِ افسوس ملتی ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے گھاس ضرور گل سڑ جائے گی۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا؟ میری آنکھیں نیا کوٹ دیکھ رہی ہیں! خوب ہے! کہیں ناچ وغیرہ میں تو شامل نہیں ہورہے ہو اس کے علاوہ تم آج بہت بھلے معلوم ہو رہے ہو۔۔۔۔۔۔ آخر اس تکلف کے کیا معنی؟
لوموف:(گھبرائے ہوئے) محترمہ نٹالیا بات یوں ہے۔۔۔ یعنی حقیت یہ ہے، میں نے آپ سے یہ درخواست کرنے کا تہیہ کرلیا ہے کہ آپ میری بات کو بغور سنیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ضرورحیران ہوں گی اور خفا بھی مگر میں۔۔۔۔۔۔ کس قدر سردی ہے!
نٹالیا: کہو کیا ہے؟(ایک وقفہ)ہاں؟
لوموف: میں اختیار سے کام لینے کی سعی کروں گا آپ شاید اس امر سے غافل نہیں کہ میں بچپن ہی سے آپ کے خاندان کو اچھی طرح جانتا ہوں میری مرحوم چچی اور اس کا خاوند جن سے مجھے یہ جائداد ورثے میں ملی ہے آپ کے باپ اور آپ کی مرحوم والدہ کو بہت عزت کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔ یہ ظاہر ہے کہ چبوکوف اور لوموف خاندانوں میں ہمیشہ سے خوشگوار تعلقات قائم رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا میری زمین آپ کی زمین کے بالکل قریب واقع ہے۔ شاید آپ کو یاد ہوگا کہ میرے ولو فی نامی مرغزار آپ کے کھیت کی باڑ کے عین ساتھ ہی ملحق ہیں۔
نٹالیا: قطع کلام معاف۔ تم نے کہا ہے’’ میرے ولوفی نامی مرغزار۔۔۔۔۔۔‘‘ مگر وہ کیا تمہارے ہیں؟
لو موف: ہاں ہاں!
نٹالیا: خوب! وہ مرغزاز ہمارے ہیں نہ کہ تمہارے!
لوموف: محترمہ نٹالیا! آپ غلطی پر ہیں وہ میری ہی ملکیت ہیں۔
نٹالیا: یہ بھی ایک ہی کہی۔ اچھا یہ تو بتاؤ وہ تمہارے ہوئے کس طرح؟
لوموف:وہ میرے کس طرح ہوئے؟ ان مرغزاروں کا ذکر کررہا ہوں جو آپ کے کھیت کے عین ساتھ واقع ہیں۔
نٹالیا: بالکل درست، وہی مرغزار تو ہماری ملکیت ہیں۔
لوموف: نہیں آپ غلطی پر ہیں محترمہ نٹالیا! وہ میرے ہیں۔
نٹالیا: کہنے سے پیشتر سوچ لو۔ کیا وہ ایک عرصے سے تمہاری ملکیت رہے ہیں؟
لوموف: ایک عرصہ کہنے سے آپ کا مطلب ؟ جہاں تک میری یاد کام کرتی ہے وہ ہمیشہ ہمارے قبضے میں ہی رہے ہیں۔
نٹالیا: نہیں تم غلطی پر ہو۔
لوموف: مگر اس کے ثبوت کے لئے عدالتی کاغذات موجود ہیں محترمہ نٹالیا! کسی زمانے میں ان مرغزاروں کا تنازع ضرور تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر اب ہر فرد بشر کو معلوم ہے کہ وہ میرے ہیں اور اس میں کسی جھگڑے کی گنجائش ہی نہیں۔ ذرا خیال تو کیجیے۔۔۔۔۔۔ میری چچی کے دادا نے یہ زمین آپ کے والد کے دادا کے ہاں کام کرنے والے کسانوں کو ایک غیر معین عرصے کے لیے بغیر کسی کرایہ کے دے رکھی تھی۔ چالیس سال تک یہ زمین ان کسانوں کے پاس رہی۔ چنانچہ وہ اسے اپنی ہی ملکیت سمجھنے لگے مگر جب غلاموں کی آزادی کے بعد فیصلہ ہوا تو۔۔۔۔۔۔
نٹالیا: تمہارا یہ قول غلط ہے! میرا دادا اور اس کا باپ دونوں اپنی زمین کو دلدل تک خیال کرتے رہے ہیں۔ اس لیے یقینی طور پر ولوفی نامی مرغزار ہمارے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے متعلق جھگڑا کرنے کی گنجائش ہی کہاں ہے۔ یہ گفتگو واقعی بہت تکلیف دہ ہے۔
لوموف:نٹالیا سیٹپیوفنا میں آپ کو کاغذات دکھا سکتا ہوں۔
نٹالیا: نہیں تم صرف مذاق سے یا ستانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔ اچھا مذاق ہے۔ ہم ایک زمین پر تین سو سال تک قابض رہتے ہیں اور یک لخت ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زمین ہماری نہیں! معاف کرنا مگر میں واقعی اپنی سماعت پر یقین نہیں کررہی۔۔۔۔۔۔ مجھے مرغزاروں کی کوئی پروا نہیں۔ وہ پندرہ ایکڑوں سے کیا زیادہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی قیمت بھی تین سو روبل کے قریب ہے۔ مجھے اگر غصہ ہے تو اس ناانصافی پر۔ تمہارے جی میں جو آئے کہو مگر یہ نا انصافی برداشت نہیں کرسکتی!
لوموف: ذرا سنیے تو سہی۔ میں درخواست کرتا ہوں۔ آپ کے والد کے دادا جیسا کہ میں اس سے قبل بیان کرنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں۔ میری چچی کے لیے اینٹیں بنایا کرتے تھے۔ میری چچی کی والدہ نے یہ چاہتے ہوئے کہ ان کے لیے جواب میں کچھ کیا جائے۔۔۔۔۔۔
نٹالیا: دادا، دادی، چچی۔۔۔۔۔۔ اس گفتگو کا ایک لفظ بھی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ مرغزار ہمارے ہیں اور بس!
لوموف:وہ میرے ہیں۔
نٹالیا: وہ ہمارے ہیں۔ اگر تم دو دن تک بھی بحث کرتے رہو اور ایسے پندرہ بڑے کوٹ پہن کر آؤ تو بھی وہ ہمارے ہیں۔ ہمارے، ہمارے!۔۔۔۔۔۔ میں تمہاری چیز پر قابض ہونا نہیں چاہتی مگر اس کے ساتھ ہی اپنی مملوکہ چیز بھی ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتی۔ اب تم اسے جس طرح چاہو سمجھ لو!
لوموف: مجھے اس زمین کا کوئی خیال نہیں ہے مگر یہ تو اصول کی بات ہے۔ اگر آپ پسند کریں تو میں اسے آپ کی خدمت میں تحفتاً پیش کرسکتا ہوں۔
نٹالیا: زمین میری ہے اس لیے میں تحفے کے طور پر پیش کرسکتی ہوں۔ مگر یہ کس قدر تعجب خیز ہے۔ اب تک ہم تمہیں اپنا اچھا ہمسایہ تصور کرتے رہے ہیں۔ بلکہ ایک دوست۔ پچھلے سال ہم نے تمہیں اپنی دانہ نکالنے کی مشین مستعار دی تھی اور اس طرح ہم اپنا کام نومبر تک ختم نہ کرسکے اور اب تم ہو کہ ہمارے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتے ہو جیسے ہم جنگلی ہوں۔ زمین کا تحفہ پیش کرو گے! معاف کرنا یہ ہمسائیگی نہیں۔ جہاں تک میرا خیال ہے یہ طرز عمل بہت گستاخانہ ہے۔۔۔۔۔۔
لوموف: تو پھر گویا میں غاصب ہوا؟ مادام میں نے آج تک کسی غیر کی زمین نہیں چھینی اور نہ میں کسی کو اجازت دے سکتا ہوں کہ وہ میرے متعلق اس قسم کے الزام تراشے۔۔۔۔۔۔(صراحی کے پاس جا کر پانی پیتا ہے) ولوفی نامی مرغزار میرے ہیں۔
نٹالیا:بالکل غلط، وہ ہمارے ہیں!
لوموف:وہ میرے ہیں!
نٹالیا:یہ غلط ہے۔ میں اسے ثابت کردوں گی۔ میں آج ہی وہاں گھسیارے بھیج دیتی ہوں کہ وہ اس زمین کی گھاس کاٹنا شروع کردیں۔
لوموف:کیا؟
نٹالیا: ہمارے مزدور آج وہاں ہوں گے۔
لوموف: میں انہیں دھکے دے کر باہر نکال دوں گا۔
نٹالیا: یہ جرأت!
لوموف:(دل کے مقام پر ہاتھ رکھتا ہے) ولوفی نامی مرغزار میرے ہیں۔ سمجھتی ہو؟ میرے!
نٹالیا:ازارہِ عنایت شور مت مچاؤ! اگر چاہو تو یہ شور اور غصے کا اظہار اپنے مکان پر کرسکتے ہو مگر میں درخواست کرتی ہوں کہ یہاں حدودِ اخلاق سے تجاوز نہ کرو۔
لوموف: مادام! اگر میں دل کی اس ملعون دھڑکن اور کنپٹیوں کی کھڑکھڑاہٹ میں مبتلا نہ ہوتا تو میں آپ سے بہت مختلف طریق پر گفتگو کرتا۔(چلاتا ہے)و لوفی نامی مرغزار میرے ہیں!
نٹالیا:ہمارے!
لوموف:میرے!
نٹالیا: میرے!
(چبوکوف داخل ہوتا ہے)
چبوکوف:یہ کیا شور مچا رکھا ہے تم لوگوں نے؟
نٹالیا: ابا ذرا آپ اس شخص پر واضح کردیں کہ ولو فی نامی مرغزار کس کی ملکیت ہیں۔ ہماری یا اس کی؟
چبوکوف:(لوموف سے) میرے بچے مرغزار ہمارے ہیں۔
لوموف:مگر سٹیپن سٹیپینووخ وہ آپ کے کس طرح ہوئے۔ ذرا آپ غور تو کیجیے۔ میری چچی کی دادی نے آپ کے دادا کے کسانوں کو زمین بغیر کسی کرایہ کے دے رکھی تھی۔ کسان چالیس سال تک اس زمین کو استعمال کرتے رہے اور اس طرح اسے اپنی ملکیت سمجھنے لگے مگر جب یہ فیصلہ ہوا۔۔۔۔۔۔
چبوکوف: ٹھہرو۔ عزیز من۔۔۔۔۔۔ تم بھول گئے ہو۔ کسان اس وجہ سے تمہاری دادی کو کرایہ نہیں ادا کرتے تھے کہ زمین کی ملکیت کا تنازع تھا اور علی ہذا القیاس۔۔۔۔۔۔ اور اب شہر کا ہر کتا جانتا ہے کہ وہ ہمارے ہیں۔ شاید تم نے نقشہ نہیں دیکھا۔
لوموف:میں یہ ثابت کردوں گا کہ وہ میرے ہیں۔
چبوکوف: میرے بچے تم یہ کبھی نہیں کرسکتے۔
لوموف: نہیں میں ضرور ثابت کروں گا۔
چبوکوف: مگر یہ شور کیوں میری جان؟ تم شور مچانے سے کچھ بھی ثابت نہیں کرسکتے۔ میں تمہاری چیز پر قابض ہونا نہیں چاہتا اور نہ اپنی مملوکہ شے ہاتھ سے کھونا چاہتا ہوں اور میں ایسا کروں بھی کیوں؟ اگر تم ان مرغزاروں کے متعلق کوئی جھگڑا کرنا چاہتے ہو تو میں انہیں تمہیں دینے کی بجائے کسانوں کے حوالے کردوں گا اور میں کروں گا بھی یہی! اور علی ہذا القیاس۔
لوموف: میری سمجھ میں نہ آتا کہ تمہیں کسی غیر کی چیز کو دوسرے کے حوالے کردینے کا کیا حق حاصل ہے؟
چبوکوف: حق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ میرے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے علاوہ میں تخاطب کے اس لہجے کو سننے کا عادی نہیں ہوں اور علی ہذاالقیاس۔ میں تم سے عمر میں دو گنا بڑا ہوں اس لیے درخواست کرتا ہوں کہ میرے ساتھ جوش کے بغیر گفتگو کرو۔
لوموف: کیوں؟ تم تو مجھے ایک بیوقوف سمجھ کر مضحکہ اڑا رہے ہو! میری زمین کو اپنی ملکیت بتاتے ہو اور پھر مجھ سے یہ توقع کہ میں جوش میں نہ آؤں اور تمہارے ساتھ اچھی طرح گفتگو کروں! سٹیپن یہ طرزِ عمل اچھے ہمسایوں کاسا نہیں۔ تم ہمسایہ نہیں ہو بلکہ غاصب!
چبوکوف:کیا؟ کیا کہا؟
نٹالیا:ابا گھاس کاٹنے کے لیے ان صرغزاروں پر ابھی اپنے آدمی بھیج دو۔
چبوکوف:(لوموف سے) جناب آپ نے کیا کہا تھا؟
نٹالیا:ولوفی نامی مرغزاز ہمارے ہیں اور میں انہیں ہرگز جدا نہیں کرسکتی۔ ہرگز نہیں! ہرگز نہیں۔
لوموف:دیکھا جائے گا۔ میں عدالت میں ثابت کردوں گا کہ وہ میرے ہیں۔
چبوکوف: عدالت میں؟ جناب آپ عدالت میں بخوشی جاسکتے ہیں اور علی ہذاالقیاس۔۔۔۔۔۔ تم تو عدالت میں جانے کے لیے صرف ایک موقع کی تلاش میں ہو۔۔۔۔۔۔ حقیر پیشہ! تمہارا خاندان کا خاندان مقدمہ بازی کا مشتاق تھا۔ ہر ایک فرد!
لوموف: ازرہ عنایت میرے خاندان کی ہتک مت کرو۔ لوموف خاندان ہمیشہ ایماندار رہا ہے اور ان میں سے کسی ایک نے بھی تمہارے چچا کی طرح روپیہ غبن کرنے کے سلسلے میں عدالت کا منہ نہیں دیکھا ہے۔
چبوکوف:تم لوموف تو سب کے سب پاگل تھے!
نٹالیا: ہر ایک۔۔۔۔۔۔ ہر ایک!
چبوکوف:تمہارا دادا مانا ہوا شرابی تھا اور تمہاری چچی منسٹاسیا ایک مستری کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور اسی طرح کئی اور مثالیں ہیں۔
لوموف: اور تمہاری ماں کبڑی تھی(دل پکڑ کر)۔۔۔۔۔۔ پہلو میں سخت درد ہورہا ہے!۔۔۔۔۔۔ سر میں خون دوڑا آیا ہے۔۔۔۔۔۔میرے مرشد!۔۔۔۔۔۔ پانی!
چبوکوف: تمہارا باپ پیٹو اور قمار باز تھا۔
نٹالیا: اور تمہاری چچی ایسی اور کوئی جھگڑا لو عورت نہ تھی۔
لوموف:بائیں ٹانگ سو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ اور تم دغا باز ہو!۔۔۔۔۔۔ آہ میرا دل!۔۔۔۔۔۔ اور یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں کہ الیکشن کے بعد تم۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے شرارے اڑ رے ہیں۔۔۔۔۔۔ میری ٹوپی کہاں ہے؟
نٹالیا: یہ کمینہ پن! بے ایمانی! تکلیف دہ!
چبوکوف: اور تم خود افتر اپر داز،دغا باز اور شریر ہو۔ ہاں شریر!
لوموف: یہ رہی میری ٹوپی۔۔۔۔۔۔ ہائے میرا دل!۔۔۔۔۔۔ کس راستے سے باہر جاؤں؟ دروازہ کدھر ہے؟ آہ! میں مررہا ہوں۔ ٹانگ بیکار ہو گئی ہے(دروازے کی طرف جاتا ہے)
چبوکوف:(اس کو جاتے دیکھ کر کہتا ہے) خبردار پھر کبھی میرے دروازے پر قدم نہ رکھنا۔
نٹالیا:جاؤ عدالت میں جاؤ! دیکھا جائے گا!
(لوموف لڑکھڑاتا ہوا باہر چلا جاتا ہے)
نٹالیا:بیہودہ! اب اچھے ہمسایوں پر کیونکر اعتبار کیا جاسکتا ہے!
چبوکوف:کمینہ ذلیل!
نٹالیا: دوسروں کی زمین غصب کرتا ہے اور پھر انہیں گالیاں دیتا ہے۔
چبوکوف: اور اس بدھو، آنکھ کے روگ نے اس منہ سے عقد کرنے کی اجازت طلب کی تھی؟ ذرا خیال تو کرو عقد کرتا ہے۔
نٹالیا:کیسا عقد؟
چبوکوف:اجی وہ تم سے نسبت کرنے کا طلبگار تھا نا!
نٹالیا:نسبت؟ مجھ سے؟ مگر تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا؟
چبوکوف: اور یہ نیا کوٹ اسی لیے پہن کر آیاتھا! ذلیل! بونا!
نٹالیا:مجھ سے نسبت! آہ!(ایک کرسی پر گر کررونا شروع کردیتی ہے) اسے واپس بلاؤ! اسے واپس بلاؤ! آہ! اسے واپس بلاؤ!
چبوکوف:کسے واپس بلاؤں؟
نٹالیا:جلدی کرو۔ جلدی کرو! میں بے ہوش ہورہی ہوں، اسے واپس بلاؤ!(غش کھاتی ہے)
چبوکوف:یہ کیا۔ کیا معاملہ ہے؟(اپنا سر پکڑتا ہے) یہ بھی زندگی ہے! میں گولی مار کر خود کشی کرلوں گا یا اپنا گلا گھونٹ کر مرجاؤں گا اور علی ہذاالقیاس۔
نٹالیا:میں مررہی ہوں اسے جلد واپس بلاؤ!
چبوکوف:اف! ابھی جاتا ہوں۔چلاؤ مت(دوڑتا ہے)
نٹالیا:(اکیلی بڑبڑاتی ہے) یہ ہم نے کیا کیا! اسے جلد واپس لاؤ! جلد واپس لاؤ!
چبوکوف:(دوڑتا ہوا اندر آتا ہے) وہ ابھی آتا ہے اور علی ہذاالقیاس۔ لعنت ہو اس پر! اف! تم خود ہی اس سے گفتگو کرنا۔ میں کچھ نہ کہوں گا۔۔۔۔۔۔
نٹالیا:اسے واپس بلاؤ!
چبوکوف:(بلند آواز میں) میں کہتا ہوں وہ آرہا ہے! آہ میرے اللہ ایک نوجوان لڑکی کا باپ ہونا بھی کیسی مصیبت ہے! میں اپنا گلا کاٹ ڈالوں گا۔ واقعی گلا کاٹ ڈالوں گا! ہم نے اس شخص کو گالیاں دی ہیں۔ شرمندہ کیا ہے۔ ٹھوکر مار کر باہر نکال دیا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سب تمہارے کرتوت ہیں۔ تمہارے کرتوت!
نٹالیا:نہیں یہ تمہارا قصورہے!
چبوکوف:اچھا یہ میرا قصور ہے( لوموف دروازے کے قریب ظاہر ہوتا ہے) اچھا اب تم خود ہی اس سے گفتگو کرو( چلا جاتا ہے)
(لوموف پریشانی کی حالت میں داخل ہوتا ہے)
لوموف: دل کس قدر تیزی سے دھڑک رہا ہے! ٹانگ سورہی ہے۔پہلو میں درد ہے۔۔۔۔۔۔
نٹالیا: معاف کردینا۔ ہم نے بہت جلدی کی ہے۔ ولوفی نامی مرغزار واقعی تمہارے ہیں۔
لوموف:دل خوفناک طریق پر دھڑک رہا ہے۔۔۔۔۔۔ مرغزار میرے ہیں۔۔۔۔۔۔ دونوں آنکھیں۔۔۔۔۔۔ پھڑک رہی ہیں۔
نٹالیا: ہاں۔ تمہارے ہی ہیں۔ بیٹھ جاؤ نا!(دونوں بیٹھ جاتے ہیں) ہم غلطی پر تھے۔
لوموف: میں اصول کی بات کررہا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے زمین کی چنداں پروا نہیں مگر اصول کا ضرور پابند ہوں۔۔۔۔۔۔
نٹالیا: بالکل درست۔۔۔۔۔۔ آؤ اب کوئی اور بات کریں۔
لوموف:خوصاً میرے پاس ثبوت موجود ہے۔ میری چچی کی دادی نے تمہارے باپ کے دادا کے کسانوں کو۔۔۔۔۔۔
نٹالیا: بس۔ بس اب یہاں تک ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔(اپنے آپ سے) معلوم نہیں اب گفتگو کس طرح شروع کروں(لوموف سے) شکار کو کب جارہے ہو؟
لوموف: فصل کے بعد پرندوں کا شکار کھیلنے کا ارادہ ہے۔ محترمہ نٹالیا اور ہاں کیا آپ نے سنا نہیں؟ ذرا تو خیال کیجیے کہ یہ امر میرے لیے کس قدر بدقسمتی کا موجب ہے۔ میرا ٹریکر جسے آپ شاید جانتی ہیں لنگڑا ہوگیا ہے۔
نٹالیا: بہت افسوس ہے! مگر یہ ہوا کس طرح؟
لوموف:معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ جوڑوغیرہ ہل گیا ہوگا اپنی جگہ سے یا شاید کسی اور کتے نے کاٹ کھایا ہو۔۔۔۔۔۔(آہ بھرتا ہے) میرا سب سے اچھا کتا! اس روپے کے ذکر کو تو چھوڑیے جو میں نے اس پر خرچ کیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اسے مرونوف سے ایک سو پچیس روبل میں خریدا تھا۔
نٹالیا:یہ بہت زیادہ قیمت تھی ایفان!
لوموف:مگر میری نظر میں تو سودا بہت سستا تھا۔وہ بہت عمدہ کتا ہے۔
نٹالیا:ابا نے اپنا بیکر پچاسی روبل میں خریدا تھا اور بیکر تمہارے ٹریکر سے کہیں اچھا ہے۔
لوموف:بیکر،ٹریکر سے اچھا! کیسی عجیب بات ہے(ہنستا ہے)بیکر،ٹریکر سے اچھا ہے!
نٹالیا:ہاں، ہاں وہ بہتر ہے۔ یہ سچ ہے کہ بیکر ابھی کم عمر ہے اور پورا جوان نہیں۔۔۔۔۔۔ مگر مستعدی کے لحاظ سے والن چٹسکی کے پاس بھی اس کے مقابلے کا کوئی کتا موجود نہیں ہے۔
لوموف:معاف کیجیے، مگر آپ بھول رہی ہیں کہ آپ کے کتے کا جبڑا چپٹا ہے اور چپٹے جبڑے والا کتاکسی لحاظ سے بھی شکار کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔
نٹالیا:چپٹا جبڑا! یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے ایسا سنا ہے۔
لوموف: میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے نیچے کا جبڑا اوپر والے سے بہت چھوٹا ہے۔
نٹا لیا:مگر تم نے پیمائش کی ہے کیا؟
لوموف: ہاں، وہ دوڑ کے لیے بہت موزوں ہے اس میں کوئی شک نہیں، مگر شکار میں اچھا ثابت نہیں ہوسکتا۔
نٹالیا: اول تو ہمارا بیکر اصیل ہے، ہارنس اور چنرل کا بچہ مگر تم تو یہ بھی بتا نہیں سکتے کہ تمہارا دھبے دار کتا کس ذات سے ہے۔۔۔ اس کے علاوہ کسی مریل گھوڑے کے مانند بوڑھا اور بد صورت ہے۔
لوموف:وہ بوڑھا ہے مگر میں تو اسے تمہارے ایسے بیس بیکروں کے عوض بھی ہرگز جدا نہیں کروں گا۔۔۔ اور یہ ہو بھی کیسے ہو سکتا ہے؟ ٹریکر ایک کتا ہے اور بیکر۔۔۔ اس کے متعلق تو کوئی شبہ ہی نہیں ہوسکتا۔
ہر شکاری کے پاس تمہار ایسے بیسیوں بیکر موجود ہیں۔ اس کی قیمت پچیس روبل ٹھیک ہے۔
نٹالیا: آج تو تم پر غلط فہمی کا بھوت سوارہے ایفان۔ پہلے تم مرغزاروں کو اپنی ملکیت بناتے ہو اور پھر یہ کہتے ہوئے تمہارا ٹریکر ہمارے بیکر سے اچھا ہے۔ میں کسی شخص کی بے سوچی سمجھتی گفتگو کو پسند نہیں کرتی۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہمارا بیکر تمہارے ایک سو۔۔۔فضول ٹریکروں سے بدر جہا بہتر ہے تو پھر اس کے خلاف کہنے کا مطلب؟
لوموف: نٹالیا! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تم مجھے بیوقوف یا اندھا سمجھ رہی ہو۔ مان لو کہ تمہارا بیکر چپٹے جبڑے والا ہے۔
نٹالیا: یہ درست نہیں!
لوموف: یہ درست ہے۔
نٹالیا:(چلا کر) یہ غلط ہے!
لوموف: مگر آپ چلا کیوں رہی ہیں مادام؟
نٹالیا: تم فضول باتیں کیوں کررہے ہو؟ یہ بہت تکلیف دہ ہے! تمہارا ٹریکر تو اس وقت تک گولی کا نشانہ بن جانا چاہیے تھا۔۔۔۔۔۔ اور تم اسے بیکر کے مقابلے میں پیش کررہے ہو؟
لوموف: معاف کیجیے اب میں اس بحث کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ میرا دل دھڑک رہا ہے۔
نٹالیا: میں نے دیکھا ہے کہ مرد عموماً شکار کے متعلق گفتگو کرتے ہیں حالانکہ اس کوکچھ علم ہی نہیں ہوتا۔
لوموف: مادام! ازراہ عنایت خاموش رہیے گا۔ میرا دل پھٹا جارہا ہے(چلا کر) خاموش رہو!
نٹالیا: میں اس وقت تک خاموش نہیں رہوں گی جب تک تم یہ مان نہ لو کہ بیکر تمہارے ٹریکر سے ہزار درجے بہترہے۔
لوموف: ہزار درجے فضول! تمہارے بیکر پر طاعون! ہائے میری کنپٹیاں۔۔۔۔۔۔ میری آنکھیں۔۔۔۔۔۔ شانہ۔۔۔۔۔۔
نٹالیا: تمہارے ناکارہ ٹریکر کے لیے طاعون کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ وہ پہلے ہی مردہ کے برابر ہے۔
لوموف:(روتے ہوئے) خاموش! میرا دل پھٹ رہا ہے!
نٹالیا: میں چپ نہیں ہوں گی۔
(چبوکوف داخل ہوتا ہے)
چبوکوف:(اندر داخل ہوتے ہوئے)اب کیا معاملہ ہے؟
نٹالیا:ابا سچ سچ کہو کون سا کتا اچھا ہے۔ ہمارا بیکریا اس کا ٹریکر؟
لوموف:سٹیپن میں آپ سے صرف ایک بات دریافت کرنے کی اجازت چاہتا ہوں کیا آپ کے بیکر کا جبڑا چپٹا نہیں ہے؟ بس! ہاں یا نہیں؟
چبوکوف: اگر ہو تو کیا؟ یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ بہر حال صوبے بھر میں ہمارے بیکر سے بڑھ کر اور کوئی کتا نہیں ہے اور علی ہذاالقیاس۔
لوموف: لیکن میرا ٹریکر سب سے اچھا ہے۔ کیوں نہیں؟ ایمانداری سے کہیے!
چبوکوف:جوش میں مت آؤ میری جان، تمہارے ٹریکر میں واقعی چند صفات موجود ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اچھی نسل کا ہے، ٹانگیں خوب ہیں۔ اچھا پلا ہوا ہے اور علی ہذاالقیاس۔ مگر عزیز من اس میں دو بہت بڑے نقص ہیں۔ وہ بوڑھا ہے اور اس کی ناک بہت بدنما ہے۔
لوموف:معاف کیجیے میں ضعف قلب کے دورے میں مبتلا ہوں۔۔۔۔۔۔ ہمیں حقائق دیکھنے چاہئیں۔۔۔۔۔۔ اگر آپ یاد فرمائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ماروسکن کے ہاں میرے ٹریکر نے کاؤنٹ کے سونگر کا پورا مقابلہ کیا تھا جب کہ آپ کا بیکر وہاں سے نصف میل کے فاصلے پر کھڑا تھا۔
چبوکوف: اس لیے کہ کاؤنٹ کے شکاری نے اسے چابک سے پیچھے ہٹا دیا تھا۔
لوموف: اور وہ اس کا حقدار بھی تھا۔ باقی تمام کتے تو لومڑی کا پیچھا کررہے تھے اور بیکر نے ایک بھیڑ کو دبوچ لیا۔
چبوکوف:یہ غلط ہے!۔۔۔۔۔۔ پیارے میں گرم مزاج ہوں، اس لیے گفتگو کو یہیں بند کردو۔۔۔۔۔۔ اس نے اسے چابک سے مارا تھا اس لیے کہ ہر شخص ایک دوسرے کے کتے سے حسد کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ سب حاسد ہیں اور جناب آپ بھی اس الزام سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر جونہی تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا کتا تمہارے ٹریکر سے بہتر ہے تو تم یہ اور وہ سنانا شروع کردیتے ہو اور علی ہذاالقیاس مجھے معلوم ہے!
لوموف: یہ مجھے بھی معلوم ہے۔
چبوکوف:(چڑاتے ہوئے)’’یہ مجھے بھی معلوم ہے‘‘ اور تمہیں کیا معلوم ہے؟
لوموف:صعفِ قلب!۔۔۔۔۔۔ میری ٹانگ بے حس ہورہی ہے۔ میں۔۔۔۔۔۔
نٹالیا:(اس کی نقل اتارتے ہوئے)’’ضعفِ قلب!‘‘ اچھے شکاری ہو! تمہیں تو لومڑی کا شکار کرنے کے بجائے باورچی خانے میں چولھے کے پاس بیٹھا رہنا چاہیے۔ ضعفِ قلب!
چبوکوف: ہاں تم اچھے شکاری ہو۔ واقعی بہت اچھے! زین پر سوار ہونے کے بجائے تمہیں ضعفِ قلب کے ساتھ اپنے گھر ہی ٹھہرنا چاہیے۔ تمہارے لیے شکار کھیلنا یا نہ کھیلنا ایک ہی بات ہے۔ تم تو دوسروں کے کتوں پر جھگڑا مول لیتے ہو۔ میں گرم مزاج ہوں۔ ہمیں گفتگو یہیں بند کردینی چاہیے۔ تم بالکل شکاری نہیں ہو! اور علی ہذاالقیاس۔
لوموف:اور تم۔۔۔۔۔۔ تم شکاری ہو؟ تم تو شکار کھیلنے صرف اس لیے جاتے ہو کہ کوئی فتنہ کھڑا کیا جائے اور کاؤنٹ کے ساتھ یاری گانٹھو۔۔۔۔۔۔ ہائے میرا دل!۔۔۔۔۔۔ تم فتنہ پرداز ہو!
چبوکوف:کیا؟ میں فتنہ پرداز؟(چلا کر) زبان کو لگام دو!
لوموف:فتنہ پرداز!
چبوکوف:بزدل! کمینہ!
لوموف: بوڑھا چوہا! افترا پرداز!
چبوکوف: زبان سنبھال کر بات کرو ورنہ بٹیر کی طرح گولی سے اڑا دوں گا۔جاہل کہیں کا!
لوموف: ہر شخص جانتا ہے۔۔۔۔۔۔ آہ، میرا دل!۔۔۔ کہ تمہاری بیوی تمہیں پیٹا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔ہائے میری ٹانگ۔۔۔۔۔۔ میری پیشانی۔۔۔ آنکھیں۔۔۔ میں گر پڑوں گا! گر پڑوں گا!
چبوکوف: اور تم اپنے گھر کی منتظمہ سے لرزاں ہو!
لوموف: آہ، آہ، آہ! میرا دل پھٹ گیا۔ شاہ بے حس ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے شانے کو کیا ہوگیا ہے؟ میں مررہا ہوں(ایک کرسی پر گر پڑتا ہے) ڈاکٹر!
چبوکوف: کمینہ بزدل! جاہل! میں بے ہوش ہورہا ہوں!(پانی پیتا ہے) بے ہوش!
نٹالیا: تم بھی اچھے شکاری ہو! تمہیں گھوڑے پر سوار ہونا نہیں آتا(اپنے باپ سے) ابا اسے کیا ہوگیا ہے؟ ابا! ذرا ادھر دیکھو ابا(چیخ مارتی ہے) ایفان! وہ مر گیا ہے!
چبوکوف: میں غش کھایا چاہتا ہوں!سانس نہیں آتا! ذرا ہوا چھوڑو!
نٹالیا: وہ مرگیا ہے(لوموف کو آستین سے پکڑ کر ہلاتی ہے) ایفان! ایفان! ہائے ہم نے کیا کردیا! وہ مر گیا ہے! کرسی پر گرپڑتی ہے،ڈاکٹر! ڈاکٹر(غش کھاتی ہے)
چبوکوف:اف! یہ کیا؟ کیا چاہتی ہو تم؟
نٹالیا:(رونی آواز میں) وہ مر گیا ہے! مرگیا ہے!
چبوکوف: کون مر گیا ہے؟( لوموف کی طرف دیکھ کر) واقعی مر گیا ہے! میرے مرشد! پانی، ڈاکٹر!( پانی کا گلاس لوموف کے لبوں کے ساتھ لگا کر)پیو۔۔۔۔۔۔ نہیں، وہ نہیں پیتا۔ تو پھر وہ واقعی مر گیا ہے اور علی ہذاالقیاس۔ یہ دیکھنا میرے نصیب میں لکھا تھا! میں اپنے دماغ کو گولی سے کیوں نہیں اڑا دیتا؟ اپنا گلا کیوں نہ کاٹ لیتا؟ آخر میں انتظار کس چیز کا کررہا ہوں؟ مجھے چاقو دو! پستول دو!(لوموف حرکت کرتا ہے)سنبھل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ تھوڑا سا پانی پی لو۔ بس ٹھیک ہے۔
لوموف:شعلے۔۔۔۔۔۔ چکر۔۔۔۔۔۔ میں کہاں ہوں؟
چبوکوف: تم جلدی سے شادی کرلو۔۔۔۔۔۔ اور جہنم میں جاؤ! وہ رضا مند ہے( لوموف اور اپنی بیٹی کا ہاتھ ملا دیتا ہے) وہ تمہیں منظور کرتی ہے اور علی ہذاالقیاس۔ میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ صرف مجھے امن سے زندگی گزارنے دو۔
لوموف:ہیں؟ کیا؟(اُٹھ کر ) کون؟
چبوکوف:وہ تمہیں منظور کرتی ہے۔ خیر! اب ایک دوسرے کا بوسہ لو اور۔۔۔۔۔۔ جہنم میں جاؤ! اور علی ہذاالقیاس۔
نٹالیا:(رونی آواز میں) وہ زندہ ہے! ہاں ہاں مجھے منظور ہے۔
چبوکوف: بوسہ لو!
لوموف: کس کا؟(نٹالیا کا بوسہ لیتا ہے) میں بہت خوش ہوں! معاف کرنا بات کیا ہے؟ ہاں، میں سمجھا! ضعفِ قلب۔۔۔۔۔۔چکر۔۔۔۔۔۔نٹالیا میں خوش ہوں(اس کا ہاتھ چومتا ہے) میری ٹانگ سو رہی ہے!
نٹالیا: میں۔۔۔۔۔۔میں بھی خوش ہوں۔
چبوکوف: میرے دل سے یہ بات اتری! اُف!
نٹالیا:مگر۔۔۔۔۔۔ تمہیں پھر بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمہارا ٹریکر ہمارے بیکر سے اچھا نہیں ہے۔
لوموف:وہ اچھا ہے!
نٹالیا ہے:بُرا ہے!
چبوکوف: یہ ہے گھر کی مسرت کا آغاز!شمپین
لوموف:وہ بہتر ہے!
نٹالیا:وہ نہیں ہے! نہیں ہے! نہیں ہے!
چبوکوف:(ان دونوں کے شور کو دبانے کی خاطر) شمپین، شمپین!
(پردہ)
ڈرامہ:چیخوف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.