Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تین سوال

لیو ٹالسٹائی

تین سوال

لیو ٹالسٹائی

MORE BYلیو ٹالسٹائی

    ایک دفعہ کسی بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ اگر اسے تین چیزیں معلوم ہو جائیں تو اسے کبھی بھی شکست کا منہ دیکھنا نہ پڑے۔ اور جس کام میں ایک دفعہ ہاتھ ڈال دے۔ حسب خواہش انجام پذیر ہو جائے۔ جن تین چیزوں نے اس پر رات کی نیند حرام کردی وہ یہ تھیں-:

    ۱۔کسی کام کو شروع کرنے کا کون سا موزوں وقت ہے

    ۲۔ کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہئے اور کن اشخاص سے پرہیز۔

    ۳۔دنیا میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری چیز کیاہے۔

    رفتہ رفتہ اس خیال نے بادشاہ کے دل میں جگہ کرلی۔ اور وہ ہر وقت اسی جستجو میں رہنے لگا کہ کسی نہ کسی طرح اسے ان تین سوالوں کا تسلی بخش جواب حاصل ہو جائے۔

    اس غرض کے لیے اس نے ملک بھر میں منادی کرادی۔ کہ جو کوئی اس کے سوالوں کا صحیح جواب دے گا۔۔۔۔۔۔ اس کا منہ موتیوں سے بھر دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ اور منہ مانگا انعام پائے گا۔

    ملک کے ہر گوشہ سے بڑے بڑے عالم و فاضل بادشاہ کے حضور میں آئے مگر ان تین سوالوں کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

    پہلے سوال کے جواب میں بعض مفّکروں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ کسی کام کے شروع کرنے کا صحیح وقت صرف اسی صورت میں معلوم ہوسکتا ہے جب تک انسان اپنے روزمرہ معمول کے اوقات کو تقسیم کرکے اس کا ایک نقشہ مرتب نہ کرے۔ بعض عالموں نے اسی سوال کے جواب میں یہ رائے ظاہر کی کہ کسی کام کے لئے موزوں وقت معلوم کرنا اکیلے انسان کے لیے اگر مشکل نہیں تو ناممکن ضرورہے۔ اس لئے بادشاہ سلامت کو چاہئے کہ وہ اس غرض کے لیے عالموں کی ایک مجلس مقرر کرے اور ان کی متفقہ رائے پر عمل کرے۔

    لیکن بعض فاضلوں نے اس رائے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بعض وقت کئی ایسے کام درپیش ہوتے ہیں جن کے لیے اتنا وقت نہیں ہوتا کہ عالموں کی مجلس سے رائے طلب کی جاسکے اس لئے کسی کام کے لیے موزوں وقت معلوم کرنے کے لیے بادشاہ سلامت کو نجومیوں اور جادوگروں سے مشورہ کرنا چاہئے کیونکہ وہی غیب کے علم کو جانتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے سوالوں کے بھی مختلف جواب ملے۔ بعض نے کہا کہ بادشاہ کو صرف ذررا سے صحبت رکھنی چاہئے۔ تو بعض نے کہا نہیں ولیوں اور خدا رسیدہ لوگوں کی صحبت ہی ایک بادشاہ کے لیے ضروری ہے۔

    تیسرے سوال کے جواب میں کہ دنیا میں سب سے اہم اور ضروری چیز کیا ہے۔ بعض عالموں نے یہ جواب دیا کہ ستائش ہی دنیا میں سب سے زیادہ ضروری ہے۔

    بعض نے یہ کہا کہ آلاتِ جنگ۔ تو بعض نے کہا کہ نہیں خدا کی عبادت ہی سب چیزوں پر مقدم ہے۔ اس لئے بادشاہ کو خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔

    ان تینوں سوالوں کے جواب بالکل مختلف تھے۔ اس لئے بادشاہ نے اعلان کردہ انعام ان میں سے کسی کو بھی نہ دیا۔

    جس علماء فضلاسے خاطر خواہ جوابات نہ مل سکے۔ تو ایک دن بادشاہ نے ایک فقیر کے پاس جو اپنی ریاضت اور بزرگی کے سبب ملک بھر میں مشہور تھا۔ جانے کی ٹھان لی۔ وہ خدا رسیدہ بزرگ آبادی سے دور ایک جنگل میں فروکش تھا۔ جہاں وہ دن رات خداکی عبادت میں گزارتا۔

    چنانچہ ایک دن بادشاہ معمولی دہقان کا بھیس بدل کر اس فقیر کی جھونپڑی کی طرف روانہ ہوگیا۔

    جھونپڑی کے قریب پہنچ کر بادشاہ نے دیکھا کہ فقیر زمین کھودنے میں مصروف ہے۔ بادشاہ کو دیکھ کر فقیر نے سلام کیا۔ لیکن کچھ کہے سنے بغیر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔

    فقیر اس قدر لاغر اور کمزور تھا کہ کدال کی ایک ضرب کے بعد ہی سانس درست کرنے کے لیے تھوڑی دیر ٹھہر جاتا۔

    بادشاہ اس مردِ لاغر کے قریب گیا۔ اور کہا’’ اے عقلمند درویش۔۔۔۔۔۔ میں تیری خدمت میں تین سوال لے کر حاضر ہوا ہوں۔ کیا تو ان تینوں سوالوں کا جواب دے سکتا ہے‘‘۔

    ۱۔ کسی کام کے شروع کرنے کاموزوں وقت کیا ہے ؟

    ۲۔ مجھے کن اشخاص سے صحبت رکھنی چاہئے اور کن سے پرہیز کرنا چاہئے؟

    ۳۔دنیا میں سب سے زیادہ اہم ضروری کام کیا ہیں؟

    فقیر بادشاہ کی گفتگو کو خاموشی سے سنتا رہا۔مگر کوئی جواب نہ دیا۔ اور کدال پکڑ کر پھر زمین کو کھودنا شروع کردیا۔

    ’’تم کدال چلاتے چلاتے تھک گئے ہو۔۔۔۔۔۔ کدال مجھے پکڑا دو۔ اور تھوڑی۔۔۔۔۔۔ دیر کے لیے آرام کرلو‘‘۔ بادشاہ نے فقیر سے کہا۔

    ’’شکریہ‘‘۔ یہ کہہ کرفقیر نے کدال بادشاہ کو پکڑا دی۔ اور آپ زمین پر ہانپتا ہوا بیٹھ گیا۔ دو کیاریاں کھودنے کے بعد بادشاہ نے اپنے سوالات پھر دہرائے لیکن فقیر پھر خاموش رہا۔ اور بادشاہ کے سوالات کا جواب نہ دیا۔ زمین سے اٹھا اور کہنے لگا۔’’ اب آپ آرام فرمائیں۔ میں اس کام کو ختم کرلیتا ہوں۔‘‘

    مگر بادشاہ نے فقیر کوکدال نہ دی اور زمین کھودنی شروع کردی۔۔۔۔۔۔ بادشاہ اسی طرح زمین کھودتا رہا۔ حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا۔ آخر کار تنگ آکر کدال کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہنے لگا۔’’عقلمند درویش میں تری خدمت میں اس لئے حاضر ہوا تھا کہ تو میرے سوالات کا جواب دیگا۔۔۔۔۔۔ اگر تو ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا تو صاف کہہ دے۔ تاکہ میں واپس چلا جاؤں۔‘‘

    ’’ وہ دیکھو کون بھاگا چلا آرہا ہے۔۔۔۔۔۔آؤ دیکھیں تو یہ کون ہے؟‘‘ درویش نے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

    بادشاہ نے مڑ کر دیکھا کہ ایک آدمی جنگل کے گھنے درختوں کے باہر ان کی طرف بھاگا چلا آرہا ہے۔ وہ آدمی اپنے پیٹ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے ہوئے تھا۔ جن سے خون فوارے کی مانند بہ رہا تھا۔

    بادشاہ کے قریب پہنچ کر وہ شخص بے ہوش کر زمین پر گر پڑا۔

    درویش اور بادشاہ دونوں نے مل کر اس کے کپڑے اتار دیئے تو معلوم ہوا کہ اس کے پیٹ میں ایک بڑا زخم ہے جس سے خون کافی مقدار میں بہہ چکا ہے۔ بادشاہ نے بڑی احتیاط سے اس زخم کو دھو کر اپنے رومال کی پٹی بنا کر اس پر باندھ دی۔ لیکن پھر بھی زخم سے خون نکلنا بند نہ ہوا۔

    بادشاہ خون سے تر پٹی اتارتا اور اسے اچھی طرح دھو کر پھر اس کے زخم پر باندھ دیتا۔ اس عمل کو بار بار دہرانے سے خون نکلنا بند ہوگیا۔

    خون کے بند ہو جانے پر اس شخص کو ہوش آئی اور اس نے اشارے سے کچھ پینے کیلئے مانگا۔

    اس پر بادشاہ دوڑا ہوگیا۔ اور کنویں سے تازہ پانی لا کر اسے دیدیا۔

    اب سورج غروب ہو چکا تھا۔ چنانچہ بادشاہ اور درویش دونوں اس شخص کو اٹھا کر جھونپڑی میں لے آئے اور اسے بستر پر لٹا دیا۔ بستر پر لیٹتے ہی وہ شخص سو گیا۔ بادشاہ دن بھر کی تھکاوٹ سے چور ہو کر دہلیز پر سستانے کیلئے بیٹھا کہ وہیں سو گیا۔

    جب صبح خواب سے بیدار ہوا تو زخمی کو اپنی طرف غور سے گھورتے ہوئے دیکھا۔

    ’’مجھے معاف کردیجئے‘‘ زخمی نے بادشاہ سے کہا۔ جو اب پوری طرح بیدار ہو کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔’’ میں تمہیں نہیں جانتا‘‘

    ’’ پھر یہ معافی کی درخواست کیسی؟‘‘ بادشاہ نے زخمی سے دریافت کیا۔’’ آپ مجھے نہیں پہچانتے۔ مگر میں آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں آپ کا دشمن ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ دشمن جس کے بھائی کو قتل کروا کر آپ نے اس کی جائیداد پر قبضہ کرلیا تھا۔۔۔۔۔۔وہ دشمن جس نے اپنے بھائی کا انتقام لینے کی قسم لے رکھی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ درویش کو ملنے کے لیے باہر آٰئیں گے۔ اس لئے میں نے ارادہ کرلیا تھا۔ کہ آپ کو واپسی پر قتل کردوں چنانچہ آپ کی تلاش میں اپنی جائے پناہ سے نکلا۔ مگر آپ کے محافظوں کے ساتھ دوچار ہونا پڑا۔ انہوں نے مجھے پہچان لیا اور مجروح کردیا۔ کسی نہ کسی طرح میں ان کی گرفت سے بچ نکلا۔ ان کے ہاتھوں سے تو بچ گیا۔ مگر میری حالت بہت نازک تھی۔ زخم سے فواروں خون نکل رہا تھا۔ اگر آپ میرے حال پر رحم کرکے مرہم پٹی نہ کرتے تو موت یقینی تھی۔ میں آپ کی موت کا خواہاں تھا۔ مگر آپ نے میری جان بچائی۔ اب اگر میں زندہ رہا تو تمام عمر ایک وفادار غلام کی طرح آپ کی خدمت بجالاؤں گا۔ اور اپنے بیٹوں کو تلقین کرونگا۔ کیا آپ مجھے معاف نہ فرمائیں گے۔

    اس آسانی سے ایک جانی دشمن کو دوستی کا ہاتھ بڑھاتے دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔ اس لئے اس نے نہ صرف اسے معاف کردیا بلکہ وعدہ کیا کہ وہ اس کے علاج کیلئے شاہی حکیم اور شاہی نوکر مقرر کردے گا اور اس کی کھوئی ہوئی جائیداد بھی واپس کردے گا۔

    زخمی سے رخصت لے کربادشاہ جھونپڑی سے باہر آیا اور درویش کی تلاش شروع کی۔ جھونپڑی کو خیرباد کہنے سے پیشتر وہ آخری بار درویش کی خدمت میں ان سوالوں کے جواب کے لیے درخواست کرنا چاہتا تھا۔

    درویش کیاریوں کے پاس ہی گھٹنوں کے بل بیج بورہا تھا۔ بادشاہ اس کے پاس گیا اور کہنے لگا۔’’عقلمند درویش! میں تیری خدمت میں پھر حاضر ہوا ہوں کہ تو میرے سوالوں کا جواب دے‘‘۔

    ’’تمہارے سوالوں کا جواب تو مل گیا۔۔۔۔۔۔۔ اب کیا چاہتے ہو؟‘‘ درویش نے بادشاہ کی طرف نگاہیں اٹھاتے ہوئے کہا۔

    ’’وہ کس طرح؟۔۔۔۔۔۔ آپ کا اس سے کیا مطلب ہے؟‘‘

    ’’سنو!۔۔۔۔۔۔ اگر کل تم میری کمزوری کا خیال کرتے ہوئے کیاریاں کھودنے کے لیے نہ ٹھہرتے اور اس کی بجائے واپس چلے جاتے تو تمہارا دشمن تم پر ضرور حملہ آور ہوتا۔ چنانچہ وہ وقت ہی تمہارے لئے موزوں تھا۔ جب تم زمین کھودنے میں مصروف تھے۔ میری ذات ہی اس وقت سب سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی اور تمہاری ہمدردی کا اظہار ہی سب سے زیادہ ضروری اور اہم کام تھا۔

    اس کے بعد جب زخمی شخص ہماری طرف آرہا تھا تو تمہارے لئے کسی اچھے کام کرنے کیلئے وہی وقت موزوں تھا۔ جب تم اس کے زخموں کی مرہم پٹی کررہے تھے کیونکہ اگر تم اس کی اچھی طرح نگہداشت نہ کرتے تو تمہارا ایک جانی دشمن تمہارے ساتھ صلح کئے بغیر اس جہان سے رخصت ہو جاتا۔ پس وہ شخص ہی اس وقت سب سے زیادہ ضروری اور اہم کام تھا۔ اس لئے یاد رکھو کہ کسی خاص کام کے لیے صرف ایک ہی وقت موزوں ہوا کرتا ہے جب کہ ہم میں اتنی قوت ہے کہ ہم اسے سرانجام دے سکیں۔ سب سے زیادہ ضروری شخص وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ تم اس وقت موجود ہو کیونکہ اس بات کا معلوم کرنا کہ اس شخص کے سوا تمہیں کسی اور شخص سے بھی واسطہ پڑے گا، انسان کے فہم و قیاس سے بالا ہے۔اور سب سے ضروری اور اہم کام اس شخص کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔

    کیونکہ خدا نے انسان کو صرف اسی غرض کے لیے دنیا میں بھیجا ہے۔

    کہانی:طالستائی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے